جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۳ء کے تیسرے اجلاس کی کارروائی
تیسرے اجلاس کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز مکرم داوٴد حنیف صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ کینیڈا کی زیر صدارت تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ حافظ اویس قمر صاحب کو سورۃ النور کی آیات ۳۶تا۳۹کی تلاوت کرنے کی سعادت ملی۔ دانیال ہیرٹرصاحب نے ان آیات کا جرمن ترجمہ اور پھر کالیاس احمد منیر صاحب نے اردو ترجمہ از تفسیر صغیر پیش کیا۔ بعد ازاں ملک آصف صاحب نے چند مہمانوں کا تعارف پیش کیا اور باری باری ان کو سٹیج پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے مدعو کیا۔
اس اجلاس کی پہلی تقریرمولانا شمشاد احمد قمر صاحب کی تھی۔ آپ کی تقریر کا موضوع یہ حدیث تھی کہ کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا اَرَدْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ۔اس تقریر کا مکمل متن الفضل کے کسی آئندہ شمارے میں شائع کیا جائے گا۔
اجلاس کے دوسرے مقرر مکرم طارق احمد ظفر مربی سلسلہ و صدر خدام الاحمدیہ جرمنی تھے جنہوں نے جرمن زبان میں قرآن کریم ایک زندہ کتاب کے عنوان سے تقریر کی۔ آپ نے کہا کہ قرآن کریم الہامی کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت اس دنیا کے لیے اتاری۔ یہ خدا کے الفاظ پر مشتمل ہے۔ ان الفاظ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جب فرشتہ نے حکم دیا کہ پڑھ تو آنحضرت صلم نے جواب میں کہا میں نہیں پڑھ سکتا۔ تو فرشتہ تین بار یہ الفاظ دوہرائے اور حضورﷺنے وہ الفاظ دوہرائے۔ ان الفاظ کو پڑھ کر محمد بن عبداللہ بن عبدالمطب نہ رہا بلکہ محمد رسول اللہ بن گیا کیونکہ اس پر کلام اللہ اتارا گیا۔یہ کلام الٰہی خوبصورت پیک کر کے رکھ دینے کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کی راہنمائی کے لیے اتارا گیا تھا۔ قرآن کو کتاب مستور قراد دیا گیا ہے۔ کوئی کتاب دنیا کی ایسی نہیں ہے جو اتنی بار لکھی گئی ہو۔ قرآن کریم بار بار لکھا جاتا ہے،پرنٹ کیا جاتا ہے۔ قرآن کو کتاب محفوظ، کتاب المبین کہا گیا ہے۔ بار بار پڑھنے والی کتاب ہے۔ہم ہر نماز میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں۔ قرآن کتاب طیبہ ہے۔ وقت سے پہلے آئندہ زمانہ میں پیش آنے والے واقعات کی پیش خبری دیتا ہے۔ اس حوالے سے آپ نے مغربی مفکرین کے متعدد اقسابات پڑھ کر سنائے۔
آپ نے اپنی تقریر میں بتایا کہ قرآن میں بار بار رحمۃ للعالمین کا ذکر ہے۔رحمۃ للعالمین کو ماننے والے وہی ہیں جنہوں نے اس کتاب پر عمل کر کے اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسی جماعت کی بنیاد رکھی جو قرآن سے نہ صرف محبت کرتی بلکہ اس کو اپنی زندگی کا جزو ایمان بنا کر اس پر عمل کرتی ہے۔ مومنوں کے لیے اس میں خیر ہے اور حقیقی مومن ہی اس خیر سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔