تقویٰ اور طہارت کے حصول کے لیےجوانی میں کوشش کی جائے
یہ زمانہ جو شباب اور جوانی کا زمانہ ہے ایک ایسا زمانہ ہے کہ نفس امارہ نے اس کو ردّی کیا ہوا ہے لیکن اگر کوئی کار آمد ایام ہیں تو یہی ہیں۔ حضرت یوسفؑ کی زبانی قرآن شریف میں درج ہے۔ وَمَاۤ اُبَرِّیٴُ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ (یوسف : ۵۴) یعنی میں اپنے نفس کو بری نہیں ٹھہرا سکتا کیونکہ نفس امارہ بدی کی طرف تحریک کرتا ہے۔اس کی اس قسم کی تحریکوں سے وہی پاک ہو سکتا ہے جس پر میرا رب رحم کرے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ کی بدیوں اور جذبات سے بچنے کے واسطے نری کوشش ہی شرط نہیں بلکہ دعائوں کی بہت بڑی ضرورت ہے نرا زُہد ظاہری ہی (جو انسان اپنی سعی اور کوشش سے کرتا ہے) کار آمد نہیں ہوتا جبتک خدا تعالیٰ کا فضل اور رحم ساتھ نہ ہو اور اصل تو یہ ہے کہ اصل زہد اور تقویٰ تو ہے ہی وہی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔حقیقی پاکیزگی اور حقیقی تقویٰ اسی طرح ملتا ہے ورنہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ بہت سے جامے بالکل سفید ہوتے ہیں اور باوجود سفید ہونے کے بھی وہ پلید ہو سکتے ہیں تو اس ظاہری تقویٰ اور طہارت کی ایسی ہی مثال ہے۔ تاہم اس حقیقی پاکیزگی اور حقیقی تقویٰ اور طہارت کے حصول کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسی زمانہ شباب و جوانی میں انسان کوشش کرے جبکہ قویٰ میں قوت اور طاقت اور دل میں ایک اُمنگ اور جوش ہوتا ہے۔اس زمانہ میں کوشش کرنا عقلمند کا کام ہے اور عقل اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے دی ہے۔
(ملفوظات جلد۴صفحہ ۲۰۰-۲۰۱، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
تکبر سے نہیں ملتا وہ دلدار
ملے جو خاک سے اس کو ملے یار
کوئی اس پاک سے جو دل لگاوے
کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے
پسند آتی ہے اس کو خاکساری
تذلل ہے رہِ درگاہِ باری
(درثمین صفحہ ۱۰۵)