تربیتِ اولاد پر طریق عمل (از ارشاداتِ نورؓ)
’’۲۹؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو قریب شام مجھے حضرت حکیم الامت کے حضور شرفِ ملازمت حاصل تھا۔ باتوں ہی باتوں میں اس بات پر ذکر آگیا کہ آپ عبدالحئی کو بہت آزاد کیوں رکھتے ہیں اور اُس کو کبھی تنبیہ نہیں کرتے۔ فرمایا
میں اس کو مناسب تنبیہ تو کرتا ہوں اور ایسے طریق پر کہ اسے ذرا بھی ناگوار نہیں ہوتا اور وہ اصلاح کر لیتا ہے لیکن بچوں کومارنا پیٹنا یہ میں بالکل نا مناسب سمجھتا ہوںاور مندرجہ ذیل وجوہ ہیں جو میں اس کوکھلا چھوڑ دیتا ہوں۔
(۱) آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے اَکرِ مُوا اَولادَکُم (سنن ابنِ ماجہ باب بر الوالد والاحسان الی البنات حدیث نمبر ۳۶۷۱) یعنی اپنی اولاد کی تکریم کرو۔ اس لئے اس حدیث پر عمل کرنا ضروری ہے۔
(۲) صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت میں دیکھتا ہوں کہ اُنہوں نے بچوں کو زدوکوب سے پرورش نہیں کیا۔
(۳) پھر میں یہاں تک بھی پاتا ہوں کہ عہدِ رسالت میں بچوں کو ہر گز نہیں مارا جاتا تھا۔
(۴)جبکہ شریعت اور خدا تعالیٰ نےاُن کوابھی مکلّف نہیں کیا تو ہم کون ہیں جو مکلّف کر سکیں۔
(۵) عبد الحئی اللہ تعالیٰ کی ایک آیت ہے۔ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ایک پیشگوئی کے موافق پیدا ہے۔ آیت اللہ کی بے حُرمتی اچھی نہیں۔
(۶) خود حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ و السلام کو میں دیکھتا ہوں کہ وہ بچوں کو زجر و توبیخ نہیں کرتے۔ میں نے خود سُنا ہےکہ جب کبھی ام المومنین نے کسی بچہ کی کوئی شکایت کی ہے تو فرمایاہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ اس کی فطرت اس سے کیا کراتی ہے۔ میں دُعا کروں گا۔
(۷) اولاد کے لئے دُعائیں کرنی چاہئیں کہ وہ نیک ہو تاکہ ہمارے لئے دُعائیں کرنے والی ہوں لیکن اگر شروع ہی سے ہم اُن کے دل میں اپنے لئے بغض پیدا کرلیں گے تو وہ دُعائیں کرنے والی ہوں گی یا بددعا کرنے والی۔
(۸) میری اور میرے بھائی بہنوں کی تربیت کبھی اس رنگ سے نہیں ہوئی۔ میرے والدین ہم سب پر اور مجھ پر بہت ہی بڑی عنایت اور شفقت کیا کرتے تھے۔ ہماری تعلیم کے لئےوہ کبھی بڑے سے بڑے خرچ کے لئے بھی آزردہ خاطر نہ ہوتے تھے بلکہ بڑی خوشی سے ادا کرتے تھے۔ میں نے کبھی اپنے والد یا والدہ ماجدہ سے کوئی گالی بچوں کو نہیں سُنی بلکہ والدہ صاحبہ جن سے ہزاروں لڑکیوں اور لڑکوں نے قرآن شریف پڑھا ہے وہ اگر کسی کو گالی دیتی تھیں تو یہ گالی دیتی تھیں محروم نہ ہوجاویں۔
(۹) جب ہم خود ( باوجود یکہ اس قدر عمر ہو گئی ہےاور بہت کچھ پڑھا اور پڑھایا ہے)بھی غلطی کر بیٹھتے ہیں تو جن کو کچھ بھی واقفیت اور علم نہیں اگر غلطی کر بیٹھیں تو اس پر اس قدر غصّہ اور غضب کیوں ہو۔
(۱۰)غلطیوں اور فرو گزاشتوں پر دُعا کرنی چاہئے۔ حضرت اقدس علیہ السلام گھر میں ایک دفعہ فرمارہے تھےکہ لوگ جو کسی پر ناراض ہوتے ہیں مجھے حیرت ہے کیوں ناراض ہوتے ہیں کیا انہوں نے اس کے واسطے چالیس دن رو کر دُعا بھی کی ہے اگر چالیس دن رو کر دُعا کرے اور پھر بھی اس کی اصلاح نہ ہو تو البتہ اسے ناراض ہونے کا موقعہ ہے۔‘‘
(ازارشاداتِ نور جلد اول صفحہ نمبر ۲۴۱-۲۴۲)
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اِن ارشادات پر بہترین رنگ میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
(مرسلہ:نجمُ السحرصدیقی۔جرمنی)