حضرت مصلح موعودؓ کی بیش بہا نصائح کی روشنی میں عورتوں میں احساس خودداری (Self Esteem)
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو زمانے کی اصلاح کے لیے حَکم اور عدل بنا کر بھیجا۔ آپؑ نے اسلامی احکامات کی خوبصورتی اور حکمت کو دنیا کے سامنے واضح طور پر پیش کیا اور مسلمانوں کی اصلاح اور تربیت کا بیڑہ اٹھایا۔ یہ اہم ذمہ داری پھر قدرت ثانیہ کے کندھوں پرآپڑی اور خلفائے احمدیت نے مسلمان اور بالخصوص احمدی خواتین کی تعلیم اور تربیت کے لیے انتھک محنت کی اور خواتین میں یہ احساس پیدا کیا کہ وہ اپنی حیثیت پہچانیں، اپنے مقام کی اہمیت کا ادراک حاصل کریں اور معاشرے میں اپنے کردار کو احسن طور پر ادا کرنے کے لیے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ ان انمول نصائح کی روشنی میں احمدی خواتین اپنی زندگیاں قرآن پاک کی روشن تعلیم کے مطابق ڈھال کر اپنی دین و دنیا سنوار سکتی ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓنےلجنہ اماءاللہ کی تعلیم اور تربیت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ آپؓ کی تقاریر احمدی خواتین کے لیے ایک مشعل راہ کا کام دیتی ہیں جو کہ لجنہ اماء الله کی ذاتی اور سماجی زندگیوں کو سنوار کر انہیں دونوں جہانوں میں سرخرو کر سکتی ہیں۔ اس مضمون میں حضرت مصلح موعودؓ کی عورتوں کو کی جانے والی بعض نصائح پیش کی جائیں گی جو آج بھی ہر احمدی خواتین کے لیے ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
حضرت مصلح موعودؓ نے بارہا اپنی تقریروں میں عورتوں کو احساس دلایا کہ عورتیں معاشرے کا ایک اہم جزو ہیں۔ خدا تعالیٰ نے انسان دو قسموں میں پیدا کیا ہے۔ ایک مرد، دوسرے عورتیں اور اس ذات جلّ جلالہ کے نزدیک عورت اور مرد دونوں برابر ہیں۔ چونکہ خدا تعالیٰ دونوں کا خالق ہے اس لیے خدا تعالیٰ نے عورتوں اور مردوں دونوں کی بہبود، اصلاح اور ترقی کے لیے احکامات دیے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے احکامات مرد اور عورت، دونوں کے لیے ایک جیسے ہیں۔ ان پر عمل کرنے سے دونوں ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔
عور توں کی عزت نفس کو اُبھارتے ہوئے اور اس کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: ’’پس تم یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ خداتعالیٰ نے مرد اور عورت میں ایک ایسی ہی قوتیں رکھی ہیں۔ اگر مرد کمال حاصل کرکے خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتے ہیں تو عورتیں بھی پہنچ سکتی ہیں۔ مرد تبلیغ کر سکتے ہیں تو عورتیں بھی کر سکتی ہیں۔ مرد دنیا کی راہنمائی اور ہدایت کا موجب ہو سکتے ہیں تو عورتیں بھی ہوسکتی ہیں ‘‘(الفضل قادیان، ۲۳؍ جولائی ۱۹۱۵ء)
عورتوں کو اپنی تعلیمی حالت بہتر کرتے ہوئے دین پر عمل کر کے دین و دنیا میں بلند مقام پانے کی تلقین کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں : ’’وہ مرد و عورت جنہوں نے آنحضرتﷺ کے وقت کوشش کی… ان کو دین میں بھی بڑے بڑے رتبے حاصل ہو گئے اور دنیا میں بھی بڑے بڑے انعام مل گئے۔ آج بھی اگر مردوعوررتیں اسی طرح کریں، خود دین سیکھیں اور عمل کر کے دکھائیں۔ دوسروں کو سمجھانے اور عمل کرانے کی کوشش کریں۔ دین کے مقابلہ میں کسی چیز کی پرواہ نہ کریں تو ویسی ہی بن سکتی ہیں۔‘‘ (الفضل قادیان، ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۱۷ء)
حضرت مصلح موعودؓ نےلجنہ کی مذہبی تعلیم کو اولین ترجیح بنانے کی اہمیت پر بہت زور دیا۔ اپنے لیکچرز، تقاریر اور نصائح میں عورتوں کو بار بار سمجھایا کہ ان کی اصل کامیابی اپنے صحیح درجہ کو سمجھنے میں ہے۔ اپنی اہمیت سمجھنے سے عورتوں میں احساسِ خود داری پیدا ہوگا اور وہ کامیابیوں کے زینے چڑھتی چلی جائیں گی اور اپنی زندگیوں کو کامیابی، خوشی اور خوشحالی سے سجا لیں گی۔ عورتوں کو عبادات جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی اہمیت بتاتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا’’ان کی غرض اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اور نیکی پیدا کرنا ہے۔ حسد وکینہ، لڑائی اور فساد، بدی اور برائی وغیرہ جیسی بری باتوں سے بچاکر انسان کو متقی بنانا ہے کیونکہ یہی نیکیوں کی جڑ ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی لکھا ہے:
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے
اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے
تو یہ بہت ضروری چیز ہے کہ اس کے لیے سوچنا چاہیےکہ ہمارے کسی کام کا یہ نتیجہ نہ ہو کہ خداتعالیٰ ناراض ہو جائے یا کسی انسان کو تکلیف پہنچے۔‘‘(الفضل ۲۷؍اکتوبر۱۹۱۷ء)
بعض خواتین اپنی زبان سے دوسروں کو تکلیف پہنچا سکتی ہیں اور بعض اوقات دوسروں کے عیب بیان کر کے چین محسوس کرتی ہیں۔ خواتین کی اس بشری کمزوری کو دور کرنے کے لیے حضرت مصلح موعودؓ نے بہت محبت اور حکمت سے نصائح فرمائی ہیں تاکہ عورتیں ایک دوسرے سے محبت کر کے اپنا احساس خودداری بلند کر سکیں۔ آپؓ فرماتے ہیں:’’اگر تمہارے سامنے کوئی کسی کے متعلق بُرا کلمہ کہے تو اسے روک دو اور کہہ دو ہمیں نہ سناؤ بلکہ جس کا عیب ہےاسے جا کر سناؤ۔ پھر اگر کوئی بات سن لو تو جس کے متعلق ہو اس کو جا کر نہ سناؤ تاکہ فساد نہ ہو…پس اگر عیب ہی نکالنے ہیں تو اپنے عیب نکالو تا کہ ان کے دور کرنے کی کوشش کر سکو…جس مجلس میں جاؤ ادب اور تہذیب سے بیٹھو، ایک دوسری کے ساتھ محبت اور الفت سے ملو، نرمی اور پیار سے بات کرو اور اگر کوئی سختی بھی کر بیٹھے تو صبر اور تحمل سے کام لو اور خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔‘‘ (انوار العلوم جلد ۵ صفحہ ۱۶۱)
عورتوں میں خودداری اور اعتماد پیداکرنے کے لیے حضرت مصلح موعودؓ نے انہیں گراں قدر عملی نصائح فرمائیں۔ آپؓ نےفرمایا:’’میں سمجھتا ہوں سب سے اہم بات جس کی ان لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ لڑکیوں اور خواتین کی آواز بلند ہو۔ اس میں نرمی اور ہچکچاہٹ نہ ہو۔ دلیری، ارادہ اور قوت پائی جائے۔ میرے نزدیک ہماری عورتیں کوئی کام کرنے میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک ان کی آواز میں قوت اور شوکت ہی نہ ہو جو پختہ ارادہ رکھنے والے اور کام کرنے والے لوگوں کی آواز میں ہوتی ہے۔ تقریر کی نصف سے زیادہ طاقت آواز میں ہوتی ہے۔ …آواز میں رعب ہو تو اس کا خاص اثر ہوتا ہے۔پس ضروری ہے کہ خواتین کو اس طرح بولنے کی عادت ہو کہ ان کی آواز میں شوکت اور رعب پایا جائے…جب تک وثوق، اُمنگ اور عزم نہیں، تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا اور اس کے لئے بلند، پرشوکت، دلیری اور رعب والی آواز ہونی چاہیے۔‘‘ (الفضل قادیان، ۲؍ جولائی ۱۹۲۶ء)
حضرت مصلح موعودؓ نے عورتوں کی تعلیم پر بے حد زور دیا ہے۔ ایسی تعلیم جو ان کے دینی علم میں اضافہ کرے ان کے اعمال میں بہتری پیدا کرےاور عورتوں میں روحانیت کا اضافہ کرنے کا باعث بنے۔ خواتین اس طرح خدمت دین میں احسن طور پر حصہ لے سکتی ہیں اور دین و دنیا میں عابدات اور قانتات میں گنی جائیں گی۔
میں اس مضمون کا اختتام حضرت مصلح موعودؓ کی بابرکت نصائح اور دعاؤں پر کرتی ہوں۔ آپؓ نے فرمایا: ’’میں اپنی جماعت کی عورتوں کو کہتاہوں کہ دین سیکھو اور روحانی علم حاصل کرو۔…
حضرت صاحب فرماتے تھے کہ خدمت دین میں ترقی علم کا راز ہے۔ امیر انسان تکبر سے نہیں ہوتا نہ روپے سے بلکہ سچے علم سے۔
اب میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تم سب کو سچا علم حاصل کرنے کی توفیق عطافرمائے اور تم حقیقی علم حاصل کرو۔‘‘(مستورات سےخطاب، انوار العلوم جلد۱۳صفحہ۲۰۱)