متفرق مضامین

خطباتِ جمعہ اور خطباتِ عیدین میں رسول اللہ ﷺ کی سنّتِ مطہرہ

(قمر داؤد کھوکھر۔ آسٹریلیا)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (النمل: ۶۰) تو کہہ دے اللہ ہی ہر تعریف کا مستحق ہے اور سلامتی ہو اس کے ان بندوں پر جن کو اس نے چن لیا ہے۔

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی آلِہٖ بِعَدَدِ ہَمِّہٖ وَ غَمِّہٖ وَحُزْنِہٖ لِہٰذِہِ الْاُ مَّۃِ وَ اَنْزِلْ عَلَیْہِ اَنْوَارَ رَحْمَتِکَ اِلیَ الْاَبَدِ۔

اللہ تعا لیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں رسول اللہﷺ کے بارےمیں یہ فرمایا ہے کہ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب: ۲۲) تمہارے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک اعلیٰ نمو نہ ہے۔اللہ تعا لیٰ نے اس آیت کے ذریعہ رسول اللہﷺ کو مومنوں اور مسلمانوں کے لیے اسوہٴ حسنہ قرار دے کر یہ بتا دیا ہے کہ رسولﷺ کا ہر قول اور فعل وعمل قابل تقلید اور قابل پیروی ہے اور اسی اتباع نبویؐ میں ہی ہر قسم کی دینی و دنیوی اور اخروی فلاح اور کامیابی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے قرآن کریم کی ۱۹؍آیات میں جہاں اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہیں رسول اللہﷺ کی اطاعت کا حکم بھی ارشاد فرمایا ہے اور گیارہ مختلف مقامات پر صرف رسولﷺ کی اطاعت کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔اور ایک مقام پر اس امر کی بھی وضاحت فرمادی کہ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النساء:۸۱)کہ جس نے بھی رسولﷺ کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی ہی اطاعت کی ہے۔

اسی طرح اللہ تعا لیٰ نے مومنو ں کو اپنے کلام مجید میں یہ حکم بھی دیا کہ مَآ اٰ تٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا (الحشر: ۸) رسول جو کچھ تم کو دے اس کو لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔

اطاعت سے اگلے قدم کے طور پر یہ بات بھی مومنوں کے فائدہ کے لیے بیان فرمادی ہے کہ رسول اللہﷺ کے طریق مبارک سے ہٹ کر کوئی طریق نہ اپناؤ اور نہ ہی آپؐ کی سنت مطہرہ سے سرِِمو انحراف کرو جیساکہ ایک مقام پر اللہ تعا لیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ یٰٓاَ یُّھَا الَّذِ یْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّ مُوْا بَیْنَ یَدَ یِ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ ا تَّقُوا اللّٰہَ( الحجرات:۲) اے مومنو!اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش قدمی نہ کیا کرو، اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اس آیت میں مومنین کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے بالمقابل کسی قول و فعل میںپیش قدمی نہ کیا کریں۔ اور ایک دوسرے مقام پر فرمایاکہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِ یْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلاَ تُبْطِلُوْا اَعْمَالَکُمْ ( محمدؐ : ۳۴)اے مومنو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرواور اپنے اعمال کو باطل نہ کرو۔یعنی اگر رسول اللہﷺ کی اطاعت نہ کی تو تمہارے اعمال باطل ہو جائیں گے، حبط ہو جائیں گے اور اللہ تعا لیٰ کے نزدیک ان کی کوئی وقعت باقی نہیں رہے گی۔ اس لیے کسی نیک کام کی نیت خواہ کچھ ہی ہو جب تک وہ عمل اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اتباع میں نہ ہو اس کی کوئی وقعت نہیں۔

اس تمام بحث کا ماحصل یہی ہے کہ رسول اللہﷺ کی اطاعت اسوہ حسنہ میں اور تمام اعمال و افعال(سنت مطہرہ) میں نہ صر ف لازمی بلکہ اعمال کے اللہ کے حضور مقبول ہونے کے لیے بھی ضروری ہیں۔ اس پہلو کو مد نظر رکھتے ہو ئے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ خطبات جمعہ اور خطبات عیدین میں رسول اللہﷺ کا کیا اسوہ ہے اور آپؐ کی سنت مطہرہ کیا تھی؟ ذیل کی سطور میں اسی پہلو کو اجاگر کرنے کی کو شش کی جائے گی۔ و با للہ التوفیق

خطبہ کے معنی

لغت میں خطبہ مطلقاً تقریر، گفتگو اور اس کلام کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہو۔ خطبہ کا لفظ وعظ و نصیحت کے معنوں میں آتا ہے۔ ( المفردات امام راغبؒ ) شریعت کی اصطلاح میں ’’خطبۃ ‘‘اس کلام اور مجمو عہ الفاظ کو کہتے ہیں جو پند و نصائح، ذکر و ارشاد، درود و سلام اور شہادتین پر مشتمل ہو۔

اسلامی شرعی اصطلاح میں خطبات دو طرح کے ہوتے ہیں یعنی خطبہ عبادت اور خطبہ تعلیم و تذکیر۔ قرآن کریم کی سورۃ الجمعہ کی آیت:۱۰ فَا سْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ۔ اللہ کے ذکر کی طرف جلدی آؤ، میں جس ذکر اللہ کا ذکر ہے اس سے مراد نماز جمعہ بھی ہے اور خطبہ جمعہ بھی کیونکہ اللہ تعا لیٰ نے یہا ں لفظ ذکر استعمال فرمایا ہے تذکیر نہیں فرمایا۔ اس لیے خطبہ جمعہ ایک عبادت کا درجہ رکھتا ہے جس میں تذکیر و تعلیم ضمناً آ جاتی ہے اصل میں یہ خطبہ ذکر و عبادت ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں خطبہ جمعہ کے دوران بات کرنا یا بولنا نہ صرف منع ہے بلکہ سخت ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ اگر خطبہ جمعہ عام خطبہ یا خطاب کی طرح ہو تا تو دوران خطبہ بات کرنے والے کو روکنا بھی لغو حرکت نہ قرار دیا جاتا۔

اس خطبہ جمعہ کے علاوہ جو بھی خطبات ہو تے ہیں وہ سب خطبات تعلیم کے زمرہ میں آتے ہیں جن کے لیے کوئی خاص وقت اور دن مقرر نہیں۔ رسول اللہﷺ اور خلفائے راشدینؓ نے بھی خطبات تعلیم بلا تعین اوقات ارشاد فرمائے ہیں جو کتب احادیث و آثار میں مذکور و محفوظ ہیں۔

جہاں تک خطبہ جمعہ کے موضوعات اور مضامین کا تعلق ہے تو حضرت جابر ؓکی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ خطبہ جمعہ میں قرآن کی آیت تلاوت فرماتے اور لو گو ں کو نصیحت کرتے۔ اس حدیث سے یہ امر واضح ہے کہ خطبہ کا موضوع اللہ کا ذکر اور مومنوں کو وعظ و نصیحت ہی ہے تاہم فقہائے اسلام نے خطبہ جمعہ میں پانچ با تو ں کو مسنون قرار دیا ہے یعنی(۱) اللہ کی حمد(۲) تشہد(۳) رسول اللہﷺ پر درود(۴) تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت، (۵) مومنین کے لیے دعا۔

خطبات جمعہ اور عیدین میں رسول اللہﷺ کی سنت مطہرہ

کتب احادیث اور سیرۃ النبیﷺ کی کتب کے مطالعہ سے خطبات جمعہ اور خطبات عیدین میں رسول اللہﷺ کی سنت مطہرہ کے حسب ذیل امور سامنے آتے ہیں :

(۱) رسول اللہﷺ جب خطبہ بیان فرماتے تو سر پر عمامہ بندھا ہو تا تھا۔ حضرت عمرو بن حریث ؓ بیان کرتے تھے کہ نبی کریمﷺ نے جمعہ کے روز اس حال میں خطبہ ارشاد فرمایا ہے کہ آپؐ کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا جس کے دونوں کنارے( شملے) اپنے مونڈھو ںکے درمیان چھوڑ رکھے تھے۔ ( مشکوٰ ۃ المصابیح، باب الخطبۃ والصلوٰۃ) علامہ طیبی ؒ فرماتے ہیں کہ ’’حدیث بالا سے یہ مفہوم واضح ہو تا ہے کہ جمعہ کے روز زیبائش اختیار کرنا، اچھا اور عمدہ لباس زیب تن کرنا، سیاہ عمامہ باندھنا اور عمامہ کے دونو ں کنارو ں کو دو نو ں مونڈھو ں کے درمیان لٹکانا سنت ہے۔ ‘‘( مظاہر حق جدید شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد اول صفحہ ۸۸۶، شائع کردہ دارالاشاعت کراچی، مارچ ۲۰۰۶ء)

(۲) رسول اللہﷺ جب خطبہ کے لیے کھڑے ہوتے تو خطبہ شروع کرنے سے پہلے اَلسَّلاَ مُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ کے کلمات سے حاضرین صحابہ ؓکو متوجہ فرماتے تھے۔

(۳) رسول اللہﷺ خطبہ ہمیشہ کھڑے ہو کر دیتے تھے۔ اور تیر و کمان کا سہارا لیا کرتے تھے۔ کبھی عصا ہاتھ میں ہوتا تھا تو اس پر ٹیک لگا لیا کرتے تھے۔ حضرت براء ؓ بیان کرتے ہیں کہ عید کے دن نبی کریمﷺ کی خدمت میں کمان پیش کی گئی تو آپؐ نے اس کا سہارا لے کر خطبہ ارشاد فرمایا۔حضرت عطاء ؒ بطریق ارسال روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺجب خطبہ ارشاد فرماتے تو اپنے نیزے پر ٹیک لگا لیا کرتے تھے۔ ( مشکوٰ ۃ المصابیح، باب الخطبۃ والصلوٰۃ)

جب منبر(Pulpit) بن گیا تو پھر اس کی طرف منتقل ہو گئے۔ آپؐ کے منبر کی تین سیڑھیاں تھیں۔ منبر بننے سے پہلے ایک کھجور کے تنے کے ساتھ ٹیک لگایا کرتے تھے جب آپؐ منبر کی طرف منتقل ہو گئے تو وہ کھجور کا تنا رو پڑا اور اہل مسجد (صحابہؓ) نے اس کے رونے کی آواز سنی۔ چنانچہ رسول اللہﷺ منبر سے اتر پڑے اور اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ (آج کے دور میں اسی سنت کی پیروی میں ڈائس Dais یا Rostrumکا سہارا لیا جاتاہے۔) (صحیح بخاری،کتاب الانبیاء، باب علامات النبوۃ)

رسول اللہؐ جب منبرپر تشریف لاتے تو رُوئے مبارک حاضرین کی طرف کر کے سلام کرتے پھر بیٹھ جاتے اور حضرت بلالؓ اذان شروع کر دیتے تھے۔ اذان ختم ہوتے ہی بغیر وقفہ کے کھڑے ہو جاتے اور خطبہ ارشاد فرماتے۔ خطبہ اولیٰ کے بعد بیٹھ جاتے اور فوراً کھڑے ہو کر خطبہ ثانیہ دیتے تھے۔

عید گا ہ میں جہاں رسول اللہﷺ نے عید کی نماز پڑھائی وہاں کو ئی منبر نہ تھا۔وہاں رسول اللہﷺنے زمین پر ہی کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا۔ حضرت جابر ؓکی روایت میں یہ ذکر ملتا ہے کہ آپؐ نے عید کی نماز سے فارغ ہو نے کے بعد حضرت بلالؓ کے کاندھے کا سہارا لےکر خطبہ ارشاد فرمایا۔ کبھی خطبہ اونٹنی پر بیٹھ کر بھی ارشاد فرمایاجیسا کہ حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت میں مذکور ہے۔ یا جیسا کہ خطبہ حجۃ الوداع رسول اللہﷺ نے اپنی اونٹنی قصویٰ پر بیٹھ کر دیا تھا گو کہ یہ خطبہ جمعہ نہیں تھا۔

قرآن کریم کی سورۃ الجمعہ کی ا ٓیت کے الفاظ وَ تَرَکُوْکَ قَآ ئِمًااور تجھے اکیلا کھڑا ہو اچھوڑ دیں گے، سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ خطبہ کھڑے ہو کر ہی ارشاد فرماتے تھے۔ امام شافعی ؒکے نزدیک کھڑے ہو کر خطبہ پڑھنا خطبہ کی شرط ہے جبکہ حنفیہ کے نزدیک سنت ہے۔ ( مظاہر حق جدید شرح مشکوٰ ۃ المصابیح، جلد اول صفحہ ۸۹۰،شائع کردہ دارالاشاعت کراچی، مارچ۲۰۰۶ء)

(۴) رسول اللہﷺ خطبہ کے آغاز میں اللہ تعا لیٰ کی حمدو تعریف بیان فرماتے جس کا وہ مستحق ہے۔کبھی آپؐ فرماتے: اَنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ اَحْمَدُہٗ یعنی کامل حمد کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہے میں اس کی حمد بیان کرتا ہو ں۔ اور کبھی اللہ تعا لیٰ کی حمد کے لیے یہ کلمات ادا فرماتے: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَ نَسْتَعِیْنُہٗ ہر حمد کا مستحق اللہ ہی ہے، ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں۔

(۵) رسول اللہﷺ خطبہ کے آغاز میں تشہد بھی پڑھتے تھے۔ آ پﷺ نے فرمایا: جس خطبہ میں تشہد نہ ہو وہ : یَدِ جَذْ مَاء یعنی ایک ٹنڈے ( کٹے ہو ئے) ہاتھ کی مانند ہے۔(جامع ترمذی، مشکوٰۃ المصابیح، باب اعلان النکاح، حدیث نمبر۳۰۱۵)

(۶) رسول اللہﷺ خطبہ میں تشہد یا حمد و ثنا ء کے بعد ’’اَمَّا بَعْد‘‘کے الفاظ ادا فرماتے تھے۔ شارحین حدیث نے یہ لکھا ہے کہ’’اَمَّا بَعْدُ ‘‘کے الفاظ سب سے پہلے حضرت داؤد علیہ السلام نے استعمال فرمائے تھے۔قرآن کریم کی سورۃ صٓ کی آیت ۲۰میں اللہ تعا لیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو ’’فصل الخطاب ‘‘کے عطا کیے جانے کا ذکر فرمایا ہے۔ بعض مفسرین نے’’فصل الخطاب ‘‘سے ’’اَمَّا بَعْدُ‘‘کے الفاظ مراد لیے ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں امام شعبیؒ نے لکھا ہے کہ حمد و ثناء کے بعد جب آدمی مقصد بیان کرنا چا ہتا ہے اور بیان مقصد سے پہلے ’’اَمَّا بَعْدُ‘‘کہتا ہے تو یہ فصل الخطاب ہے۔ ( تفسیر مظہری، از قاضی محمد ثناء اللہ مجددی پانی پتی متوفی ۱۲۲۵ ہجری، زیر آیت سورۃ صٓ، جلد ۱۰صفحہ ۶۴-۶۳، مطبوعہ دارالاشاعت کراچی ۱۹۹۹ء)

علامہ بیضاویؒ نے لکھا ہے کہ ’’ اَمَّا بَعْدُ ‘‘ کے الفاظ فصل الخطاب اس لیے ہیں کہ یہ حمد و ثناء کو بیانِ مقصد سے جدا کر دیتے ہیں۔ ( تفسیر بیضاوی زیر آیت ھذا )

ایک روایت کے مطابق ’’ اَمَّا بَعْدُ‘‘ کے الفاظ سب سے پہلے کعب بن لو ئی نے استعمال فرمائے تھے۔ زمانہ جا ہلیت میں کعب بن لوئی وہ پہلا شخص تھا جس نے جمعہ کے دن کا نام عروبہ رکھا یعنی عظمت والا کھلا ہوادن۔کعب ہی نے سب سے پہلے عربی خطبہ میں ’’ اَمَّا بَعْدُ ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے۔ بیان کیا جا تا ہے کہ عروبہ کے دن قریش کے لوگ کعب کے پاس جمع ہوتے تھے، کعب ان کو خطاب کرتا تھااور رسول اللہﷺ کی بعثت کی خبر دیتا تھا اور آپؐ کی پیدائش سے آگاہ کرتا تھا اور حکم دیتا تھا کہ جب پیدا ہو جائیں تو ان پر ایمان لانا اور ان کی پیروی کرنا۔کعب کی وفات اور رسول اللہﷺ کی بعثت میں ۵۶۰ سال کا وقفہ تھا۔ (تفسیر مظہری از قاضی محمد ثناء اللہ مجددی پانی پتی متوفی ۱۲۲۵ ہجری، زیر آیت سورۃ الجمعہ :اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلوٰۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ، مطبوعہ دارالاشاعت کراچی ۱۹۹۹ء)

اسلامی احکام کے مطابق خطبہ میں تشہد یا اللہ تعا لیٰ کی حمدو ثناء کے بعد جب ’’ اَمَّا بَعْدُ ‘‘ کے الفاظ کہے جاتے ہیں تو یہ بتانے کے لیے کہ خطبہ کا ابتدائی حصہ ایک تمہید تھی جسے ’’ اَمَّا بَعْدُ ‘‘کے الفاظ نے اصل خطاب سے جدا کر دیا ہے یعنی اصل خطاب اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔

امام بخاری ؒ نے رسول اللہﷺ کی صرف اِس ایک سنت کے بیان کرنے کے لیے کتاب الجمعہ میں ایک علیحدہ باب:مَنْ قَالَ فِیْ خُطْبَۃِ الثَّناَءِ ’’ اَمَّا بَعْدُ‘‘ کے عنوان سے قائم کیا ہے اور اس باب کے تحت سات احادیث درج کی ہیں۔ اسی سے رسول للہﷺ کی خطبات میں سنتوں کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔

(۷) رسول اللہﷺ کے بعض خطبات کے آغاز میں یہ کلمات بھی ملتے ہیں: فَاِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ وَ خَیْرَ ھَدْیٌ ھَدْیُ مُحَمَّدٍﷺ وَ شَرَّ الْاُ مُوْرِ مُحْدَثَا تُھَا وَ کُلُّ مُحْدَ ثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَ کُلُّ بِدْ عَۃٍ ضَلَا لَۃٌ وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ یعنی سب سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور سب سے زیادہ ہدایت یافتہ اور خیر کا راستہ محمدﷺ کا ہے۔اور بد ترین کام وہ ہیں جو دین میں نئے داخل کر لیے جائیں۔ اور یہ تمام داخل کیے جانے والے کام بدعت ہیں اور تمام بدعتیں گمراہیاں ہیں اور تمام گمراہیاں دوزخ میں لے جانے والی ہیں۔ ( صحیح مسلم کتاب الجمعۃ باب تخفیف الصلوٰۃ، مسند احمد، سنن نسائی)

(۸) رسول اللہﷺ افصح العرب تھے اور آ پﷺ کو اللہ کی طرف سے جوامع الکلم عطا کیے گئے تھے یعنی ایسے کلمات جو با وجود مختصر ہونے کے معانی کثیرہ اور حقائق عظیمہ پر مشتمل ہوں۔ آپؐ کے خطبہ کے کلمات مختصر اور جوامع الکلم کا شاہکار ہو تے تھے۔ رسول اللہﷺ کا سب سے بہترین خطبہ وہ ہے جو رسول اللہﷺ نے غزوہ تبوک کے موقع پر دیا تھا۔ یہ خطبہ جوامع الکلم میں سے ہے۔ اس خطبہ کے اصل عربی الفاظ بھی محفوظ ہیں اور ان کا ترجمہ بھی موجود ہے۔

(۹) رسول اللہﷺ جب خطبہ دیتے تو ایک خطبہ کے بعد بیٹھ جاتے اور پھر دوبارہ کھڑے ہو کر دوسرا خطبہ دیتے۔ حضرت جابر بن سَمُرۃ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ دو خطبات بیان فرمایا کرتے تھے اور دونو ں کے درمیان بیٹھا کرتے تھے ان خطبو ں میں آپؐ قرآن کریم پڑھتے تھے اورلوگوں کو نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ فَکَانَتْ صَلَا تُہٗ قَصْدًا وَ خُطْبَتُہٗ قَصْدً ا نیز آپؐ کی نماز بھی اوسط درجہ کی ہو تی تھی اور خطبہ بھی اوسط درجہ کا ہو تا تھا۔ یعنی نہ بہت زیادہ طویل ہو تا تھا اور نہ بالکل ہی مختصر۔ ( مشکوٰ ۃ المصابیح، باب الخطبۃ والصلوٰۃ حدیث: ۱۳۲۱)

(۱۰) خطبہ ثانیہ: رسول اللہﷺ دو نو ں خطبو ں کے درمیان اس قدر بیٹھا کرتے تھے کہ جسم مبارک کا ہر ہر عضو اپنی اپنی جگہ پر آجاتا تھا۔چنانچہ فقہاء نے دونوں خطبو ں کے درمیان بیٹھنے کا صرف اتنا عرصہ مقرر کیا ہے کہ جس میں تین مرتبہ ’’سبحان اللہ ‘‘ کہا جا سکے۔ یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ صحیح طور پر یہ ثابت نہیں ہے کہ نبی کریمﷺ دو نو ں خطبات کے درمیان بیٹھ کر کو ئی دعا پڑھتے تھے۔ اس امر کی مزیدوضاحت ایک دوسری حدیث سے ہو تی ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ بیان کرتے تھے کہ نبی کریمﷺ دو خطبے اس طرح پڑھا کرتے تھے کہ جب آپؐ منبر پر چڑھتے تو پہلے بیٹھتے یہاں تک کہ مؤذن فارغ ہو تا۔ پھر آپؐ اٹھتے پہلا خطبہ ارشاد فرماتے پھر تھوڑی سی دیر بیٹھتے (لیکن اس بیٹھنے کے درمیان ) کوئی کلام نہ کرتے، پھر کھڑے ہو تے اور دوسرا خطبہ ارشاد فرماتے۔ دو نو ں خطبو ں کے درمیان بیٹھنے کی مقدار کے بارےمیں علامہ ابن حجرکا ارشاد ہے کہ اَولیٰ یہ ہے کہ سورۃ الاخلاص پڑھنے کے بقدر بیٹھنا چاہیے۔ ’کو ئی کلام نہ کرتے‘ کا مطلب یہ ہے کہ دو نو ںخطبو ں کے درمیان بیٹھنے کے عرصہ میں نہ تو آپؐ دعا کرتے تھے اور نہ کچھ اَورپڑھتے تھے۔ ( مظاہر حق جدید شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد اول صفحہ ۸۸۹، شائع کردہ دارالاشاعت کراچی، مارچ ۲۰۰۶ء)

بالعموم خطبہ ثانیہ میں صرف مسنون عربی خطبہ ہی پڑھا جاتا ہے جو نبی کریمﷺ کی زبان مبارک سے نکلے ہو ئے کلمات ہی ہیں۔ فقہ احمدیہ میں خطبہ ثانیہ سے متعلق یہ مذکور ہے کہ دوسرا خطبہ وہی مسنون عربی کا پڑھنا ضروری ہے جو خود رسول کریمﷺ کا بتا یا ہوا ہے۔… دوسرا خطبہ خالصتاً قرآنی آیات اور ادعیہ ماثورہ پر مشتمل ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ خلیفہ وقت کا عمل ایک استثنائی صورت ہے لیکن عام ہدایت یہی ہے کہ کوئی ضروری بات بامر مجبوری دوسرے خطبہ میں بیان کی جاسکتی ہے۔ لمبی چوڑی باتیں کرنا مناسب نہیں خلفائے راشدین کے طریق عمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے۔ اور جنہو ں نے حضرت خلیفۃ المسیح کے خطبات جمعہ متعدد بار سنے ہیں وہ اس رائے کی تائید کریں گے کہ دوسرے خطبہ کے دوران لمبے چوڑے اعلانات کے لیے یہ کوئی مناسب موقع نہیں ہے۔ (فقہ احمدیہ، صفحہ۱۷۲-۱۷۱)

اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے جماعتوں میں جماعتی اعلانات یا تو نماز جمعہ سے قبل کیے جاتے ہیں یا نماز جمعہ سے فراغت کے بعد کیے جاتے ہیںتا خطبہ سے متعلق یہ سنت رسولﷺ قائم رہے۔

(۱۱)جیسا کہ گذشہ روایت میں ذکر ہوا ہے کہ رسول اللہﷺ کے خطبات اوسط درجہ کے ہوتے تھے نہ بہت زیادہ طویل اور نہ بالکل ہی مختصر۔ خطبات کے بارےمیں آپؐ نے یہ عام ہدایت بھی ارشاد فرمائی تھی کہ اِنَّ طُوْلَ صَلٰوۃِ الرَّجُلِ وَ قِصَرَخُطْبَتِہٖ مِئَنَّۃٌ مِّنْ فِقْھِہٖ، فَاَ طِیْلُوْا الصَّلوٰ ۃَ وَاقْصُرُوْا الْخُطْبَۃَ وَ اِنَّ مِنَ الْبَیَانِ سِحْرًا یعنی آدمی کی طویل نماز اور مختصر خطبہ اس کی فقاہت یعنی دین کی سمجھ کی علامت ہے۔ لہٰذا نماز تو لمبی پڑھاؤ لیکن خطبہ مختصر کردو کیونکہ بعض بیان جادو کی تا ثیر لیے ہو ئے ہو تے ہیں۔ (صحیح مسلم کتاب الجمعہ، مشکوٰ ۃ المصابیح باب الخطبۃ والصلوٰۃحدیث : ۱۳۲۲)

اس حدیث کی شرح میں یہ لکھا ہے کہ ’’خطبہ کی حالت میں لو گو ں کی تو جہ مخلو ق یعنی خطبہ پڑھنے والے کی طرف ہوتی ہے جبکہ نماز کی حالت میں توجہ کا مرکز خالق یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ہو تی ہے۔ حدیث بالا میں بلیغ انداز سے یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کی سمجھ داری اور اس کی دانائی کا تقاضا یہ ہو نا چاہیے کہ اُس حالت(یعنی نماز) کو زیادہ دراز اور طویل کیا جائے جس میں بندہ کی توجہ اپنے خالق کی طرف ہو۔ اور اُس حالت(یعنی خطبہ) کو مختصر کیا جائے جس میں توجہ مخلوق ( یعنی خطیب) کی طرف منعطف ہو رہی ہو۔لیکن اتنی بات سمجھ لیجیے کہ یہاں نماز طویل کرنے سے مراد یہ ہے کہ نماز سنت کے موافق ہو۔ یعنی نماز پڑھنے کے سلسلہ میں جو درجہ آنحضرتﷺ سے منقول اور ثابت ہے نہ تو اس سے طویل ہو اور نہ ہی اس سے مختصر ہو۔

وَ اِنَّ مِنَ الْبَیَانِ سِحْرًا کیونکہ بعض بیان جادو کی تاثیر لیے ہو ئے ہو تے ہیں۔ حدیث کے ان الفاظ میںخطبہ کو مختصر کرنے کے سلسلہ میں دلیل بیان کی جارہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خطبہ ایسا پڑھنا چاہیے جو ’’ قَلَّ وَ دَلَّ‘‘ کا پو را پو را مصداق ہو۔ یعنی اس کے الفاظ مختصر ہو ں مگر حقائق و معنی کے دریا اپنے اندر سمو ئے ہو ئے ہو۔ کیو نکہ جس طرح سحر کے مختصر ترین الفاظ میں بہت تا ثیر ہو تی ہے اسی طرح اس بیان اور تقریر میں بھی جو الفاظ کے معنی کے اعتبار سے جا مع و مانع ہو ایک عظیم تا ثیر ہو تی ہے جس کی وجہ سے سا معین کے قلوب ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف مائل و منتقل ہو جاتے ہیں۔لہٰذا حدیث کے ان الفاظ میں بیان و تقریر کی تعریف بھی ہے اور مذمت بھی، بایں طور کہ اگر کو ئی بیان سامعین کے قلوب و دماغ کو برائی کی طرف سے نیکی کی طرف مائل کردے تو وہ اچھا ہے اور جو بیان سامعین کے ذہن و فکر کو نیکی کے راستے سے ہٹا کر برائی کے راستے پر موڑ دینے والا ہو وہ برا ہے۔ ‘‘(مظاہر حق جدید شرح مشکوٰ ۃ المصابیح، جلد اول صفحہ: ۸۸۴-۸۸۵، شائع کردہ دارالاشاعت کراچی، مارچ ۲۰۰۶ء)

مذکورہ بالا حدیث کی تشریح سے خطبہ جمعہ کے مختصر کرنے اور نماز جمعہ کے طویل کرنے کی حکمت بھی واضح ہو جاتی ہے۔ حضرت عمرو بن العاص ؓبیان فرماتے تھے کہ ایک دن ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے بہت لمبی تقریر کی یہاں تک کہ سننے والے اکتا گئے۔ عمرو ؓنے کہا اگر یہ شخص اپنی تقریر میں اعتدال و میانہ روی سے کام لیتا تو یہ اس کے لیے بہتر تھا کیو نکہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہو ئے سنا ہے کہ لَقَدْ رَأَیْتُ اَوْ اُمِرْتُ اَنْ تَجَوَّزَ فِی الْقَوْلِ فَاِنَّ الْجَوَازَ ھُوَ خَیْرٌ یعنی میں نے جانا ہے یا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مختصر تقریر کروں اور اختصار بہت بہتر ہے۔( مشکوٰ ۃ المصابیح، باب البیان والشعر،حدیث: ۴۵۹۱ )

پانچویں صدی ہجری کے مجدد اور حکیم الملّت امام غزالیؒ نے بھی لکھا ہے کہ ’’ خطبہ زیادہ طویل نہ ہو نہ اس میں غناء ہوبلکہ مختصر ہو بلیغ ہو اور تمام مضامین کا جامع ہو۔ ‘‘ ( احیاء علوم الدین (مترجم اردو )جلد اوّل صفحہ ۳۲۷)

فقہ احمدیہ میں یہ وضاحت موجو د ہے کہ ’’ عام اصو ل یہ ہے کہ خطبہ چھوٹا اور نماز لمبی ہو۔ سوائے اس کے کہ کو ئی خاص قومی ضرورت لمبے خطبہ کی مقتضی ہو۔ یا خلیفہ وقت خود ایسا کرنا ضروری سمجھیں۔ کیونکہ خلیفہ وقت قوم کی بہبود کے مرکزی ذمہ دار ہو تے ہیں اور جماعت کا وقت ان کے وقت کے تا بع ہو تا ہے۔ یہ ایک مخصوص حق ہے جس کا کو ئی دوسرا علی الاطلاق حقدار نہیں۔ ‘‘( فقہ احمدیہ صفحہ۱۷۰)

نماز لمبی ہونے کے متعلق صحابی رسولﷺ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے تھے کہ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا : اَیُّ الصَّلٰوۃِ اَفْضَلُ ؟ قَالَ : طُوْلُ الْقُنُوْتِ یعنی کون سی نماز افضل ہے ؟ فرمایا: جس میں قیام لمبا ہو۔ (صحیح مسلم)

حضرت عبد اللہ بن حبشی الخثعمیؓسے مروی ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا : اَیُّ الصَّلٰوۃِ اَفْضَلُ ؟ قَالَ طُوْلُ الْقِیَامِ یعنی کون سی نماز افضل ہے؟ فرمایا: جس میں قیام لمبا ہو۔( سنن ابو داؤد)

ان روایات سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ نماز جمعہ خطبہ جمعہ سے لمبی ہی ہو نی چاہیے۔

(۱۲) رسول اللہﷺ بعض اوقات خطبہ کے لیے صرف قرآن کریم کی کوئی سورۃ تلاوت فرماتے۔ روایات میں سورۃ ق ٓ اور سورۃ الملک کا ذکر ملتا ہے۔ ایک صحابیہ حضرت اُمِّ ہشام ؓ بنت حرث بن نعمان فرماتی ہیں کہ میں نے سورۃ ق رسول اللہﷺ کی زبان مبارک سے صرف اس طرح سیکھی ہے کہ آپؐ ہر جمعہ منبر پر جب لو گو ں کے سامنے خطبہ ارشاد فرماتے تو یہ سورۃ پڑھا کرتے تھے ( اور میں سن سن کر یاد کر لیتی تھی)۔(زاد المعاد، از امام ابن قیم ؒ، باب خطبات نبویؐ، جلد اول صفحہ:۳۵۷، مشکوٰ ۃ المصابیح، باب الخطبۃ والصلوٰۃ)

حضرت یَعْلٰی ؓبن اُمَیّۃ بیان فرماتے تھے کہ میں نے نبی کریمﷺ کو منبر پر یہ آیت پڑھتے ہو ئے سنا ہے: وَ نَا دَوْا یٰمٰلِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ اور وہ پکا ریں گے کہ اے مالک! تیرا رب ہمیں موت ہی دے دے۔ (سورۃالزخرف:۷۸) (مشکوٰ ۃ المصابیح، باب الخطبۃ والصلوٰۃ)

(۱۳) رسول اللہﷺ مختصر خطبہ دینے کے بعد جمعہ کی نماز میں سورۃ الجمعۃ او ر سورۃ المنافقون یا سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ کی علی الترتیب دونوں رکعات میں تلاوت فرمایا کرتے تھے۔

امام المحدثین امام ابن قیم الجوزی ؒ نے اس تعلق میں یہ لکھا ہے کہ ’’ یہ مستحب نہیں کہ( مذکورہ بالا) ہر سورۃ میں سے کچھ حصہ یا ایک سورۃ دو رکعتوں میں پڑھی جائے کیونکہ یہ خلاف سنت ہے اور صرف جاہل امام اس پر مداومت کرتے ہیں۔ ‘‘ (زاد المعاد، از امام ابن قیم ؒ، باب جمعہ اور خصائص جمعہ، جلد اول صفحہ ۳۲۲)

اسی طرح نماز عید میں رسول اللہﷺ کا طریق مبارک یہی ثابت ہے کہ آپؐ سورۃ ق اور سورت القمر یا سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ کی علی الترتیب دونوں رکعات میں تلاوت فرمایا کرتے تھے۔

نتیجہ

جمعہ کی نماز کتنی طویل ہو سکتی ہے اس بات کا اندازہ بھی ان مذکورہ بالا سورتو ں کی تلاوت سے لگا نا آسان ہو جاتا ہے۔ یعنی اگر سنت نبویﷺکی پیروی میںجمعہ کی نماز میں ان سورتو ں کی تلاوت کی جائے تو اس طرح نماز بارہ سے پندرہ منٹوں میں ختم ہو سکتی ہے۔

(۱۴)رسول اللہﷺ کی خطبات میں ایک سنت یہ بھی تھی کہ اگر کسی کام کے حکم کی یا مما نعت کی ضرورت ہو تی تو آپؐ خطبہ ہی میں بتا دیتے یا منع فرما دیتے تھے۔ جیسا کہ خطبہ کے دوران ایک صحابیؓ (سلیک غطفانی ؓ ) مسجد میں آکر بیٹھ گئے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: سلیک اٹھو اور دو رکعتیں پڑھ لو۔ یا ایک صحابی ؓ کے قحط کا ذکر کرنے پر خطبہ کے دوران ہی بارش کے لیے دعا فرمائی۔ اسی طرح لوگوں کی گردنیں پھاندنے والے کو منع فرمایااور بیٹھ جانے کا حکم دیا۔

حضرت جابر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک مرتبہ جمعہ کے روز (خطبہ کے لیے) منبر پر کھڑے ہو ئے اور صحابہؓ سے فرمایا کہ خطبہ سننے کے لیے بیٹھ جاؤ۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ نے جب یہ سنا تو وہ مسجد کے دروازہ پر ہی بیٹھ گئے۔ رسول اللہﷺ نے انہیں دیکھ لیا تو فرمایا : عبد اللہ ابن مسعود یہاں آجاؤ۔ (مشکوٰ ۃ المصابیح، باب الخطبۃ والصلوٰۃ)

حضرت انس ؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور بو لا قیامت کب ہو گی؟ لو گو ں نے اس کی طرف اشارہ کیا کہ خاموش رہے وہ نہ مانا اور اس نے دوبارہ وہی بات کہی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے ؟ اس نے جواب دیا صرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے تمہیں محبت ہے۔ ( مسند احمد، سنن نسا ئی و سنن بیہقی)

حضرت بریدہ ؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ حسن ؓ اور حسین ؓ سرخ دھاری دار قمیصیں پہنے پا ؤں پاؤں چلتے مسجد میں آگئے۔ دو نو ں کی چال میں لرزش تھی۔رسول اللہﷺ فورًا منبر سے اتر آئے اور دو نو ں کو اٹھا کر اپنی گو د میں رکھ لیا۔ پھر فرمایا : اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا ہے کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک امتحان ہے۔ میں نے ان دو نو ں بچو ں کو لرزتے قدمو ں سے چلتے دیکھا تو مجھ سے نہ رہا گیا آخر میں نے اپنی بات ( خطبہ ) کاٹ کر دو نو ں کو اٹھا لیا۔ ( مستدرک للحاکم )

(۱۵) رسول اللہﷺ کے خطبات میں ایک سنت یہ بھی تھی جس کا ذکر حضرت عُمارَہ بن رُوَیبہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے کہ آپؐ ( خطبہ کے دوران )اپنے ہاتھ سے اس سے زیادہ اشارہ نہیں کرتے تھے۔ یہ کہہ کر انہو ں نے اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔

آج کل بعض مقررین اور واعظین دوران تقریرجوش خطابت میں اپنے ہا تھو ں کو بلند کرتے اور ہوا میں لہراتے ہیں یہ نبی کریمﷺ کا طریق نہیں ہے بلکہ آپؐ کی سنت کے بر خلاف طرز عمل ہے۔

(۱۶) بعض روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ استغفار پر خطبہ ختم فرماتے اور آپؐ کے کلمات یہ ہو تے: اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ لِیْ وَ لَکُمْ (میں اللہ سے اس کی مغفرت طلب کرتا ہو ں اپنے لیے بھی اور تمہارے لیے بھی) اورخطبہ کے اختتام پر وَالسَّلَا مُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗکے کلمات ادا فرما کر خطبہ ختم فرما دیا کرتے تھے۔ امام المحدثین امام ابن قیمؒ نے اپنی تصنیف ’’زاد المعاد ‘‘میں ابن اسحاق ؒ کے حوالہ سے نبی کریمﷺ کے دو خطبات شامل کیے ہیں جن کے اختتام پر وَالسَّلاَ مُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ کے کلمات موجود ہیں۔ (زاد المعاد، از امام ابن قیم ؒ، باب جمعہ و خصائص جمعہ، جلد اوّل صفحہ: ۳۱۶-۳۱۵، و ابن عساکر، سنن بیہقی، البدایۃ جلد ۳صفحہ ۲۱۴۔ شعب الایمان اردو، از امام بیہقی ؒ، جلد ۵صفحہ ۶۵۷،شائع کردہ دارالاشاعت کراچی اکتوبر ۲۰۰۷ء )

خطبات کے بارے میں ایک انتباہ

ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مَا مِنْ عَبْدٍ یَخْطُبُ خُطْبَۃً اِلَّا وَاللّٰہُ سَائِلُھَا عَنْھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَا اَرَادَ بِھَا یعنی ہر وہ بندہ جو کوئی خطبہ دیتا ہے قیامت میں اللہ تعا لیٰ اس سے پو چھے گا کہ تمہارا اس خطبہ سے مطلب کیا تھا؟(تفسیر روح البیان از علامہ محمد اسمٰعیل حقی البروسوی متوفی ۱۱۲۷ ہجری، زیر آیت البقرہ ۴۵ جلد اول، صفحہ: ۳۰۲)

امام ابن المبارک ؒ نے الزہد میں اور امام بیہقی ؒ نے شعب الایمان میں بھی اس روایت کا ذکر کیا ہے کہ دنیا میں جس خطیب نے بھی خطبہ دیا ہے (قیامت کے دن)اللہ تعا لیٰ اس کا خطبہ پیش کرے گا جو بھی اس نے اس خطبہ سے ارادہ کیا ہو گا۔ ( شعب الایمان از امام بیہقی ؒ، جلد: ۴صفحہ: ۲۵۰، شائع کردہ دارالاشاعت کراچی اکتوبر ۲۰۰۷ء)

حرف آخر

حضرت عوف المزنی ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت بلال ؓ سے فرمایا کہ اے بلال! جو شخص میری اس سنت کو زندہ کرے گا جو مردہ ہو چکی ہو گی تو اسے ان تمام لوگوں کے برابر اجر و ثواب ہو گا جنہو ں نے اس سنت پر عمل کیا ہو گا بغیر اس کے کہ ان کے اجر و ثواب میں کمی کی جائے۔ اور جو شخص گمراہی کی وہ بدعت جا ری کرے گا جسے اللہ اور اس کا رسولﷺ پسند نہیں کرتے ہو ں گے تو اس پر ان سب کے برابر گناہ ہو گا جنہو ں نے اس بدعت پر عمل کیا ہو گا اور اس سے لوگوں کے بوجھوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ (بحوالہ ترمذی)

پس دین میں کسی عمل کے لیے شرعی حکم کا علم ہونا ضروری ہو تا ہے اور شرعی حکم کا علم کتاب اللہ یا سنت رسولﷺ یا حدیث رسولﷺ سے ہوتا ہے۔ دین اسلام تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اتباع کا نام ہے، اپنی طرف سے کو ئی بات گھڑ نے کا نام دین نہیں ہے۔ اور نہ ہی اپنے شوق پورے کرنے کا نام دین ہے کیونکہ متبوع مستقل صرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ذات بابرکات ہے اور دین کی اصل ’’تَعْظِیْم لِاَمْرِاللّٰہِ‘‘ ہی میں ہے۔

وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ !

اَللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button