جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۳ء کے چوتھے اجلاس کی کارروائی
جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۳ء کے چوتھے اجلاس کی کارروائی کا باقاعدہ آغازمکرم عبد الماجد طاہر صاحب (ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد، یوکے) کی زیر صدارت تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ عمران بشارت صاحب کو سورۃ الاعراف کی آیات ۱۵۸-۱۵۹کی تلاوت کرنے کی سعادت ملی۔ شرجیل خالد صاحب نے ان آیات کا جرمن ترجمہ اور پھر انتصار احمد وڑائچ صاحب نے اردو ترجمہ از تفسیر صغیر پیش کیا۔ اس کے بعد خواجہ فواد احمد صاحب نےحضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا منظوم کلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جس کا آغاز درج ذیل شعرسے ہوا:
مصطفیٰ ؐپر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت
اس سے یہ نور لیا بارِ خدایا ہم نے
اس اجلاس کی پہلی تقریر مکرم محمود احمد ملہی صاحب کی تھی جنہوں نے سورة التوبہ کی آیت ۱۲۸کی تلاوت و ترجمہ پیش کیا اور کہا کہ تاریخ میں بہت سے انقلابات آئے ہیں، جیسے کہ امریکی انقلاب (۱۷۷۵ء۔۱۷۸۳ء)، فرانسیسی انقلاب (۱۷۸۹ء۔۱۷۹۹ء)، صنعتی انقلاب (۱۸ ویں۔ ۱۹ویں صدی کے آخر میں )، روسی انقلاب (۱۹۱۷ء)۔ چینی انقلاب وغیرہ۔ یقیناً ان انقلابات نے تاریخ میں دنیا کو مختلف طریقوں پر متاثر کیا ہے لیکن ایک انقلاب ایسا ہے جو ان تمام انقلابات سے زیادہ مؤثر اور طاقتور ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ مغربی ممالک کے سکولوں اور یونیورسٹیوں کی تاریخ کی کتابوں میں اسے جگہ نہیں ملی۔
اس بارے میں John Hopkins Denison نے لکھا کہ پانچویں اور چھٹی صدی میں مہذب دنیا انتشار کے دہانے پر کھڑی تھی…عربوں میں ایک ایسا شخص پیدا ہوا جس نے مشرق اور جنوب کی پوری دنیا کو متحد کرنا تھا۔
مقرر نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا پر تاریکی اور جہالت کا راج تھا، انسانی تاریخ کا وہ عظیم ترین انسان دنیا کے پردہ پر ابھر ا جس نے انسانی تہذیب اور مذہب پر سب سے زیادہ گہرے اثرات مرتب کیے۔اس کا پیغام لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں داخل ہوا اور اندھیروں کے دور میں روشنی لے آیا۔صلح، اتحاد، امن، اور سماجی انصاف کی ان کی تعلیمات نے نہ صرف ایک نیا مذ ہب بلکہ ایک جامع طرز زندگی پیدا کیا جو آج بھی اربوں لوگوں کو متاثر کر رہا ہے۔برطانیہ کے ایک بہت ہی بااثر مؤرخ، تھامس کارلائل نے کہا، ’’ایسے آدمی ( محمدؐ ) کا کلام براہ راست فطرت کے دل سے نکلی ہوئی آواز ہے۔ کسی اور آواز کو سننا اہم نہیں جتنا اس آواز کو سننا ضروری ہے باقی سب کچھ اس کے مقابلے میں ہَوا کی مانند ہے۔‘‘
مقرر نے کہا کہ نہ صرف کارلا ئل بلکہ ہر باشعور دانشور آج بھی، نفرت، حسد، امتیازی سلوک، نسل پرستی، تعصب، تشد داور تنازعات سے دو چار دنیا میں، ایک آواز، ایک رول ماڈل، یا ایک ایسے راہنما کی تلاش میں ہے جو ہمیں کشتی نوح کے ذریعہ سے بچا سکے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ عظیم انسان تھے جنہوںنے تاریک ترین دور میں، اتحاد، صلح اور امن کی تعلیم سے اندھیروں کو منور کیا اورہمیشہ کے لیے تاریخ کو بدل ڈالا۔ آنحضرتﷺ کی زندگی اور تعلیمات ہمارے لیے راہنمائی کا کام کرتی ہیں۔
حضور اکرمﷺ نے اتحاد کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور احترام کے ساتھ بات چیت کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ آپ نے بار بار اپنے ساتھیوں کو یہ تلقین کی کہ وہ دیگر انسانوں کے ساتھ اپنے تعلقات کا بھی خیال رکھیں۔ نبی کریمﷺ کی احادیث اتحاد، محبت اور باہمی تعاون کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔ انہوں نے ایک مضبوط اور متحد کمیونٹی کی تعمیر کے لیے تعصب اور تقسیم پر قابو پانے کی ضرورت پر زور دیا۔
مقرر نے کہا کہ حضورﷺ کے انقلاب کی وسعت کا اندازہ صرف تب ہو سکتا ہے جب ہم عربوںکے حالات زندگی دیکھیں۔عرب کے لوگ سخت مزاج اور وحشی تھے۔ عدل و انصاف کا تو کوئی نام و نشان ہی نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس حالت کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا اور پھر اس کی نعمت سے تم بھائی بھائی ہو گئے۔ اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر (کھڑے) تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچالیا۔ اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ شاید تم ہدایت پا جاؤ۔ حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں:؎
کہتے ہیں یورپ کے ناداں یہ نبی کامل نہیں
وحشیوں میں دیں کو پھیلانا یہ کیا مشکل تھا کار
پر بنانا آدمی وحشی کو ہے اک معجزہ
معنی راز نبوت ہے اس سے آشکار
مقرر نے کہا کہ ایک معاہدہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جسے میثاق مدینہ کہتے ہیں، اس معاہدے نے تمام دستخط کنندگان کا تحفظ اور تعاون حاصل کیا اور پر امن باہمی تعاون کی بنیاد ر کھی۔نام نہاد اسلامی اسکالر اور اسلام کے ناقدین جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا، کوئی حقوق نہیں دیے اور انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا۔ ان کے دعوے بالکل غلط ہیں۔ مدینہ کا چارٹر ایک تاریخی دستاویز ہے جو مدینہ کمیونٹی کی سیاسی اور سماجی تنظیم کی عکاسی کرتا ہے۔ میثاق مدینہ نے نہ صرف مسلمانوں کو تحفظ فراہم کیا بلکہ مدینہ میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے حقوق اور آزادیوں کو بھی تسلیم کیا۔
مقرر نے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے نصائح فرمائیں اور نسلی تفاخر کو ختم کر کے صلح، آشتی اور امن کا پیغام دیتے ہوئے انسانیت پر رہتی دنیا تک ایک عظیم احسان کر دیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشہور الوداعی خطاب میں فرمایا:اے لوگو ! تمہارا معبود ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے، کسی عربی کو کسی عجمی پر بھی اور عجمی کو عربی پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔ ایک گورا آدمی سیاہ فام آدمی سے بہتر نہیں ہے، اور نہ ہی ایک سیاہ فام آدمی گورے آدمی سے بہتر ہے۔ اس طرح کے بیانات کے ذریعے انہوں نے نسلی تعصب کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کیا اور انسانیت کی یکجہتی پر زور دیا۔
اس الوداعی خطاب کا تذکرہ کرتے ہوئے ہمارے پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ یہ اسلام کی واضح تعلیم ہے کہ تمام قومیتوں اور تمام نسلوں کے لوگ برابر ہیں۔ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ تمام لوگوں کو بغیر کسی تفریق اور تعصب کے مساوی حقوق کی ضمانت دی جائے۔ یہ وہ کلیدی اور سنہری اصول ہے جو مختلف گروہوں اور قوموں کے درمیان ہم آہنگی اور امن کے قیام کی بنیاد رکھتا ہے۔
مقرر نے کہا کہ دشمن کو معاف کر دینا بھی ایک مومن کی خصوصیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اور اگر وہ صلح کے لیے جھک جائیں تو بھی اس کے لیے جھک جا اور اللہ پر توکل کر۔ یقیناً وہی بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
اسلام امن اور صلح کو جنگ پر ترجیح دیتا ہے اور آخری دم تک جنگ سے بچنے کی کوشش کرناضروری سمجھتا ہے۔ قوم کے وسیع تر مفاد میں معمولی نقصان کو قبول کرنا بھی اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس کی ایک بہت اچھی مثال صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کے ہر ایک مطالبے کو امن کی خاطر قبول کیا، گو کہ مسلمان مکہ والوں کے مطالبات کو نا انصافی سمجھتے تھے۔ تاہم، قبائل کے درمیان صلح قائم کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام مطالبات سےاتفاق کیا۔
مقرر نے کہا کہ تاریخی طور پر، جھلسی ہوئی زمین سے مراد یورپی ممالک اور بڑی طاقتوں کے ذریعے استعمال ہونے والی جنگی پیشرفت ہے، جس میں ایک فوجی قوت ہر اس چیز کو تباہ کر دیتی ہے جو دشمن کے لیے کسی کام کی ہو : سڑکیں، ریل کی پٹری، پل، کار خانے، مکانات، قصبے، گاؤں، کھیت، توانائی اور پانی کی فراہمی، اسٹاک۔ کیا ایسے اقدامات سے امن، اتحاد اور مفاہمت قائم ہو سکتی ہے؟ لیکن اسلامی تعلیم ہے کہ کسی ملک کا نقصان بھی نہ کرو جب تک کوئی بھی صورت دشمن کے زیر کرنے یا اپنے بچانے کی ہے اس کے کھیتوں اور درختوں اور مکانوں کو بچاؤ۔ بلا سبب اس غرض سے نقصان نہ پہنچاؤ کہ بعد میں ان کی حکومت کمزور رہے گی اور اگر کوئی صلح کا پیغام دے تو اس خیال سے کہ اس کے دل میں شرارت ہے وہ صرف وقفہ چاہتی ہے صلح سے انکار نہ کرو بلکہ جب تک شرارت ظاہر نہ ہو جنگ کو مٹانے اور صلح کرنے کی کوشش کرو۔ آنحضورﷺ نے جنگ کے حالات میں بھی شہریوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے حقوق کو بر قرار رکھا۔ تا ہم، جنگ میں یورپی اور مغربی ممالک کی تاریخ میں، ہمیں بالکل برعکس تصویر نظر آتی ہے۔
میں آپ کے ساتھ ایک حقیقی واقعہ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ ہیر یروس اور نامہ کی نسل کشی یورپی / مغربی تاریخ کا ایک بھیانک حصہ ہے۔ اس نسل کشی کے ذمہ دار پروین کے لیفٹیننٹ جنرل نے ایک قتل عام کا حکم جاری کیا اور کہا: سرحد کے اندر، اس قومیت کے لوگوں کو بندوق کے ساتھ یا اس کے بغیر، مویشیوں کے ساتھ یا بغیر، گولی مار دی جائے گی، میں مزید عورتوں یا بچوں کو پناہ نہیں دوںگا۔ میں انہیں ان کے لوگوں کے پاس واپس لے جاؤں گا یا انہیں بھی گولی مار دوں گا۔ اس کے بعد زیادہ تر ہیر یروس تقریباً بے پانی OMAHEKE صحرا کی طرف بھاگ گئے۔ اس پر ویسن لیفٹینینٹ جنرل نے ان کو بند کر دیا تھا اور پناہ گزینوں کو وہاں موجود پانی کے چند مقامات سے بھگادیا تھا، جس سے ہزاروں ہیر یروس جن میں عورتیں، بچے، نوزائدہ بچے، بوڑھے اور مویشیوں کے ریوڑ شامل تھے، پیاس سے مر گئے۔
مقرر نے کہا کہ جہاں ایک طرف ہمیں ایسی سفاکی، ظلم اور سرد مہری کا پتا چلتا ہے، وہیں دوسری طرف محسن انسانیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں نرمی، مہربانی، بردباری اور انسانیت کا اعلیٰ درجہ نظر آتا ہے جسے تمام جہانوں کے لیے نمونہ اور رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ غزوہ بدر میں ؛ مسلمانوں نے پانی کے چشمے کے پاس اپنا پڑاؤ ڈالا۔ تھوڑی دیر کے بعد قریش کے دشمن کیمپ کے کچھ سپاہی گرمی کے خلاف چشمے سے پانی بھرنے آئے۔ صحابہ کرامؓ نے انہیں پانی سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ تاہم، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ ؓکو ہدایت کی کہ وہ انہیں نہ روکیں اور دشمنوں کو پانی تک رسائی کی اجازت دے دی۔
حسینان عالم ہوئے شرمگیں جود یکھا وہ حسن اور وہ نور جبیں
پھر اس پر وہ اخلاق اکمل تریں کہ دشمن بھی کہنے لگے آفریں
مقرر نے کہا کہ اب میں آپ کے سامنے صلح کی ایک غیرمعمولی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں، جنگ احد میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تو کفار نے شہداء کے جسموں کو بگاڑ دیا… اور ان کی ناک اور کان کاٹ ڈالے۔ انہوں نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے جگر کا کچھ حصہ کاٹ کر ہند کو دے دیا۔ اس نے اس جگر کو چبانے کی کوشش کی لیکن اسے نگل نہ سکی تو اس نے اسے تھوک دیا۔ اگرچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو سزادینے اور بدلہ لینے کا حق حاصل تھا، لیکن ہند جس نے آپ کے پیارے چچا کے قتل کا حکم دیا تھا، اس ظالمانہ اور ناقابل معافی فعل کے بعد بھی محمدﷺ نے شفقت اور معافی کا برتاؤ کیا۔ پھر قابل ذکر بات یہ ہے کہ فتح مکہ کے وقت جب آپﷺ کی بیٹی کے قاتل نے معافی مانگی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی معاف کر دیا۔ ایک یہودی عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے میں زہر ملا کر قتل کرنے کی کوشش کی۔ صحابہؓ نے اسے پکڑ کر قتل کرنا چاہا۔ تاہم، حضور نبی اکرمﷺ نے انہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا اور کہا کہ اسے جانے دو۔ قتل کی متعدد کوششیں، اپنے پیاروں کا وحشیانہ قتل، دشمن نے ہر وار کیا۔ ان سب لوگوں کو جنہوں نے آپؐ اور مسلمانوں کو جلاوطن کیا محسن انسانیت رحمۃ اللعٰلمین نے یہ جواب دیا: جاؤ آج تم سب آزاد ہو، آج تم سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی۔
ایک مصنف سینٹے لین پول لکھتے ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے آبائی شہر مکہ میں جب فاتحانہ شان سے داخل ہوئے، اہل مکہ جو آپ کے جانی دشمن اور خون کے پیاسے تھے اُن سب کو معاف کر دیا۔یہ ایسی پُر امن فاتحانہ آمد تھی جس کی مثال ساری تاریخِ فتوحات میں نہیں ملتی۔
بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سوسو بار
پاک محمدؐ مصطفیٰ نبیوں کا سردار
مقرر نے آخر پر کہا کہ میں امن، اتحاد اور مفاہمت صلح کے متلاشی روحوں کو خوشخبری دینا چاہتا ہوں، یعنی اتحاد اور صلح کا وہ علم جسے حضور نبی اکرمﷺ نے اپنی پوری زندگی میں کامیابی کے ساتھ اٹھائے ہوئے رکھا وہ علم اس زمانہ میں خدا کی طرف سے مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ کو عطا ہوا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے مشن کو جاری رکھا۔ آپ دن رات اس کوشش میں لگے رہے کہ لوگوں کو پیار محبت اور امن کی فضا میں آپس میں جوڑا جائے۔ آپؑ نے ۸۰ سے زائد کتابیں تصنیف کیں اور یہ بات قابل تعریف ہے کہ آپ نے اپنے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح جنہوں نے اپنے الوداعی خطاب میں اتحاد اور صلح کا پیغام دیا، اس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے انتقال سے قبل اپنی آخری تصنیف بھی بعنوان پیغام صلح تحریر فرمائی۔
مقرر نے کہا کہ آج یہ نوح کی کشتی ہے جو ہمیں بچاسکتی ہے، حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار
آپؑ کی وفات کے بعد بھی صلح ،آشتی اور وحدت انسانی کا عَلم نہیں گرایا گیا، آپ کی وفات کے بعد یہ جھنڈا خدا تعالیٰ نے خلافت احمدیہ کے سپرد کیا اور آج جماعت احمدیہ کے خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہی ہیں جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے کُل عالم کو اتحاد، صلح اور امن کا درس دے رہے ہیں۔ آج امن کا شہزادہ آپ ہی ہیں جو کہ بڑی بڑی طاقتور حکومتوں سے لے کر ہر طبقہ کے انسان کو اتحاد صلح اور امن کی طرف دعوت دے رہے ہیں آپ کی انتھک محنت اور قیادت و تربیت کا نتیجہ ہے کہ جماعت احمدیہ کل عالم میں بلا تفریق مذہب، قوم یا نسل، سرحدوں سے پار انسانیت کی خدمت کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے خلیفہ کو کامیابیوں اور برکتوں سے بھر پور لمبی صحت والی زندگی عطافرمائے۔ آمین
مکرم ظہیر احمد صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کے منظوم کلام
دونوں ہاتھوں سے پکڑ لو دامنِ تقویٰ کو تم
ایک ساعت میں کرا دیتا ہے یہ دیدارِ یار
سے چند اشعار خوش الحانی سے پیش کیے۔
اس اجلاس کے اگلے مقرر مولانا عبد السمیع خان صاحب تھے جن کی تقریر کا موضوع تھا: خلافت اور جماعت کے باہمی پیار کا تعلق۔اس تقریر کا مکمل متن الفضل انٹرنیشنل کے کسی آئندہ شمارے میں شائع کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ
اس اجلاس کی آخری تقریر مکرم عبد اللہ واگس ہاؤزر صاحب امیر جماعت جرمنی کی تھی۔امیر صاحب جرمنی کی تقریر کا موضوع تھا سوشل میڈیا اور مادہ پرستی کے دور میں صحیح سمت کا تعیّن۔مکرم امیر صاحب نے اپنی تقریر کے شروع میں ایک اشتہار کا ذکر کیا جس میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ سگریٹ پینے کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد شوگر کی بیماری سے ہلاک ہونے والوں سے کم ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا طریق ہے کہ وہ ایسی فلمیں چلا کر نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں جس میں ان کے لیے کشش ہوتی ہے۔ ہمیں ایسی پر کشش اشتہار بازی سے متاثر ہونے کی بجائے جو بات کہی جا رہی ہے اس کا تجزیہ کرنا ہے کہ کہی جانے والی بات کا آخری نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔ امیر صاحب نے اخبار کے ایک آرٹیکل کا ذکر کیا جس کے مطابق چھوٹے بچے روزانہ تین سے چار گھنٹے سوشل میڈیا کو دیکھنے پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ نگاہ رکھیں کہ ان کے بچے کس قدر سوشل میڈیا سے منسلک اور اس کا کتنا اثر قبول کر رہے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف احمدیوں کا مسئلہ نہی بلکہ پوری سوسائٹی کا مسئلہ ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ موبائل فون جو ہر ایک کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے ہینڈی کہلاتا ہے۔ اس کا مثبت استعمال انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ حضور کے خطبات، آن لائن ملاقاتوں کی تفصیل، جماعتی تبلیغی اور تربیتی لٹریچر ان سب تک رابطہ بھی اسی موبائل کی معرفت ممکن ہے جو ہر وقت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام ہم ہفتوں میں مکمل کرتے تھے اب سوشل میڈیا کی بدولت دنوں میں مکمل کر سکتے ہیں۔ اس لئے سوشل میڈیا کا مثبت استعمال ہمارے کاموں میں آسانیاں پیدا کرنے کا موجب ہے۔ اب یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ اس کو اپنی اور جماعت کی ترقی کے لیے استعمال میں لائیں۔ حضور نے ستمبر ۲۰۲۱ء میں لجنہ اماء اللہ کے اجتماع میں جو تقریر کی وہ آزادی کی حدود کے حوالہ سے ہمیں راہنمائی مہیا کرتی ہے۔ جس طرح انسان پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا لیکن وہ جیسا پانی پیئے گا اس کے اثرات اس کی صحت پر اثر انداز ہوں گے۔ نمکین اور میٹھے پانی کے اثرات یکسر مختلف ہوں گے۔ یہی سوشل میڈیا کا حال ہے۔ یہ آج ہر ایک کی ضرورت بن چکا ہے۔ اب ہم پر انحصار ہے کہ ہم اس کا استعمال میٹھے پانی کے طور پر کرتے ہیں یا نمک والے پانی کی طرح۔ روحانی جماعت کے لوگوں کو روحانیت میں ترقی کے لیے دنیا کی اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا چاہیے۔ جماعت کی کتابوں کو اپنے موبائل پر Scan کریں۔ عیسائی دنیا چرچ کو چھوڑ رہی ہے۔ جرمنی میں ہر سال ملین سے اوپر لوگ چرچ سے اپنا نام کٹوا رہے ہیں۔ ان کو اسلام کی طرف لانا ہماری ذمہ داری ہے۔ حضور نے خطبہ جمعہ میں یاد دلایا ہے کہ مسجدیں جو بنائی ہیں کیا وہ نمازیوں سے بھری رہتی ہیں۔ ہمیں نئی صدی میں داخلے کے وقت جو یاد دہانیاں حضور کی طرف سے کروائی گئی ہیں ان پر عمل کرنا ہمارا فرض ہے۔ اس کے لیے جہاں تک سوشل میڈیا سے ہم مدد لے سکتے ہیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔