خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۳۰؍ دسمبر۲۰۲۲ءبمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت حمزہؓ کی بیٹی امامہؓ کی پرورش کےحوالہ سےکیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت بَراء بن عازبؓ سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب نبی کریمﷺ نے ذی القعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اہلِ مکہ نے اس بات سے انکار کیا کہ آپؐ کو مکہ میں داخل ہونے دیں۔ آخر آپؐ نے ان سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ مکہ میں آئندہ سال عمرے کو آئیں گے اور تین دن تک ٹھہریں گے۔ جب صلح نامہ لکھنے لگے تو، جس طرح کہ لکھا ہے کہ یہ وہ شرطیں ہیں جن پر محمد رسول اللہﷺ نے صلح کی،مکہ والے کہنے لگے کہ ہم اس کو نہیں مانتے۔ اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو آپؐ کو کبھی نہ روکتے بلکہ یہاں تم محمد بن عبداللہ ہو۔آپؐ نے فرمایا: مَیں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ آپؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹا دو۔علی نے کہا ہرگز نہیں مٹانا۔ اللہ کی قسم! میں آپؐ کے خطاب کو کبھی نہیں مٹاؤں گا۔ رسول اللہﷺ نے لکھا ہوا کاغذ لے لیا اور آپؐ اچھی طرح لکھنا نہیں جانتے تھے۔ آپؐ نے یوں لکھا: یہ وہ شرطیں ہیں جو محمد بن عبداللہ نے ٹھہرائیں۔ مکہ میں کوئی ہتھیار نہیں لائیں گے سوائے تلواروں کے جو نیاموں میں ہوں گی اور مکہ والوں میں سے کسی کو بھی ساتھ نہیں لے جائیں گے اگرچہ وہ ان کے ساتھ جانا چاہے اور اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی نہیں روکیں گے اگر وہ مکہ میں ٹھہرنا چاہے۔ خیر جب معاہدے کے مطابق آپ آئندہ سال مکہ میں داخل ہوئے اور مدّت ختم ہو گئی تو قریش حضرت علیؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اپنے ساتھی یعنی محمدﷺ سے کہو کہ اب یہاں سے چلے جائیں کیونکہ مقررہ مدت گزر چکی ہے۔ چنانچہ نبیﷺ وہاں سے روانہ ہو گئے۔ حضرت حمزہؓ کی بیٹی آپ کے پیچھے آئی جو پکار رہی تھی کہ اے چچا! اے چچا! حضرت علیؓ نے جا کر اسے لے لیا اس کا ہاتھ پکڑا اور فاطمہ ؑسے کہا اپنے چچا کی بیٹی کو لے لیں۔ انہوں نے اس کو سوار کر لیا۔ اب علی، زید اور جعفر حمزہ کی لڑکی کی بابت جھگڑنے لگے۔ علی کہنے لگے کہ میں نے اس کو لیا ہے اور میرے چچا کی بیٹی ہے اور جعفر نے کہا میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میری بیوی ہے اور زید نے کہا میرے بھائی کی بیٹی ہے۔ پھر نبیﷺ نے اس کے متعلق فیصلہ کیا کہ وہ اپنی خالہ کے پاس رہے اور فرمایا: خالہ بمنزلہ ماں ہے اور علی سے کہا تم میرے ہو اور میں تمہارا ہوں اور جعفر سے کہا تم صورت اور سیرت میں مجھ سے ملتے جلتے ہو اور زید سے کہا تم ہمارے بھائی ہو اور دوست ہو۔ علی نے کہا کیا آپ حمزہ کی بیٹی سے شادی نہیں کر لیتے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ میرے دودھ بھائی کی بیٹی ہے۔ میں اس کا چچا ہوں۔
سوال نمبر۲: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت حمزہؓ کےقبول اسلام کےحوالہ سے رَوضُ الأُنُف کی کیاروایت بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:حضرت حمزہ ؓ کے قبول اسلام کے متعلق رَوضُ الأُنُف میں لکھا ہے کہ ابنِ اسحاق کے علاوہ بعض نے حضرت حمزہ ؓ کے اسلام لانے کے متعلق ایک بات کا اضافہ کیا ہے۔ حضرت حمزہ ؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب مجھ پر غصہ غالب آگیا اور مَیں نے کہہ دیا یعنی وہ جو سارا واقعہ ہوا ہے اور پہلے بیان ہو چکا ہے کہ جب اپنی لونڈی کے کہنے پہ (کہہ دیا)کہ میں آپﷺ کے دین پر ہوں۔ بعد میں مجھے ندامت ہوئی کہ میں نے اپنے آباؤ اجداد اور قوم کے دین کو چھوڑ دیا ہے اور مَیں نے اس عظیم معاملے کے متعلق شکوک و شبہات میں اس طرح رات گزاری کہ لمحہ بھر سو نہ پایا۔ پھر مَیں خانہ کعبہ کے پاس آیا اور اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کی کہ اللہ تعالیٰ میرے سینے کو حق کے لیے کھول دے اور مجھ سے شکوک و شبہات کو دُور کر دے۔ مَیں نے ابھی دعا ختم بھی نہ کی تھی کہ باطل مجھ سے دُور ہو گیا اور میرا دل یقین سے بھر گیا۔ پھر صبح کو میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی تمام حالت بیان کی جس پر نبی کریمﷺ نے میرے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ مجھے ثبات قدم بخشے۔
سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ بدرمیں رؤساءقریش کی بےچینی اور مبارزت کی کیاتفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کی تفصیل اس طرح لکھی ہے کہ’’اب فوجیں بالکل ایک دوسرے کے سامنے تھیں۔ مگر قدرتِ الٰہی کاعجیب تماشہ ہے کہ اس وقت لشکروں کے کھڑے ہونے کی ترتیب ایسی تھی کہ اسلامی لشکر قریش کو اصلی تعداد سے زیادہ بلکہ دوگنا نظرآتا تھا جس کی وجہ سے کفّار مرعوب ہوئے جاتے تھے اور دوسری طرف قریش کالشکر مسلمانوں کو ان کی اصلی تعداد سے کم نظر آتا تھا۔جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے دل بڑھے ہوئے تھے۔قریش کی یہ کوشش تھی کہ کسی طرح اسلامی لشکر کی تعداد کا صحیح اندازہ پتہ لگ جاوے تاکہ وہ چھوٹے ہوئے دلوں کو سہارا دے سکیں۔ اس کے لئے رؤساء قریش نے عُمَیر بن وَہْب کو بھیجا کہ اسلامی لشکر کے چاروں طرف گھوڑا دوڑا کر دیکھے کہ اس کی تعداد کتنی ہے اور آیا ان کے پیچھے کوئی کمک تو مخفی نہیں؟ چنانچہ عُمَیر نے گھوڑے پر سوار ہوکر مسلمانوں کاایک چکر کاٹا مگر اسے مسلمانوں کی شکل وصورت سے ایسا جلال اورعزم اور موت سے ایسی بے پروائی نظر آئی کہ وہ سخت مرعوب ہوکر لوٹا اور قریش سے مخاطب ہو کر کہنے لگا …’’مجھے کوئی مخفی کمک وغیرہ تو نظر نہیں آئی، لیکن اے معشرِ قریش! میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کے لشکر میں گویا اونٹنیوں کے کجاووں نے اپنے اوپر آدمیوں کو نہیں بلکہ موتوں کواٹھایا ہوا ہے اوریثرب کی سانڈنیوں پر گویا ہلاکتیں سوار ہیں۔‘‘قریش نے جب یہ بات سنی تو اُن میں ایک بے چینی سی پیدا ہو گئی۔ سراقہ جوان کا ضامن بن کر آیا تھا کچھ ایسا مرعوب ہوا کہ الٹے پاؤں بھاگ گیا اور جب لوگوں نے اسے روکا تو کہنے لگا … ’’مجھے جو کچھ نظر آرہا ہے وہ تم نہیں دیکھتے۔‘‘حکیم بن حِزَام نے عُمَیرؔ کی رائے سنی تو گھبرایا ہوا عُتْبہ بن رَبِیعہ کے پاس آیا اورکہنے لگا۔’’اے عُتْبہ! تم محمدﷺسے آخر عمرو حضرمی کا بدلہ ہی چاہتے ہو۔ وہ تمہارا حلیف تھا۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم اس کی طرف سے خون بہاادا کردو اور قریش کو لے کر واپس لَوٹ جاؤ۔ اس میں ہمیشہ کے لئے تمہاری نیک نامی رہے گی۔‘‘عُتْبہ کو جو خود گھبرایا ہوا تھا اَورکیا چاہئے تھا جھٹ بولا’’ہاں ہاں میں راضی ہوں اور پھر حکیم! دیکھو تو یہ مسلمان اور ہم آخر آپس میں رشتہ دار ہی تو ہیں۔ کیا یہ اچھا لگتا ہے کہ بھائی بھائی پرتلوار اٹھائے اورباپ بیٹے پر۔ تم ایسا کرو کہ ابھی ابوالحکم (یعنی ابوجہل) کے پاس جاؤ اور اس کے سامنے یہ تجویز پیش کرو‘‘اورادھر عُتْبہ نے خود اونٹ پر سوار ہوکر اپنی طرف سے لوگوں کو سمجھانا شروع کردیا کہ’’رشتہ داروں میں لڑائی ٹھیک نہیں ہے۔ ہمیں واپس لوٹ جانا چاہئے اور محمدؐ کو اُس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ دوسرے قبائل عرب کے ساتھ نپٹتا رہے۔ جو نتیجہ ہوگا دیکھا جائے گا۔ اورپھر تم دیکھو کہ ان مسلمانوں کے ساتھ لڑنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ کیونکہ خواہ تم مجھے بزدل کہو حالانکہ میں بزدل نہیں ہوں … مجھے تو یہ لوگ موت کے خریدار نظر آتے ہیں۔‘‘آنحضرتﷺ نے دُور سے عُتْبہ کو دیکھا تو فرمایا۔’’اگر لشکرِ کفارمیں سے کسی میں شرافت ہے تو اس سرخ اونٹ کے سوار میں ضرور ہے۔ اگر یہ لوگ اس کی بات مان لیں توان کے لیے اچھا ہو۔لیکن جب حکیم بن حزام ابوجہل کے پاس آیا اور اُس سے یہ تجویزبیان کی تو وہ فرعونِ امت بھلا ایسی باتوں میں کب آنے والا تھا چھٹتے ہی بولا۔اچھا اچھا اب عُتْبہ کواپنے سامنے اپنے رشتہ دار نظر آنے لگے ہیں۔ اور پھر اس نے عمروحضرمی کے بھائی عامر حضرمی کو بلا کر کہا تم نے سنا تمہارا حلیف عُتْبہ کیا کہتا ہے اوروہ بھی اس وقت جبکہ تمہارے بھائی کا بدلہ گویا ہاتھ میں آیا ہوا ہے۔ عامر کی آنکھوں میں خون اتر آیا اوراس نے عرب کے قدیم دستور کے مطابق اپنے کپڑے پھاڑ کر اور ننگا ہوکر چلّانا شروع کیا … ہائے افسوس!میرا بھائی بغیر انتقام کے رہا جاتا ہے۔ ہائے افسوس! میرا بھائی بغیر انتقام کے رہا جاتا ہے!! اس صحرائی آواز نے لشکرِ قریش کے سینوں میں عداوت کے شعلے بلند کر دیئے اور جنگ کی بھٹی اپنے پورے زورسے دہکنے لگ گئی۔‘‘ ابوجہل کے طعنے نے عُتْبہ کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔ اس غصہ میں بھرا ہوا وہ اپنے بھائی شیبہ اوراپنے لڑکے ولید کوساتھ لے کر لشکرِ کفار سے آگے بڑھا اور عرب کے قدیم دستور کے مطابق انفرادی لڑائی کے لیے مبارز طلبی کی۔ چند انصار ان کے مقابلہ کے لیے آگے بڑھنے لگے مگر آنحضرتﷺ نے ان کو روک دیا اور فرمایا۔ حمزہ تم اُٹھو۔ علی تم اُٹھو۔ عبیدہ تم اُٹھو! یہ تینوں آنحضرتﷺ کے نہایت قریبی رشتہ دار تھے اور آپؐ چاہتے تھے کہ خطرہ کی جگہ پر سب سے پہلے آپؐ کے عزیزواقارب آگے بڑھیں۔دوسری طرف عُتْبہ وغیرہ نے بھی انصار کو دیکھ کر آوازدی کہ ان لوگوں کو ہم کیا جانتے ہیں۔ ہماری ٹکر کے ہمارے سامنے آئیں۔ چنانچہ حمزہ اور علی اور عبیدہ آگے بڑھے۔عرب کے دستور کے مطابق پہلے روشناسی ہوئی۔ پھر عبیدہ بن مطلب ولید کے مقابل ہوگئے اور حمزہ عُتْبہ کے اورعلی شیبہ کے۔حمزہ اورعلی نے تو ایک دو واروں میں ہی اپنے حریفوں کو خاک میں ملا دیا لیکن عبیدہ اورولید میں دو چار اچھی ضربیں ہوئیں اور بالآخر دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ سے کاری زخم کھا کر گرے۔ جس پر حمزہ اورعلی نے جلدی سے آگے بڑھ کر ولید کا تو خاتمہ کر دیا اور عبیدہ کو اُٹھا کر اپنے کیمپ میں لے آئے۔ مگر عبیدہ اس صدمہ سے جانبر نہ ہوسکے اور بدر سے واپسی پر راستہ میں انتقال کیا۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت حمزہؓ کی بابت اونٹنیوں کےکوہان چیرنےکاکیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ بدر کی لڑائی کے موقع پر مجھے ایک جوان اونٹنی غنیمت میں ملی اور ایک دوسری اونٹنی مجھے رسول اللہﷺ نے عنایت فرمائی۔ ایک دن ایک انصاری صحابیؓ کے دروازے پر مَیں ان دونوں کو اس خیال سے باندھے ہوئے تھا کہ ان کی پیٹھ پر اذخر (وہ ایک گھاس ہے کہ جسے سنار وغیرہ بھی استعمال کرتے ہیں، خوشبو دار گھاس ہے) رکھ کر بیچنے لے جاؤں گا۔ بنی قینقاع کا ایک سنار بھی میرے ساتھ تھا۔ اس طرح خیال یہ تھا کہ اس کی آمدنی سے فاطمہ ؓجن سے میں نکاح کرنے والا تھا ان کا ولیمہ کروں گا۔ حمزہ بن عبدالمطلب ؓ اسی انصاری کے گھر میں شراب پی رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک گانے والی بھی تھی۔ اس نے جب یہ مصرع پڑھا کہ ہاں اے حمزہ ! اٹھو فربہ جوان اونٹنیوں کی طرف بڑھو۔حمزہ ؓ جوش میں تلوار لے کر اٹھے اور دونوں اونٹنیوں کے کوہان چیر دیے۔ ان کے پیٹ پھاڑ ڈالے اور ان کی کلیجی نکال لی۔ ابنِ جُرَیج نے بیان کیا کہ مَیں نے ابنِ شہاب سے پوچھا کہ کیا کوہان کا گوشت بھی کاٹ لیا؟ انہوں نے بیان کیا کہ ان دونوں کے کوہان بھی کاٹ لیے اور انہیں لے گئے۔ ابنِ شہاب نے بیان کیا کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا مجھے یہ دیکھ کر بڑی تکلیف ہوئی۔ پھر میں نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ کی خدمت میں اس وقت زید بن حارثہ ؓ بھی موجود تھے۔ میں نے آپؐ کو اس واقعہ کی اطلاع دی تو آپؐ تشریف لائے۔ زید ؓ بھی آپ کے ساتھ ہی تھے اور میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ حضورﷺ جب حمزہؓ کے پاس پہنچے اور آپﷺنے خفگی کا اظہار فرمایا تو حضرت حمزہؓ نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ نشہ کی حالت میں تھے۔آنحضرتﷺ کو بھی کہنے لگے کہ تم سب میرے باپ دادا کے غلام ہو۔حضورﷺ الٹے پاؤں لوٹ کر ان کے پاس سے چلے آئے۔ یہ شراب کی حرمت سے پہلے کا قصہ ہے۔انہوں نے کہا ایسی حالت میں بہتر ہے کہ اس سے بات نہ کی جائے لیکن بعد میں بہرحال دیکھ لیں کہ جب شراب کی حرمت ہو گئی تو پھر اس کے نزدیک بھی یہ لوگ نہیں گئے۔ صحابہؓ کا اللہ تعالیٰ کے حکموں کو ماننے کا یہ معیار تھا کہ فوری طور پر مٹکے توڑ دیے۔