حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (تقریر جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۳ء)
(مبشرہ شفیع۔نائب صدر و سیکرٹری تعلیم لجنہ اماء اللہ جرمنی)
اَشْھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّااللہُ وَحدَہُ لا شَرِیکَ لَہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہ۔ اَمَّابَعْدُ فَاَعُوذُ بِا اللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیمِ۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم۔
محترمہ صدر صاحبہ اور عزیز بہنو!دنیا میں کروڑوں انسان آتے اور رخصت ہو جاتے ہیں۔ دو یاتین نسلوں کے بعد دنیا میں ان کا نام لیوا کوئی نہیں رہتا۔لیکن کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی پیدائش بھی ایک نشان اور زندگی بھی نشان ہوتی ہے اور وفات کے بعد بھی خدا تعالیٰ ان کا نام زندہ رکھتا ہے۔خاکسار کو آج انہی بزرگ ہستیوں میں سے ایک ہستی کی سیرت پہ کچھ عرض کرنا ہے۔یعنی حضرت صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا۔
حضرت مسیح موعود علیہ لسلام کے عظیم نشانوں میں سے ایک نشان آپؑ کی مبشر اولاد بھی ہے۔ حضورؑ کو ہر بچے کی پیدائش سے پہلے الہامات اور خوش خبریوں سے نوازا گیا۔ اللہ تعا لیٰ نے الہاماً بتایا کہ ’’تیرا گھر برکتوں سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا۔اور خواتین مبارکہ میں سے جن میں سے توبعض کو اس کے بعد دیکھے گا،تیری نسل بہت ہو گی۔‘‘
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا وجود انہی خواتین مبارکہ میں شامل ہےجو ان عظیم نشانوں کی مظہر تھیں۔آپؓ نے وحی الٰہی کے مطابق اس بابرکت گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ کے بارے میں الہامات کا سلسلہ آپ کی پیدائش سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔ جس کا ذکر کرتے ہوئےحضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ نے…ایک لڑکی کی بشارت دی اور اس کی نسبت فرمایا تُنَشَّاءُ فِی الْحِلْیَۃِ یعنی زیور میں نشوونما پائے گی۔یعنی نہ خورد سالی میں فوت ہوگی اور نہ تنگی دیکھے گی۔چنانچہ بعداس کے لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام مبارکہ بیگم رکھا گیا ‘‘ ( روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۲۷)
آپ رمضان المبارک کی ستائیسویں رات کے پہلے پہر پیدا ہوئیں۔آپ مسیح الزّماں کی تربیت میں پرورش پانے والی ایک پاک رُوح اور حقیقت میں صالحات اور قانتات کی مکمل تصویر تھیں۔ آپ نے جو کچھ حضورؑ سے سیکھا اس پر خود بھی عمل کیا اور ہمارے لیے بھی ایک عملی نمونہ پیش کردیا۔ آپ پر اپنے بزرگ والدین کی عبادات کا گہرا اثر تھا۔بہت چھوٹی عمر سے تہجد پڑھنے لگی تھیں۔چار سال کی عمر میں اپنے بزرگوں سے کہتیں کہ مجھے تہجد کے لیے اٹھا دیا کریں۔ (سیرت و سوانح حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ صفحہ ۱۴۵ ) آپ کا بچپن سے ہی خداکی ذات سے محبت کا تعلق تھا اور عبا دات سے لگاؤ تھا اور چھوٹی عمر ہی سے الہامات اور رؤیائےصادقہ کے سلسلہ کا آغاز ہو گیا تھا۔ آپؓ فرماتی ہیں:’’بچپن کا سب سے پہلا خواب جو مجھے یاد ہے وہ یہ تھا کہ ایک چاند چکر لگا رہا ہے اور مجھ سے باتیں کرتا ہے۔ چاند نے کہا’’اللہ پر توکل کرو‘‘دن کے وقت میں نے مبارک احمد کو بتایا کہ چاند نے مجھ سے باتیں کیں۔ ایک دن…حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے…مبارک نے… کہا’’آپا سے تو چاند باتیں کرتا ہے۔اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے استفسار فرمایا تو پھر میں نے اپنا خواب سنایا۔ آپ علیہ السلام نے اسی وقت اپنی ایک چھوٹے سائز کی الہامات اور رؤیا کی کاپی میں لکھ لیا تھا۔ ( مصباح جنوری ۱۹۷۸ء۔ تحریرات مبارکہ ایڈیشن ۳۔صفحہ ۵۸)
چونکہ آپ بچپن میں ہی صاحب رؤ یا و کشوف تھیں لہٰذا حضرت مسیح مو عود علیہ السلام آپ کو بچپن میں دعا کے لیے فرماتے اور خدا تعالیٰ آپ کو رؤیا صادقہ کے ذریعے جواب دیتا تھا۔ آپؓ فرماتی ہیں:’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر دعا کو کہتے۔ یہ نہیں کہ میں کوئی بڑی اور بزرگ تھی، آپ کا مطلب دعا سکھانا اور دعا کی اہمیت دلوں میں بٹھا دینا تھا۔آپ نے مجھے کہا کہ ایک خاص بات ہے دعا کرو، رات کو دو نفل پڑھو، دعا کرو کہ جو معاملہ میرے دل میں ہے اس کے متعلق تم کو کچھ اشارہ ہو جائے۔ میں نے دعا کی اور اسی شب خواب دیکھا، آپ علیہ السلام کو سنایا۔‘‘ ( تحریرات مبارکہ ایڈیشن ۳ صفحہ ۲۸۱ )
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی وفات پہ فرمایا کہ ’’حضرت مسیح موعودؑ نے آپ کے متعلق فرمایا کہ’’میری یہ بچی بہت خواب دیکھتی ہے۔ کثرت سے وہ خوابیں سچی نکلتی ہیں ‘‘۔ اب آپ خود سوچیں کہ یہ رحمانیت کا جلوہ ہے نا۔ ایک ایسی بچی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شہادت ہے، جس پر شاید ابھی نماز بھی فرض نہیں ہوئی تھی اور روزے تو فرض ہی نہیں… تھے، حج کا سوال ہی نہیں اور زکوٰۃ کا بھی کوئی سوال نہیں۔ اور خدا تعالیٰ کا اس سےسلوک یہ ہے کہ وہ کثرت سے اپنی قدرت کے نظارے دکھاتا ہے اور رویائے صادقہ سے نوازتا ہے ‘‘ ( سیرت و سوانح حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ صفحہ ۴۳۰ )
اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت اعلیٰ پائے کی ذہانت عطا فرمائی تھی۔آپ نے ساڑھے چار سال کی عمر میں قرآن شریف مکمل کر لیا تھا۔ ایک مرتبہ حضور ؑنے خواب میں دیکھا کہ مبارکہ پنجابی میں بول رہی ہے کہ’’ مینوں کوئی نئیں کہہ سکدا کہ ایسی آئی جس نے اِیہہ مصیبت پائی‘‘( تذکرہ ایڈیشن پنجم صفحہ ۲۷۷) چنانچہ اللہ تعالیٰ بچپن ہی سے آپ کا مُتَکَفِّل رہا اور آپ کی ضرورت اور خواہش کو اپنے فضل سے خود پورا فرما دیتا۔بعض اوقات ایسے مواقع بھی آئے کہ آپ نے کسی ایسی چیز کی خواہش کردی جو قادیان میں موجود ہی نہ تھی تو اللہ تعالیٰ نے غیب سے اس کے سامان پیداکر دیے۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ آپؓ بیان فرماتی ہیں کہ ’’ میں بالکل چھوٹی تھی گرمیوں کی دوپہر میں ہم سب نیچے کے کمروں میں رہا کرتے تھے…میں نے کہا مجھے لیچیاں دیں مگر قادیان میں ہر چیز کہاں ملتی، اور نہ ابھی تک کہیں باہر سے آئی تھی۔ حضرت اما ں جانؓ نے فرمایا کہ ’’اس کی باتیں تو دیکھیں،بے وقت لیچیوں کی فرمائش اب کر رہی ہے‘‘ میں خفا سی ہو کر دوسرے کمرے میں جا کر لیٹ رہی اور سو گئی…سوتے سوتے میری آنکھ کھلی تو آپؑ مجھے دونوں ہاتھوں پر اٹھائے لئے جا رہے تھے۔ جا کر مجھے گود سے اتارکر بھرے ہوئے لیچیوں کے ٹوکرے کے پاس بٹھا کر کہا لو کھاؤ اور حضرت اما ں جان سے فرمایا کہ دیکھو چیز یہ مانگتی ہے، اللہ تعالیٰ بھیج دیتا ہے‘‘(تحریرات مبارکہ ایڈیشن ۳صفحہ ۲۱۸۔۲۱۹)
آپؓ نے ابتدائی تعلیم گھر میں ہی حاصل کی۔ گھر میں ہی آپ نے عربی، فارسی اور انگریزی زبان میں مہارت حاصل کی۔’’ دُرِّ عدن‘‘ جیسا اعلیٰ پائے کا کلام آپ کی اردوزبان میں مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔آپ کو مختلف بزرگان کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی پڑھنےکا شرف حاصل ہوا۔ آپؓ فرماتی ہیں:’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہا…اب اردو تمہاری اچھی ہو گئی ہے۔ فارسی میں خود پڑھا دیا کروںگا۔غرض یہ شرف بھی مجھے حاصل ہے کہ چند روز خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےمجھے فارسی پڑھائی… پھر آپ نےفرمایا…مجھے کام بہت ہوتا ہے۔نہیں چاہتا کہ تمہاری تعلیم میں ناغہ ہو۔مولوی صاحب (یعنی) حضرت خلیفۃ المسیح الاول سے کہو کہ فارسی بھی پڑھا دیا کریں…پھر بعد وصال حضرت مسیح موعود علیہ اسلام، بعد خلافت بھی…پڑھاتے رہے۔ مجھے کہتے تھے ہمیشہ کہ،یہ خاص سلسلہ درس قرآن کا تمہاری وجہ سے شروع ہوا۔اس کا ثواب تم کو ( یعنی سلسلہ درس خواتین ) ہمیشہ ملتا رہے گا‘‘ (سیرت و سوانح حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ صفحہ ۳۵)
آپؓ کو قرآن کریم سے دلی محبت تھی۔ آپ کی صاحبزادی آپا آصفہ مسعودہ صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ صبح شام آپ تلاوت قرآن کریم کرتیں…آپ کو ایمان اور یقین تھا کہ قرآن کریم کی تعلیمات پر سچے دل سے عمل ہی خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا باعث ہے۔ ( سیرت و سوانح حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ صفحہ ۱۶۶ )
آپؓ کا نکاح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ سے ہو چکا تھا، جن کو اللہ تعالیٰ نے حُجۃ اللہ کے خطاب سے نوازا۔ اور شادی حضور ؑکے وصال کے بعد ہوئی۔ آپؓ کی رخصتی سنّتِ نبوی کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ آج کے دورمیں جہاں شادی بیاہ میں نمائش،دکھاوا، اور مقابلہ بازی کی رسومات گلے کاطوق بن چکی ہیں،وہاں معاشرے کے مروّجہ رسم و رواج کے برعکس آپ کی رخصتی نہایت سادگی سے ہوئی اور حضرت اماں جان تمام رسوم کو پس پشت ڈال کر اپنی لاڈلی بیٹی کو خود نواب صاحب کے گھر چھوڑ آئیں۔ آپؓ بیان فرماتی ہیں کہ’’ میرا رخصتانہ ۱۴؍مارچ ۱۹۰۹ء کو حضرت والدہ صاحبہ مکرمہ کے ہاتھوں اور حضرت خلیفۂ اوّل کی دعا کے ساتھ نہایت سادگی کے ساتھ عمل میں آیا…۔مجھے خود حضرت والدہ صاحبہ ساتھ لے جا کران کے گھر چھوڑ آئی تھیں اور دروازے تک حضرت خلیفہ اوّل بھی آئے تھے‘‘( سیرت و سوانح حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ صفحہ ۱۱۰)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاالہام تھا کہ’’نواب مبارکہ بیگم‘‘۔ ایک اور الہام تھا کہ’’ تُنَشَّاءُفِی الْحِلْیَۃِ‘‘ یعنی زیور میں نشوونما پائے گی‘‘ یہ دونوں الہام شادی کے بعد آپ کی ذات میں پوری شان سے پورے ہوئے اور آپ شادی کے بعد حسبِ الہام’’نواب مبارکہ بیگم ‘‘ کہلائیں، زیورات میں پرورش پائی، خوش بختی کی زندگی گزاری اور دین کے ساتھ دنیا وی نعمتیں بھی فراخی سے عطا ہوئیں۔
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ جب شادی ہو کر آئیں تو اپنی عمر سے بڑی بیٹی اور تین بڑے بیٹے ملے مگر دنیاداری میں جہاں بعض دفعہ سگے رشتوں میں حسد اور بغض جگہ پا لیتے ہیں۔ آپ کا وجود اِن سب باتوں سے پاک تھا۔آپ نے تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے اپنے گھر میں پاکیزہ ما حول کو پروان چڑھایا۔ گھر میں اپنے شوہر کی پہلی اولاد کے لیے بھی لفظ’’ سوتیلا‘‘ بولنے کی اجازت نہ تھی اور بچوں میں پیار، محبت اور الفت کی فضا کو قائم رکھا۔حضرت بو زینب صاحبہ،جو پہلی اولاد میں سے تھیں آپؓ کے بارہ میں فرماتی ہیں:
’’ جب بیاہ کے ہمارے گھر آئیں تو بہت چھوٹی عمر تھی لیکن کبھی کوئی ایسی بات نہ کی جو بچوں کے لئے تکلیف دہ ہو۔ بلکہ بہت خیال رکھتی تھیں۔‘‘ ( حضرت زینب صاحبہ صفحہ ۱۹)
ایک اور جگہ آپ بیان فرماتی ہیں:’’ عمر میں چھوٹی ہو کربڑوں کی طرح شفقت کی، رشتے میں بڑی ہو کر چھوٹوں کی طرح عاجزانہ سلوک رکھا ‘‘ ( سیرت و سوانح حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ صفحہ ۳۳۱)
غرض آپؓ کا گھر ایک کامیاب شادی کا نمونہ تھا۔آپؓ ایک بے مثال محبت کرنے والی اور خدمت کرنے والی بیوی تھیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی ہونے کے ناطے حضرت نواب صاحب آپ ؓکی بہت عزت اور قدر کرتے تھے لیکن اس محبت و عزّت کے باوجود آپ نے کبھی اس سلوک سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا اور ہمیشہ اپنے خاوند کے عزّت و احترام کا خیال رکھا۔جن باتوں کو وہ پسند نہ کرتے ان کی حاضری یا غیر حاضری میں ہمیشہ ان باتوں سے احتراز کرتی رہیں۔اپنے بچوں کو بھی یہی سکھایا کہ ’’ دیکھو تمہارے ابّا میاں کو یہ بات پسند نہیں۔ اس کا خیال رکھو‘‘ (مبارکہ کی کہانی مبارکہ کی زبانی صفحہ ۹۱) حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے آپ کی تعریف میں فرمایا کہ’’ میں نے ان میں حُسنِ صورت و حُسنِ سیرت دونوں کو پایا ‘‘ ( مبارکہ کی کہانی مبارکہ کی زبانی صفحہ ۹۱)
اسی طرح نوابزادہ میاں عباس احمد خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ’’ ہماری خالہ حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے اپنے شوہر…کی بیماری میں تیمار داری اور خدمت کا وہ نمونہ دکھایا کہ دیکھنے والے اور ہماری ریاست مالیر کوٹلہ کی برادری والے اس پا ک نمونہ سے بہت متاثر نظر آتے تھے‘‘(دخت کرام صفحہ ۲۵۴)
آپ اپنا ایک خواب بیان کرتےہوئے فرماتی ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود ؑزمین پر فرش پہ تشریف رکھتے ہیں، اور آپ کے پاس آپ کا لکڑی کا قلم دان رکھا ہے… آپؑ نے فرمایا کہ جس کےپاس میرے قلم دان کا ایک ٹکڑا بھی ہو گا،خدا تعالیٰ اس کے علم میں بر کت دے گا… پاس ہی میں کھڑی تھی۔ میں نے… کہا ابا مجھے بھی دیں، آپؑ نے اپنے ہاتھ سے قلم دان کا ٹکڑا مجھے پکڑا دیا…،میں نے پکڑا تو وہ نہایت سفید، دودھ کی مانند، ناریل کے ٹکڑوں کی مانند کئی ٹکڑے تھے، جو مجھ سے سنبھل نہیں رہے تھے، مگر میں نے گرنے نہیں دیا اور گود میں سنبھال لیا۔ ( مبارکہ کی کہانی مبارکہ کی زبانی صفحہ ۱۰۶۔ ۱۰۷)
علم میں برکت کا یہ فیض آپ ؓکے کلام اور تحریرات سے ثابت ہو تا ہے۔ آپؓ ایک اعلیٰ پائے کی شاعرہ اور ادیب تھیں۔ آپؓ کی تحریریں بہت سادہ،بے ساختہ اور دلچسپ ہوتیں جن سے آپ کے اعلیٰ علمی و ادبی ذوق کا اظہار ہوتا ہے۔ ا ٓپ کی شاعری با کمال ہے جو عشق الٰہی اور عشق رسول ﷺ میں ڈوبی نظر آتی ہے۔ حضرت مصلح مو عود رضی اللہ عنہ جو خود اعلیٰ پایہ کے قادرالکلام شاعر تھے، آپ کو اپنا کلام سناتے اور آپ انہیں سناتیں۔حضرت خلیفۃا لمسیح الرّابع رَحِمَہُ اللہ نے آپ ؓکےکلام کے بارے میں فرمایا:
’’حضرت بڑی پھوپھی جان… کی نظمیں آپ دیکھیں۔ آپ حیران ہوں گی کہ اس دَور کے بڑے بڑے شاعر بھی فصاحت و بلاغت میں آپ کا مقابلہ نہیں کرتے۔‘‘ (سیرت و سوانح سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ صفحہ ۱۳۵۔ ۱۳۶ )
شاعری کے متعلق آپ اپنا ایک خواب بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ آپ نے خواب دیکھا کہ میاں مرحوم پلنگ پر لیٹے ہیں اور میں بھی پاس ہوں۔ آنکھ کھول کر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے کچھ اشعار کو پسند فرمایا ہے اس پر تمہارے لیے ایک شعر فرمایا ہے وہ یہ ہے’’ خیر ہے اور خیر رہے، السلام علیکم…۔گویا خدا تعالیٰ بھی آپ کے اشعار پر پسندیدگی کا اظہار فرماتا ہے۔‘‘(سیرت و سوانح حضر ت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ )
آپ ایک اچھی بیٹی، اچھی بہن، اور بے مثال محبت اور خدمت کرنے والی بیوی تھیں۔ اپنے بھائیوں سے بے حد محبت کرتی تھیں جب بھائی اللہ کو پیارے ہو گئے تو آپ بہت افسردہ رہنے لگی تھیں۔
آپ کو مقام خلافت کا بے حد احترام تھا۔ آپ نے تین خلفا ء کا زمانہ دیکھا اور سب کا حد درجہ احترام کیا۔حضرت خلیفۃ المسیحِ الاوّلؓ کا جب بھی ذکر کرتیں تو بے حد محبت اور احترام کے ساتھ کرتیں۔حضرت مصلح موعود ؓسے انتہائی محبت اور قریبی رشتہ کے باوجود ان کے خلافت کے مقام پر فائز ہونے کے بعد ان کے ادب اور احترام میں کوئی کمی نہ آنے دی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثّالثؒ آپ کے بھتیجے اور داماد بھی تھے، رشتے اور عمر میں چھوٹا ہونے کے باوجود خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد آپ حضور کا ذکر بڑی عزّت اور ادب سے کرتیں۔ آپ نے اپنی تمام تحریرات میں خواتین کو ہمیشہ خلافت سے مضبوط تعلق کی نصیحت فرمائی۔ اور نکتہ چینی اور بد ظنّی سے بچنے اور نظام ِجماعت کی مکمل اطاعت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :’’میں نے بہت چھوٹی عمر سے آج تک جو سنا، دیکھا اور نتیجہ سامنے آیا وہ یہ کہ معترضین کبھی پھولے نہ پھلے۔خود بھی ڈوبے اور بہت کمزور طبائع کو ساتھ لے ڈوبے…احمدیت کا خدا تعالیٰ حافظ و ناصر ہو گا۔بہت دینی و رُوحانی ترقیاں بھی ہوں گی اور دنیوی بھی۔ مگر خدا نہ کرے کہ آپ لوگ ان میں سے ہو جائیں جن کی زبان کے بے احتیاط وار نے ان کو گندی جڑی بوٹی کی مانند،کانٹ چھانٹ کر اس باغ سے دُور پھینک دیا ہو۔ خدا کے کام ہوتے رہیں گے اور ہوں گے۔مگر اُس کے فضلوں کے وارث، اس کا کام لینے کا دنیوی ذریعہ کیوں نہ ہم اور ہماری اولادیں ہوں…ڈریں اور ڈر کر ہی ہمیشہ زبان کھولیں۔ نیک ظن رکھیں۔ نیک بات کی تشہیر کریں۔جتنی بھی کرنے کو دل چاہے مگر اِس بلا سے اپنے آپ کو اور اپنے بھائیوں کو بچا لیں…اگر کوئی اعتراض پیدا ہو تو استغفار کریں، لاحول پڑھیں۔‘‘(تحریرات مبارکہ صفحہ ۳۴۰۔ ۳۴۱ )
آپ بچیوں کی تربیت پر بہت زور دیتی تھیں۔آپؓ نےخواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ صحن میں کرسی پر تشریف فرما ہیں۔ ایک شخص سامنے آکر سوال کرتا ہے کہ حضور ! لڑکیوں کے بارے میں کیا حکم ہے، آپ بڑے جوش سے فرماتے ہیں’’ جب تک تم اپنی بیٹیاں بنیادوں میں نہیں دو گے احمدیت کی عمارت کھڑی نہیں ہو سکتی‘‘۔( تحریرات مبارکہ صفحہ ۸۵ )
اس کا مطلب یہی تھا کہ بچیوں کی ایسی تربیت کرو کہ ہر قربانی کر سکیں اور نئی نسل کی بہترین مائیں بن سکیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثّالث ؒ نے آپ کی وفات کے بعد خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا:’’ بڑا عجیب بڑا بلند مقام تھا حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ، ہماری پھوپھی جان کا… بے حد دعائیں کرنے والی اور بہت ہی تسلّی دینے والی تھیں، لوگ دُعا کے لئے کثرت سے آپؓ کو خط لکھتے اور آپؓ ان کے لئے باقاعدگی سے دعائیں کرتی تھیں اور اُن کو تسلّی دیتی تھیں اور بالکل بے نفس تھیں۔مجھے علم ہے کہ کئی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ان کے ہزارواں حصّہ بھی سچّی خوابیں نہیں دیکھیں اور ان لوگوں کو ولی اللہ بننے کا شوق پیدا ہو جاتا ہے۔اور انہوں نے ہزار گنا سچّی خوابیں دیکھیں لیکن کو ئی خیال ہی نہیں‘‘( سیرت و سوانح حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ صفحہ ۴۲۹)
خاکسار اپنی گذارشات آپ کی ان نصائح پہ ختم کرنا چاہتی ہے جو آپ نے جلسہ سالانہ کے موقع پر خواتین کو فرمائیں۔ فرمایا: ’’ا ن با برکت ایام سے فائدہ اٹھائیں اور دعاؤ ں میں مشغول رہیں سلسلہ کی ترقی کے لئے فتنوں کے دور ہونے اور ان سے محفوظ رہنے کے لئے اور یہاں بھی اور اپنے گھروں میں جا کر بھی اپنے خلیفہ کی صحت کے لئے درد دل سے دعائیں…کریں کہ ان کا سایہ، سایہ رحمت بن کر تا دیر ہمارے سروں پر سلامت رہے ‘‘ ( تحریرات مبارکہ ایڈیشن ۳ صفحہ ۵۱ تا ۵۳ )
اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ماشاءاللہ بہت پیاری بزرگ ہستی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان جیسا بننے کی توفیق دے۔اللہ ان پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے آمین
اس طرح کی تقاریر ہمیشہ شائع ہوتی رہنی چاہئیں ۔ جزاکم اللہ خیرا