آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق عظیم۔صدق و سچائی
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۱؍ فروری ۲۰۰۵ء)
…جوانی کے ایام کی بات ہے۔ جب حضرت خدیجہ ؓ نے آنحضورﷺ کی صدق بیانی اور امانتداری اور اعلیٰ اخلاق کا حال سن کر اپنا مال آپ کو دے کر تجارت کے لئے آپؐ کو روانہ کیا۔ اس سفر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے غلام میسرہ بھی آپ ؐ کے ساتھ تھے۔ واپسی پہ میسرہ نے سفر کے حالات بیان کئے تو حضرت خدیجہ ؓ نے ان سے متأثر ہو کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ کہ آپؐ قرابت داری کا خیال رکھتے ہیں، قوم میں معزز ہیں، امانتدار ہیں اور احسن اخلاق کے مالک ہیں اور بات کہنے میں سچے ہیں۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام حدیث تزویج رسول اللہﷺ خدیجۃ رضی اللہ عنہا)
توسچائی اور امانتداری کے اعلیٰ معیار جو آپؐ نے اس وقت جوانی کے وقت میں قائم کئے تھے۔ تجارتی سفر میں اپنے ساتھیوں کو دکھائے تھے۔ اور وہ غلام جو آپؐ کے ساتھ تھا وہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیرنہ رہ سکااور آپؐ کا گرویدہ ہو گیا۔ واپس آ کے اپنی مالکن کو بتایا کہ کیسا ایماندار اور سچا شخص ہے۔
پھر بیوی کی گواہی ہے۔ بیویاں جو اپنے خاوند کے اچھے برے کی راز دار ہوتی ہیں، وہی ان کے گھریلو حالات و معاملات میں گواہی دے سکتی ہیں، انہیں کی گواہی وزن رکھنے والی گواہی ہے جو مل سکتی ہے۔ تو اس بارے میں بھی ایک روایت میں بیان ہے۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی کے نزول کا ذکر کرتے ہوئے(یہ تفصیلی روایت ہے) بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے وحی کے وقت اپنی پریشانی کا ذکر کیا۔ تو انہوں نے آپؐ کو تسلی دیتے ہوئے کہا:’’کَلاَّ أَبْشِرْ فَوَاللّٰہِ لاَ یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَ تَصْدُقُ الْحَدِیْثَ‘‘یعنی ویسے نہیں جیسے آپ سوچ رہے ہیں، آپؐ کو مبارک ہو۔ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی رُسوا نہیں کرے گا۔ آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں اور راست گوئی اور سچائی سے کام لیتے ہیں۔ (بخاری- کتاب التعبیر- باب اول ما بدیٔ بہ رسول اللّہ من الوحی الرؤیا الصالحۃ)
پھر دیکھیں دوست کی گواہی۔ وہ دوست جو بچپن سے ساتھ کھیلا، پلا، بڑھا، یعنی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ اس دوست نے ہمیشہ ہر حالت میں آپؐ کو سچ کہتے اور سچ کی تلقین کرتے ہی دیکھا اور سنا تھا۔ اس لئے ان کے ذہن میں کبھی یہ تصور آ ہی نہیں سکتا تھا کہ کبھی یہ شخص جھوٹ بھی بول سکتا ہے۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے جب آپؐ کے دعویٰ کے بارے میں سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار کے باوجود کوئی دلیل نہیں چاہی۔ کیونکہ ان کا زندگی بھر کا یہی مشاہدہ تھا کہ آپؐ ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ آپؓ نے آنحضرتﷺ سے صرف یہی پوچھا کہ کیا آپؐ نے دعویٰ کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کرنی چاہی تو ہر بار یہی عرض کی کہ مجھے صرف ہاں یا نہ میں بتا دیں۔ اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کہنے پر عرض کیا کہ میرے سامنے تو آپؐ کی ساری سابقہ زندگی پڑی ہوئی ہے۔ مَیں کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ بندوں سے تو سچ بولنے والا ہو اور اس کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والا ہو اور خدا پر جھوٹ بولے۔ (دلائل النبوۃ للبیھقی جماع ابواب المبعث باب من تقدم اسلامہ من الصحابۃ …)
اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ گھر والوں کی یا ملازمین کی یا دوستوں کی گواہی تو ایسی ہے کہ اگر کسی میں تھوڑی بہت غلطی بھی ہو، کمی بھی ہو تو پردہ پوشی کر سکتے ہیں، در گزر کر دیتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ کون سی گواہیاں ہیں۔ اس کے لئے ہم دیکھتے ہیں کہ دشمن بھی جو گواہی آپؐ کے بارے میں دیتا ہے وہ تو ایسی گواہی ہے جس کو کسی طرح رد ّ نہیں کیا جا سکتا۔
چنانچہ اس کی ایک مثال آپؐ کے اشد ترین دشمن نضر بن حارث کی گواہی ہے۔ ایک مرتبہ سرداران قریش جمع ہوئے جن میں ابوجہل اور اشد ترین دشمن نضربن حارث بھی شامل تھے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جب کسی نے یہ کہا کہ انہیں جادوگرمشہور کر دیا جائے یا جھوٹا قرار دے دیا جائے تو نضر بن حارث کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔ اے گروہ قریش! ایک ایسا معاملہ تمہارے پلّے پڑا ہے جس کے مقابلے کے لئے تم کوئی تدبیر بھی نہیں لا سکے۔ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تم میں ایک نوجوان لڑکے تھے اور تمہیں سب سے زیادہ محبوب تھے۔ سب سے زیادہ سچ بولنے والے تھے۔ تم میں سب سے زیادہ امانتدار تھے۔ اب تم نے ان کی کنپٹیوں میں عمر کے آثار دیکھے اور جو پیغام وہ لے کر آئے تم نے کہا وہ جادوگر ہے۔ ان میں جادو کی کوئی بات نہیں۔ ہم نے بھی جادوگر دیکھے ہوئے ہیں۔ تم نے کہا وہ کاہن ہے۔ ہم نے بھی کاہن دیکھے ہوئے ہیں۔ وہ ہرگز کاہن نہیں ہیں۔ تم نے کہا وہ شاعر ہیں، ہم شعر کی سب اقسام جانتے ہیں وہ شاعر نہیں ہے۔ تم نے کہا وہ مجنون ہے، ان میں مجنون کی کوئی بھی علامت نہیں ہے۔ اے گروہ قریش! مزید غور کر لو کہ تمہار واسطہ ایک بہت بڑے معاملے سے ہے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام۔ مادار بین رسول اللہﷺ وبین رؤساء قریش … نصیحۃ النصر لقریش بالتدبر …)
پھر دیکھیں ایک اور گواہی جو دشمنوں کے سردار ابو جہل کی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ابو جہل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ہم تمہیں جھوٹا نہیں کہتے۔ البتہ ہم اس تعلیم کو جھوٹا سمجھتے ہیں جو تم پیش کرتے ہو۔ جب عقل پر پردے پڑ جائیں، کسی کی مت ماری جائے تو تبھی تووہ ایسی باتیں کرتا ہے۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم کچھ تو عقل کرو۔ کیا ایک سچا آدمی جھوٹی تعلیم دے سکتا ہے۔ سچا آدمی تو سب سے پہلے اس جھوٹی تعلیم کے خلاف کھڑا ہو گا۔