امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور جماعت کی ذمہ داری
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۶؍ مئی ۲۰۰۵ء)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اچھے لوگ اس لئے ہو کہ صرف اپنے متعلق یا اپنے بیوی بچوں کے متعلق نہیں سوچتے یا اپنے خاندان کے متعلق یا اپنے قبیلے سے متعلق یا صرف اپنے ملک کے لوگوں کے متعلق نہیں سوچتے، بلکہ یہ سوچ رکھتے ہو کہ کوئی شخص چاہے وہ کسی خاندان کا ہو،کسی قبیلے کا ہو،کسی ملک کا ہو تم نے ہر ایک سے نیکی کرنی ہے اور ہر ایک کا دل جیتنا ہے۔ اور یہ تم پر فرض ہے کہ اس دل جیتنے کے لئے کبھی کسی سے کسی قسم کی برائی نہیں کرنی، بلکہ تمہارے ہر عمل سے محبت ٹپکتی ہو۔ اور یہ سب کام تم نے اس لئے کرنے ہیں کہ یہ خداتعالیٰ کا حکم ہے اور اس کے بغیر تمہارا اللہ تعالیٰ پر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ تو دیکھیں بہترین امت اللہ تعالیٰ نے صرف اس لئے نہیں بنایا کہ ہم مسلمان ہو گئے۔ جس طرح بہت سے مسلمانوں کو آپ دیکھتے ہیں، جن سے اگر تم پوچھو کہ مسلمان ہو تو کہتے ہیں کہ الحمدللہ ہم مسلمان ہیں۔ لیکن اگر ان کے عمل کو دیکھو تو نظر آئے گا کہ شیطان بھی ان لوگوں سے دور بھاگتا ہے۔ تو امت مسلمہ کا بہترین فرد ہونے کے لئے ضروری ہے کہ نیک عمل کرو اور برائیوں کو چھوڑو۔ جب اپنے عمل ایسے بناؤ گے تبھی تم دوسروں کو نیکیوں کا حکم دے سکتے ہو اور برائیوں سے روک سکتے ہو۔ ورنہ تو جب بھی تم اصلاح کی کوشش کرو گے تو تمہیں یہی جواب ملے گا کہ پہلے اپنے آپ کو درست کرو، اپنی اصلاح کرو۔
پس خیر امت نہ لوگوں کو دھوکہ دے کر بنا جا سکتا ہے اور نہ خداتعالیٰ کو دھوکہ دے کر بنا جا سکتا ہے۔ اس لئے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لئے، جماعت کو مضبوط کرنے کے لئے اچھی باتوں کو اپناؤ اور پھر آگے پہنچاؤ۔ اور جب ایسے عمل نیکیوں پر چلتے ہوئے اور برائیوں سے بچتے ہوئے انجام پا رہے ہوں گے تو پھر تبلیغ میں آسانی ہو گی۔ اور جماعت کے اندر بھی بہترین تربیت ہو رہی ہو گی۔ کیونکہ نیکیوں کو رائج کیا جا رہا ہو گا اور برائیوں سے روکا جا رہاہو گا۔ یہ نیک باتیں اور اچھی باتیں بے شمار ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے۔ مثلاً رشتہ داروں سے حسن سلوک ہے، امانت ہے، دوسروں کی خاطر قربانی ہے، انسانی ہمدردی ہے، دوسروں کے متعلق اچھے خیالات رکھنے کی تعلیم ہے، سچ بولنا ہے، دوسروں کو معاف کرنا ہے، صبر کرنا ہے، انصاف سے کام لینا ہے، دوسروں پر احسان کرنا ہے، اپنے وعدوں کو پورا کرنا ہے، ہر طرح کے گند، ذہنی بھی اور جسمانی بھی، سے اپنے آپ کو پاک رکھنا ہے۔ ذہنی گند یہ ہے کہ دماغ میں دوسرے کو نقصان پہنچانے یا اخلاق سے گری حرکتیں کرنے کا خیال دل میں آئے۔ پھر اچھی باتوں میں معاشرے میں آپس میں محبت اور پیار کو بڑھانا ہے۔ رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا ہے، ہمسایوں سے، اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے اچھا سلوک کرنا ہے۔ خوش اخلاقی ہے، پھر جو اچھی حیثیت کے ہیں یعنی مالی لحاظ سے بہترحیثیت کے ہیں ان کو خود بھی غریبوں کا خیال رکھنا چاہئے اور اس تعلیم کو پھیلانا بھی چاہئے۔ اسی طرح بیشمار برائیاں ہیں جن سے انسان کو خود بھی رکنا چاہئے اور دوسروں کو بھی اس طرف توجہ دلانی چاہئے کیونکہ نیکیاں اختیار کرنے کے لئے برائیاں چھوڑنا از حد ضروری ہے۔
ان برائیوں میں سے بعض کی مثال دیتا ہوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک مومن میں یہ برائیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ مثلاً کنجوسی کی عادت ہے یعنی دوسروں کی ضرورت کو دیکھ کر باوجود توفیق ہونے کے اس کی مدد نہ کرنا یا جماعتی چندوں میں ہاتھ روک کر رکھنا۔ پھر بدظنی کرنا ہے، دوسروں پر بلاو جہ الزام لگانا ہے، لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے، حسد کرنا ہے، لغو اور بیہودہ باتیں ہیں جن سے اپنے آپ کو اور جماعت کو فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان ہو رہا ہوتا ہے۔ کسی کی غیبت کرنا ہے۔ جھوٹ بولنا ہے۔ جھوٹ بھی ایک بہت بڑی لعنت ہے جو انسان کو دوسرے گناہوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔ خیانت کرنا ہے، اس میں آنکھ کی خیانت بھی ہے، مرد کا عورت کوبری نیت سے دیکھنا۔ کسی کی امانت میں خیانت بھی ہے۔ اس میں اور بھی بہت سی باتیں آ جاتی ہیں۔ مثلاً اپنا کام صحیح طرح نہ کرنا۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا نیکیاں اختیار کرنے کے لئے برائیاں چھوڑنی ہوں گی۔ کیونکہ نیکی اور بدی ایک جگہ نہیں رہ سکتے۔ اس لئے ہمیشہ یہ کوشش ہونی چاہئے کہ جب بھی کسی نیکی کو اختیار کریں تو اس کے ساتھ ہی چند برائیاں بھی چُھٹ جائیں۔ اور اس طرح پھر ہر احمدی کا دل ہر برائی سے پاک ہو سکتا ہے۔ اور ہر ایک احمدی مسلمان جس کو نیکی کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے کا حکم ہے اسے سب سے پہلے اپنے آپ کو ہی برائیوں سے پاک کرنا ہو گا اور نیکیوں کو اختیار کرنا ہو گا۔ تبھی وہ دوسروں کو حکم دے سکتا ہے۔ ورنہ اگر ہم یہ نہیں کرتے تو ہم منافقت اور دوغلی باتوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا سخت انذار فرمایا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ ایسے لوگ جہنمی ہیں جن کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو وائل کی حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے وسیلہ سے ایک لمبی روایت ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک شخص کو قیامت کے روز لایا جائے گا۔ پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اس کی انتڑیاں آگ میں پیٹ سے باہر نکل آئیں گی۔ اس پر وہ ان کے گرد اس طرح چکر لگائے گا جس طرح گدھا اپنے کھونٹے کے گرد چکر لگاتا ہے۔ پھر جہنم والے اس کے گرد جمع ہو جائیں گے۔ اور اس سے پوچھیں گے تمہارا کیا معاملہ ہے۔ کیا تو ہمیں معروف کام کرنے اور ناپسندیدہ امور کو ترک کرنے کا حکم نہ دیتا تھا؟ اس پر وہ کہے گا کہ میں تم کو معروف کام کرنے کا حکم دیتا تھا۔ مگر خود معروف کام نہ کرتا تھا۔ اور میں تم کو ناپسندیدہ افعال کا مرتکب ہونے سے روکتا تھا مگر میں خود ان کو بجا لاتا تھا تو دیکھیں کس قدر ڈرایا گیا ہے۔
اس لئے ہر احمدی کو جو نیکیوں کی تلقین دوسروں کو کرتا ہے خود بھی ان نیکیوں پر عمل کرنا چاہئے۔ اور خاص طور پر جن کے سپرد جماعت کی طرف سے یہ کام ہوتا ہے ان کو تو بہت زیادہ محتاط ہونا چاہئے اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے، اس کا فضل مانگنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔
اگر یہ انذار سن کر کسی کو یہ خیال آئے کہ پھر تو بہتر ہے کہ مَیں خاموش رہوں اور کبھی نیکیوں کی تعلیم نہ دوں اور نہ بری باتوں سے روکوں جب تک کہ مَیں خود اس قابل نہیں ہو جاتا۔ اگر یہ خیال آئے گا تو انسان اپنی اصلاح سے بے پرواہ ہو جاتا ہے۔ اس لئے یہ تعلیم دینا بھی ضروری ہے کیونکہ یہ خداتعالیٰ کا حکم ہے۔ پس ہر ایک کے لئے ضروری ہے کہ وہ نیکیوں کی تعلیم بھی دے اور ساتھ ساتھ اپنا محاسبہ بھی کرتا رہے، اپنا جائزہ بھی لیتا رہے کہ میری اصلاح ہو رہی ہے کہ نہیں۔ یہ انتہائی ضروری امر ہے۔
اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے تم ضرور امر بالمعروف کرو اور تم ضرور ناپسندیدہ باتوں سے منع کرو۔ ورنہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پراپنا عذاب نازل کرے۔ اور عذاب نازل ہونے کے بعد تم دعا کرو گے مگر تمہاری دعا قبول نہیں کی جائے گی۔ (ترمذی۔ ابواب الفتن۔ باب ماجاء فی الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر)
تو آئندہ آنے والی ہر مصیبت سے بچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایک مومن نیک باتوں کی طرف لوگوں کو بلائے اور برائیوں سے انہیں روکے۔ تو جیسا کہ فرمایا کہ اس کام کو نہ کرنے کی و جہ سے تم پر عذاب آ سکتا ہے اور پھر دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ یہ نیک کام کرنے کی و جہ سے تمہاری دعائیں بھی قبول ہوں گی اور تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل بھی ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیک باتوں کے کرنے اور پھیلانے اور اسی طرح برائی سے رُکنے اور دوسروں کو روکنے کے بارے میں اس طرح توجہ فرماتے تھے کہ آپ نے نیک کام نہ کرنے والے سے لاتعلقی کا اظہار فرمایا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی فرمایا کرتے تھے کہ نیکیاں کرو اور نیکیاں بجا لاؤ۔
چنانچہ ایک روایت میں آپؐ فرماتے ہیں ’’و ہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے بچوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بوڑھوں کی عزت اور احترام کا حق ادا نہیں کرتا اور معروف باتوں کا حکم نہیں دیتا اور ناپسندیدہ باتوں سے منع نہیں کرتا۔‘‘ (ترمذی -کتاب البر والصلۃ – باب ما جاء فی رحمۃ الصِّبیان)
یعنی یہ معروف باتیں ہیں۔ اس حد تک کہ بچوں کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ کیونکہ ان سے حسن سلوک بھی نیک عمل میں ایک عمل ہے۔ اسی طرح بڑوں، بوڑھوں اور بزرگوں کی عزت کا اور احترام کا خیال رکھنا ہے اور اسی طرح اور دوسری نیکی کی باتیں ہیں جن کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ کرنی ضروری ہیں۔ اور جن برائیوں سے رُکنے کا حکم دیا گیا ہے ان برائیوں سے رُکنا بھی ضروری ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم اس طرح نہیں کرتے تو پھر میرا تمہارے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔