اسم اعظم کی حقیقت
تمام مذاہب کی تعلیمات میں رب العالمین اور اشرف المخلوقات میں مضبوط رشتہ پیدا کرنے کے لیے دعا کو خاص اہمیت دی گئی ہے جس سے انسان اپنے خالقِ حقیقی کے قریب ترین ہوتا چلا جاتاہے۔اس لیے قرآن کریم میں مختلف انبیاءکی دعاؤں کا خاص طور پر ذکرکیا گیا ہے۔ ان دعا ؤں کا قرآن کریم میں خاص طور پر ذکر اور مختلف حالات میں ان دعاؤں سے مستفید ہونے کے لیے تلقین ہماری راہنمائی کرتے ہیں کہ ان میں بے شمار برکات اور تاثیرات پائی جاتی ہیں۔ دعا سے انسان اپنی بے حد کمزوری، بے چارگی،اور عبودیت کے مقام کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بھی ہمیں بعض حالات میں خاص دعائیں سکھائیں اور بعض کلمات کوقبو لیت دعا کے لیے خاص قرار دیا ہے۔بعض کلمات کے بارے میں فرمایا کہ یہ اسم اعظم ہیں جن کے ذریعہ انسان اپنے رب کی رحمت کو جذب کرسکتا ہے۔
اسم اعظم تاریخ کے آئینہ میں
حضرت مصلح موعودؓ اس کی تاریخ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’اسم اعظم کوئی خاص شئے نہیں بلکہ اسم اعظم کے متعلق اس قسم کا خیال مسلمانوں میں یہود سے آیا ہے جو یہودا کے نام کا تلفظ اس قدر مشکل سمجھا کرتے تھے کہ سوائے عالموں کے دوسروں کے لئے اس نام کا لینا یا اس کا سکھانا جائز نہیں جانتے تھے(دیکھو جوئش انسائیکلوپیڈیا و انسائیکلوپیڈیا ببلیکا زیر لفط نیمزNAMES)اور ان کا یہ خیال تھا کہ اس نام کو صحیح طور سے جو شخص بول سکے اس کی ہر ایک غرض پوری ہوجاتی ہے۔مسلمانوں میں جب دیگر اقوام سے میل جول کے نتیجہ میں ان کے خیال اور وساوس داخل ہوگئے تو یہ خیال بھی یہود سے داخل ہوگیا اور صرف اسلامی الفاظ کے پردہ میں یہ یہودی عقیدہ عام مسلمانوں میں راسخ ہوگیا۔ (حق الیقین،انوارالعلوم جلد ۹ صفحہ نمبر۳۲۲،۳۲۱ )
حضرت مصلح موعود ؓنے تفسیر کبیر میں بھی اس کا تفصیلی ذکر فرمایاہے: ’’ْجب وہ(یہود) کلام الٰہی سے محروم ہوگئے۔ اورنبوت کاسلسلہ ان میں بند ہوگیاتووہ جھوٹے تصوف کی طرف راغب ہوگئےاورخاص خاص مشقوں کے ذریعہ سے بزعم خود اپنی روحانی طاقتوں کے بڑھانے میں مشغول ہوگئے۔کوئی توذکر اذکار کے ذریعہ سے اپنی قوتوں کو بڑھاتا اور کوئی اسم اعظم کوقابو میں لاکر اپنی روحانیت کو ترقی دیتاتھا۔اوریہ سب لوگ خیال کرتے تھے کہ جو کمی وحی الٰہی کے نہ آنے سے پیداہوگئی تھی وہ ا س طرح سے انہوں نے دور کرلی ہے۔یہ مرض حضرت داؤدؑ کے زمانہ سے پیداہوئی اورحضرت مسیحؑ کے نزول کے وقت تک بہت ترقی کرگئی۔ان کاخیال تھا کہ ارواح کوقابو میں لاکر یااپنی روح کوجلادے کرانسان بہت بڑے بڑے معجزات دکھا سکتاہےاورعلومِ غیبیہ کوپاسکتا ہے۔اوروہ اس علم کو دوحصوں میں تقسیم کرتے تھے۔ ایک جائز علم جسے وہ اسم اعظم سے وابستہ کرتے تھے۔اورایک ناجائز جسے وہ بعل سے تعلق کا نتیجہ بتاتے تھے۔ چنانچہ جب حضرت مسیح علیہ السلام نے دعوٰی کیا اورمعجزات دکھائے توانہوں نے ان کے معجزات کی یہی تشریح کی کہ اس کابعل کے ساتھ تعلق ہے۔چنانچہ اس کاذکر انجیل میں ان الفاظ میں آتاہے:’’فقیہہ جو یروشلم سے آئے تھے یہ کہتے تھے کہ اس کے ساتھ بعلز بول ہے۔اوریہ بھی کہ وہ بدروحوں کے سردارکی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہے۔وہ انہیں پاس بلاکر تمثیلوں میں ان سے کہنے لگا۔شیطان کو شیطان کس طرح نکال سکتاہے۔‘‘(مرقس باب ۳آیت ۲۲تا۲۳)…
بعل زبویا بعل زبول یابعل زبوب درحقیقت ایک ہمسایہ قوم کادیوتا تھا۔چونکہ اس کی نسبت لوگوں میں معجزات مشہور تھے۔یہود میں جب جادوکاخیال پیداہواتووہ اس کے متعلق یہ خیا ل کرنے لگے کہ یہ بعل سفلی دنیا کاسردار ہےاوراس سے تعلق پیداکرکے کفار لوگ معجزات دکھاتے ہیں۔(انجیل کے مذکورہ بالا حوالہ جات نیز انسائیکلو پیڈیا ببلیکا نیز جوئش انسائیکلوپیڈیا زیر لفظ بیل زبو ل)اس کے برخلاف جو روحانی طاقتیں بزعم خود و ہ حاصل کرتے تھے انہیں اسم اعظم کا نتیجہ بتاتے تھے۔اوراس جادوکو جائز جادو سمجھتے تھے۔ جوئش انسائیکلوپیڈیا میں لکھاہے۔کہ مسیح سے کم سے کم تین سوسال پہلے سے اسم اعظم کارواج یہود میں پایا جاتاہے (میں بتاچکا ہوں کہ میری تحقیق میں حضرت داؤد کے زمانہ سے ان میں یہ خیال پیداہوچکاتھا۔حضرت سلیمان کے زمانہ میں اورترقی کرگیا۔)و ہ اسم اعظم کی نسبت یہ مشہورکرتے تھےکہ وہ نہ بولاجاسکنے والانام ہے (جوئش انسائیکلو پیڈیا زیر لفظ NAMES)یہود میں جوجادوگر تھےوہ اس کانام خاص طور پر اشاروں میں لکھتے تھے۔یہ لوگ خصوصاً مصر میں پائے جاتے تھے۔(حوالہ متذکرہ بالا)یہود کاخیال تھا کہ سیاہ جادواورسفید جادودونوں حق ہیں۔سیاہ جادو شیطانوں سے تعلق کی وجہ سے حاصل ہوتاہے اورسفید جادواسماء الٰہی سے تعلق کی وجہ سے۔سیاہ جادومنع ہےاورسفید جادو جائز ہے۔لکھا ہے کہ علماء یہود سیاہ جادو کے مخالف تھےمگر سیا ہ جادوکامقابلہ کرنے کے لئے سفید جادو کے استعمال میں ہرج نہ دیکھتے تھے۔علماء یہود میں (بقول ان کے)اس جادو کے ذریعہ سے اس قدر طاقت پیداہوجاتی تھی۔کہ وہ ایک نظر ڈال کر دشمن کو بھسم کردیتے تھے۔یااسے ہڈیوں کاایک ڈھانچہ بنادیتے تھے۔بیماروں کواچھا کرتے تھے۔ان امور کاان میں ا سقدر رواج تھا کہ یونانی اوررومی لوگ یہود کوجادوگرکہاکرتے تھے۔(جوئش انسائیکلوپیڈیا زیرلفظ میجک یعنی جادو جلد ۸) ‘‘(تفسیر کبیر جلد ۴ صفحہ ۳۸۳،۳۸۲)
حضرت مصلح موعودؓکے نزدیک اسم اعظم کی اصل حقیقت یہ ہے:’’اسم اعظم درحقیقت اللہ کا لفظ ہے جو اسم ذات ہے اور تمام اسماء اس کے ماتحت ہیں اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ہاں مختلف اشخاص کو ان کے مخصوص حالات کے مطابق بعض خاص اسماءسے تعلق ہوتا ہے۔ اس وقت ان ناموں کو یاد کرکے دعا کرنا ان کے لئے بہت مفید ہوتا ہے۔جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلِلّٰهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِھَا (الاعراف:۱۸۱)اس وقت موقع کے لحاظ سے ان اشخاص کے لئے وہی اسماء جن کی بلانے سے ان کی حاجت روائی ہوتی ہے ان کے لئے اسم اعظم بن جاتے ہیں۔‘‘(حق الیقین ،انوارالعلوم جلد۹ صفحہ نمبر ۳۲۲)
مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں۔
’’قرآن مجید میں اورحدیث میں مختلف دعائیں اوران کے مواقع کاذکر ہے اس لئے فرماتاہے کہ لہ الاسمآءُالحسنٰی ہرکام کے لئے اس کے مناسب حال اللہ تعالیٰ کا ایک نام ہوتاہے۔اس کے مطابق دعاکیاکرو۔جب تمہیں رحمانیت کی صفت کو جو ش دلانے کی ضرورت ہو توصفت الرحمٰن کو پیش کرکے دعاکرو۔جب تمہیں رحیمیت۔رزاقیت اوروہابیت کے متعلق کو ئی مشکل درپیش ہو تواللہ تعالیٰ کو ا س وقت اسی نام سے پکارو۔کیونکہ سارے اچھے نام اسی کے ہیں۔جیساموقعہ ہو ویسی ہی قسم کی صفت کے ساتھ دعاکرنی چاہیئے۔میراتجربہ ہے کہ اس طریق پر دعانہایت مؤثر ہوتی ہے۔بعید نہیں کہ اس آیت میں یہود کے اسم اعظم والے دعویٰ کابھی جواب دیا گیا ہو۔اوربتایا ہوکہ کسی ایک نام کو اسم اعظم کہنا غلطی ہے۔حصول مقاصد کے لئے خداتعالیٰ کے اس نام کو لینا چاہیئے جوموقعہ کے مناسب ہواوراگر وہ نام ذہن میں نہ آئے تواللہ تعالیٰ کے سب نام ہی بڑے ہیں کسی نام کو لے کر دعاکرلو۔اللہ تعالیٰ تمہارے دل کی کیفیت کو دیکھ کر دعاسن لے گا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۴ صفحہ ۴۰۱)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے خاص حالات میں اسم اعظم سے مطلع کیا۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم اللہ ہے۔اسم اللہ دیگر کل اسماءمثلاً حیّ،قیوّم،رحمٰن،رحیم وغیرہ کا موصوف ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد۱صفحہ۴۴۳ایڈیشن۱۹۸۸ء)
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بسم اللّٰہ…کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’اصل مطلب اس آیت کے نزول سے یہ ہے کہ تا عاجز اور بے خبر بندوں کو اس نکتہ معرفت کی تعلیم کی جائے کہ ذات واجب الوجود کا اسم اعظم جو اللہ ہے کہ جو اصطلاح قرآنی ربّانی کے رو سے ذات مستجمع جمیع صفاتِ کاملہ اور منزہ عن جمیع رذائل اور معبود برحق اور واحد لا شریک اور مبدء فیوض پر بولا جاتا ہے۔‘‘(روحانی خزائن جلد اول صفحہ نمبر ۴۱۵ حاشیہ نمبر ۱۱)
حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ مندرجہ بالا تحریر کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’اب اس پہلو سے اگر اسم جامد(اللہ)کو وہ غیر معمولی کوئی جادو کا لفظ سمجھا جائے جس کے نتیجے میں ادھر نام بولا تو مسئلہ حل ہوگیا تو مضمون تو لفظ اللہ میں ہمیں دکھائی نہیں دیتا،اس لفظ اللہ میں دکھائی نہیں دیتا جو اکثر لوگو ں کی زبان پر جاری ہوتا ہے۔جھوٹی قسمیں کھانے والے بھی واللہ،واللہ ہی کہتے ہیں…اور اللہ کے حوالے سے ہر مصیبت زدہ دعا کرتا ہے۔تو پھر اسم اعظم کا یہ معنی کہ کوئی ایسا نام ہو جیسے ’’الٰہ دین کا چراغ‘‘کو یا یوں کہنا چاہئے کہ ’’سم سم‘‘کا لفظ تھا وہ بولا جائے تو وہ خزانے کے دروازے کھل جائیں،یہ بالکل غلط بات ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی لئے یہ نہیں فرمایا کہ اسم اعظم اللہ ہے۔بس اللہ کہہ دیا کرو ہر بات ہوجائے گی بلکہ اسم اعظم کی ایسی تعریف کردی جس کے نتیجے میں بہت سی ذمہ داریاں انسان پر عائد ہوجاتی ہیں اور جب تک ان حقوق کو ادا نہ کرے جو اسم اعظم کے حقوق بندے پر عائد ہوتے ہیں اس وقت تک وہ اسم اعظم منہ کی بات ہے کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ نے جہاں اسم اعظم کا ذکر فرمایا ہے وہاں ایک نام کے طور پر نہیں فرمایا بلکہ اللہ کی صفات بیان کرکے اسم اعظم قرار دیا ہے۔‘‘( خطبات طاہر جلد ۱۴ صفحہ۲۰۳،۲۰۲)
مزید تفصیل بیان فرماتے ہیں کہ’’دوسرے لفظوں میں اللہ اسم اعظم ہے جب تک ان صفات سے یا ان اسماء سے ان کا تعلق قائم ہورہا ہو جو خدا تعالیٰ کے اسماء ہیں یا اس کی صفات ہیں اور جن جن اسماءکا اللہ کی ذات سے تعلق ہے ان اسماء کو پیش نظر رکھتے ہوئے متعلقہ صورتحال میں جو دعا کی جاتی ہے ان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے وہ پوری ہوجاتی ہے۔‘‘ (خطبات طاہر جلد ۱۴ صفحہ ۲۰۳)
مزید بیان فرماتے ہیں کہ ’’جتنے بھی دوسرے اسماء قرآن کریم میں ہیں ان سب کا موصوف اللہ قرار دیاگیا ہے اور کسی اور صفت کو اللہ کا موصوف نہیں بنایامثلاً زید کے حوالے سے آپ کہیں کہ زید میں یہ خوبی ہے،زید میں وہ خوبی ہے،تو وہ زید کی طرف منسوب ہوگی۔ زید اسم ہوگا مگر یہ نہیں آپ کہہ سکتے کہ رحمان زید ہے،شریف زید ہے…اس لئے صفت اپنے موصوف کے گرد گھومتی ہے اور موصوف اپنی صفت کے گرد نہیں گھومتا۔یہ مضمون ہے جو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے اور یہ اسم ذات ہے اللہ اور اسم اعظم ہے مگر اگر صفات سے خالی ہواسم اعظم ہوتو اس میں کچھ بھی حقیقت نہیں رہتی کیونکہ اسم نام ہے صفات کا۔کوئی اسم صفات سے عاری نہیں ہے…اسم اعظم کی تلاش صفات سے عاری ہوکر نہ کرنا۔یہ نہ سمجھ لینا کہ اللہ اپنی ذات میں کوئی ایسا نام ہے کہ اس کی صفات سے خواہ تم روگردانی کر لو اس کا نام لے کر وہ جادو کر دکھاؤ گے جو اس کی صفات پر منحصر ہے…اب ربوبیت ایک صفت ہے۔اللہ رب ہے اس کے حوالے سے میں آپ کو سمجھاتا ہوں کہ ایک شخص اگر اللہ کو اسم اعظم تو سمجھے مگر اس کی صفت ربوبیت سے کچھ بھی حصہ نہ پائے۔حد سے زیادہ خودغرض ہو بنی نوع انسان کی ضرورتیں پوری کر سکتا ہو تب بھی پوری نہ کرے اور اللہ کہہ کر اس سے چیزیں مانگے کہ میرا رزق بڑھا…تو وہ اسم اللہ اس صورت میں وہ اسم اعظم یعنی جادو کا لفظ نہیں بن سکتا جس کے حوالے سے ہر بات مقبول ہوجاتی ہے کیونکہ ہر موقع سے تعلق رکھنے والا اس کا ایک نام ہے جو اللہ میں موجود ہے۔‘‘(خطبات طاہر جلد ۱۴ صفحہ۲۰۵،۲۰۴)
احادیث میں اسم اعظم کا ذکر
احادیث میں بھی مختلف موقعوں پر قبولیت دعا کے لیے مخصوص الفاظ کے استعمال کے بارے میں ذکر ملتا ہے۔ایسے ہی خاص اوقات میں بھی رسول اللہ ﷺ نے دعائیں کرنے کا حکم دیا کہ ان اوقات میں بھی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔احادیث میں جو مختلف دعا ؤں کی قبولیت کے الفاظ کا ذکر ملتا ہے ان میں اللہ تعالیٰ کی واحدانیت اور عظمت کا خاص طور پر ذکر ہےنیز ہر جگہ دیگر بنیادی صفات باری تعالیٰ کا ذکر ملتا ہے۔چنانچہ احادیث میں ہے کہ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيْدَ، قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى اللّٰه عليه وسلم ـ ’’اسْمُ اللّٰهِ الْأَعْظَمُ فِي هَاتَيْنِ الآيَتَيْنِ وَإِلٰهُكُمْ إِلٰهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ وَفَاتِحَةِ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ ۔(ابن ماجہ کتاب الدعا باب اسم اللہ الاعظم)، (ترمذی كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم باب نمبر ۶۵)اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ان دو آیات میں ہے وَإِلٰهُكُمْ إِلٰهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْم تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ بہت رحم کرنے والا اور بڑا مہربان ہے( سورۃ البقرہ: ۱۶۴ )اور سورۃ آل عمران کے شروع میں الٓم۔ اللّٰه لَا إلٰه إلَّا هُو الْحَيُّ الْقَيُّوم اللہ تعالیٰ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، جو حی و قیوم زندہ اور سب کا نگہبان ہے۔(سورۃ آل عمران:۲-۳)
مندرجہ بالا احادیث میں ہمیں ایک بات بڑی مشترک لگتی ہے کہ ہر حدیث میں جن جن آیات کا ذکر ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی واحدانیت اور اس کی رحمانیت کا خاص طور پر ذکر ہے۔یعنی اصل بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک مانتے ہوئے اسی کو ہی اپنی ضروریات کا ملجامانا جائےاور جب انسان تمام مصنوعی بتوں کوتوڑ کر، خواہ وہ پوشیدہ ہوں خواہ ظاہری ہوں، اللہ تعالیٰ کے دروازے پر گر جاتا ہے اور اس کی رحمانیت کو جوش میں لاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دعا ضرور سنتا ہے اور ضرور حاجت روائی کرتا ہے۔
اس جگہ ایک بزرگ کا واقعہ یاد آیا کہ ا یک بزرگ کی بیوی نے ان سے کہا مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔اس پر بزرگ نے کہا کہ ابھی نہیں ہیں جب ہوںگے تو دے دوں گا۔اس طرح کچھ دن گزر گئے اور بیوی نے پھر کہا پیسے چاہئیں گھر کے لیے کچھ چیزیں خریدنی ہیں۔ان بزرگ نے پھر وہی جواب دیا کہ ابھی پیسے نہیں ہیں جب کہیں سے آئیں گے تجھے دے دوں گا۔ کچھ دن پھر گز ر گئے اور بزرگ کی بیوی نے پھر سوال کر دیا۔اس پر بزرگ غصہ میں آگئے اور کہنے لگے کتنی دفعہ کہا ہے کہ جب ہوں گے تو دے دوں گا تم تو پیچھےہی پڑ گئی ہو۔ا س کاجواب سن کر بزرگ کی بیوی کی آنکھوں میں آنسو آگئے پر اس نے صبر کر لیا اور آنسو صاف کر کے کہنے لگی میری چھت تو آپ ہی ہیں میں کس سے مانگو ں آپ سے نہیں کہوں تو کس سے کہوں۔
یہ دیکھ کر بزرگ بھی رو دیے۔بیوی نے جب دیکھا کہ اس کا خاوند بھی رو نے لگا ہے تو اس نے پوچھا کہ آپ کو کس بات نے رلا دیا۔وہ بزرگ کہنے لگے آج تمنے مجھے اپنے رب سے مانگنا سکھا دیا ہےکہ جب انسان سب کچھ ہار کر خالی ہاتھ ہوکر مقصود اللہ تعالیٰ کی ذات کو بناتا ہے تو اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہےاور وہ اپنے بندہ پر بارش کی طرح برکات نازل کرنے لگ جاتا ہے۔انسان کا کام ہے کہ وہ استقامت سے دعا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسم اعظم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’وما ذکر ہاتین الصفتین فی البسملۃ إلَّا لیعرف الناس أنہما للّٰہ کالاسم الأعظم یعنی یہ دونوں صفتیں (رحمن اور رحیم) اللہ تعالیٰ کے لیے اسم اعظم کے طور پر ہیں۔‘‘(اعجاز المسیح ،روحانی خزئن جلد ۱۸صفحہ ۱۰۸)نیز فرمایا : اللہ جو خدائے تعالیٰ کا ایک ذاتی اسم ہے اور جو تمام جمیع صفات کاملہ کا مستجمع ہے…کہتے ہیں کہ اسم اعظم یہ ہے اور اس میں بڑی بڑی برکات ہیں۔(تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ سورہ فاتحہ جلد ۱صفحہ ۷۰)
پھر احادیث میں آتا ہے کہسَمِعَ النَّبِيُّ ـ صلى الله عليه وسلم ـ رَجُلًا يَقُولُ اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّكَ أَنْتَ اللّٰهُ الأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِيْ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهٗ كُفُوًا أَحَدٌ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ـ صلى اللّٰه عليه وسلم ـ لَقَدْ سَأَلَ اللّٰهَ بِاسْمِهِ الْأَعْظَمِ الَّذِيْ إِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى وَإِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَاب(ابن ماجہ کتاب الدعا باب اسم اللہ الاعظم)عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ بِأَنَّکَ أَنْتَ اللّٰهُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِيْ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَکُنْ لَهٗ کُفُوًا أَحَدٌ تو فرمایا اس نے اللہ تعالیٰ سے اسم اعظم کے ذریعہ سوال کیا جس کے ذریعہ سوال کیا جائے تو وہ مالک عطا فرماتا ہے اور اس کے ذریعہ دعا کی جائے تو اللہ قبول فرماتا ہے۔
سَمِعَ النَّبِيُّ ـ صلى اللّٰه عليه وسلم ـ رَجُلًا يَقُوْلُ اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدَ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ الْمَنَّانُ بَدِيْعُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ ذُو الْجَلَالِ وَالإِكْرَامِ فَقَالَ ’’ لَقَدْ سَأَلَ اللّٰهَ بِاسْمِهِ الأَعْظَمِ الَّذِيْ إِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى وَإِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ‘‘(ابن ماجہ کتاب الدعا باب اسم اللہ الاعظم)انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو یہ دعا کرتے سنا اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدَ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ الْمَنَّانُ بَدِيْعُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ ذُو الْجَلَالِ وَالإِكْرَام اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ تیرے ہی لیے حمد ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تُو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں، تُو بہت احسان کرنے والا ہے، آسمانوں اور زمین کو بغیر مثال کے پیدا کرنے والا ہے، جلال اور عظمت والا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے ذریعہ سوال کیا ہے کہ جب بھی اس کے ذریعہ سوال کیا جائے تو وہ عطا کرتا ہے، اور جب اس کے ذریعہ دعا مانگی جائے تو وہ قبول کرتا ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ ـ صلى اللّٰه عليه وسلم ـ يَقُولُ اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ الطَّاهِرِ الطَّيِّبِ الْمُبَارَكِ الأَحَبِّ إِلَيْكَ الَّذِي إِذَا دُعِيْتَ بِهِ أَجَبْتَ وَإِذَا سُئِلْتَ بِهِ أَعْطَيْتَ وَإِذَا اسْتُرْحِمْتَ بِهِ رَحِمْتَ وَإِذَا اسْتُفْرِجْتَ بِهِ فَرَّجْتَ قَالَتْ وَقَالَ ذَاتَ يَوْمٍ يَا عَائِشَةُ هَلْ عَلِمْتِ أَنَّ اللّٰهَ قَدْ دَلَّنِي عَلَى الْاِسْمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَقَالَتْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَعَلِّمْنِيهِ . قَالَ إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لَكِ يَا عَائِشَةُقَالَتْ فَتَنَحَّيْتُ وَجَلَسْتُ سَاعَةً ثُمَّ قُمْتُ فَقَبَّلْتُ رَأْسَهُ ثُمَّ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِّمْنِيهِ۔ قَالَ إِنَّهُ لاَ يَنْبَغِي لَكِ يَا عَائِشَةُ أَنْ أُعَلِّمَكِ إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لَكِ أَنْ تَسْأَلِي بِهِ شَيْئًا مِنَ الدُّنْيَاقَالَتْ فَقُمْتُ فَتَوَضَّأْتُ ثُمَّ صَلَّيْتُ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ قُلْتُ اللّٰهُمَّ إِنِّي أَدْعُوْكَ اللّٰهَ وَأَدْعُوْكَ الرَّحْمٰنَ وَأَدْعُوْكَ الْبَرَّ الرَّحِيْمَ وَأَدْعُوكَ بِأَسْمَائِكَ الْحُسْنَى كُلِّهَا مَا عَلِمْتُ مِنْهَا وَمَا لَمْ أَعْلَمْ أَنْ تَغْفِرَ لِي وَتَرْحَمَنِي قَالَتْ فَاسْتَضْحَكَ رَسُولُ اللّٰهِ ـ صلى اللّٰه عليه وسلم ـ ثُمَّ قَالَ إِنَّهُ لَفِي الأَسْمَاءِ الَّتِي دَعَوْتِ بِهَا ۔(ابن ماجہ کتاب الدعا باب اسم اللہ الاعظم)ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا مانگتے ہوئے سنا ہےاللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ الطَّاهِرِ الطَّيِّبِ الْمُبَارَكِ الأَحَبِّ إِلَيْكَ الَّذِي إِذَا دُعِيْتَ بِهِ أَجَبْتَ وَإِذَا سُئِلْتَ بِهِ أَعْطَيْتَ وَإِذَا اسْتُرْحِمْتَ بِهِ رَحِمْتَ وَإِذَا اسْتُفْرِجْتَ بِهِ فَرَّجْتَ۔ اے اللہ! میں تجھ سے تیرے اس پاکیزہ، مبارک اچھے نام کے واسطے سے دعا کرتا ہوں جو تجھے زیادہ پسند ہے کہ جب اس کے ذریعہ تجھ سے دعا کی جاتی ہے، تو تو قبول فرماتا ہے، اور جب اس کے ذریعہ تجھ سے سوال کیا جاتا ہے تو تو عطا کرتا ہے، اور جب اس کے ذریعہ تجھ سے رحم طلب کی جائے تو تو رحم فرماتا ہے، اور جب مصیبت کو دور کرنے کی دعا کی جاتی ہے تو مصیبت اور تنگی کو دور کرتا ہے۔ اور ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! کیا تم جانتی ہو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا وہ نام بتایا ہے کہ جب بھی اس کے ذریعہ دعا کی جائے تو وہ اسے قبول کرے گا میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھے بھی وہ نام بتا دیجیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعائشہ! یہ تمہارے لیے مناسب نہیں۔ میں یہ سن کر علیحدہ ہو گئی اور کچھ دیر خاموش بیٹھی رہی، پھر میں نے اٹھ کر آپ کے سر مبارک کو چوما، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے بتا دیجیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عائشہ! تمہارے لیے مناسب نہیں کہ میں تمہیں بتاؤں، اور تمہارے لیے اس اسم اعظم کے واسطہ سے دنیا کی کوئی چیز طلب کرنی مناسب نہیں۔ یہ سن کر میں اٹھی، وضو کیا، پھر میں نے دو رکعت نماز پڑھی، اس کے بعد میں نے یہ دعا مانگی اللّٰهم إني أدعوك اللّٰه وأدعوك الرحمٰن وأدعوك البر الرحيم وأدعوك بأسمائك الحسنى كلها ما علمت منها وما لم أعلم أن تغفر لي وترحمني۔ اے اللہ! میں تجھ اللہ سے دعا کرتی ہوں، میں تجھ رحمن سے دعا کرتی ہوں، اور میں تجھ محسن و مہربان سے دعا کرتی ہوں اور میں تجھ سے تیرے تمام اسماء حسنیٰ سے دعا کرتی ہوں، جو مجھے معلوم ہوں یا نہ معلوم ہوں، یہ کہ تُو مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا اسم اعظم انہی اسماء میں ہے جس کے ذریعہ تم نے دعا مانگی ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ اس حدیث کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اس سے مراد آپ کی اسی اسم سے تھی جو آپ کے ذاتی امور کے ساتھ مناسبت رکھتا تھا یہ اسم یا بطور الہام القأ ہی معلوم کرایا جاتا ہے۔حضرت عائشہ ؓ نے اس سے فائدہ اٹھا کر کسی ایسے امر کے متعلق دعا کرنی چاہی ہے جو ان میں اور رسول کریم ﷺ کے درمیان مشترک تھا۔چونکہ رسول ﷺ کو اس وقت معلوم ہوچکا تھا کہ وہ امر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے خلاف ہے آپ نے حضرت عائشہ ؓ کو وہ نام نہیں بتایا کہ کہیں جوش میں اس امر کے متعلق وہ دعانہ کر بیٹھیں۔لیکن حضرت عائشہ نے اپنے عمل سے رسول کریم ﷺ کی کامل اطاعت کا ثبوت دے دیا۔اور ایسی جامع مانع دعا کی جو اسم اعظم پر مشتمل تھی اور خداتعالیٰ سے کوئی دنیاوی چیز نہیں مانگی بلکہ اس کی مغفرت اور رحم ہی مانگا۔چنانچہ اس حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ حضرت عائشہ ؓ کی زبان پر بسبب ان کی کامل اتباع کے اللہ تعالیٰ نے خود بطور القأ کے وہ اسم جاری کردیا جو ان کے مناسب حال تھا۔ ‘‘(حق الیقین ،انوار العلوم جلد ۹ صفحہ ۳۲۳)
حضرت مصلح موعودؓنےان احادیث کا خلاصہ اس طرح بیان فرمایا ہے:’’ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ (۱) اسم اعظم کسی ایک اسم کا نام نہیں بلکہ ان اسماء کا نام ہے جن سے کسی خاص وقت میں دعا مانگنی زیادہ مفید ہوتی ہے کیونکہ مختلف لوگوں نے مختلف دعاؤں اور ناموں سے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کیا ہے اور ان کا نام رسول کریم ﷺ نے اسم اعظم رکھا ہے(۲)یہ اسم اعظم کوئی پوشیدہ امر نہیں ورنہ رسول کریم ﷺ لوگوں کو یہ کیوں بتاتے کہ ان لوگوں نے اسم اعظم کو یاد کر کے دعا مانگی ہے۔آپ کو تو چاہئے تھا کہ اگر اتفاقاً کسی کے منہ سے اسم اعظم نکل گیاتھا تو چپ کر رہتے۔(۳) جب کہ آپ علی الاعلان اسم اعظم کی تلقین کرتے تھے تو ممکن نہ تھا کہ حضرت عائشہؓ سے چھپاتے کیونکہ وہ دوسروں سے سن سکتی تھیں۔‘‘(حق الیقین،انوارالعلوم جلد ۹ صفحہ۳۲۳ )
ایک موقع پر خود اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑکو ایک دعا سکھائی چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’آج میں نے خواب دیکھا کہ بعض آفات تین بھینسوں کی شکل پر میرے مارنے کے لئے آئیں اور میں ایک کوچہ سر بستہ میں کھڑا ہوں۔ ایک بھینس کو میں نے مارکر ہٹا دیا اوردوسری کو بھی ہٹایا۔ لیکن تیسرا بھینسا ایک نہایت خبیث اور شریر اور مست معلوم ہوتا ہے۔ اب وہ کوچہ سر بستہ میں بفاصلہ قریباً دو بالشت کے کھڑا ہے اور سخت حملہ کے لیے تیا رہے اوربھاگنے کی راہ بند کر دی۔ اس وقت موت کاسامنا معلوم ہوتا تھا کہ کسی طرح مخلصی نہیں، ہلاکت ہے۔ تب خدا کی قدرت سے دوسری طرف اس کامنہ ہوا مگر وہیں کھڑا رہا۔ میں غنیمت سمجھ کر اس کے حلقے میں سے نکل آیا اور وہ پیچھے دوڑا۔ تب میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ کلام پڑھ اس سے نجات پائے گا اوروہ کلام یہ ہے۔ رَبِّ کُلُّ شَیئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔ ترجمہ: اے میرے ربّ! ہر ایک چیز تیری خادم ہے، اور تیرے حکم میں ہے مجھے ہر ایک بلاسے نگہ رکھ اور مدد دے اور رحم کر۔ میں یہ دعا پڑھتا جاتا تھا اور دوڑتا تھا۔ تب میرے دل میں ڈالا گیا کہ بلا دفع ہو گئی اور نیز میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ خدا کااسم اعظم ہے جو شخص صدق دل سے اس کو پڑھے گا وہ نجات پائے گا۔ اس لئے میں لکھتا ہوں کہ آپ بھی ہر نماز میں، رکوع میں، سجودمیں اور بعد فاتحہ اور دوسری سورہ کے بعد اگر دوسری سورۃ بھی …فاتحہ کے ساتھ ہو ضرور پڑھیں اور تذلّل اور عجز سے پڑھیں اورخدا تعالیٰ کے فضل پر پوری امید رکھیں۔ وہ قوی وقادر خدا ہے، ایک دم میں جو چاہے کر دے۔‘‘(مکتوبات احمدجلد ۲ صفحہ ۴۱۵)
حضرت مصلح موعودؓ اس دعا کے بارےمیں فرماتے ہیں کہ’’یہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو سکھائی اور اسے اسمِ اعظم قرار دیا اس لئے اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کی طاقت ہے۔اسمِ اعظم اسی دعا کو کہتے ہیں جو سب دعاؤں سے بھاری ہو اور مصائب کو ٹلا دیتی ہو۔‘‘(خطبات محمود جلد ۱۶ صفحہ ۲۱۵)
پھر فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کو جو دعا سکھائی کہ رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔ اس کے متعلق فرما یا کہ یہ اسمِ اعظم ہے اور ہر مصیبت سے نجات کا ذریعہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسے اس زمانہ کے لئے اسمِ اعظم قرار دیا ہے۔اسمِ اعظم ہر زمانہ کے لئے الگ الگ ہوتے ہیں… اللہ تعالیٰ کی صفات مختلف دَوروں سے تعلق رکھتی ہیں بعض زمانوں میں بعض صفات کا اظہار ہوتا ہے اور بعض میں بعض اور کا۔اور اس دعا سے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سکھائی پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ حفیظ، ناصر یا نصیر، رحیم یا رحمٰن کی اس زمانہ میں بندوں کو زیادہ احتیاج ہے…‘‘(خطبات محمود جلد ۱۶ صفحہ ۲۱۴،۲۱۳)
پھر حضرت مسیح موعودؑ نے دعا کو بھی اسم اعظم قرار دیا ہے چنانچہ فرمایا’’نشا ن کی جڑدعا ہی ہے یہ اسم اعظم ہے اور دنیا کاتختہ پلٹ سکتی ہے دعا مومن کا ہتھیار ہے اور ضرور ہے اور ضرور ہے کہ پہلے ابتہا ل اور اضطراب کی حالت پیدا ہو۔‘‘(ملفوظات جلد ۳ صفحہ۲۰۲)
حضرت غلام رسول راجیکی صاحبؓ فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہاماً بتایا گیا کہ سورہ یٰسین کی آخری تین آیات میں اسم اعظم پایا جاتا ہے وہ آیات مندرجہ ذیل ہیں۔
أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (يٰس ۸۲-۸۴) (حیات قدسی جلد ۲ صفحہ ۸۷)
اب ان آیات پر غور کریں تو اللہ کی ان صفات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اللہ تعالیٰ کا خالق ہونا،اس کا علیم ہونا،اس کا ہر چیز پر صاحب قدرت ہونااور اس کے ارادہ کرنے اور اس کی تکمیل کا ذکر ہے۔یہ تمام ایسی صفات ہیں جس کے سر پر ہی تمام کائنات کا دارومدار ہے۔پس جب اللہ کی ان صفات کا واسطہ دے کر دعا کی جائے گی تو اللہ دعا سنے گا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ
(۱)اسم اعظم کا تصور یہود میں بھی پایا جاتا تھا اور اسلام میں اس کا تصور وہیں سے آیاہے۔
(۲)مختلف اشخاص کے لیے مخصوص حالات میں مختلف صفات باری تعالیٰ اسم اعظم بن کر زیادہ فائدہ دیتی ہیں۔
(۳)جیسی ضرورت ہو اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کو اس صفت کے ساتھ پکارا جائے تو اللہ تعالیٰ جلد دعا قبول کرتا ہے۔
(۴)اللہ تعالیٰ کی صفات سے فائدہ اٹھانے کےلیے ضروری ہے کہ پہلے اپنے اندر بھی وہ صفات پیداکی جائیں،تب ہی ان کا فائدہ زیادہ ہوگا۔
(۵)احادیث میں جہاں بھی اسم اعظم کا ذکر کیا گیا ہے اور قرآن کریم کی بعض آیات کو اسم اعظم قرار دیا گیا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی واحدانیت اور رحمانیت کا ذکر خاص طور پر ملتا ہے۔یعنی یہ ضروری ہے کہ قبولیت دعا کے لیے انسان ہر طرح کے شرک سے دور ہوجائے اور اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہو۔
(۶)حضرت مسیح موعودؑنے مختلف تحریرات میں اللہ، رحمٰن اور رحیم کو اسم اعظم قرار دیا ہے۔لیکن یہ اسم اعظم تب ہی مفید ہوسکتے ہیں جب حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ کی بیان فرمودہ شرائط پر پورا اترا جائے۔
(۷)حضرت مسیح موعودؑکو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے لیے خاص دعا سکھائی ہے۔رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔
(۸)اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو خاص حالات میں بعض صفات کا خاص علم عطاکرتا ہے جو کہ اس وقت اسم اعظم کا کام دیتی ہیں۔جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت غلام رسول راجیکی صاحب ؓ کو سورہ یٰسین کی آخری آیات کی خبر دی۔اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک نیا نام سکھایا جو کہ یا مسبب الاسباب ہے۔
(۹)اصل چیز دعا ہی ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں انسانوں کو دیا ہے۔یہی وہ عظیم ہتھیار ہے جس سے تقدیر یں بدل سکتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عبادت کرنے اوراپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین