سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی (۳؍ستمبر ۲۰۲۳ء بروز اتوار)
٭… جلسہ سالانہ جرمنی کے اختتامی اجلاس سے حضرت خلیفۃ المسیح ایّدہ اللہ کا بصیرت افروز اختتامی خطاب
٭… کامیاب جلسہ سالانہ جرمنی کا اختتام، سینتالیس ہزار دو سو سینتیس( ۴۷۲۳۷) نفوس کی شمولیت، عالمگیر میڈیا کوریج
٭… جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریب بیعت، تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے خوش نصیب احباب کے اسماء کا اعلان
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح پانچ بج کر چالیس منٹ پرمردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے رہائشی حصہ میں تشریف لے گئے۔
صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مختلف نوعیت کے دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
آج جماعت احمدیہ جرمنی کے جلسہ سالانہ کا تیسرا ا ور آخری روز تھا۔ پروگرام کے مطابق تین بج کر پچاس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور بیعت کی تقریب ہوئی۔ یہ ایک عالمی بیعت تھی جو MTA انٹرنیشنل کے ذریعہ دنیا بھر کے ممالک میں براہ راست LIVE نشر ہوئی اور دنیا کے تمام ممالک کی جماعتوں نے اس مواصلاتی رابطہ کے ذریعہ اپنے پیارے آقا کی بیعت کی سعادت پائی۔
آج حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دست مبارک پر تُرکی، آذربائیجان، میسیڈونیا، مراکش، فلپائن، جرمن اور عر ب سے تعلق رکھنے والے ۳۹؍ افراد نے بیعت کی سعادت پائی۔ ان میں ۱۶؍ مرد اور ۲۳؍ خواتین تھیں۔ آخر پر حضور انور نے دعا کروائی۔بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔
نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اختتامی اجلاس کے لیے جونہی سٹیج پر تشریف لائے تو ساری جلسہ گاہ پُرجوش نعروں سے گونج اٹھی اور احباب جماعت نے بڑے ولولہ اور والہانہ انداز میں نعرے لگائے۔
اختتامی اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ جومکرم حافظ ذاکر مسلم صاحب نے کی اور اس کا اردو ترجمہ مکرم حامد اقبال صاحب استاذ جامعہ احمدیہ جرمنی نے پیش کیا۔ جبکہ جرمن ترجمہ سٹیفن ہیرٹر صاحب نے پیش کیا۔
بعد ازاں عزیزم مرتضیٰ منان صاحب مربی سلسلہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام
اے خدا اے کارسازو عیب پوش و کردگار
اے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار
میں سے منتخب اشعار خوش الحانی سے پیش کیے۔
تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ کے اسماء
بعد ازاں پروگرام کے مطابق مکرم نیشنل سیکرٹری صاحب تعلیم نے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے ان طلبہ کے نام پڑھ کر سنائے جنہو ں نے سال ۲۰۱۹ء تا ۲۰۲۳ء تعلیمی میدان میں کامیابی حاصل کی۔ ان طلبہ کو خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر حسب ہدایت حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میڈل اور سندات دی جا چکی ہیں۔
(ان خوش نصیب طلبہ کے نام اس رپورٹ کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں۔)
بعد ازاں پانچ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنا اختتامی خطاب فرمایا۔
اختتامی خطاب جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۳ء
تشہد،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جیسا کہ میں اس سال برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے آخری اجلاس میں اور اس سے پہلے بھی دو تین جلسوں کی اختتامی تقریر میں اسلام کے مختلف طبقات کے حقوق کے بارے میں کچھ بیان کرتا رہا ہوں۔ آج یہاں بھی میں اسی مضمون کو جاری رکھوں گا اور معاشرے کے مختلف طبقات کے بعض حقوق کے بارے میں قرآن کریم احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشادات کی روشنی میں بیان کروں گا۔ یہی حقوق خوبصورت رہنما اصول ہیں جو معاشرے میں امن اور سلامتی کی ضمانت ہیں۔ ان سے پتا چلتا ہے کہ اسلام کی تعلیم کتنی خوبصورت تعلیم ہے جو معاشرے کے ہر طبقے کو اس کا حق دلواتی ہے۔ قرض اور تجارت کے لین دین کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بڑا تفصیلی حکم دیا ہے تا کہ ہر طبقے کا حق قائم کیا جائے۔
حضورانور نے سورةالبقرة کی آیت ۲۸۳ کی تلاوت فرمائی اور فرمایا:
یہ ایک آیت ہے بڑی تفصیلی آیت۔ ترجمہ اس کا یہ ہے کہ:
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!جب تم ایک معیّن مدت تک کے لیے قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو اور چاہیے کہ تمہارے درمیان لکھنے والا انصاف سے لکھے۔ اور کوئی کاتب اِس سے انکار نہ کرے۔ کوئی لکھنے والا انکار نہ کرے لکھنے سے۔ کہ وہ لکھے۔ پس وہ لکھے جیسا اللہ نے اسے سکھایا ہے۔ اور وہ لکھوائے جس کے ذمہ دوسرے کا حق ہے، اور اللہ اپنے رب کا تقوی اختیار کرے، اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کرے۔ پس اگر وہ جس کے ذمہ دوسرے کا حق ہے بیوقوف ہو یا کمزور ہو یا استطاعت نہ رکھتا ہو کہ وہ لکھوائے تو اس کا ولی اس کی نمائندگی میں انصاف سے لکھوائے۔ اور اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ ٹھہرا لیا کرو۔ اور اگر دو مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ایسے گواہوں میں سے جن پر تم راضی ہو۔ یہ اس لیے ہے کہ ان دو عورتوں میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد کروا دے۔ اور جب گواہوں کو بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں۔ اور لین دین خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اس کی مقررہ میعاد تک یعنی مکمل معاہدہ لکھنے سے اکتاؤ نہیں۔ تمہارا یہ طرزِعمل خدا کے نزدیک بہت منصفانہ ٹھہرے گا اور شہادت کو قائم کرنے کے لیے بہت مضبوط اقدام ہو گا اور اس بات کے زیادہ قریب ہوگا کہ تم شکوک میں مبتلا نہ ہو۔ لکھنا فرض ہے سوائے اس کے کہ وہ دست بدست تجارت ہو جسے تم اسی وقت آپس میں لے دے لیتے ہو۔ اس صورت میں تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اسے نہ لکھو۔ اور جب تم کوئی لمبی خرید و فروخت کرو تو گواہ ٹھہرا لیا کرو۔ اور لکھنے والے کو اور گواہ کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ اگر تم نے ایسا کیا تو یقیناً یہ تمہارے لیے بڑے گناہ کی بات ہو گی۔ اور اللہ سے ڈرو جبکہ اللہ ہی تمہیں تعلیم دیتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پس یہ ایک تفصیلی حکم ہے بڑا واضح ہے جس سے نہ صرف لین دین احسن طریق پر ہو گا بلکہ معاشرے کا امن بھی قائم ہو گا۔ بہت سے ایسے معاملات سامنے آتے ہیں جن میں ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا یا گواہوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے یا لکھنے والوں کو روک دیا جاتا ہے یا لکھا ہی نہیں جاتا معاہدے ہی نہیں ہوتے پھر لڑائی اور جھگڑے ہوتے ہیں۔ پس آج کے ترقی یافتہ لوگوں کو تو آج اس بات کا خیال آیا ہے کہ یہ قانونی کارروائیاں ہونی چاہئیں لکھنا پڑھنا ہونا چاہیے لیکن اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے اس کا تفصیلی حکم دیا ہے تا کہ تجارت اور لین دین اور کاروباروں میں بغیر کسی فتنے اور جھگڑے کے آرام سے سارے کام ہوتے رہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
قرض لے کر اسے اتارنے کی کس قدر فکر ہونی چاہیے۔ اس بارے میں روایات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان فرمودہ ایک واقعہ کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا کہ اس نے بنی اسرائیل میں سے کسی دوسرے شخص سے ایک ہزار اشرفیاں قرض مانگیں تو اس نے کہا میرے پاس کوئی گواہ لے کر آؤ میں ان کو گواہ ٹھہراؤں اور رقم دے دوں۔ تو اس نے کہا کہ اللہ ہی کافی گواہ ہے۔اس نے کہا پھر اپنا کوئی ضامن پیش کروں اس نے کہا۔ اللہ ہی کافی ضامن ہے۔ اس نے کہا تم نے سچ کہا اور اس کو مقررہ میعاد کے لیے اشرفیاں دے دیں۔ اللہ تعالیٰ کی ضمانت اور گواہی پر قرض دے دیا۔ جس نے قرض لیا تھا اس نے سمندر کا سفر کیا اور اپنا کام سرانجام دیا اور اس کے بعد جہاز کی تلاش کی جس پر سوار ہو کر اس کے پاس اس معیار پر پہنچ جائے جو اس نے مقرر کی تھی یعنی وہاں واپس آئے اور قرض دینے والے کا قرض اتار سکے مگر اس نے کسی جہاز کو نہیں پایا۔ آخر اس نے ایک لکڑی لی اور اسے کریدا اور اس میں ایک ہزار اشرفیاں اور اپناایک خط اپنے دوست کے نام رکھ دیا پھر اس کا منہ بند کر دیا اور پھر اسے لے کر سمندر پر آیا اور کہا اے میرے اللہ تو جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار اشرفیاں لی تھیں اور اس نے مجھ سے ضامن مانگا تھا اور میں نے کہا تھا اللہ ہی کافی ضامن ہے اور وہ تیرا نام سن کر راضی ہو گیا اور اس نے مجھ سے گواہ مانگا تھا اور میں نے کہا تھا اللہ ہی کافی گواہ ہے اور وہ تیرا نام سن کر راضی ہو گیا تھا اور میں نے بہت کوشش کی کوئی جہاز پاؤں کہ تا اس کا مال اس کو بھیج دوں مگر میں نہ کر سکا اور اب میں یہ مال تیرے سپرد کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے وہ لکڑی سمندر میں ڈال دی یہاں تک کہ وہ سمندر میں آگے چلی گئی۔ اس نے کہا اب اور کوئی ذریعہ نہیں تو اللہ پہ توکل کرتے ہیں۔ پھر اللہ کے توکّل کا کیا نتیجہ نکلا اس کے بعد وہ واپس گھر آ گیا اور جہاز کی تلاش میں پھر بھی رہا تا کہ اپنے ملک واپس جا سکے۔ وہ شخص جس نے اس کو قرض دیا ہوا تھا ایک دن باہر نکلا کہ دیکھیں شاید کوئی جہاز اس کا مال یا روپیہ لے کر آیا ہو تو اس کی نظر اس لکڑی پر پڑی جس کے اندر مال رکھا ہوا تھا۔ وہ اسے اپنے گھر والوں کے لیے ایندھن سمجھ کے لے گیا۔ جب اس نے اس کو چیرا تو اس میں مال اور خط پایا۔ پھر کچھ مدت کے بعد وہ شخص بھی پہنچا جس کو اس نے مال قرض دیا تھا۔ وہ ایک ہزار دینار اپنے ساتھ لایا اور کہا اللہ کی قسم میں نے جہاز کی انتہائی تلاش کی تھی تا تمہارا مال تمہیں واپس کروں مگر جس جہاز میں میں آیا ہوں اس سے پہلے میں نے کوئی جہاز نہیں پایا تو قرض خواہ نے کہا کیا تو نے کوئی رقم میرے لیے بھیجی تھی؟ اس نے کہا کہ میں تجھے بتاتا ہوں کہ مجھے اس جہاز کے سوا جس میں اب آیا ہوں کوئی جہاز نہیں ملا۔ قرض خواہ نے کہا کہ اللہ نے تیری طرف سے وہ مال مجھے پہنچا دیا ہے جو تو نے لکڑی میں بند کر کے بھیجا تھا۔ پس تو اطمینان سے ہزار اشرفیاں لے کر واپس لوٹ جا۔
یہ ایمانداری دونوں طرف سے ملتی ہے ہمیں۔ پس یہ ایمان کی حالت ہے اور یہ قرض اتارنے کی فکر ہے جو ایک قرض دار کو ہونی چاہیے اور پھر جس کا قرض اتارنا تھا اس کی ایمانی حالت بھی اعلیٰ معیار کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے پہلے ادائیگی کا سامان کر دیا تو پھر اس سے دھوکا سے دوبارہ لینے کی کوشش نہیں کی۔ پس یہ وہ معیار ہیں جو ہمارے اندر ہونے چاہئیں اور یہی وہ معیار ہیں جن سے ہم اپنے ایمان میں کامل اور اپنے عہد بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ پس اس لحاظ سے ہم میں سے ہر ایک کو جائزہ لینا چاہیے جو کاروبار کرتے ہیں یا لین دین کرتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پھر قرض دار کو سہولت دینے کا حق اسلام قائم کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص تنگدست قرضدار کو مہلت دے یا اسے قرض میں سے کچھ چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو عرش کے سائے کے نیچے جگہ دے گا۔ اس دن عرش کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ ایک مومن جسے عرش کے سائے کی فکر ہے اس کے لیے یہ کتنی بڑی ضمانت ہے۔ یہ باتیں ہیں جو حسین معاشرے کو قائم کرتی ہیں لیکن بہت سارے معاملات آتے ہیں ایسے جھگڑے اٹھتے ہیں جہاں دھوکے دیے جاتے ہیں ایک دوسرے کو یا انکار کیے جاتے ہیں یا دوہری دوہری رقمیں وصول کی جاتی ہیں یا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کے لیے مقدمے بازیاں ہوتی ہیں۔ پس ہمارے معاشرے میں تو یہ باتیں نہیں ہونی چاہئیں ایک حسین اور پاک معاشرہ ہونا چاہیے ہمارا۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر قرض داری اور گناہ سے پناہ مانگتے تھے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کیوں قرض داری سے بہت پناہ مانگتے ہیں تو آپ نے فرمایا جو قرض دار ہو گا وہ جھوٹی بات کہے گا اور وعدہ خلافی کرے گا۔ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسی کوئی بات نہیں کر سکتے تھے آپ اپنی امت کو سبق دے رہے ہیں نصیحت فرما رہے ہیں کہ قرض لے کر جھوٹے وعدے نہ کرو اور صاف ستھری بات قرض لیتے وقت بھی کرو اور پھر اپنی نیتوں کوبھی صاف رکھو۔ بہت سے لوگ قرض اتارنے کی توفیق ہوتے ہوئے بھی بہت لیت و لعل سے کام لیتے ہیںا ور پھر جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ پس ہر قرض دار کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ قرض سے نجات اور جلد اتارنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی ایک نسخہ بیان فرمایا ہے۔اللہ پر توکل ہو اللہ سے دعا ہو تو اللہ تعالیٰ بھی قرض سے نجات کی اور جلد اتارنے کے سامان فرما دیتا ہے۔
ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرض کے متعلق دعا کے واسطے عرض کیا کہ میرا قرض بہت ہے دعا کریں اتر جائے۔ اب بہت لوگ لکھتے رہتے ہیں قرض کی دعا کے لیے تو آپ نے فرمایا۔ا ستغفار بہت پڑھا کرو۔ انسان کے واسطے غموں سے سبک ہونے کے واسطے یہ طریق ہے نیز استغفار کلیدِ ترقیات ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا رویہ قرض کی ادائیگی کا کیا تھا۔ ایک دفعہ ایک یہودی آیا جس کا اپنا آپ نے قرض دینا تھا اس نے آ کر سخت کلامی شروع کی اور گو ادائیگی قرض کی میعاد ابھی پوری نہیں ہوئی تھی ابھی وقت تھا جو معاہدہ طے ہوا تھا اس کے مطابق مگر آپ نے اس سے معذرت کی اور ایک صحابی کو بھیجا کہ فلاں شخص سے جا کر کچھ قرض لے آؤ اور اس یہودی کا قرض ادا کر دیا۔ جب وہ یہودی سخت کلامی کر رہا تھا تو صحابہ کو اس یہودی پر سخت غصہ آیا اور ان میں سے بعض اسے سزا دینے کے لیے تیار ہو گئے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کچھ مت کہو کیونکہ میں نے اس کا قرض دینا تھا اور اس کا حق تھا کہ مجھ سے مطالبہ کرتا۔ جس وقت کا یہ واقعہ ہے حضرت مسیح موعودؑ نے اس کی تفصیل بھی لکھی ہے کہ جس وقت یہ واقعہ ہوا آپ مدینہ اور اس کے ارد گرد کے بہت سے علاقے کے بادشاہ ہو چکے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر نگین تھا یہ سارا علاقہ، آپ کی حکومت تھی وہاں اور ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس حالت میں آپ کا اس یہودی کی سختی برداشت کرنا عزت کی کس قدر عظیم الشان قربانی تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی چنانچہ اس کا یہ اثر ہوا آپ کی اس عاجزی کو دیکھ کے اور انصاف کو دیکھ کر کہ وہ یہودی مسلمان ہو گیا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
قرض کی ادائیگی کی پابندی اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ چاشت کا وقت تھا لوگ ایک جنازہ کندھوں پر اٹھائے ہوئے آئے۔ ورثاء نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اس میت کی نماز جنازہ پڑھا دیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہارے اس صاحب کے ذمہ کوئی قرض تو نہیں ہے۔ لوگوں نے کہا صرف دو دینار قرض ہے۔ اتنے غریب لوگ تھے وہ لوگ دو دینار بھی اتار نہیں سکتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جنازہ پڑھانے سے انکار کیا اور فرمایا کہ تم خود ہی اپنے صاحب کی نماز جنازہ پڑھو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مقروض آدمی کی نماز جنازہ نہیں پڑھایا کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کو اندیشہ ہوا کہ وہ وہاں موجود تھے۔ کہیں یہ آدمی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی برکت سے محروم نہ ہو جائے دعا کی برکت سے محروم نہ ہو جائے جلدی سے خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! وہ دو دینار میرے ذمہ ہیں میں ادا کر دوں گا اور میت اس سے بری الذمہ ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کا جنازہ پڑھایا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جزاک اللہ خیرا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا۔ جزاک اللہ خیرا۔ اللہ تعالیٰ تجھے بھی رہن سے آزاد کرے جس طرح تم نے اپنے بھائی کو آزادی دلائی ہے۔ ہر میت اپنے قرض کے سبب رہن رکھا ہوا ہوتا ہے اور جو شخص کسی میت کو اس سے چھڑائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو اس کے دَین سے آزادی دلائے گا۔ پس یہ اہمیت ہے۔ پس یہ ہے وہ معیار جو ایک مؤمن کی شان ہے کہ قرض اتارنے کا ہمدردی کااور دوسروں سے سلوک کا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے محروم نہ رہے وہ اس لیے آپ نے ہمدردی کی تھی اور یہ ہے مقروض کی بھی ذمہ داری جس کو ادا کرنے کی فکر ہونی چاہیے کہ حتی المقدور کوشش ہو کہ قرض وقت پر ادا ہو جائے اور ٹال مٹول سے کام نہ لیا جائے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
قرضداروں کی ادائیگی کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح مدد فرمایا کرتے تھے خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے دین کے لیے قربانیاں دی ہوں۔ اس بارے میں حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ روایت کرتے ہیں کہ ان کے باپ احد کی جنگ میں شہید ہوئے اور انہوں نے چھ بیٹیاں پیچھے چھوڑیں اسی طرح اپنے اوپر قرضہ بھی چھوڑا۔ جب ان کے باغ کی کھجور کاٹنے کا وقت آ پہنچا تو کہتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ؐ!آپ کو علم ہی ہے کہ میرے والد احد کی جنگ میں شہید ہو گئے تھے اور انہوں نے بہت سا قرضہ اپنے ذمہ چھوڑا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ تشریف لائیں اور قرض خواہ آپ کو دیکھیں تو شاید قرض میں کچھ تخفیف کر دیں کچھ کمی کر دیں کچھ رعایت دے دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا جاؤ اور ہر قسم کی کھجور جو تمہاری پکی کھجور ہے اس کو الگ الگ ڈھیر کر دو۔ چنانچہ کہتے ہیں میں واپس آیا اور ایسا ہی کیا۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بلانے گیا تو قرض خواہوں نے جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ تشریف لے آئے ہیں تو مجھ سے قرض کی ادائیگی کا اور بھی سختی سے مطالبہ کرنے لگے۔ کہتے ہیں جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ حال دیکھا تو آپ کھجوروں کے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین بار گھومے پھر اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ڈھیر میں سے انہیں ماپ ماپ کر دینا شروع کیا جو جس جس کا قرض تھا وہ دینا شروع کیا کہتے ہیں کہ یہاں تک کہ اللہ نے میرے والد کا کل قرضہ ادا کر دیا اور بخدا میں تو اس بات پر راضی تھا کہ اللہ میرے باپ کا قرضہ ادا کر دے چاہے میں اپنی بہنوں کے پاس ایک کھجور بھی لے کر نہ جاؤں لیکن جتنے ڈھیر وہاں تھے سب بچ رہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے اور خدا کی قسم میں اس ڈھیر کو دیکھ رہا تھا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے وہ ایسا ہی رہا جیسے ایک کھجور بھی اس میں سے کم نہیں ہوئی۔ پس یہ آپ کی شفقت تھی ان لوگوں کے بچوں کے لیے جو دین کی راہ میں قربان ہوئے اور انہیں دعا دی اور قرض بھی اتر گیا یہ نہیں کہ قرض خواہوں کو مہلت دی کہ تم بعد میں لے لینا بلکہ قرض اتارا اور بچوں کو ان کا مال بھی مل گیا۔
اسلام کی تاریخ میں عوام الناس کے حقوق ادا کرنے کے لیے خلفاء نے کیا کوششیں کیں حضرت عمرؓ کے زمانے کی جو کوششیں ان کا جو مختصر ذکر ملتا ہے وہ اس طرح بھی ہے۔
حضرت عمرؓ نے عوام الناس کی بھلائی اور بہتری کے لیے بہت سے کام سرانجام فرمائے۔ زراعت میں بہتری اور عوام کے لیے پانی کی فراہمی کے لیے نہریں کھدوائیں۔ نہر ابو موسیٰ دریائے دجلہ سے نو میل لمبی نہر بنا کر بصرہ تک لائی گئی۔ نہر معقل یہ نہر بھی دریائے دجلہ سے نکالی گئی۔ نہر امیر المومنین حضرت عمرؓ کے حکم سے دریائے نیل کو بحیرہ قلزم سے ملایا گیا۔ اٹھارہ ہجری میں عرب میں جب قحط پھیلا تو حضرت عمرؓ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو امداد کے لیے خط لکھا۔ فاصلہ چونکہ زیادہ تھا اس لیے امداد میں تاخیر ہو گئی۔ حضرت عمرؓ نے عمرو کو بلا کر کہا کہ دریائے نیل کو سمندر سے ملا دیا جائے تو عرب میں کبھی قحط نہ ہو۔ عمرو نے واپس جا کر فسطاط سے بحیرہ قلزم تک نہر تیار کروائی جس کے ذریعہ بحری جہازمدینہ کی بندرگاہ جدہ تک پہنچ جاتے۔ یہ نہر انتیس میل لمبی تھی اور چھ ماہ کے عرصہ میں تیار کر لی گئی۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے بحیرہ روم اور بحیرہ قلزم کو آپس میں ملانے کا ارادہ کیا اور چاہا کہ فرما کے پاس سے جہاں بحر قلزم اور بحر روم میں ستر میل کا فاصلہ تھا نہر نکال کر ان کو ملا دیا جائے لیکن حضرت عمر یونانیوں کے ہاتھوں حاجیوں کے لوٹے جانے کے ڈر سے اس پر رضا مند نہ ہوئے اگر عمرو بن عاص کو اجازت مل جاتی تو نہر سویز کی ایجاد عربوں کے حصہ میں آتی۔
حضرت عمرؓ نے عوام الناس کی سہولت کے لیے مختلف عمارتیں تعمیر کروائیں۔آج یورپ کو کہا جاتا ہے کہ یہ سہولتیں دیتے ہیں عوام الناس کو۔ اسلام میں سب سے پہلے یہ سہولتیں دی گئیں۔ ان کے حق قائم کیے گئے۔ آج مسلمان حکومتیں اگر اس بات کو دیکھ لیں اس بات پر عمل کرنا شروع کر دیں تو ان کے اندر کے فساد ختم ہو جائیں۔ ان میں مساجد بھی تھیں جو حضرت عمرؓ نے تعمیر کرائیں عدالتیں فوجی چھاوٴنیاں بیرکس ملکی تعمیراتی کاموں کے لیے مختلف دفاتر سڑکیں پل، مہمان خانے چوکیاں سرائے وغیرہ۔ مدینہ سے مکہ تک ہر منزل پر چشمے اور سرائیں بنوائیں چوکیاں بھی تعمیر کروائیں۔ مارکیٹ کے عوام الناس کے حقوق میں سے مارکیٹ کی جو قیمتیں ہیں ان میں بھی دخل اندازی ایک حد تک جائز ہو جاتی ہے بعض دفعہ حکومت کی۔ اسلام میں مال کی قیمت گرانے کی ممانعت ہے اس لیے کہ اس سے لوگوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے دوسرے کاروباریوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس سے پھر بدامنی پیدا ہوتی ہے۔اس کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ اس طرح بیان فرمائی ہے کہ
اسلام نے قیمت کو ناجائز حد تک گرانے سے بھی منع کیا ہے قیمت کا گرانابھی ناجائز مال کمانے کا ذریعہ ہوتا ہے کیونکہ طاقتور تاجر اِس ذریعہ سے کمزور تاجروں کو تھوڑی قیمت پر مال فروخت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے اور ان کا دیوالیہ نکلوانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ آپ بازار کا دورہ کر رہے تھے کہ ایک باہر سے آئے ہوئے شخص کو دیکھاکہ وہ خشک انگور نہایت سستی قیمت پر فروخت کر رہا تھا جس قیمت پر مدینہ کے تاجر فروخت نہیں کرسکتے تھے۔ آپ نے اسے حکم دیا کہ یا تو اپنا مال منڈی سے اٹھا کر لے جاؤ یا پھر اسی قیمت پر فروخت کرو جس مناسب قیمت پر مدینہ کے تاجر فروخت کررہے ہیں۔ جب آپ سے اِس حکم کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے جواب دیا کہ اگر اِس طرح فروخت کرنے کی اِسے اجازت دی گئی تو مدینہ کے تاجروں کو جو مناسب قیمت پر مال فروخت کررہے ہیںنقصان پہنچے گا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ بعض صحابہ نے حضرت عمرؓ کے اس فعل کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول پیش کیا کہ منڈی کے بھاؤ میں دخل نہیں دینا چاہیے مگر ان کا یہ اعتراض درست نہ تھا کیونکہ منڈی کے بھاؤ میں دخل دینے کے یہ معنی ہیں کہ پیداوار اور مانگ (Supply and demand) کے اصول میں دخل دیا جائے اور ایسا کرنا بے شک نقصان دہ ہے اور اس سے حکومت کو بچنا چاہیے۔ ورنہ عوام کو کوئی فائدہ نہ پہنچے گااور تاجر تباہ ہو جائیں گے۔ لیکن قیمتیں جو ہیں اس طرح اس میں کوئی دخل اندازی نہیں۔ پس اس حد تک اسلام معاشرے کے حقوق کو قائم کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
حضرت عمرؓ نے امیر اور رعایا کے فرائض کو ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے۔ حضرت سلمی بن شہاب ابدی کہتے ہیں حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا۔ اے رعایا! ہمارے تم پر کچھ حقوق ہیں ہماری غیر موجودگی میں بھی تم ہمارے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرو۔ یہ ہمارا حق ہے حکومت کا حق ہے کہ رعایا حکومت کی خیر خواہی کا معاملہ کرے اور خیر کے کاموں میں ہماری مدد کرو اور اللہ کے نزدیک امام کی بردباری اور نرمی زیادہ پسندیدہ اور فائدے کے لحاظ سے زیادہ اہم ہے۔ اور امام کی جہالت اور سختی اللہ کو زیادہ ناپسندیدہ ہے اور امام یا امیر کا کام یہ ہے اس کی بردباری اور نرمی ہو اور سختی نہ ہو کیونکہ وہ جہالت ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پس جہاں لوگوں کو قانون کے دائرے میں رہنے کی نصیحت فرمائی وہاں امراء کو بھی ان کے حق ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔ اسلامی حکومت میں کس طرح حق کا خیال رکھا جاتا تھا۔ ابوقبیل سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاویہ نے رعایا کی خبر گیری کے لیے ایک شخص جس کا نام ابوالجیش تھا مقرر کیاہوا تھا۔ پس وہ ہر روز مجالس کا دورہ کرتا اور پوچھتا کہ کیا کسی کا بچہ پیدا ہوا ہے یا کسی کے ہاں کوئی مہمان آیا ہے؟ پس جب وہ خبر لے لیتا تو وہ اس خبر کو رجسٹر پر نوٹ کر لیتا تا کہ اس کے رزق کا انتظام کیا جا سکے۔ کاش کہ آجکل کے مسلمان اس حقیقت کو سمجھیں اور یہ حق قائم کریں تو امن قائم ہو۔ بجائے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کے اپنے قول و فعل سے اسلام کی خوبصورت تعلیم یہ لوگ دکھانے والے ہوں لیکن ان کو عقل نہیں آ سکتی جب تک یہ زمانے کے امام کو ماننے والے نہیں بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس کی عقل بھی عطا کرے۔
خدا تعالیٰ ہمیں اسلام کی تعلیم کے مطابق ان حقوق کو سمجھنے اور اپنے ذمہ جو ہمارے یہ حقوق ہیں ان کی ادائیگی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مختلف وقتوں میں جیسا کہ میں نے بتایا تھا حقوق کی تفصیل بتا رہا ہوں اسلام نے جس تفصیل سے حقوق بیان کیے ہیں اور ہر طبقے کے حقوق بیان کیے ہیں۔ اب تک مختلف سالوں میں میں پچیس کے قریب یہ حقوق بیان کر چکا ہوں۔ یہ حقوق کی ادائیگی ہی وہ بنیادی اصول ہے جو ہر پُرامن معاشرے اور دنیا کے امن کی ضمانت ہے اور اسلام ہی وہ دین ہے جس نے اس باریکی سے ان حقوق کی ادائیگی کے بارے میں ہمیں توجہ دلائی ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پس ہر احمدی کو جہاں اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی چاہیے وہاں اس تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کی بھی ضرورت ہے۔ دنیا کو اسلام کی خوبیوں سے آگاہ کرنے کی ضرور ت ہے۔ مسلمانوں کو بھی اس خوبصورت تعلیم کو سمجھانے کی ضرورت ہے اور غیر مسلموں کو بھی اس سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
پس اس ذمہ داری کو ہم میں سے ہر ایک کو سمجھنا بھی چاہیے اور اس کو ادا کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ اب ہم دعا کریں گے اللہ تعالیٰ سب شاملین جلسہ کو خیریت سے اپنے گھروں میں لے کر جائے جو بھی انہوں نے یہاں سیکھا سنا سمجھا اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔دوسرے یہ بھی بتاؤںکہ اب تو یہ حکومت کی طرف سے یہی اعلان ہے کہ کووڈ کی بیماری یہاں جرمنی میں سے ختم ہو گئی ہے لیکن ان دنوں میں بھی بعض لوگوں کی باتوں سے پتا لگا ہے مجھے کہ ان کو کووڈ کی بیماری ہوئی ہے اس لیے عمومی طور پر ہر ایک کو احتیاط کرتے رہنا چاہیے اور ہومیوپیتھک دوائیاں اگر منع نہیں یہاں حکومت کی طرف سے۔ اول تو نہیں منع اپنے طور پر ہر ایک اپنی ذمہ داری سے لے سکتا ہے ان کو کھانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس سے محفوظ رکھے اور سب کو اللہ تعالیٰ اپنے حفظ و امان میں رکھے اور خیریت سے اپنے گھروں کو جائیں۔ دعاکر لیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب چھ بجے تک جاری رہا۔ اس کے بعد حضور ا نور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس خطاب کا مکمل متن حسب طریق علیحدہ شائع ہو گا۔
بعد ازاں حضور ا نور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حاضری کے بارے میں بھی رپورٹ دے دوں جو ان کی حاضری کی رپورٹ ہے۔ مستورات کی حاضری تیئس ہزار چھ سو پندرہ (۲۳۶۱۵) اور مرد حضرات کی تیئس ہزار چھ سو بائیس (۲۳۶۲۲) ہے۔ لیکن ایک بات میں یہاں بتا دوں کہ عورتوں کی لجنہ کے ہال میں صبح میں نے دیکھا کہ خاموشی اور ڈسپلن یہاں مردوں کی نسبت زیادہ تھا اور اجتماع کے بعد بھی انہوں نے بڑے صبر کا مظاہرہ کیا۔ تبلیغی مہمانوں کی حاضری ۹۷۰ ہے۔ کل حاضری سینتالیس ہزار دو سو سینتیس( ۴۷۲۳۷ ) ہےاور گذشتہ سالوں کا موازنہ کیا گیا ہے۔ ۲۰۱۹ء میں تینتالیس ہزار تھی اب سینتالیس ہزار ہے چار ہزار زیادہ ہے۔
بعد ازاں پروگرام کے مطابق مختلف گروپس نے دعائیہ نظمیں اور ترانے پیش کیے۔
سب سے پہلے افریقن احباب پر مشتمل گروپ نے اپنے مخصوص روایتی انداز میں اپنا پروگرام پیش کیا اور کلمہ طیبہ کا ورد کیا۔
اس کے بعد جامعہ احمدیہ جرمنی کے طلبہ پر مشتمل گروپ نے اردو زبان میں دعائیہ نظمیں پیش کیں۔
بعد ازاں عرب احباب پر مشتمل گروپ نے قصیدہ پیش کیا۔اس کے بعد جرمن زبان میں ایک گروپ نے دعائیہ نظم پیش کی۔بعد ازاں ترکی زبان میں اور پھر میسیڈونین زبان میں میسیڈونیا سے آنے والے احمدی احباب اور نوجوانوں نے خوش الحانی سے نظم پیش کی۔
آخر پر واقفین زندگی کے ایک گروپ نے اردو زبان میں دعائیہ نظم پیش کی،جب یہ ترانے اور نظمیں پڑھی جا رہی تھیں اُس وقت بڑا رُوح پرور ماحول تھا۔ جونہی یہ پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا تو احباب جماعت نے بڑے ولولہ اور جوش سے پُر شوکت آواز میں نعرے بلند کیے۔ سارا ماحول نعروں کی صدا سے گونج اٹھا۔ہر چھوٹا، بڑا، جوان، بوڑھا اپنے پیارے آقا سے اپنی محبت، عقیدت اور فدائیت کا اظہار بڑے جوش سے کررہا تھا۔
یہ جلسہ کے اختتام کے الوداعی لمحات تھے اور دل عشق و محبت اور فدائیت کے جذبات سے بھرے ہوئے تھے۔ اس ماحول میں حضور انور نے اپنا ہاتھ بلند کرکے اپنے عشاق کو السلام علیکم کہا اور نعروں کے جلو میں جلسہ گاہ سے باہر تشریف لائے اور کچھ دیر کے لیے اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
پروگرام کے مطابق چھ بج کر ۵۵ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے اور مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی نو مبائعات نے حضور انور سے ملاقات کی سعادت پائی۔ ان نو مبائعات کی تعداد ۴۴؍ تھی۔
حضور انور نے دریافت فرمایا کہ ان سب کو جلسہ کیسا لگا اور کون سے ایسے لمحات تھے جو ایمان کو تقویت بخشنے والے تھے؟ اس پر ایک نومبائعہ خاتون نے عرض کیا کہ انہیں تمام کارکنان کی محنت متاثر کن لگی۔
حضور انور نے فرمایا کہ یورپین کھانے کے حوالے سے کچھ شکایا ت موصول ہوئی ہیں۔ اس بارہ میں حضور انور نے جائزہ لیا۔
ایک جرمن امریکن بہن نے تین ماہ قبل بیعت کی تھی۔ اس نے عرض کیا کہ مجھے احمدیوں کی COMMON SENSE متاثر کرتی ہے۔
حضور انور نے موصوفہ سے استفسار فرمایا کہ کس بات نے ان کو بیعت کی طرف مائل کیا ہے؟ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ وہ یوم آخرت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بارہ میں تحقیق کر رہی تھی۔ اس بارہ میں انٹرنیٹ پر مطالعہ کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ احمدیہ جماعت کی ایک مسجد میں جائیں۔پھر اس کے بعد بیعت کر لی۔ایک خاتون نے عرض کی کہ اُسے جلسہ کے دوران خدمت کرنے کا بھی موقع ملا ہے۔پہلے دن کچھ انتظامی مسائل تھے۔ خاص کر اس چیز میں مشکلات کا سامنا ہوا کہ بہت زیادہ گند اکٹھا کیا جاتا ہے اور کھانا بھی ضائع ہوتا ہے۔
ایک نومبائع خاتون جس نے ۲۰۲۱ء میں بیعت کی تھی بتایا کہ یہ اس کا پہلا جلسہ سالانہ تھا اور اس کے لیے بیعت کی تقریب انتہائی جذباتی تھی۔
بعد ازاں ایک نومبائع خاتون نے عرض کیا کہ وہ بیعت کے بعد کس طرح اپنی فیملی سے رابطہ رکھے؟ موصوفہ نے عرض کیا کہ وہ دل سے تونو سال قبل احمدی ہو چکی تھی لیکن بیعت اس نے دو سال قبل کی۔ لیکن آج تک اپنی فیملی کو بیعت کے بارہ میں نہیں بتایا۔اس پر حضور انور نے فرمایا اگر وہ اپنی فیملی کو بتانے سے خطرہ محسوس کرتی ہیں تو پھر ابھی خاموش رہیں۔ اگر وہ اپنے دین اور اپنے حالات سے مطمئن ہیں تو پھر ابھی کسی اعلان کی ضرورت نہیں۔ یہاں تک کہ ان کی شادی ہوجائے یا پھر وہ محتاج نہ رہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ اسے حکمت سے کام لینا ہوگااور کسی طرح معلوم کرنا ہوگا کہ اس کی فیملی کاردّعمل کیا ہوگا۔ اور جتنی دیر تک یہ اپنی فیملی کی محتاج ہیں اتنی دیر تک بیعت کے اعلان کی ضرورت نہیں۔ اس نو مبائع خاتون نے عرض کیا کہ اسے یہ بات غلط لگتی ہے کہ وہ اپنی فیملی کو تبلیغ نہیں کر سکتی۔ اس پر حضور انور نے فرمایا ہر چیز حالات کے مطابق ہی ہوا کرتی ہے۔
ایک کُرد خاتون نے عرض کیا کہ اسے بھی اپنی فیملی کی طرف سے مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کی فیملی مسلمان تو ہے لیکن وہ اپنے مذہب پر عمل نہیں کر تے اور احمدیت کو غلط قرار دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اسے دھمکی بھی دی ہوئی ہے۔
اس پر حضور انورنے فرمایا اگر وہ خود اپنے مذہب پر عمل نہیں کرتے تو وہ کسی اَور کے مذہب کو غلط کس طرح قرار دے سکتے ہیں؟ حضور انور نے انہیں بھی ہدایت فرمائی کہ حکمت سے کام لیں اور اپنی بیعت کا اعلان تب کریں جب آپ اپنی فیملی کی محتاج نہ رہیں۔
نو مبائعات کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے یہ ملاقات سات بج کر دس منٹ تک جاری رہی۔
اس کے بعد پروگرام کے مطابق نو مبائع احباب نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ شرف ملاقات پایا۔ نو مبائعین کی تعداد ۲۴؍ تھی۔
حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ کو جلسہ کیسا لگا؟ اس پر نو مبائعین نے عرض کیا کہ بہت اچھا لگا۔ ایک نو مبائع نے عرض کیاکہ گذشتہ جلسہ جو کارلسروئے میں ہوا تھا جس میں حضور شامل نہ ہو سکے تھے چھوٹا جلسہ تھا امسال اب بڑا جلسہ ہوا ہے۔
حضور انور نے دریافت فرمایا کہ جنہوں نے آج بیعت کی ہے وہ اپنے ہاتھ کھڑے کریں چنانچہ اس پر نو مبائعین نے ہاتھ کھڑے کیے۔
ایک نو مبائع نے عرض کیا کہ میں نے دو سال قبل بیعت کی تھی کاسل شہر سے ہوں۔ پہلے میں خواب میں حضور کو دیکھتا تھا۔ آج اللہ تعالیٰ نے خواب پورا کر دیا ہےاور خود آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔
ایک نومبائع نے جس نےحضور کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا تھا عرض کیا کہ مجھے ایسا لگا کہ میرا ہاتھ جنت میں پہنچ گیا ہے۔
ایک نو مبائع نے عرض کیا کہ میرے والدین علوی مسلمان ٹرکش ہیں موصوف نے اپنے والدین کے لیے دعا کی درخواست کی کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب کرے۔
ایک نو مبائع دوست نے جس کا نام PHILIP SHAHID تھا، حضور انور کی خدمت میں اسلامی نام رکھنے کی درخواست کی۔ اس پر حضور انور نے فرمایا آپ کا نام تو پہلے ہی اسلامی نام ہے۔ اپنا نام PHILIPہی رکھیں اس میں کوئی حرج نہیں۔دوسری قوموں سے جو لوگ احمدیت میں داخل ہوتے ہیں ان کے وہی نام رہتے ہیں۔
ایک نو مبائع نے عرض کیا کہ وہ ترکی سے ہیں اور یہاں جرمنی میں آخن (AACHEN) میں رہتے ہیں۔ میری چچی کو کینسر ہے ان کے لیے دعا کریں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
ایک نومبائع نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے بیٹے کو EPILEPSY کی تکلیف ہے، اس کے لیے دعا کریں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
نو مبائعین کی حضور انور کے ساتھ یہ ملاقات سات بج کر ۲۰ منٹ تک جاری رہی۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کچھ دیر کے لیے اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
اب یہاں STUTTGART سے پروگرام کے مطابق فرنکفرٹ ’بیت السبوح‘ کے لیے روانگی تھی۔ ساتھ بج کر چالیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے۔
احباب جماعت کی ایک بڑی تعداد اپنے پیارے آقا کو الوداع کہنے کے لیے جمع ہوچکی تھی اور احباب مسلسل نعرے بلند کر رہے تھے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ازراہ شفقت کچھ دیر کےلیے احباب میں رونق افروز ہوئے۔
حضور انور نے اپنا ہاتھ بلند کرکے سب کو السلام علیکم کہا اور دعا کروائی۔ بعد ازاں سات بج کر پچاس منٹ پر یہاں سے بیت السبوح کے لیے روانگی ہوئی۔ یہاں کی پولیس نے موٹروے تک قافلہ کو ESCORT کیا۔
قریباً دو گھنٹے کے سفر کے بعد نو بج کر پچاس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بیت السبوح تشریف آوری ہوئی۔
بعد ازاں دس بج کر پانچ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۳۹؍ افراد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔ ان بیعت کرنے والوں کا تعلق سات مختلف اقوام سے تھا۔ بیعت کرنے والے احباب کی خوشی نا قابل بیان تھی۔ بعض احباب نے اپنے جذبات کا اظہار کیا جو درج ذیل ہے۔
٭…سربیا کے ایک دوست Uros Matovic صاحب نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: مجھے اس سال کے جلسہ سالانہ کی دعوت ملی تو میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس دعوت کو قبول کرلیا۔ پھر جلسہ میں آکر مجھے جماعت کوسمجھنے کا موقع ملا اور مجھے یہ احساس ہوا کہ آپ کی کمیونٹی عالمی طور پر باہم متصل ہے۔ سب سے زیادہ، بیعت کی تقریب نے میرے پر روحانی اور جذباتی اثر ڈالا۔ پہلے لمحہ سے ہم سب نے ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھ دیے،مجھے ایک بھی لفظ کی سمجھ نہیں آرہی تھی، مگر جو کچھ بھی کہا گیا وہ کسی طرح میرے جسم اور دماغ سے گزرا، اور کپکپی طاری ہو گئی، جو مجھے روحانی طور پر اللہ کے قریب تر لے گئی۔ بیعت کی وجہ سے مجھے آنسو آگئے۔
٭…جارجیا سے ایک خاتونLia Dekanadze صاحبہ نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: مجھے جلسہ پر بار بار دیکھنے کو ملا کہ کس طرح چھوٹے اور بڑے ایک خاص جانفشانی سے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ عالمی بیعت کو دیکھ کر جذبات کو control میں نہیں لایا جارہا تھا۔ یہ جلسہ کے آخری دن میں ایک وعدہ سب سے لیا جارہا ہے کہ ہم اسلام کے مطابق آئندہ بھی اپنی زندگی سنواریں گے۔
٭…چیک ریپبلک سے ایک ریٹائرڈ پروفیسر Daniel Berti صاحب نے جلسہ کے موقع پر بیعت کی تقریب کو دیکھا۔ وہ کہتے ہیں: مَیں نے دیکھا کہ کس طرح خلیفہ وقت سے ایک روحانی طاقت نکلی جو کہ افرادِجماعت اگلے شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جذب کررہے تھے۔مگر اس طاقت کا اثر صرف احمدیوں تک نہ رہا۔ بلکہ مَیں غیر از جماعت لوگوں کے ساتھ اوپر گیلری میں کھڑا تھا۔ اوپر تک یہ کڑی ہم تک بظاہر جسمانی طور پر نہیں پہنچی۔مگر آگے کھڑے ایک صاحب نے گیلری میں باڑ کو پکڑ لیا اور ہم نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اوپر گیلری میں ایک جسمانی رابطہ قائم کرلیا۔ تو یہ روحانی طاقت اتنی پُرکشش تھی کہ اس نے میرے جسم اور دل پرایک گہرا اثر چھوڑا۔
٭…ایک ترک نوجوان جان مِرت ( Jan Mert) صاحب ہمبرگ سے جلسہ میں شامل ہوئے وہ کہتے ہیں: اس جلسہ میں شامل ہو کر میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےاحمدیوں کے دلوں میں فتح اسلام کے لیے ایک نہ بجھنے والی آگ جلا دی ہے۔
٭…جان مِرت (Jan Mert) صاحب نے جلسہ کے آخری دن تحریری بیعت کرنے کے بعد حضور انور کے دست مبارک پر بھی بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی۔
٭…سلواکیہ سے آنے والی ایک مہمان خاتون ٹیچر مارطینہ حَلاوَاتا (Martina Hlavata) اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں: اس پورے جلسہ نے میرے دل پر ایک گہرا اثر ڈالا اور خاص طور پر بیعت اور نماز کے دوران میں اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکی پوری بیعت کی تقریب کے دوران روتی رہی اس لمحہ کو میں زندگی بھر نہیں بھولوں گی کہ کس طرح تمام احمدی خلیفہ کے ہاتھ پر ایک جان ہوکر بیعت میں شامل ہوئے۔
جلسہ سالانہ جرمنی کی بڑے وسیع پیمانہ پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا میں کوریج ہوئی۔ اس کی رپورٹ درج ذیل ہے۔
جلسہ سالانہ جرمنی کے حوالہ سے میڈیا کوریج کی رپورٹ
ٹی وی چینلز پر کوریج:
درج ذیل ۴؍ ٹی وی چینلز نے جلسہ سالانہ کے حوالہ سے کوریج کی؛
۱۔ ARD
۲۔ RTL
۳۔ Regio TV
۴۔ SWR
ان ٹی وی چینلز کو دیکھنے والوں کی کل تعداد ۴۱؍ ملین سے زائد بنتی ہے۔
اخبارات میں کوریج:
جرمنی کے کُل ۱۱؍ اخبارات نے جلسہ سالانہ کے حوالہ سے مختلف خبریں اور آرٹیکلز نشر کیے۔ ان میں جرمنی کاسب سے بڑا اخبار Bild بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ Stuttgarter Zeitung اور Suddeutsche Zeitung جو کہ کثرت کے ساتھ پڑھے جانے والے اور معتبر اخبارات سمجھے جاتے ہیں انہوں نے بھی خبریں شائع کیں۔ ان اخبارات کے پڑھنے والوں کی تعداد ۵۰؍ ملین سے زائد بتائی جاتی ہے۔
ریڈیو پر جلسہ سالانہ کی کوریج:
درج ذیل پانچ ریڈیو سٹیشنز نے بھی جلسہ سالانہ جرمنی کو coverکیا؛
۱۔ SWR4
۲۔ Deutschland Funk
۳۔ Radio Eins
۴۔ Das Ding
۵۔ RPR1
ان ریڈیو سٹیشنز کو سننے والوں کی تعداد 14 ملین سے زائد بتائی جاتی ہے۔
آن لائن میڈیا کوریج:
آن لائن پلیٹ فارمز میں سے Schwabische اور de۔.. 1&1.نے بھی جلسہ سالانہ کے حوالہ سے خبریں نشر کیں۔ ان پلیٹ فارمز کو پڑھنے والوں کی تعداد 2 ملین سے زائدہے۔
ٹوٹل اعداد و شمار
مندرجہ بالا ذرائع میں سے متعدداخبارات اور ٹی وی چینلز میں ایک سے زائد مرتبہ جلسہ سالانہ کے حوالہ سے خبریں نشر ہوئیں۔
تاہم ان میڈیا آؤٹ لیٹس سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد کا صرف ایک مرتبہ ہی شمارکیاگیاہے۔ اس طرح میڈیا کے ذریعہ ۱۰۸؍ ملین سے زائد افراد تک جلسہ سالانہ کی کوریج پہنچی۔
اس کے علاوہ مورخہ یکم ستمبر بروز جمعۃ المبارک جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیاگیا جس میں مختلف میڈیا آؤٹ لیٹس کے نمائندہ صحافی حضرات نے شمولیت اختیارکی۔