منظوم کلام حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام
ہائے میری قوم نے تکذیب کر کے کیا لیا
زلزلوں سے ہو گئے صدہا مساکن مثلِ غار
شرط تقویٰ تھی کہ وہ کرتے نظر اس وقت پر
شرط یہ بھی تھی کہ کرتے صبر کچھ دن اور قرار
کیا وہ سارے مرحلے طے کرچکے تھے علم کے
کیا نہ تھی آنکھوں کے آگے کوئی رہ تاریک و تار
دل میں جو اَرماں تھے وہ دل میں ہمارے رہ گئے
دشمنِ جاں بن گئے جن پر نظر تھی بار بار
ایسے کچھ بگڑے کہ اب بننا نظر آتا نہیں
آہ کیا سمجھے تھے ہم اور کیا ہوا ہے آشکار
کس کے آگے ہم کہیں اس دردِ دل کا ماجرا
اُن کو ہے ملنے سے نفرت بات سننا دَرکنار
کیا کروں کیونکر کروں میں اپنی جاں زیر و زبر
کس طرح میری طرف دیکھیں جو رکھتے ہیں نقار
اِس قدر ظاہر ہوئے ہیں فضلِ حق سے معجزات
دیکھنے سے جن کے شیطاں بھی ہوا ہے دِلفگار
پر نہیں اکثر مخالف لوگوں کو شرم و حیا
دیکھ کر سَو سَو نشاں پھر بھی ہے تَوہِیں کاروبار
صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں
اِک نشاں کافی ہے گر دِل میں ہے خوفِ کردگار
دِن چڑھا ہے دُشمنانِ دیں کا ہم پر رات ہے
اے مرے سورج نکل باہر کہ میں ہوں بے قرار
اے مرے پیارے فِدا ہو تجھ پہ ہر ذرّہ مرا
پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار
(در ثمین صفحہ ۱۴۶تا۱۴۷)