کلاؤڈ سیڈنگ
اپنی تخلیق سے لے کر آج تک ہمیں جن چیلنجز کا سامنا رہا ہے ان میں سب سے بڑا چیلنج موسمی تغیرات ہیں۔ اپنی خداداد صلاحیت کی بناپر حضرت انسان نے موسموں کی پیشگوئیاں کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے کے ساتھ اس میں اتنی ترقی کر لی ہے کہ اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق کسی حد تک موسم کو کنٹرول کرنا بھی سیکھ لیا ہے۔
پانی انسانی بقا کا ضامن ہے لیکن بارشوں، سمندری طوفانوں اور سیلاب سے ہر سال لاکھوں افراد اور مال مویشی ہلاک بھی ہو جاتے ہیں۔ وہیں بارشوں کا نہ ہونا بھی جانی و مالی نقصان کا باعث بنتا ہے۔ ہماری موجودہ ٹیکنالوجی بارش، سمندری طوفان، گرمی اور سردی کی شدت، برف باری کی تیر بہ ہدف پیشگوئی پر قادر تو تھی ہی لیکن اب کلاؤڈ سیڈنگ کی بدولت کہیں بھی اپنی مرضی سے بارش برسائی جا سکتی ہے یا ممکنہ بارش کو روکا جا سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہم اس حد تک بارش برسانے پر قادر ہیں تو کیا اس سے پانی کی کمی کو بھی دور کر سکتے ہیں؟
سب سے پہلے ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہےکہ بادل کیا ہوتے ہیں اور ان سے پانی کیسے برستا ہے۔ ہم سب نے ابتدائی سائنس میں مادہ کی تین حالتوں کے بارے میں پڑھ رکھا ہے کہ تین حالتوں میں پایا جاتا ہے۔ ٹھوس، مائع اور گیس۔ پانی کی یہ خاصیت ہے کہ وہ تینوں حالتوں میں ڈھل سکتا ہے اور یہی خاصیت اسے بادلوں کی صورت ڈھلنے میں مدد کرتی ہے۔
بادلوں سے مصنوعی بارش برسانے کی ٹیکنالوجی کی ایجاد بھی حادثاتی تھی۔ ۱۹۴۳ء میں ایک امریکی کیمیا دان ڈاکٹر ونسنٹ شیفر Aircrafting & Perception پر تحقیق کر رہے تھے۔ ۱۹۴۶ء میں انہوں نے دوران تحقیق ایک ایسے کولڈ بکس کا استعمال کیا جو بہت زیادہ ٹھنڈا تھا۔ کام کے دوران جب وہ اس بکس کے اندر سانس لیتے تو منہ سے خارج ہونے والی ہوا بکس کے ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے فوگ میں بدل جاتی تھی۔ ایک دن انہیں خیال آیا کہ کیا ہوگا اگر میں اس بکس کو بہت زیادہ ٹھنڈا بنا دوں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے خشک برف کا استعمال کیا۔ انہوں نے خشک برف کو بکس میں رکھا اور بکس میں سانس لیا تو ان کے منہ سے نکلنے والی ہوا فوری طور پر آئس کرسٹل میں بدل گئی۔ اس چھوٹے سے تجربہ کے نتائج حیران کن تھے۔ اس کے بعد انہوں نے کئی ایک تجربات کیے جس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس چیز کا استعمال عملی زندگی میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اگر فضامیں موجود بادلوں میں فریزنگ کے عمل کو بہت تیز کر دیا جائے تو اس سے بارش برسنا شروع ہو جائے گی۔ اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں ۱۳؍ نومبر ۱۹۴۶ء کو ایک ہوائی جہاز میں اپنے ساتھ اڑھائی کلو ڈرائی آئس رکھی اور ایک پہاڑی کے اوپر موجود بادلوں پر جہاز سے خشک برف پھینکی۔
اس پہلے تجربہ کا نتیجہ شاندار تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ اچانک بادلوں سے برف باری اور بارش برسنے لگی ہے۔
کلاؤڈ سیڈنگ کے اس طریقے کو پہلا طریقہ تو کہا جاسکتا ہے لیکن یہ یہی ایک واحد طریقہ نہیں تھا اس کے علاوہ بھی متعدد طریقوں سے کامیابی سے مصنوعی بارش برسانے کے تجربات کیے گئے تھے۔ ابتدامیں مصنوعی بارش برسانے کے یہ طریقے بہت مہنگے تھے کیونکہ اس کے لیے خصوصی جہازوں سے بادلوں پر بارش برسانے کا مواد پھینکا جاتا۔ اس لیے زمین سے ہی ایسے راکٹ بادلوں پر مارے جاتے جن میں مصنوعی بارش برسانے کا مواد بھرا ہوتا تھا۔ تھائی لینڈ وہ پہلا ملک تھا جس نے نومبر۱۹۵۵ءمیںخشک سالی کے سدباب کے لیے کلاؤڈ سیڈنگ سے مصنوعی بارش برسانے کا انتظام ملکی سطح پر کیا۔
جہاں بارش برسانے کے لیے کلاؤڈ سیڈنگ کی جاتی ہے وہیں بارش روکنے کے لیے بھی کلاؤڈ سیڈنگ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جس سے بادلوں میں موجود واٹر ڈراپلٹ زمین پر گر جائیں گے اور بادل ختم ہو جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے کلاؤڈ سیڈنگ کا استعمال سب سے پہلے چین نے ۲۰۰۸ءمیں بیجنگ اولمپکس کے دوران کیا۔ اسی طرح چین نے ہی مصنوعی برف باری بھی کرائی۔ ایک خشک ہو چکے دریا کو بھی کلاؤڈ سیڈنگ کے ذریعے پانی سے بھرنے کا منصوبہ زیر غور ہے۔
کلاؤڈ سیڈنگ کے ذریعے اولوں کا حجم بھی کم کیا جا سکتا ہے تاکہ ان کے گرنے سے زیادہ نقصان نہ ہو۔ اسی طرح فوگ یعنی دھند کم کرنے کے لیے بھی اس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اب ایسا ہرگز نہیں ہے کہ کلاؤڈ سیڈنگ کے فائدے ہی ہوں۔ اس کے استعمال سے ہونے والے نقصانات کا ابھی ہمیں صحیح سے ادراک نہیں ہے۔ایک بات یہاں سمجھنا ضروری ہے کہ کلاؤڈ سیڈنگ سے بادل پیدا نہیں کیے جاتے بلکہ پہلے سے موجود بادلوں کو برسنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
(م۔ظفر)