آنحضورﷺ کے توکل کی اعلیٰ ترین مثالیں
دنیا میں سب سے زیادہ توکّل اللہ تعالیٰ انبیاء میں پیدا کرتاہے اور ان کو خود تسلی دیتاہے کہ تم فکر نہ کرو مَیں ہر معاملے میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ کوئی دشمن تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتا۔مَیں تم میں اور دیکھنے والاہوں اگر دشمن نے غلط نظر سے دیکھنے کی کوشش کی یا کوئی سازش کرنے کی کوشش کی تو مَیں جو ہر بات کا علم رکھنے والا اور تیری دعاؤں کو سننے والاہو ں خوداس کا علاج کرلوں گا۔ اور اس طرح باقی روزمرہ کے معاملات میں بھی انبیاء کا توکّل بہت بڑھا ہوا ہوتاہے کیونکہ وہ اس یقین پر قائم ہوتے ہیں کہ خدا ہر قدم پر ان کے ساتھ ہے، ہر معاملے میں ان کے ساتھ ہے اور پھر اسی طرح روحانی مدارج اور مقام کے لحاظ سے توکّل کے معیار آگے مومنین میں قائم ہو تے چلے جاتے ہیں تو جو آیت (الانفال: ۶۲) ابھی مَیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے : اور اگر وہ صلح کے لئے جُھک جائیں تو تُو بھی اُس کے لئے جُھک جا اور اللہ پر توکّل کر۔ یقیناً وہی بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
تفسیر روح المعانی میں علامہ شہاب الدین آلوسی اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ:وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ سے یہ مرادہے کہ اپنا معاملہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سپردکردے اور اس امر سے خائف نہ ہو۔اگر وہ تیرے لئے اپنے بازو سلامتی کے لئے جھکائیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے بازو مکراور سازشوں سے لپٹے ہوئے ہوں ۔ اِنَّہٗ سے مراد اللہ جل شانہ ہے۔ ھُوَالسَّمِیْعُ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دھوکہ دہی کی ان تمام باتوں کو جو وہ علیحدگیوں میں کرتے ہیں سنتاہے۔ الْعَلِیْمُ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں کو بھی جانتاہے۔پس وہ ان سے ایسا مواخذہ کرے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور ان کی تدابیر کو ان پر الٹا دے گا۔ (تفسیر روح المعانی جلد ۶ صفحہ ۲۷)… توکّل کی اعلیٰ ترین مثالیں توحضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ہی رقم فرمائی ہیں اورکیوں نہ ہو،آپ ہی تو انسان کامل تھے۔ اور ساتھ ہی امت کو بھی سبق دے دیا کہ میری پیروی کرو گے، خداسے دل لگاؤ گے، اس کی ذات پر ایمان اور یقین پیدا کرو گے تو تمہیں بھی ضائع نہیں کرے گا۔ اور اپنے پر توکّل کرنے کے نتیجہ میں وہ تمہیں بھی اپنے حصار عافیت میں لے لے گا۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍اگست ۲۰۰۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۰؍اکتوبر ۲۰۰۳ء)