الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
سیرت النبی ﷺ کا ایک پہلو ’’عفو‘‘
اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’’ عَفۡوّ ‘‘ ہے یعنی وہ بہت معاف کرنے والاہے۔ آنحضورﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اللہ کی خاص رحمت کی وجہ سے تو اُن کے لیے نرم ہو گیا اور اگر تو تُند خو(اور) سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تیرے گرد سے دُور بھاگ جاتے۔ پس ان سے درگزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر۔‘‘ (آل عمران:۱۶۰)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ ۲۳؍جنوری ۲۰۱۴ء میں مکرم قمرالدین صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں عفو کے حوالے سے آنحضورﷺ کی سیرت کو بیان کیا گیا ہے۔
اگر کمزوری اور بدلہ لینے کی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے معاف کیا جائے تو اس کو عفو نہیں کہہ سکتے۔ عفو تو یہ ہے کہ بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوئے نہ صرف کسی کا قصور معاف کیا جائے بلکہ اُس کے ساتھ احسان کا سلوک کیا جائے جس کے نتیجہ میں اصلاح ہو۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’بدی کا بدلہ کی جانے والی بدی کے برابر ہوتا ہے۔ پس جو کوئی معاف کرے بشرطیکہ وہ اصلاح کرنے والا ہو تو اس کا اجر اللہ پر ہے۔ یقیناً وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الشوریٰ:۴۱)
جب انسان اس خُلق یعنی ’’عَفۡو ‘‘ سے انحراف کرتا ہے اور دوسروں کے قصور معاف کرنے کی بجائے ہر بات کا بدلہ لینے کی کوشش کرتا ہے تو معاشرے سے امن و امان اٹھ جاتا ہے اورکمزور طاقتور کے مظالم کا نشانہ بننے لگتا ہے۔
آنحضور ﷺ کی بعثت سے پہلے عربوں کی دنیا شاعروں، شرابیوں، فاسقوں اور فاجروں کی دنیا تھی جس میں راہزن تو بہت تھے لیکن راہنما کوئی نہ تھا۔ وہاں انسان انسان کو غلام بنائے ہوئے تھا اور بظاہر آزاد کہلانے والے آقا خود بھی رسوم و رواج کے اسیر تھے۔ ظلم و ستم کی اُس اندھیرنگری میں بغض و عناد تو وافر تھا لیکن عفو کا کوئی وجود نہ تھا۔ ہر چند کہ آنحضرت ﷺ کا پُرامن پیغام خدائے واحد کی محبت و عبادت اور انسانوں سے عدل اور احسان کے اصولوں پر مشتمل تھا لیکن قریش نے اس کا نہ صرف انکار کیا بلکہ ہر ممکن طریق پر اسلام اور بانی اسلام کو ختم کرنے کی تدابیر کیں۔ نہ صرف آپؐ کے ماننے والوں کو سرعام شدید اذیّتیں دی گئیں بلکہ خود آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس بھی قریش کے حملوں سے محفوظ نہ رہی۔ آپؐ کی بیٹیوں حضرت رقیہؓ اور حضرت امّ کلثومؓ کو طلاق دلوائی گئی۔ آپؐ کو جھوٹے پراپیگنڈے، استہزا، گالی گلوچ اور جسمانی اذیتوں کا نشانہ بنایا جاتا۔ مخالفت کی مہم تیزتر کرنے کے لیے آپؐ کو کاہن، مجنوں اور شاعر مشہور کر دینے کی سازشیں کی گئیں اور طے پایا کہ آپؐ کو جادوگر مشہور کیا جائے اور بڑے شد ّو مد سے آپؐ کے خلاف یہ طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا۔ آپؐ اور آپ کے اہل خانہ کودکھ دینے کی خاطر گندی اور بدبودار چیزیں آپؐ کے گھر پھینک دی جاتیں۔ آپؐ صرف اتنا فرما کر خاموش ہو جاتے: ’’تم لوگ اچھا حق ہمسائیگی ادا کرتے ہو!‘‘
صحن کعبہ میں نماز پڑھتے ہوئے گلے میں کپڑے کاپھندا ڈال کر آپؐ کے قتل کی کوشش کی گئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے بروقت پہنچ کر چھڑایا اور فرمایا کہ تم ایک شخص کو اس لیے قتل کرنے کے درپے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ میرا ربّ ہے۔
قریش کو آپؐ کا نام محمد تک گوارا نہ تھا کیونکہ اس کے معنے ہیں ’’جس کی تعریف کی جائے۔‘‘ وہ آپؐ کو مذمّم (نعوذباللہ قابل مذمت) کے نام سے پکارتے۔ آپؐ مسکرا کر فرماتے جس کا نام اللہ نے ’محمدؐ ‘ رکھا ہے وہ مذمم کیسے ہوسکتا ہے!
آخر تمام حربے ناکام ہوئے تو مشرکین مکہ نے مسلمانوں اور ان کے حامیوں سے ہر قسم کے تعلقات ختم اور خریدو فروخت تک بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ محرم 7 نبوی میں رئوسائے مکہ کے دستخطوں سے یہ معاہدہ خانہ کعبہ میں لٹکا دیا گیا اور مسلمان شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے۔ ان ایام میں محصورین کو سخت بھوک اور خوف کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے تھے کہ فاقہ کے ان دنوں مجھے چمڑے کا ایک سوکھا ٹکڑا ملا۔ جسے میں نے پانی سے نرم کر کے صاف کیا اور پھر پیس کر تین دن وہ کھاتارہا۔
آنحضورﷺ کی دشمنی میں مشرکین کے مدینہ پر حملے بھی کئی سال تک جاری رہے۔ لیکن آخر رمضان المبارک ۸ھ بمطابق ۶۳۰ء میں جب اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مکّہ والوں پر فتح دلوادی تو طواف سے فارغ ہو کر آپؐ باب کعبہ کے پاس تشریف لائے۔ آپؐ کے جانی دشمن سامنے تھے۔ اس جگہ آپؐ نے وہ عظیم الشان تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جس میں تمام دشمنوں کے لیے معافی کا اعلان تھا، مساواتِ انسانی کا اعلان تھا اور ہر قسم کے فخرو مباہات کالعدم کرنے کا اعلان تھا۔ یہ معرکہ آراء خطبہ بھی دراصل آپؐ کے خلق عظیم کا زبر دست شاہکار ہے۔
پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اے مکہ کے لوگو ! اب بتائو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں ؟ تب وہ جو بیس سال سے مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے اور ہر قسم کا ظلم و ستم توڑ چکے تھے، بلکہ مسلمانوں کو اپنے وطن سے بے وطن کرنے والے اور ان پر جنگیں مسلط کرنے والے تھے، یہ جواب دیتے ہیں کہ ’’آپؐ جو چاہیں کر سکتے ہیںمگر آپؐ جیسے کریم انسان سے ہمیں نیک سلوک کی ہی امید ہے۔ اُس سلوک کی جو حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا۔‘‘
مگر رحمۃ للعالمین ﷺ نے تو ان کی توقعات سے کہیں بڑھ کر ان سے حسن سلوک کیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ ’’جائو تم سب آزاد ہو صرف میں خود تمہیں معاف نہیں کرتا ہوں بلکہ اپنے ربّ سے بھی تمہارے لیے عفو کا طلب گار ہوں۔‘‘
ایک مستشرق لکھتا ہے: مکہ فتح ہو جانے کے بعد آپ ﷺ ایک فاتح، ایک بادشاہ، ایک حکمران تھے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب اہل مکہ کے ماضی کے انتہائی ظالمانہ سلوک پر آپؐ کو جتنا بھی طیش آتا، کم تھا اور آپؐ کی آتش انتقام کو بھڑکانے کے لیے کافی تھا۔ اب وقت تھا کہ آپؐ خونخوار فطر ت کا اظہار کرتے۔ آپؐ کے قدیم ایذا دہندہ آپؐ کے قدموں میں آن پڑے۔ کیا آپؐ اس وقت بے رحمی اور بےدردی سے ان کو پامال کریں گے؟ سخت عذاب میں گرفتار کریں گے یا ان سے انتقام لیں گے؟ (جیسا کہ صلیبیوں نے کیا تھا کہ ۱۰۹۹ء میں فتح یروشلم کے موقع پر انہوں نے ستر ہزار سے زائد مسلمان مرد، عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا، یا وہ انگریز فوج جس نے صلیب کے زیر سایہ لڑتے ہوئے ۱۸۷۴ء میں افریقہ کے سنہری ساحل پر ایک شہر کو نذر آتش کرڈالا) یہ وقت اس شخص کے اپنے اصلی رُوپ میں ظاہر ہونے کا ہے۔اس وقت ہم ایسے مظالم پیش آنے کی توقع کرسکتے ہیں جن کے سننے سے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور جن کا خیال کرکے اگر ہم پہلے سے نفرین و ملامت کا شور مچائیں تو بجا ہے۔ مگر یہ کیا ماجرا ہے بازاروں میں کوئی خونریزی نہیں ہوئی۔ ہزاروں مقتولوں کی لا شیں کہاں ہیں؟ آپؐ نے اپنے دشمنوں سے اس طرح انتقام لیا کہ اعلان فرمایا : ’’ہر شخص جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اسے امن دیا جائے گا۔ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں گُھس جائے اس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو مسجدکعبہ میں گُھس جائے اُس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو اپنے ہتھیار پھینک دے اُس کو بھی امن دیا جائے گا۔ جو حکیم بن حزام کے گھر میں گُھس جائے اس کو بھی امن دیا جائے گا۔ اس کے بعد ابی رویحہ ؓ جس کو آپؐ نے بلالؓ حبشی غلام کا بھائی بنا یا ہوا تھا ان کے متعلق آپؐ نے فرمایا آج ہم اس وقت ابی رویحہؓ کو اپنا جھنڈا دیتے ہیں جو شخص ابی رویحہؓ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہوگا اس کو بھی کچھ نہ کہیں گے اور بلالؓ کو کہا تم ساتھ ساتھ یہ اعلان کرتے جائو کہ جو شخص ابی رویحہؓ کے جھنڈے کے نیچے آجائے گا اس کو امن دیا جائے گا۔
اس حکم میں کیا ہی لطیف حکمت تھی۔ مکہ کے لوگ بلالؓ کے پیروں میں رسّی ڈال کر اُس کو گلیوں میں کھینچا کرتے تھے۔بلالؓ جو کبھی مکّہ کی گلیوں میں ذلت اور اذیت کا نشان رہ چکا تھا۔اسے اہل مکّہ کے لیے ابو سفیان کی طرح امن کی علامت قرار دے کر آپ ﷺ نے غلام کو سردار مکہ کے برابر کھڑا کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے سمجھا کہ بلالؓ کا دل آج انتقام کی طرف باربار مائل ہوتا ہوگا۔اس وفادار ساتھی کا انتقام لینا بھی نہایت ضروری تھا۔مگر آپؐ نے بلال ؓ کا انتقام اس طرح نہ لیا کہ تلوارکے ساتھ اُس کے دشمنوں کی گردنیں کاٹ دی جائیں۔ بلکہ اُس کے بھائی کے ہاتھ میں ایک بڑا جھنڈا دے کر کھڑا کر دیا اوربلال ؓ کو اس غرض کے لیے مقرر کر دیا کہ وہ اعلان کردے کہ جو کوئی میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے آکر کھڑا ہو گا اُسے امن دیا جائے گا۔ کیسا شاندار انتقام تھا۔ جب بلالؓ بلند آوازسے یہ اعلان کرتا ہوگا تو اُس کا دل خود ہی انتقام کے جذبات سے خالی ہوتا جاتا ہوگا۔
لیا ظلم کا عفو سے انتقام
عَلَیۡکَ الصَّلوٰۃُ عَلَیۡکَ السَّلَام
فاتحین عالم کی فتوحات کی یادیں اُن کی ہلاکت خیزیوں اور کھوپڑیوں سے تعمیر کیے جانے والے میناروں سے وابستہ ہوتی ہیں مگر ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی فتح تو آپ ؐ کے عفو عام اور رحمت تام کا وہ روشن مینار ہے جس کی کُل عالم میں کوئی نظیر نہیں۔ سوائے دس مجرموں کے جو اپنے جرائم کی بِنا پر واجب القتل تھے، عام معافی کا اعلان ہوا۔ اور اُن دس میں سے بھی صرف تین اپنے جرائم پر اصرار کرنے اور معافی نہ مانگنے کی وجہ سے مارے گئے۔ ورنہ اس دربار سے تو عفو کا کوئی سوالی خالی ہاتھ نہ لَوٹا۔
یہ وہ عفو تھا جس کے چشمے میرے آقا ؐ کے دل سے پھوٹے اور مبارک ہونٹوں سے جاری ہوئے۔ اس رحمت عام اور عفو تام کو دیکھ کر دنیا انگشت بدنداں ہے۔ مستشرقین بھی اس حیرت انگیز معافی کو دیکھ کر اپنا سر جھکا لیتے ہیں۔
………٭………٭………٭………