رسول کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے دو دَور (قسط اول)
۱۹۵۷ء کےاس خطبہ جمعہ میں حضورؓ نے سورۃ النصر کی آیات کی روشنی میں نبی کریم ﷺ پر آنے والی مشکلات کا ذکر کیا اوربتایاکہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی مدد کی۔ قارئین کے استفادہ کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جارہا ہے۔(ادارہ)
اللہ تعالیٰ نے کمزوری اور بے بسی کے دَور میں بھی آپ کی مدد کی اور طاقت کے زمانہ میں بھی اپنی تائید و نصرت سے نوازا (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده یکم نومبر ۱۹۵۷ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندجہ ذیل آیاتِ قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:
اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَالۡفَتۡحُ۔ وَرَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا۔ فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَاسۡتَغۡفِرۡہُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا۔(النصر:۲تا۴)اس کے بعد فرمایا:
یہ قرآن کریم کی ایک مختصر سی سورۃ ہے اور بظاہر محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق ہے لیکن چونکہ آپ کے اتباع بھی قرآن کریم کے احکام کے مطابق آپ کے ماتحت ہیں اس لیے اس سے آپ کے تمام اتباع اور آپ سے محبت رکھنے والے چاہے وہ احمدی ہوں یا غیر احمدی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس سورۃ سے ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ پر دو زمانے آئے ہیں۔ ایک تو وہ زمانہ تھا جب نصر اللہ اور فتح نہیں آئی تھی اور ایک اُس زمانہ کے آنے کی پیشگوئی کی گئی ہے جب نصراللہ اور فتح آئے گی۔ اور وہ نصر اللہ اور فتح اِس طرح آٗئےگی کہ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًاتو دیکھے گا کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔گویا یہ چیز علامت ہوگی نصر اللہ اور فتح کی۔ جب لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے شروع ہوجائیں گے تو تجھے نظر آجائے گا کہ نصر اللہ اور فتح آگئی ہے۔
دوسری بات اس سورۃ میں یہ بتائی گئی ہے کہ ایسے وقت میں تجھے خدا تعالیٰ کی بہت تسبیح کرنی چاہیے اور اِستغفار سے کام لینا چاہیے۔ اور اللہ تعالیٰ سے بخشش اور اُس کی مدد طلب کرنی چاہیے کیونکہ تیرا خدا بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ دنیا میں اگر ہم کسی سےیہ کہیں کہ فلاں شخص بڑا مالدار ہے تو اس میں یہ اشارہ مخفی ہوتا ہے کہ اگر کسی وقت تمہیں مدد کی ضرورت ہو تو اس سے مدد مانگو۔یا اگر کہا جائے کہ فلاں شخص شہر کا بڑا رئیس ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اگر شہر میں فساد ہوجائے تو اس کے پاس جاؤ اور اس سے مدد طلب کرو۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ کو توّاب کہہ کر اِس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تمہارا خدا اپنے بندوں کی طرف بار بار فضل کے ساتھ رجوع کرنے والا ہے۔ اس لیے جب بھی تمہیں مشکلات پیش آئیں تمہارا کام یہ ہونا چاہیے کہ تم خدا تعالیٰ کی طرف جھکو اور اُس سے مدد چاہو۔ وہ اپنے فضل سے تمہاری ہر قسم کی خرابیوں اور نقائص کی اصلاح کے سامان پیدا فرما دے گا۔
غرض اِن آیات میں اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تجھ پر پہلے وہ زمانہ گزرا ہے کہ جب فتح اور نُصرت تیرے پاس نہیں آئی تھی۔ لیکن اب میں تجھے وہ زمانہ دکھاؤں گا جس میں تجھے نُصرت اور فتح میسر آجائے گی اور تو دیکھے گا کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ گویا نُصرت اور فتح کا ظاہری نمونہ اشاعتِ مذہب ہوگا۔ اور استغفار اور حمد کی قبولیت کا ظاہری نمونہ خدا تعالیٰ کی رحمت کا ظہور ہوگا۔ رسول کریم ﷺ کی غربت اور کمزوری کی حالت تو ان واقعات سے ظاہر ہے جو آپ کے دعویٰ نبوت کے ابتدائی سالوں میں آپ سے پیش آئے۔ ایک دفعہ آپ خانہ کعبہ کے قریب صفا پہاڑی پر بیٹھے ہوتے تھے اور کسی فکر میں تھے۔شاید آپ اِس فکر میں ہوں کہ خدا تعالیٰ نے میرے سپرد اتنا بڑا کام کیا ہے اسے میں کس طرح انجام دوں گا۔ آپ نے اپنا سر جھکایا ہوا تھا کہ اتنے میں آپ کے پاس سے ابو جہل گزرا اور اُس نے آپ کو گندی گالیاں دینی شروع کردیں۔ اور پھر اُس نے یہیں تک بس نہ کی بلکہ اس بدبخت نے اپنے پاؤں سے آپ کے کندھے پر ٹھوکر ماری اور اِس طرح آپ کو جسمانی رنگ میں بھی سخت اذیت پہنچائی مگر رسول کریم ﷺ نے اُسے کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے اُٹھ کر اپنے گھر چلے گئے۔ رسول کریم ﷺ کے خاندان کی ایک پرانی بڑھیا لونڈی تھی جس نے گھر کے کئی بچوں کو پالا تھا جو اَب بڑی عمر کے ہوچکے تھے۔وہ لونڈی دروازہ میں کھڑی یہ سب نظارہ دیکھ رہی تھی۔ حضرت حمزہ ؓ اُس وقت شکار کو گئے ہوئے تھے۔ جب وہ واپس آئے تو وہ لونڈی بڑے غصہ سے کہنے لگی کہ تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو اور ہر وقت اسلحہ سے مسلح رہتے ہو تمہیں شرم نہیں آتی کہ ابھی میں نے دیکھا کہ تیرا بھتیجا محمد (ﷺ) سامنے پتھر پر بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں ابو جہل آیا اور اُس نے اُسے گندی گالیاں دینی شروع کردیں اور اپنے پاؤں سے اُسے ٹھوکر ماری اور خدا کی قسم ! جب اُس نے گالیاں دیں اور ٹھوکر ماری اُس وقت میں سامنے کھڑی تھی۔ اُس نے ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا اور خاموشی سے اُس کی گالیاں سنتا رہا اور تکلیف برداشت کرتا رہا۔ حضرت حمزہؓ کو یہ سن کر غیرت آئی۔ وہ وہیں سے اُلٹے پاؤں لوٹے اور خانہ کعبہ میں گئے۔ وہاں اتفاقاً رؤسائے مکہ کے سامنے بیٹھا ابوجہل بڑا فخر کر رہا تھا کہ میں نے آج محمد (ﷺ) کو گالیاں دیں اور وہ بالکل ڈر گیا اور آگے سے بول بھی نہیں سکا۔اتنے میں حضرت حمزہؓ وہاں پہنچ گئے اور اپنی کمان زور سے اس کے سر پر مار کر کہا کمبخت! اگر تجھے بہادری کا دعویٰ ہے تو آ اور میرے ساتھ لڑ۔ ورنہ شرم کر کہ محمد(ﷺ) نے توتجھے کچھ نہیں کہا مگر پھر بھی تونے اُسے گالیاں دیں اور بُرا بھلا کہا۔ میں نے اب سارے مکہ والوں کے سامنے تجھے ماراہے۔ اگر تجھ میں ہمت ہے تو میرا مقابلہ کر۔ مکہ کے رؤساءجوش میں اٹھے اور انہوں نے مقابلہ کرنا چاہا مگر ابو جہل ایسا گھبرایا کہ وہ کہنے لگا۔تم حمزہؓ سے کچھ نہ کہو۔ مجھ سے ہی آج زیادتی ہوگئی ہے اور قصور میرا ہی ہے۔(سیرت ابن ہشام جلد1صفحہ 312،311 مطبوعہ مصر1936ء)
اب دیکھ لو! ایک زمانہ وہ تھا کہ ایک شخص نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور خدا اُسے یہ کہتا ہے کہ اے محمد! (ﷺ) جا اور دنیا میں میرا نام پھیلا۔ لیکن اُس کا حال یہ ہے کہ ایک شخص خود اُس کے گھر کے سامنے اُسے گالیاں دیتا ہے اور وہ اِتنا بھی نہیں کر سکتا کہ اسے کوئی جواب دے۔ مگر حکم یہ ہے کہ ساری دنیا میں جاکر خدا تعالیٰ کا نام پھیلا۔ دیکھو ! عہدہ کتنا بڑا دیا گیا ہے اور آپ کی حیثیت کتنی کمزور اور قابل رحم تھی۔ تو اِس سورۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد!(ﷺ) تجھ پر وہ زمانہ بھی گزرا ہےجب تو بالکل فقیر، غریب اور یتیم تھا اور دنیا کی مدد کا محتاج تھا لیکن اب تجھ پر وہ زمانہ آنے والا ہے۔ جب ہزاروں ہزار لوگ تیری بیعت کریں گے اور تیرے قدموں پر اپنی جانیں قربان کریں گے۔ تُو اُس زمانہ کو بھی دیکھ اور اِس زمانہ کو بھی دیکھ جب تیری پیشگوئیاں پوری ہو رہی ہیں۔ تجھے بتایا گیا تھا کہ ایک دن تیری تبلیغ کے رستے کھل جائیں گے۔چنانچہ اب وہ رستے کھل گئے ہیں۔ اب تو سمجھ لے کہ تیرا خدا کتنا زبردست ہے۔ جب تُو کچھ بھی نہیں تھا اُس وقت بھی اُس نے تیری مدد کی اور اب جو تُو طاقتور ہوگیا ہے اور ساری دنیا میں تیری تبلیغ کے رستے کھل گئے ہیں تب بھی وہ خدا تیری مدد کو آئے گا اور تیری تائید کرے گا۔
دوسرا واقعہ آپ کی کمزوری کا تاریخوں میں یہ آتا ہے کہ ہجرت کے قریب آپ اپنے ایک غلام کو ساتھ لے کر خدائے واحد کا نام پھیلانے کے لیے طائف تشریف لے گئے۔ مکہ کا قانون یہ تھا کہ جب تک کوئی شخص مکہ میں رہے اُس وقت تک وہ مکہ کی پناہ میں ہوتا تھا لیکن اگر وہ وہاں سے چلا جائے تو وہ دوبارہ مکہ میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ کیونکہ یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ وہ مکہ کا شہری نہیں رہا اور پھر جب تک مکہ کا کوئی بڑا رئیس اسے پناہ نہ دے۔ وہ شہر میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔جب رسول کریم ﷺ طائف سے واپس تشریف لا رہے تھے تو آپ کے غلام نے آپ سے کہا کہ آپ ایک دفعہ مکہ سے باہر چلے گئے تھے اور مکہ کے قانون کے مطابق اب آپ اِس شہر کے نہیں رہے۔ اس لیے آپ مکہ میں اُس وقت داخل ہو سکتے ہیں جب وہاں کا کوئی رئیس آپ کو پناہ دے۔اس پر رسول کریم ﷺ نے ایک شخص سے کہا کہ میں مکہ والوں میں سے مطعم بن عدی کو جانتا ہوں کہ وہ شریف الطبع انسان ہے۔ تم اُس کے پاس جاؤ اور اُس سے جا کر کہو کہ محمد (ﷺ) مکہ کے دروازہ پر کھڑا ہے اور وہ کہتا ہے کہ تم مجھے پناہ دو۔ میں خانہ کعبہ میں خدا تعالیٰ کی پرستش کرنا چاہتا ہوںاور اس غرض سے آیاہوں کہ تم مجھے پناہ دینے کے لیے تیار ہو۔وہ مطعم بن عدی کے پاس گیا اور اُسے آپ کا پیغام دیا۔ مطعم بن عدی نے اُسی وقت اپنے بیٹوں کو بلایا اور کہا اپنی تلواریں سونت لو۔ شہر کے دروازہ پر محمد (ﷺ) کھڑا ہے اور وہ شہر میں آنا چاہتا ہے۔اور اُس کے شہر میں آنے کی غرض محض خدا تعالیٰ کی عبادت ہے اور یہ ایسا مقدس کام ہے کہ اس کے لیے اگر ہم اپنی جانیں بھی لڑا دیں تو کم ہے۔ چنانچہ اُس کے بیٹے اُس کے ساتھ چل پڑے اور وہ دروازہ پر آیا۔ محمد رسول اللہﷺ وہاں کھڑے تھے۔ مطعم بن عدی نے کہا آئیے اور ہمارے آگے آگے چلیے۔ ہم آپ کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔ اور اگر کسی نے آپ کو ذرا بھی چھیڑا تو ہم اُس کی گردن اڑا دیں گے۔ چنانچہ وہ آپ کو اپنے بیٹوں کی حفاظت میں آپ کے گھر چھوڑ آیا۔(طبقات ابن سعد جلد1صفحہ212مطبوعہ بیروت1985ء)
غرض یہ بھی ایک تنگی کا وقت تھا کہ آپ مکہ کے قانون کے مطابق شہر بدر کر دیےگئے تھے اور آپ سوائے اس کے کہ کوئی کافر رئیس آپ کو پناہ دے مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔
پھر تیسرا واقعہ آپ کے ضعف کا وہ آتا ہے جب کہ ہجرت کا وقت آیا اور کفار نے مشورہ کیا کہ آپ رات کو گھر میں لیٹے ہوئے ہوں تو آپ کو قتل کر دیا جائے۔ اُس وقت بھی آپ میں کوئی طاقت نہیں تھی۔ اگر دشمن چاہتے تو آپ کو بڑی آسانی سے قتل کر سکتے تھے۔ یہ خدا تعالیٰ کا ہی نشان تھا کہ رسول کریم ﷺ بڑی دلیری سے گھر سے باہر نکلے۔ آپ نے دیکھا کہ کافر چاروں طرف کھڑے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرّف کیا کہ آپ ان کے درمیان سے نکل گئے اور وہ آپ کو دیکھ نہ سکے۔اُن کی خود اپنی راویت ہے کہ ہمیں محمد (ﷺ) نظر ہی نہیں آیا۔ اگر وہ ہمیں نظر آتا تو ہم اُسے مار نہ ڈالتے؟ آپ سیدھے حضرت ابوبکرؓ کے گھر تشریف لے گئے اور اُن کو ساتھ لے کر غار ثور کی طرف چلے گئے۔ پھر تاریخوں میں آتا ہے کہ کُفار نے آپ کا پیچھا کیا اور وہ غارِ ثور کے منہ تک پہنچ گئے اور جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کو دیکھ کر گھبرائے تو آپ نے فرمایا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔(کنز العمالجلد16صفحہ 661تا664مطبوعہ دمشق2012ء)ابوبکر! ڈرو نہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ مکہ والوں نے اعلان کیا تھا کہ جو شخص محمد(ﷺ) کو زندہ یا مردہ واپس لائے ہم اُسے سَو اونٹ انعام دیں گے۔ اِس لالچ میں ہر طرف آپ کی تلاش شروع ہوگئی اور جب آپ مدینہ کی طرف تشریف لے جا رہے تھے تو ایک شخص سُراقہ نامی انعام کے لالچ میں آپ کے پیچھے پیچھے آیا۔ اور جب اُس نے آپ کو دیکھ لیا تو آپ پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھا۔ اب دیکھو ! یہ کتنی بے دست و پائی کی بات ہے کہ ایک کافر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کو بچانے والا کوئی نہیں۔ مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو اس موقع پر بھی بچا لیا۔ چنانچہ جب وہ حملہ کی نیت سے آپ کے پاس پہنچا تو اُس کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے۔ اُس نے بہت کوشش کی مگر اس کے پاؤںنہ نکلے۔اِس بات کا اُس کی طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے سمجھ لیاکہ محمد رسول اللہ ﷺ ضرور سچے ہیں۔ چنانچہ وہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں آپ کو پکڑنے کی نیت سے آیا تھا مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ آپ واقع میں خدا تعالیٰ کے رسول ہیں اور وہ آپ کو ایک دن سارے عرب پر قبضہ بخشے گا۔ آپ مہربانی فرما کر مجھے ایک پروانہ لکھ دیں کہ جب خدا تعالیٰ آپ کو بادشاہ بنائے گا تو مجھے امن دیا جائے گا۔چنانچہ آپ نے حضرت ابوبکرؓ کے غلام عامر بن فہیرہ سے فرمایا کہ اسے میری طرف سے یہ تحریر دے دو۔ (سیرت ابن ہشام جلد1صفحہ 547،546مطبوعہ دمشق2005ء)وہ بعد میں ہمیشہ یہ تحریر لوگوں کو دکھا تا تھا اور بڑے فخر کے ساتھ کہا کرتا تھا کہ میں نے محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے ہی معافی حاصل کی ہوئی ہے۔ گویا اُس شخص نے محسوس کر لیا کہ جس شخص کی حفاظت اس صورت میں ہوئی ہےکہ جب میں حملہ کرنے لگا تو میرے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے۔ وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ غرض رسول کریمﷺ پر ضعف اور کمزوری کے ایسے زمانے گزرے ہیں جن کی مثال دنیا میں اَور کہیں نہیں مل سکتی۔(باقی آئندہ)