محبتِ الٰہی کا اعلیٰ ترین بشری معیار
انسان مدنی الطبع یعنی معاشرت پسند ہے جس کے ساتھ تعلق پکڑنے کی صلاحیت لازم و ملزوم ہے اور تعلق خداوندی حیاتِ مصطفویؐ کا جزوِ لا ینفک ہے۔ ا ٓپؐ کی ہرادا ئے محبت ایک ایسی منور روشنی ہے جو آنکھوں کو خِیرہ کرنے کی بجائے نور بخشتی ہے۔ ذات بابرکات اسوۂ کامل اور مجسمۂ حسن و احسان کی زندگی کا مُرقّع محبت الٰہی کی موسلادھار رحمتِ بارانی ہے۔ من تو شُدم تو من شُدی کی مصداق محبت الٰہی نے رؤسائے مکہ کی ہر مروّجہ و غیر مروّجہ تکلیف اور پیشکش پر اپنے محبوب ِحقیقی کو فوقیت دیتے ہوئے فنائی یارانے کی ایسی زندہ بشری مثال پیش کی جو تاقیامت بنی نوع کے لیے اعلیٰ ترین انسانی معیار کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی پاکیزہ و مطہر یارانے کی حیرت انگیز مثالیں بطور تحدیثِ نعمت اِس امید کے ساتھ بیان کرتا ہوں کہ ہم اپنے ایمانوں،عہدوں اور وعدوں کی پابندی کی طرف ایک نئی امنگ کے ساتھ آگے بڑھیں۔
’’دل بایار ‘‘کی عملی تصویر
عام طور پر محبت کی داستانوں میں دیکھا گیا ہے کہ عاشق کو محبوب سے ملاقات کی تڑپ رہی۔مگر یہ کسی عالی شان محبت کی تڑپ ہے جو ہمارے ہادی رسولﷺ کو اپنے محبوبِ حقیقی سے تھی۔ چنانچہ روایات میں ہے کہ محبوب سے وصال کی تڑپ میں آپﷺ اپنے خاندان سے الگ تھلگ شہر سے دور ایک غیرآباد پہاڑ پہ غار ِحرا میں عبادات میں مستغرق رہتے۔
ام المومنین حضرت عائشہؓ آپﷺ کی خلوت میں یادِ الٰہی کا منظر بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ آنحضرتﷺکی میرے ہاں نویں دن باری آتی تھی۔ نبی کریمﷺ بستر پر لیٹ جانے کے بعد فرماتے ہیں کہ اے عائشہؓ اگر اجازت دو تو میں آج رات اپنے رب کی عبادت میں گزار دوں؟ فرماتی ہیں کہ میں نے اجازت دے دی۔تو آپﷺنے ساری رات عبادت میں اپنے محبوب کی یاد میں روتے روتے سجدہ گاہ تر کر دی۔ (اسوۂ انسان کامل صفحہ ۶۹) نیز فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺ کی محبوب کی بارگاہ میں اس کیفیت کو دیکھتے ہوئے ایک دفعہ میں نے نبی کریمﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺآپ تو خدا تعالیٰ کےپہلے ہی مقرب ہیں پھر اس قدر آپ اپنے آپ کو مشقت میں کیوں ڈالتے ہیں؟ تو اس پر نبی کریمﷺنے فرمایا اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا کہ اے عائشہ! کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنو؟
ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے آپﷺکی تنہائی میں یادِ الٰہی کے متعلق دریافت کیا گیا۔آپؓ بیان کرتی ہیں کہ تمہارا اور آپﷺ کی نماز کا کیا جوڑ؟آپﷺ نماز پڑھتے تھے پھر اتنی دیر سوتے تھے جتنی دیر نماز پڑھتے۔یہاں تک کہ آپﷺ صبح کرتے۔ (ترمذی باب ماجاء کیف کان قراءة النبی)
اللہ اللہ یہ کیسی اعلیٰ و ارفع محبت کی لَو تھی کہ جس نے نبی کریم کو نڈر اور جرأت مند بنا دیا۔یہ کیسی انوکھی محبت کی تڑپ تھی کہ اپنی جاںنثار اور پیاری بیوی حضرت عائشہؓ کے بستر کو محبوبِ خدا کی یاد میں چھوڑنا پسند فرماتے اورہمہ وقت یادِ الٰہی میں مشغول رہتے۔
پیغمبرِ خداﷺدوسروں سے ذکرِ حبیب سننا بھی بہت پسند فرماتے تھے۔حتی کہ جب ایک مشرک شاعر (امیہ بن صلت) کا خدائے رحمٰن کی حمد میں جب شعر سنا تو بہت پسند فرمایا اور بے اختیار فرمانے لگے امیہ کا شعر ایمان لے آیا مگر خود اس کو ایمان کی توفیق نہ مل سکی۔ شعر یہ ہے:
لَکَ الْحَمْدُ وَ الْنَّعْمَاءُ وَ الْفَضْلُ رَبَّنَا
فَلَا شَیْئَ اَعْلٰی مِنْکَ حَمْدًا وَّ اَمْجَدًا
یعنی اے ہمارے رب ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں۔احسان اور فضل بھی تیرے ہیں۔کوئی چیز حمد اور بزرگی سے تجھ سے بڑھ کر نہیں۔
پھر جب نبی کریمﷺ نے عرب کے مشہور شاعر لبید کا کلام سنا تو نبی کریم ؐبے اختیار فرمانے لگے کہ سب سے سچی بات جو لبید نے کہی وہ اس کے شعر کا یہ مصرع ہے۔
اَلَا کُلُّ شَیءٍ مَّا خَلَا اللّٰہَ بَاطِلُ(بخاری)
کہ سنو! اللہ کے سوا ہر چیز بالآخر فنا ہونے والی ہے۔
محبوب کی غیرت رکھنے والے
بے شک عاشق اپنے محبوب کے مقابل پر کوئی چیز پسند نہیں کرتا نہ ہی کسی قربانی سے دریغ کرتا ہے۔لیکن اگر عاشق محمدﷺ اور معشوق خالقِ کائنات ہو تو عشق کا انداز ہی نرالا ہو جاتا ہے۔ہمارے ہادئ کامل حضرت محمد مصطفیٰﷺ اپنے محبوبِ خدا کی ہمیشہ غیرت رکھنے والے تھے۔عہد شباب سے ہی بتوں کی پلیدی سے نفرت کرنے والے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آپﷺ تمام توحید پرستوں کے عظیم الشان بادشاہ تھے۔جس نے اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں اپنے محبوب کا نام بلند فرمایا۔ چنانچہ بچپن کا ایک واقعہ ہےکہ آپﷺ اپنے چچا حضرت ابو طالب کے ہمراہ ملک شام کے سفرِ کےلیے گئے۔ راستے میں ایک عیسائی راہب نے بتوں کا واسطہ دیتے ہوئے نبی کریمﷺسے سوال کیا جس پر آپؐ نے فرمایاکہ مجھے لات اور عزیٰ بتوں کا واسطہ دے کر مت پوچھوخدا کی قسم!! ان سے بڑھ کر مجھے اور کسی چیز سے نفرت نہیں۔(قریشِ عرب میں بات پوچھنے کا یہی طریق رائج تھا)
پھر تاریخ کی کتابوں میں جنگ اُحد کا واقعہ بھی محفوظ ہے کہ جب درے پر موجود مسلمان درہ چھوڑ کر نیچے آگئےتو قریش کے سردار خالد بن ولید نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوبارہ مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ہر طرف خوف اور بے چینی کی فضا طاری ہو گئی۔یہاں تک کہ خود پیغمبرِ اسلامﷺ کی شہادت کی خبر مشہور ہو گئی۔ابوسفیان نے فخریہ انداز میں فتح جتلاتے ہوئے کہا کیا تم میں محمدﷺ موجود ہیں ؟ نبی کریمﷺنے از راہِ مصلحت خاموشی کا ارشاد فرمایا۔جواب نہ ملنے کی صورت میں ابوسفیان نے مزید اترا کر کہا کیا تم میں ابوقحافہ کا بیٹا ابوبکر موجود ہیں۔نبی کریمﷺنے پھر وقت کی نزاکت کے پیشِ نظر خاموش رہنے کا ارشاد فرمایا۔جواب نہ ملنے کی صورت میں ابوسفیان نے تیسری مرتبہ کہا کہ کیا تم میں خطاب کا بیٹا عمر ہے۔نبی کریمﷺنے پھر خاموشی کا حکم دیا۔جواب نہ ملنے کی صورت میں ابوسفیان نے فاخرانہ انداز میں اپنی فتح کا نعرہ لگایا۔اُعْلُ ھُبَلْ۔ اُعْلُ ھُبَلْ۔ ہبل بت زندہ باد۔ ہبل بت زندہ باد۔ یہ سن کرنبی اکرمﷺکی غیرتِ محبوب نے جوش مارا۔ صحابہ کرامؓ کو فوراً جواب دینے کا ارشاد فرماتے ہوئے کہا کہ کہو اَللّٰہُ اَعلٰی و اَجَل۔اَللّٰہُ اَعلٰی و اَجَل۔اللّٰہُ مَولَنَا وَ لَا مَوْلٰی لَکُمْ کہ اللہ ہی صاحبِ عزت اور عظمت ہے۔ اللہ ہی صاحبِ عزت اور عظمت ہے۔اللہ ہمارا کارساز ہے اور تمہارا کوئی کارساز نہیں۔
قارئین کرام ! یہ تھا ایک عاشق کا اپنے محبوبِ خدا کے لیے محبت کا اظہار۔مگر کیا اس محبوبِ حقیقی نے اپنے اس عاشقِ صادق کو یوں ہی چھوڑ دیا۔نہیں نہیں بلکہ آنحضرتﷺ کی اس آتش محبت کی کیفیت کو وَوَجَدَکَ ضَالًا فَھَدَی سے شرفِ قبولیت بخشا۔اور یہیں پر بس نہیں بلکہ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ کے لاشریک مقام پر جا ٹھہرایا۔ اس کی محبت کو اپنی محبت،اس کی رضامندی کو اپنی رضا،اس کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیتے ہوئے تا قیامت آنحضرتﷺ کے دست مبارک میں یہ سرٹیفکیٹ تھما دیا قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِىْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ تو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔
ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ہمیں محبت الٰہی کے اسی معیار کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ایک مومن کی خصوصیت یہ ہے، جس کاقرآن کریم میں یوں ذکر آتاہے کہ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْااَشَدُّ حُبًّالِلّٰہِ (البقرۃ:۱۶۶) یعنی اور جو لوگ مومنین ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں۔ پس مومن ہونے کی یہ نشانی ہے کہ ایک سچے مومن کی زندگی صرف ایک ذات کے گرد گھومتی ہے اور گھومنی چاہئے کیونکہ اس کے بغیر ایک مومن، مومن کہلا ہی نہیں سکتا۔ ایک مومن کا غیب پر ایمان، نمازیں پڑھنا، قربانی کرنا، انبیاء پر ایمان، اس وقت کامل ہوگا جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے ان تمام احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کررہا ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں۔ آنحضرتﷺنے اس شدید محبت کا کیسا اعلیٰ نمونہ ہمارے سامنے رکھا کہ کفار بھی یہ کہہ اٹھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ رَبَّہ کہ محمد تو اپنے ربّ پر عاشق ہو گیا۔ اور آپؐ نے ہمیں کیا خوبصورت دعا سکھائی ہے کہ اے اللہ مَیں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اس کی محبت جو تجھ سے محبت کرتا ہے۔مَیں تجھ سے ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔ اے اللہ اپنی اتنی محبت میرے دل میں ڈال دے جو میری اپنی ذات، میرے مال، میرے اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ہو (جامع الترمذی کتاب الدعوات)۔ پس ایک مومن کامعیار اور خصوصیت یہ ہے جس کو حاصل کرنے کی ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے۔ کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں مل سکتی۔ اس لئے اس محبت کے حصول کے لئے بھی اسی کے آگے جھکنا اور اس سے دعائیں کرنا ضروری ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ مورخہ ۱۳؍جولائی ۲۰۰۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۶؍جولائی ۲۰۰۷ء)
يا رَبِّ صَلِّ عَلَى نبيّكَ دائمًا في هٰذه الدنيا وبعثٍ ثانِ