سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی (۴؍ستمبر ۲۰۲۳ء بروز سوموار) (قسط دوم)
٭… حضور کی ملاقات سے دل نہیں بھرا،کاش ایسا ہوتا کہ یہ ملاقات کبھی ختم نہ ہوتی اور ہم حضور کی شخصیت کا نظارہ کرتے چلے جاتے
٭… خلیفہ سے ملاقات کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ ان کے رضا کاروں میں بنی نوع انسان کی اس قدر بے لوث خدمت کے جذبہ کا منبع دراصل ان کے خلیفہ کی ذات ہے۔اصل حقیقت یہی ہے کہ اس سفر کا خلاصہ دراصل خلیفہ کی صحبت میں چند لمحات گزارنے کی سعادت ہے
٭… خلیفہ وقت کے خطابات سے میں نے سیکھا کہ ہمیں صرف اچھائی اور محبت پھیلانا چاہیے اور آپ کا دین اور آپ کی جماعت ہی پوری دنیا میں امن کی ضمانت ہے
بوسنیا سے آنے والے وفد کی ملاقات
بعد ازاں پروگرام کے مطابق گیارہ بج کر پچیس منٹ پر ملک بوسنیا (BOSNIA) سے آنے والے وفد کی حضور انور کے ساتھ ملاقات شروع ہوئی۔ بوسنیا سے ۴۱؍ افراد پر مشتمل وفد جلسہ سالانہ میں شامل ہو اتھا۔
حضور انور نے مہمانوں سے دریافت فرمایا کہ آپ کو جلسہ کیسا لگا ؟ اس پر دوستوں نے عرض کیا کہ جلسہ بہت اچھا تھا۔ ہم سب مطمئن ہیں۔
حضور انور نے فرمایا: جو جلسہ پر پہلے آچکے ہیں ان کو جلسہ میں پہلے سے کوئی بہتری نظر آئی؟
اس پر ایک دوست نے عرض کیا کہ جلسہ ہر سال کی طرح بہت اچھا تھا۔ اس دفعہ نئی جگہ تھی۔ یہاں بھی منظّم تھا۔ ہمیں کوئی کمی نظر نہ آئی۔ یہ دوست بوسنیا میں نیشنل سیکرٹری تبلیغ ہیں۔
بعد ازاں بعض احباب نے اپنی انگوٹھیاں تبرک کروائیں۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ آئندہ ماہ آپریشن ہونا ہے۔ حضور انور نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
ایک خاتون نے عرض کیا کہ میرے لیے اور میری عیال کے لیے دعا کریں چار سال سے ہمارا بچہ نہیں ہوا۔ اس پر حضور انور نے فرمایا اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
٭… بوسنیا سے آنے والے تاریخ کے ایک پروفیسر حارث حُو سِچْ ( Haris Husich) صاحب اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:جلسہ پر آنے سے قبل مجھے معلوم ہوا کہ وہاں ہزاروں لوگ ہوں گے اورقابل صد احترام خلیفہ ہم سے خطاب کریں گے، میں قدرے خوفزدہ تھا اور کسی قدر تحفظات رکھتا تھا،ہر چیز کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھا۔ چونکہ احمدیوں کے بارے میں، اس قدر وسیع جلسہ اور ان کی مذہبی رسومات کے بارے میں مجھے تفصیل سے علم نہیں تھا کیونکہ میں بنیادی باتوں میں الجھا ہوا تھا۔اس سے قبل مجھے اس قدر اچھے لوگوں کے درمیان وقت گزارنے کا موقع نہیں ملا، جلسہ میں ہر چیز کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور ہر کوئی اپنے کام پر لگا ہوا تھا۔ یہ عظیم تقریب تنظیم اور خوبصورتی سے منظم تھی۔ خلیفہ کی پہلی تقریر کے بعدمیرا ذہن صاف ہو گیا تھا، میں لوگوں کا پیچھا کرتا تھا، وہ کیسے بولتے تھے اور کیا کہتے تھے، ان کا ایک دوسرے سے کیا تعلق تھا،میں یہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا رہا۔ میں نے اپنے مسلمان بھائیوں میں خود کو محفوظ پایا، میں نے محسوس کیا کہ کسی نے مجھے برا نہیں کہا، نہ ہی مجھے حسد یا اجنبیت کی آنکھ سے دیکھا، یا کسی بات پر مجھے تنقید کا نشانہ بنایا۔
ان تمام باتوں میں جوبات میرے لیے قابل رشک اور ممتاز حیثیت رکھتی ہے جس کا تجربہ مجھے اپنی زندگی میں اس سے قبل کبھی نہیں ہوا وہ خلیفہ کی زیارت اور قریب سے آپ کی گفتگو تھی۔ مجھے سکون محسوس ہوا جیسے میری پیٹھ سے کوئی بوجھ ہٹ گیا ہو، میں پریشان تھا مگر اب بے فکر ہو گیا ہوں۔ میں مطمئن لوٹ رہا ہوں۔ بلا شبہ، علم سے مالا مال، نئے اور اچھے لوگ ہیں جن سے میں ملا ہوں۔
٭… بوسنیا سے آنے والی ایک خاتون مہمان امینہ مویانویچ (Emina Muyanovich) صاحبہ بیان کرتی ہیں: رضاکاروں کی تنظیم بہت اچھی تھی۔ خواتین کے حصہ میں ترجمہ کے مسئلہ کی وجہ سے ہم بعض پروگراموں کی سماعت نہیں کر سکے کیونکہ خواتین کے حصے میں کوئی ترجمہ نہیں تھا۔ حضور کی تقریر کا ترجمہ میرے لیے ہماری خواتین کی گروپ لیڈر نے کیا۔ یہ بات مجھے بہت پسند آئی کہ ہمیشہ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم اور اس کے ترجمے سے ہوتا ہے۔
حضور نے نصیحت کی کہ مسلمان اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ تعلیم دیں اور اپنے علم کو عملی جامہ پہنائیں کیونکہ یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے وہ امت کی موجودہ حالت کو بدل سکتے ہیں۔
دوسرے دن ایک بار پھر ترجمے میں مسئلہ ہوا تو خواتین ترجمہ سننے کے لیے مردوں کے حصے میں چلی گئیں۔ اس وقت، ہفتہ کے دن، حضور خواتین کے حصے میں تھے اور خواتین نے اظہار کیا کہ وہ اس کام کے لیے تیار ہیں۔ یہ بات ان کے منظم انداز، اخلاص کی وجہ سے دل سے محسوس کی جا سکتی تھی۔ حضور کا خطاب خواتین کے لیے بہت مفید تھا۔ انہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رہنے والی خواتین کی زندگیوں سے بہت سی مثالوں کا ذکر کیا۔
اتوار کے پروگرام میں حضور نے بنیادی اسلامی اصولوں، دوسروں کے حقوق کے تحفظ کے بارے میں بات جاری رکھی کہ ہمیں ہر کام میں بہترین ہونا چاہیے، کیونکہ جب ہم اپنی پوری کوشش کریں گے اور انصاف کریں گے، تب ہی ہم ترقی کر سکیں گے۔ اور معاشرے میں امن قائم ہوگا۔
حضور کی تمام باتیں ہر مسلمان کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اب خدا کی مدد سے، ہم بوسنیا واپس جائیں گے، نئے مختلف تجربات سے مالا مال ہو کر اس دعا کے ساتھ کہ اللہ ہمیں صحیح راستہ دکھائے۔
٭… بوسنیا سے آنے والے ایک احمدی دوست سالم آلچ (Salem Alich)بیان کرتے ہیں: صحت کی خرابی کے باوجود اس قدر لمبے سفر پر روانہ ہونے کی واحد وجہ خلیفہ وقت سے ملنے کی خواہش اور آپ کی اقتدا میں نماز ادا کر نے کی تڑپ اور کشش تھی تا کہ ان مقبول گھڑیوں میں انسان خدا کے حضور مقبول دعاؤں کی سعادت حاصل کرلے۔ اس سفر سے قبل میرے پاؤں میں سوزش سے شدید درد تھا اور چلا نہیں جا رہا تھا،مگر اللہ تعالیٰ گواہ ہے کہ جب سے اس سفر پر نکلا ہوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے پاؤں میں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔
حضور کی ملاقات سے دل نہیں بھرا،کاش ایسا ہوتا کہ یہ ملاقات کبھی ختم نہ ہوتی اور ہم حضور کی شخصیت کا نظارہ کرتے چلے جاتے۔
بوسنیا سے آنے والی ایک خاتون اندیرا حیدر (Indira Haidar) صاحبہ جو ریڈ کراس کی سیکرٹری ہیں، بیان کرتی ہیں: فرینکفرٹ میں خلیفہ سے ملاقات انتہائی پُر مسرت رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ایسے شخص ہیں کہ ہر انسان کے لیے بھلائی چاہتے ہیں اور سب کے لیے اچھا کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔ مجھے امام جماعت احمدیہ کو براہ راست سننے کا موقع ملا، انہوں نے اپنا قیمتی وقت ’’ ہم جیسے عام‘‘ لوگوں کے لیے صرف کیا جنہیں وہ اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھتے ہیں، پھر بھی ان کا پرتپاک مسکراہٹ اور برکتوں سے بھرے الفاظ کے ساتھ استقبال کیا۔ جماعت احمدیہ اور ہیومینٹی فرسٹ مختلف دشواریوں کے باوجود ہمارے ملک میں جس اخلاص سے خدمت خلق کے کام کو کر رہی ہیں،یہاں آخر خلیفہ سے ملاقات کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ ان کے رضا کاروں میں بنی نوع انسان کی اس قدر بے لوث خدمت کے جذبہ کا منبع دراصل ان کے خلیفہ کی ذات ہے۔اصل حقیقت یہی ہے کہ اس سفر کا خلاصہ دراصل خلیفہ کی صحبت میں چند لمحات گزارنے کی سعادت ہے۔
دنیا کے مختلف حصوں سے مختلف انسانوں کو جماعت احمدیہ نے کس قدر وحدت کی لڑی میں پرویا ہوا ہے، میں نے محسوس کیا کہ تمام بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنانے میں اور دنیا کو بہتر بنانے کی خاطر اپنا کردار ادا کرنے کے سلسلہ میں اس تجربے نے مجھے باہمت بننے میں میری سمجھ کو گہرا کر دیا۔ اس موقع نے نہ صرف مجھے مسلمان ہونے پر فخر محسوس کرنے کی تقویت بخشی بلکہ مجھے انسانی ہمدردی کی کوششوں اور بین المذاہب مکالمے کے فروغ میں مزید شامل ہونے کی ترغیب دی۔
٭… ملک مونٹی نیگرو (Montenegro)سے آنے والے ایک مہمان رُوزمیر اُسمانوویچ (Ruzmir Osmanovich) صاحب بیان کرتے ہیں: جلسہ کا پروگرام تعلیمی اور متنوّع تھا۔دنیا بھر سے اپنے پیارے دوستوں سے مل کر خوشی ہوئی۔میں تقریب میں موجود ہم آہنگی اور تمام شرکاء کے بہترین لیکچرز سے بہت خوش ہوا ہوں۔خلیفہ سے ملاقات ناقابل فراموش ہے۔ میں اپنے ساتھ مونٹی نیگرو میں خوبصورت یادیں، علم اور نئی دوستیاں لے کر واپس جا رہا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ نیا علم مجھے مزید پڑھنے، مذہب کے بارے میں جاننے اور معاشرے کا زیادہ ذمہ دار رکن بننے کے لیے متاثر کرے گا۔
میسیڈونیا سے آنے والے وفد کی ملاقات
بعد ازاں پروگرام کے مطابق میسیڈونیا (MACEDONIA) سے آنے والے وفد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے شرف ملاقات پایا۔ میسیڈونیا سے آنے والے وفد کے افراد کی تعداد ۴۹؍ تھی۔
حضور انور نے دریافت فرمایا کہ وہ نظم پڑھنے والا نوجوان نہیں آیا؟ اس پر مبلغ سلسلہ نے عرض کیا کہ امسال بائرن نہیں آیا۔
جلسہ سالانہ کے آخری دن جو گروپس کی صورت میں نظمیں پڑھی گئی تھیں ان میں میسیڈونیا کے گروپ نےبھی نظم پڑھی تھی۔ اس پرحضور انور نے فرمایا: میں نے دیکھ لی تھی۔
حضورانور نے فرمایا: جو پہلی دفعہ آئے ہیں ان کو جلسہ کیسا لگا ہے؟ اس پر ایک خاتون نے عرض کیا کہ جلسہ بڑا منظم تھا۔ میں آئندہ بھی جماعت کے لیے کامیابیوں کی امید رکھتی ہوں۔ کامیابیاں آپ کے قدم چومیں۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ بیس سال سے احمدی ہوں۔ ہر سال جلسہ پر آتا رہا ہوں اب میری عمر ۶۶؍ سال ہوگئی ہے۔ نام رمضان احمد ہے۔ حضور انور نے فرمایا:بڑھاپے کی وجہ سے آپ کا وزن کم ہوا ہے۔ چھیاسٹھ سال میں آپ بوڑھے ہوگئے ہیں۔موصوف نے عرض کیا کہ ۱۹۹۵ء میں،میں نے عہد کہا تھا کہ جب ریٹائرمنٹ ہوگی تو زندگی وقف کردوں گا اور جماعت سے کچھ نہ لوں گا۔ اب تبلیغ کرتا ہوں۔ اگر میں کہوں کہ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں تو یہ کافی نہیں جب تک ہم اللہ تعالیٰ کے لیے کام نہ کریں تبلیغ بھی کریں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ توفیق دے۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ میرا نام جعفر ہے میں پرانا احمدی ہوں۔ اپنی طرف سے اور جماعت کی طرف سے سلام پیش کرتا ہوں۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ میسیڈونیا میں ایک مبلغ سلسلہ موجود ہیں۔ ہماری جماعت کے لیے بھی ایک مبلغ کو بھجوایا جائے۔
حضور انور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ میسیڈونیا میں جو اس وقت مبلغ موجود ہیں اور زبان سیکھ رہے ہیں وہ ان کی جماعت سے ۱۶۰؍ کلومیٹر دور ہیں۔اس پر حضور انور نے فرمایا۔ مبلغ سلسلہ ہفتہ میں ایک دفعہ اس جماعت میں جاتے رہیں۔
میسیڈونیا کے وفد میں شامل ہونے والے ۴۹؍ افراد میں سے ۱۹؍ احمدی مسلمان، ۱۶؍ غیر از جماعت مسلمان اور ۱۴؍ عیسائی مہمان تھے۔
٭… لیوبینکا آیتووسکا (Ljubinka Ajtovska) صاحبہ جو ایک عیسائی صحافی ہیں جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوئیں۔ وہ کہتی ہیں: جلسہ سالانہ کی تنظیم بہت اعلیٰ سطح پر تھی۔ یہ میرے لیے ایک خاص اعزاز ہے کہ میں ایک اتنے بڑے اور منظم پروگرام کا حصہ بن سکی جس میں مختلف مذاہب اور قوموں کے لوگوں نے شرکت کی۔ یہ بات اس نعرے کی تصدیق کرتی ہے کہ صرف محبت ہی دنیا کو ایک بہتر جگہ بنا سکتی ہے۔
٭… سیناد راسیموو (Senad Rasimov) صاحب جو ایک مسلمان صحافی ہیں اپنے تاثرات بیان کرتے ہیں کہ خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کے مختلف موضوعات پر خطابات نے مجھ پر بہت اثر کیا۔ مقدونیا کے ایک صحافی ہونے کی حیثیت سے خاکسار کو جلسہ پر بہت سے احمدی مسلمانوں سے بات کرنے کی توفیق ملی جنہوں نے ہمیشہ مسکراہٹ کے ساتھ مجھ سے بات کی۔ میں جلسہ کی صفائی اور تمام تنظیم سے بہت متاثر ہوں۔ آپ کا ماٹو محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں واقعی طور پر دکھائی دیا اور اسی ماٹو کے ذریعہ دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے۔
٭… ایک عیسائی مہمان زاگورکا آرسووسکا (Zagorka Arsovska) صاحبہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:میں دوسری دفعہ جلسہ پر شامل ہوئی ہوں اور آپ کی تنظیم اور آپ کی محبت سب سے اعلیٰ ہے۔ خلیفہ وقت کے خطابات سے میں نے سیکھا کہ ہمیں صرف اچھائی اور محبت پھیلانا چاہیے اور آپ کا دین اور آپ کی جماعت ہی پوری دنیا میں امن کی ضمانت ہے۔ آپ نے ہمارے لیے جو کچھ کیا ہے اس کا میں دل کی گہرائیوں سے آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔
٭… ایک عیسائی مہمان سویتلانا وکسانووسکا (Svetlana Vuksanovska) صاحبہ جلسہ کے مناظر دیکھنے کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں: میں اس سال پہلی دفعہ جلسہ میں شامل ہوئی ہوں۔ سب سے متاثر کن آپ کی نظم و ضبط، صفائی اور اتنی بڑی تعداد میں رضاکارانہ خدمت کرنے والے تھے۔ امید ہے کہ آپ کا پیغام مزید پھیلے گااور آپ ہر جگہ محبت بانٹنے والے بنیں۔
٭… ایک عیسائی خاتون ڈانکا کاپوشیفسکا (Danka Kapushevska) صاحبہ جلسہ سالانہ کے بارہ میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: میں پہلی دفعہ جلسہ میں شامل ہوئی ہوں اور ان باتوں سے بہت متاثر ہوئی ہوں: رضاکاروں کی مسکراہٹ سے، نماز کے دوران مکمل خاموشی سے، نظم و ضبط سے اور اتنی بڑی تعداد کے لئے ہمیشہ گرم اور لذیذ کھانا پیش کرنے سے۔ میں اس تجربہ کو ہمیشہ یاد رکھوں گی اور آپ کے پیغام محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں کو لوگوں تک پہنچاؤں گی۔
سربیا اور کروشیا سے آنے والے وفود کی ملاقات
اس کے بعد ملک سربیا (SERBIA) اور کروشیا (CROATIA) سے آنے والے وفود نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی سعادت حاصل کی۔ یہ ملاقات گیارہ بج کر ۴۰ منٹ پر شروع ہوئی۔
حضور انور نے مہمانوں سے دریافت فرمایا کہ آپ کو جلسہ کیسا لگا؟
اس پر ایک عیسائی دوست نے عرض کیا کہ جلسہ بہت اچھا لگا۔
ایک دوست نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے عرض کیا کہ میں سربیئنگورنمنٹ کے لیے کام کرتا ہوں۔
ایک مہمان خاتون نے عرض کیا کہ میں وکیل ہوں اور جرنلسٹ بھی ہوں اور آجکل بطور جرنلسٹ کام کررہی ہوں۔
ایک دوسری مہمان خاتون نے عرض کیا کہ میں بھی جرنلسٹ ہوں، ملک کروشیا سے ہوں۔ حضور انور نے فرمایا: انصاف کے ساتھ اخبار کے لیے آرٹیکل لکھو۔
ایک عرب دوست نے عرض کیا کہ میرا تعلق سیریا سے ہے لیکن میں کروشیا میں رہتا ہوں۔ میرے تین بچے ہیں، ایک چودہ سال کا بیٹا میرے ساتھ آیا ہوا ہے۔ سکول جاتا ہے۔
کروشیا سے ایک سابق ممبر پارلیمنٹ بھی آئے ہوئے تھے، انہوں نے بتایا کہ آجکل وہ الیکشن کمیشن کے ممبر ہیں۔
حضور انور نے طلبہ کو قلم اور بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
٭… سربیاسے ایک صحافی Stanislav Stankic صاحب اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: باوجود ایک آرتھوڈوکس عیسائی ہونے کے اور باوجود انٹرنیٹ میں آپ کے خلاف نفرت سے بھرا مواد پڑھ کر میں آپ کی جماعت سے بہت متاثر ہوا۔ آپ لوگوں کے سسٹم نے مجھے حیران کر دیا ہے۔ میں بہت ہی افسردہ ہوں کہ ہم احمدیت کی حقیقی تعلیم دنیا میں وسیع پیمانہ پر پھیلا نہیں سکے۔ ہم نے آپ کے ماٹو ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں ‘کا ہر قدم پر مشاہدہ کیا۔ ہمیں نہ انتظامیہ اور نہ ہی ۴۶۰۰۰؍ افراد میں کوئی بری بات نظر آئی۔ ہر جگہ امن تھا۔ ہر ایک نے دوسرے کی عزت کی اسی طرح جس طرح آپ کی تعلیم ہے۔میں اس قدر متاثر ہوں کہ میرے پاس بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔
میں آپ کی جماعت کی بہت تعریف کرتا ہوں اورمیری دعاہے کہ آپ کی جماعت دن بہ دن بڑھے اور آپ کی حقیقی تعلیم اور محبت کو دنیا پہچاننے والی ہو۔
٭… سربیا کے ایک دوست Uros Matovic صاحب بیان کرتے ہیں:مجھے اس سال کے جلسہ سالانہ کی دعوت ملی تو میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس دعوت کو قبول کرلیا۔ پھر جلسہ میں آکر مجھے جماعت کوسمجھنے کا موقع ملا اور مجھے یہ احساس ہوا کہ آپ کی کمیونٹی عالمی طور پر باہم متصل ہے۔ سب سے زیادہ، بیعت کی تقریب نے میرے پر روحانی اور جذباتی اثر ڈالا۔ پہلے لمحہ سے ہم سب نے ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھ دیئے،مجھے ایک بھی لفظ کی سمجھ نہیں آرہی تھی، مگر جو کچھ بھی کہا گیا وہ کسی طرح میرے جسم اور دماغ سے گزرا، اور کپکپی طاری ہو گئی، جو مجھے روحانی طور پر اللہ کے قریب تر لے گئی۔ بیعت کی وجہ سے مجھے آنسو آگئے۔
٭… ایک صحافی خاتون پلیژا سنیہ (Plješa Sanja) صاحبہ جن کا تعلق Croatia سے ہے اپنے بیٹے کے ساتھ جلسہ میں شامل ہوئیں۔ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں:یہ میرا پہلا جلسہ تھا جس میں میں شامل ہوئی ہوں لیکن مجھے اس بات کا یقین ہے کہ میں ضرور دوبارہ جلسہ میں شامل ہونے کے لیے آؤں گی۔ بے شک میں مسلمان نہیں بلکہ میرا تعلق عیسائی مذہب سے ہے لیکن پھر بھی خاص طور پر نمازوں کا ماحول دل چھونے والا تھا اور میں بہت ہی اطمینان محسوس کرنے لگی جیساکہ میں meditationکر رہی ہوں۔
وہ مزید کہتی ہیں:کیونکہ میں صحافی ہوں اس لیے مجھے مردانہ اور زنانہ دونوں طرف جانے کا موقع ملا اور ہر جگہ مجھ سے برابری کا سلوک کیا گیا، مجھے امن و سکون محسوس ہوا جیسا کہ میں اپنے ہی گھر میں ہوں۔
ترکی اور آذر بائیجان سے آنے والے مہمانوں کی ملاقات
بعد ازاں پروگرام کے مطابق ترکی (TURKEY) اور آذر بائیجان (AZERBAIJAN) سے آنے والے مہمانوں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرف ملاقات پایا۔
ترکی سے گیارہ افراد پر مشتمل وفد آیا تھا اور آذر بائیجان سے ایک دوست سلاموو وقار صاحب شامل ہوئے تھے۔ ترکی سے آنے والے وفد میں صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ ترکی مکرمہ یاسمین صاحبہ اور ان کے فیملی ممبران شامل تھے۔ وہاں کے لوکل معلم قبلائی چل صاحب بھی شامل تھے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا کہ آپ کو جلسہ کیسا لگا؟ سبھی نے عرض کیا کہ ہمیں جلسہ بہت اچھا لگا۔سارے انتظامات بہت اچھے تھے۔
صدر صاحبہ لجنہ سے حضور انور نے گفتگو فرمائی کہ آپ کی رپورٹس مجھے ملتی رہتی ہیں۔ صدر صاحبہ لجنہ نے حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی کہ خداتعالیٰ ہمیں بہتر رنگ میں کام کرنے کی توفیق دے۔ حضور انور نے فرمایا اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور توفیق دے۔
٭… ایک ترک مہمان جنگیز آئی دَن C(Cengiz Aydin)n صاحب اپنی اہلیہ کے ساتھ جلسہ میں شامل ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں: جلسہ سے متعلق ہر چیز بہت اچھی تھی۔ اچھی آرگنائزیشن تھی۔ ہمارا جس طرح استقبال کیا گیا اور جس طریق سے ہر ایک ہم سے پیش آیا اس سے ہمیں دلی خوشی ہوئی۔ جلسہ پر ہمیں مدعو کرنے پر ہم آپ کا بہت شکریہ ادا کرتے ہیں۔
حضور انور کے خطاب کے متعلق لکھتے ہیں : آیات قرآنیہ سے مزیّن یہ خطاب بہت پیارا اور مؤثر تھا۔
٭… ایک ترک نوجوان جان مِرت ( Jan Mert) صاحب ہمبرگ سے جلسہ میں شامل ہوئے وہ کہتے ہیں: اس جلسہ میں شامل ہو کر میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نےاحمدیوں کے دلوں میں فتح اسلام کے لیے ایک نہ بجھنے والی آگ جلا دی ہے۔
جان مِرت (Jan Mert) صاحب نے جلسہ کے آخری دن تحریری بیعت کرنے کے بعد حضور انور کے دست مبارک پر بھی بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی۔
٭… یاسمین میمِش (Yasemin Memis) صاحبہ ایک ترک خاتون ہیں اور پیشہ کے اعتبار سے ٹیچر ہیں۔ یہ اپنی فیملی کے ساتھ جلسہ پر جرمنی کے شہر Hagan سے تشریف لائی تھیں۔ انہوں نے حضور انور کا غیر مسلم احباب سے خطاب سنا۔ وہ لکھتی ہیں: حضرت خلیفہ صاحب کا یہ خطاب میرے نزدیک الہامی تھا۔ جلسہ کا ماحول مجھے بہت پسند آیا۔ اتنے بڑے اجتماع کے باوجود اتنےزیادہ امن اور سکون سے ہر کام کا ہونا مجھے تسکین قلب عطا کرتا رہا۔ اتنے زیادہ لوگوں کا صرف رضائے باری کے لیے اکٹھا ہونا اور پھر ان سب کا محبت کی لڑی میں پروئے ہونا ایک غیر معمولی حیران کن بات تھی۔
مختصر یہ کہ وہاں جو کچھ کہا گیا اور جس سوچ کا اظہار کیا گیا مجھے اسی کی تلاش تھی۔ اس دن میں نے ایک puzzle کے ہر حصہ کو اپنی اپنی جگہ فٹ بیٹھتے دیکھا۔
ایک ترک مہمان نے کہا: خلیفہ سے ایسی شعاعیں محسوس ہوتی ہیں جنہیں میں بیان نہیں کر سکتا مگر ان شعاعوں نے تمام ہال کو بھر دیا تھا۔
٭… آذربائیجان سے آئے ہوئےمہمان سلاموو وقار صاحب نے اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہا: میرا جماعت کے ساتھ پرانا رابطہ ہے۔ جماعتی افراد کے میرے ساتھ برتاؤ نے میرے اندر یہ سوال پیدا کیا کہ کس طرح ممکن ہے کہ سب ہی اتنی اچھی تربیت کے مالک ہوں؟ تو خلیفۃ المسیح کے ساتھ ملاقات اور اس کو دیکھنے کے بعد میرے سوال کا جواب مجھے مل گیا۔ جماعت میں مَیں نے کسی کو کسی طرح مجبور کرتے نہیں دیکھا۔ یہ تربیت کے لیے ہر کسی کو وقت دیتے ہیں۔ یہ سب کو ہی اپنے اندر سمونے والے لوگ ہیں۔ دوران بیعت میں نے اصل اسلام میں داخل ہونے کی تصویر کو محسوس کیا کہ اوائل اسلام میں جس طرح بیعت کر کے لوگ اسلام میں داخل ہوتے تھے اور نبی یا خلیفہ کی چھتری تلے امان پاتے تھے اسی امان میں اپنے آپ کو محسوس کیا۔ دوران ملاقات خلیفۃ المسیح کے نورانی وجود نے میری توجہ کو اپنی طرف کھینچے رکھا۔
ہنگری اور رومانیہ سے آنے والے وفود کی ملاقات
اس کے بعد ملک ہنگری (HUNGARY) اور رومانیہ (ROMANIA) سے آنے والے وفد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے شرف ملاقات پایا۔ ہنگری سے ۴۰؍ افراد پر مشتمل وفد آیا تھا جس میں سے نو مقامی مہمان اور ۳۱؍ پاکستانی احمدی دوست تھے۔ رومانیہ سے چار افراد پر مشتمل وفد آیا تھا۔ حضور انور نے دریافت فرمایا آپ کو جلسہ کیسا لگا؟
اس پر رومانیہ سے آنے والے ایک نوجوان نے عرض کیا کہ جلسہ بہت اچھا لگا۔ میں پہلی دفعہ آیا ہوں۔ ہم نے بہت انجوائے کیا ہے۔
ہنگری سے آنے والے ایک دوست نے عرض کیا کہ جلسہ بہت اچھا لگا۔ یہاں نیا ماحول دیکھا ہے۔ مجھے بہت پسند آیا ہے۔
حضور انور نے مربی سلسلہ کی اہلیہ کو ہدایت فرمائی کہ تبلیغ کیا کریں تبلیغ کی طرف توجہ کم ہے۔ مقامی احمدی کم ہیں۔ تبلیغ کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔
٭… ہنگری سے آنے والے ایک مہمان نے عرض کیا کہ ہمیں یہاں بہت محبت ملی ہے۔ حضور انور امن کے قیام کے لیے کوششیں فرما رہے ہیں ہم اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔جلسہ پر بہت خوشی ہوئی۔ آئندہ بھی جلسہ پر آیا کروں گا۔
٭… ایک دوست نے جو ہنگری سے آئے تھے عرض کیا کہ میں بہت سے ملکوں میں گیا ہوں لیکن میں نے ایسا اجتماع دنیا میں کہیں نہیں دیکھا۔ یہاں امن دیکھا ہے۔ ہنگری میں بہت تعصب پایا جاتاہے۔ میں وہاں مسلمانوں کے حقوق کے لیے کام کرتا ہوں ان کی مدد کرتا ہوں۔ حضور انور نے فرمایا خدا تعالیٰ ہنگری میں امن پیدا کرے۔
٭… رومانیہ سے ایک نو احمدی دوست آدرِیان مشات (Adrian Mushat) صاحب جلسہ میں شامل ہوئے۔ موصوف نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:احمدی بھائیوں کے درمیان دوستانہ اخوت جو اس سے پہلے TV اسکرین پر دیکھی تھی۔ اب خود اپنے مشاہدہ سے دیکھ کر بہت دلی خوشی اور سرور کے جذبات پیدا ہوئے ہیں۔ جلسہ کی حاضری بہت زیادہ تھی۔ یہ بھی میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا کہ اتنی بڑی تعداد کا ایک جگہ پر منظم انداز سےاکٹھے ہونا اور پُر سکون طریق سے سارے انتظامات کا چلتے جانا میرے لیے پہلا اور نیا تجربہ تھا۔ بیعت میں شمولیت میرے لیے ایک پُراز جذبات کیفیت تھی۔ یقیناً اس پُر کیف احساس سے میرا دل بھر آیا تھا اور آنکھیں نمناک ہو گئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ میری اس محسوس شدہ حالت کو میرے دل میں ہمیشہ زندہ رکھے۔ آمین۔
٭… ایک رومانیئن خاتون کارمن صاحبہ (Carmen) اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں: حضورِانور کا خطاب سنا اور اسلام کی پُر امن تعلیم سے میں اب واقف ہوئی ہوں۔ جلسہ اور حضور کے خطاب کے بعد میں اپنے دل میں امن اور سکینت کا مضبوط احساس ساتھ لیے جا رہی ہوں۔ مجھے ایسا احساس پہلے کبھی نہیں ہوا۔ میری خواہش ہے کہ ایسے نیک خیالات میری اپنی قوم میں بھی پروان چڑھیں۔ جس طرح جماعت احمدیہ خواتین کو عزت دیتی ہے۔ دنیا میں کوئی دوسرا اتنی عزت نہیں دیتا۔
٭… ایک ہنگری مہمان جو کہ legal advisor ہیں نے کہا:خلیفہ کا خطاب بہت اچھا تھا اورآپ کا پیغام کہ دنیا میں امن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے بہت اہم اور ضروری ہے۔ خلیفہ کی ہمدردی صرف جماعت احمدیہ تک محیط نہیں بلکہ تمام انسانیت کے لیے ہے۔ خلیفہ کی شخصیت الفاظ میں مَیں بیان نہیں کر سکتا مگر خلیفہ کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا ہے۔آج میرا اسلام کے بارہ میں تصور مکمل طور پر بدل گیا ہے۔آپ کے خلیفہ نہایت ہی ہمدرد اور پر امن لیڈر ہیں۔بد قسمتی یہ ہے کہ ایسے لوگ دنیا میں کم ہیں جبکہ آج ان کی بہت ضرورت ہے۔
٭… ہنگری سے آنے والے ایک مہمان ساوا وینسے (Szava Vince) صاحب تھے جنہوں نے اپنی کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے ایک Organization بنائی ہوئی ہے جس کے سینکڑوں ممبر ہیں۔ اپنے لوگوں کی قانونی مشاورت و مدد کے لیے چوبیس گھنٹے دستیاب ہوتے ہیں۔ اپنی گزر اوقات کے لیے Real Estate کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے جماعت سے رابطہ اور دوستانہ تعلق ہے۔ ایک تقریب میں ان سے رابطہ ہوا اور پھر تعلق استوار ہوتا چلا گیا۔ اب اپنے قریبی فیملی ممبران کے ساتھ شامل ہوئے۔ اس جلسہ کی دعوت میں پوچھا کہ میں اپنے ۱۲؍ سال کے بیٹے کو بھی جلسہ دکھانا چاہتا ہوں۔ اس عمر کے بچے اپنا وقت اور توانائی online سر گرمیوں میں برباد کر رہے ہیں۔ آپ کی جماعت کے بچے جلسہ کی ڈیوٹیاں دیتے ہیں۔ یہ ماحول میرے بیٹے کی تربیت کے لیے ضروری ہے۔ انسانیت کی خدمت اور لوگوں سے محبت اور عزت کا تعلق قریب سے مشاہدہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اس نیت کے ساتھ ساواوینسے صاحب اپنی فیملی کے ساتھ جلسہ میں شامل ہوئے۔
موصوف نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: جلسہ کا ماحول اپنی ذات میں بے مثال ہے۔ بہت سے ملکوں میں جانے اور پروگراموں میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ مختلف اقوام اور افراد کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا مگر ایسا دوستانہ اور باہمی احترام والا ماحول آپ کا ہی خاصہ ہے۔ پچاس ہزار لوگ ایک ہی سمت میں ایک ہاتھ پر انسانیت کی خدمت کے لیے، دنیا کے امن کے لیے مصروف عمل ہیں۔ یہ ایک عجیب روحانی تجربہ ہے۔
حضور سے ملاقات ناقابل فراموش تجربہ ہے۔ یہ خوشگوار یادیں سرمایہ حیات ہیں۔ آپ لوگ صرف نعرے نہیں لگاتے، صرف باتیں نہیں کرتے بلکہ خلیفہ صاحب جو فرماتے ہیں وہ ساری دنیا کے امن کے لیے نہایت اہم ہے۔ آپ کے پیروکاروں کے لیے آپ کے الفاظ نہایت اہم ہیں۔ اور سب مل کر خلیفہ کے الفاظ کو اپنے عمل سےکر کے دکھاتے ہیں۔ خلیفہ صاحب بتاتے ہیں کہ کیسے کام کرنا ہے اور جماعت وہ محبت انسانوں سے کرکے دکھاتی ہے۔
٭… مونیکا می ہیلر (Monika Miheller) صاحبہ جو ایک online shop چلاتی ہیں اپنے بچوں کے ساتھ جلسہ میں شامل ہوئیں۔ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:یہ میرا جماعت سے پہلا رابطہ ہے۔ مجھے آپ کے مذہب کی باتیں بڑے قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا جو بہت خوشگوار اور حیران کن تجربہ تھا۔ ہر لحاظ سے مجھے ہر پہلو ہی مثبت لگا۔ کوئی خرابی کی بات جو مسلمانوں کے بارے میں میڈیا میں بتائی جاتی ہیں نظر نہیں آئی۔ اپنے دوبچوں کے ساتھ جلسہ میں شریک ہوئی۔ دوسروں کی اقدار اور عقائد قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ حضور کے خطاب سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ افسوس یورپین اقوام نہ آپ کی اقدار سمجھتی ہیں نہ پہچانتی ہیں۔ آپ کی اقدار اسلام کا حسین چہرہ ہیں۔
٭… آرنلڈ گاشپر (Arnold Gaspar) صاحب جو کہ پیشے کے اعتبار سے شیف ہیں۔ اپنی فیملی کے ساتھ جلسے میں شریک ہوئے۔ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جلسے میں ایسے تھا جیسے ہم ہمیشہ سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ رہنا اور وقت گزارنا جو دنیا کے بارے میں اور دوسری اقوام کے بارے میں ذات، وقومیت اور رنگ و نسل سے ماور اہو کر سوچتے ہیں۔ ایک عجیب خوشکن تجربہ تھا۔ روز بہت کچھ اور ہر روز نیا سیکھنے کو ملا، جیسے انسانوں کی آپس کی ہمدردی اور عزت و احترام سے رہنا۔ ہم یورپ کی روما کمیونٹی سے ہیں۔ ہماری بہت سی اقدار مشترک ہیں۔
خلیفہ کا ایسا احترام اور محبت کہ جب وہ بولیں تو ہزاروں کا مجمع خاموش ہو کر ہمہ تن گوش ہوجائے، یہ تجربہ اور مشاہدہ کبھی زندگی میں نہیں ہوا۔
٭… شےرون گی زیئلا (Seron Gizella) صاحب جو کہ پیشے کے اعتبار سے ہوٹل مینجمنٹ سے منسلک ہیں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ بہت ہی حیران کن لگا کہ اتنے بہت سے لوگ مذہبی اقدار کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں مذہب کو اتنی اہمیت دیتے ہیں۔ ہزاروں لوگوں کے لیے جلسہ اتنی اہمیت کا حامل تھا۔ اور جلسہ میں بہت کچھ دیکھنے اور سیکھنے کو تھا۔ نمازیں اور دعائیں عجیب دلکش نمونے اپنے اندر رکھتی ہیں۔ جلسہ کے انتظامات نہایت منظم تھے۔ دو لفظوں میں بات کریں تو لوگ محبت کرنے والے اور دوستانہ برتاؤ والے تھے۔ ہم نے اپنے آپ کو اس بڑے خاندان کا ہی حصہ سمجھا۔
حضور سے ملاقات بھی بہت up bringing کی حامل اور لائف ٹائم تجربہ تھا۔ یہ بھی بہت حیران کن ہے کہ اتنے مصروف پروگرام کے بعد مہمانوں سے ملاقات کرنا اور ان کی رائے جاننا خلیفہ وقت کے لیے بہت اہم ہے۔
٭… ایک مہمان خاتون ساوا وینیسا (Szava Vanessz) صاحبہ اپنے خاوند کے ساتھ جلسے میں شامل ہوئیں۔ وہ کہتی ہیں:جلسے کے تینوں دن بہت interesting تھے۔ لوگ بہت کھلے دل کے اور مہمان نواز تھے۔ جلسے کے ہال میں واضح محسوس ہوتا تھا کہ ہم گویا ایک ہی خاندان ہیں۔
حضور سے ملاقات ایک لائف ٹائم تجربہ تھا۔ بہت high spirit والی ملاقات تھی آپ کی جماعت کو قریب سے دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ پیار اور محبت کی فضا کا ایک خاص اثر تھا۔
چیک ری پبلک اور سلواکیہ سے آنے والے وفود کی ملاقات
بعد ازاں پروگرام کے مطابق چیک ری پبلک (CZECK REPUBLIC) اور سلواکیہ (SLOVAKIA) سے آنے والے وفود نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت حاصل کی۔
چیک ری پبلک سے آٹھ اور سلواکیہ سے سات افراد پر مشتمل وفد آیا تھا۔
ایک مہمان نے عرض کی کہ میں عیسائی ہوں۔ خدا پر یقین رکھتا ہوں۔ میں نے یہاں لوگوں کو دیکھا ہے۔ بڑا پُرامن ماحول تھا۔ لوگ ایک دوسرے سے محبت کرنے والے تھے۔ اگر ساری دنیا احمدیوں کی طرح ہوجائے تو دنیامیں کوئی مسئلہ نہ ہو۔
موصوف نے کہا کہ وہ ۷۱؍ سال کے ہیں اور ریٹائرڈ ہیں۔
حضور انور نے فرمایا: ایک دوسرے کے ساتھ سب مل جل کر رہیں۔ صلح اور امن سے رہیں اور ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔
چیک ری پبلک سے آنے والے ایک دوست نے بتایا کہ وہ ڈیجیٹل ڈیزائننگ کا کام کرتے ہیں۔ حضور انور کے دریافت فرمانے پر کہ جماعت سے کس طرح رابطہ ہوا؟ موصوف نے بتایا کہ پہلے میرا احمدی لوگوں سے رابطہ ہوا۔ بعد میں مربی سلسلہ سے رابطہ ہوا۔ پھر جلسہ پر آیا ہوں۔
ایک مہمان نے عرض کیا کہ میں اٹارنی ہوں۔ میں پہلی مرتبہ جلسہ میں شامل ہوا ہوں۔ میں احمدیوں کے کیسز پر بھی کام کر رہا ہوں۔
ایک مہمان نے عرض کیا کہ میراجماعت احمدیہ سے بہت پرانا تعلق ہے۔ چھوٹی عمر سے تعلق ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں جماعت کی مسجد محمود کے سامنے سڑک کے پار جو چرچ ہے وہاں میرا باپ چرچ کی انتظامیہ میں شامل تھا۔ وہاں سے ہمارا جماعت سے رابطہ قائم ہوا۔ تو اس طرح ہمارا ایک لمبے عرصہ سے تعلق ہے۔
موصوف نے بتایا کہ وہ مختلف عرب ممالک میں بھی جاتے رہے ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ کچھ نہ کچھ عربی بھی جانتے ہوں گے۔
حضور انور نے فرمایا: ہمارے وہاں زیورک میں اس چرچ کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات ہیں۔ جب میں وہاں گیا تھا تو ہم اپنی نمازیں چرچ کے ایک ہال میں پڑھا کرتے تھے۔
احباب جماعت کی تعداد زیادہ تھی تو جماعت نے نمازوں کے لیے چرچ کا ہال حاصل کیا تھا۔
چیک ری پبلک اور سلواکیہ سے آنے والے مہمانوں نے اپنے تاثرات کا بھی اظہا ر کیا۔
چیک ریپبلک سےآئے ہوئےایک نوجوان مہمان نے اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہا: مجھے اس جلسہ سالانہ پر احمدیوں کے ذریعہ سے خدا دکھائی دیا ہے۔ بہت سے لوگ کوشش کرتے ہیں کہ خدا کے متعلق آگاہ کریں۔ مگر اس جلسہ پر لوگوں کے خاموش اچھے اخلاق کو دیکھ کر مجھے آپ کی جماعت میں خدا کا وجود نظر آیا ہے۔
٭… چیک ریپبلک سے اس دفعہ پہلی بار ایک ریٹائرڈ پروفیسر Daniel Berti صاحب شامل ہوئے۔ وہ کہتے ہیں: یہ میرا جلسہ سالانہ کاپہلا تجربہ ہے۔ بہت ساری چیز وں نے مجھے متاثر کیا۔ ایک یہ کہ نماز کے وقت مَیں نے دیکھا کہ خلیفہ وقت کے ساتھ احبابِ جماعت جس انداز میں نماز پڑھ رہے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خلیفہ وقت کے سانس کے ساتھ وہ سانس لے رہے ہیں۔ گویا وہ ایک ہی وجود بن گئے ہیں۔ مَیں نے دنیا میں بہت سی قوموں، مذہبوں اور لوگوں کو دیکھا ہے۔اس طرح کی یک جہتی اور اِکائی آج پہلی دفعہ دیکھنے کو ملی ہےجس کو دیکھ کر دل بہت خوش ہوا۔
مزید کہتے ہیں کہ دنیا میں بڑی سے بڑی نمائشوں میں بھی جانے کا موقع ملا۔ان میں جہاں بھی سیکیورٹی دیکھی وہاں سیکیورٹی اہلکاروں کا رویہ تلخ ہی پایا۔ مگر اس جلسہ سالانہ پر security سے لیکر ہر کارکن کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی۔ نرمی دیکھی۔ جس کا یقیناً پورے جلسہ کے ماحول پر بہت مثبت اثر رہا۔ ایک پُر امن فضا قائم تھی۔ اتنے بڑے مجمع میں بغیر کسی رکاوٹ کے چلنا یقیناً بہت حیران کُن ہے۔
حضورانور سے ملاقات کے حوالہ سے کہتے ہیں:میں نے پہلےتصویر میں حضورِ انور کی پُر نور آنکھیں دیکھیں جنہوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔ مَیں نے اپنے آپ سے کہا کہ یقیناً یہ ایک روحانی شخص کی آنکھیں ہیں۔ آج جبکہ مجھے خلیفہ وقت کو دیکھنے اور بات کرنے کا شرف حاصل ہوا جس پر مَیں بہت شکر گذار ہوں اور یہ میری زندگی کا ایک زریں حصہ بن گیا ہے۔ مَیں نے انہی روحانی اور پُر نور آنکھوں کو دیکھا جن میں بہت طاقت ہے۔ خلیفہ وقت یقیناً ایک بہت روحانی وجود ہیں۔
٭… چیک ریپبلک سے ایک ریٹائرڈ پروفیسر Daniel Berti صاحب نے جلسہ کے موقع پر بیعت کی تقریب کو دیکھا۔ وہ کہتے ہیں: مَیں نے دیکھا کہ کس طرح خلیفہ وقت سے ایک روحانی طاقت نکلی جو کہ افرادِجماعت اگلے شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جذب کررہے تھے۔مگر اس طاقت کا اثر صرف احمدیوں تک نہ رہا۔ بلکہ مَیں غیر از جماعت لوگوں کے ساتھ اوپر گیلری میں کھڑا تھا۔ اوپر تک یہ کڑی ہم تک بظاہر جسمانی طور پر نہیں پہنچی۔مگر آگے کھڑے ایک صاحب نے گیلری میں باڑ کو پکڑ لیا اور ہم نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اوپر گیلری میں ایک جسمانی رابطہ قائم کرلیا۔ تو یہ روحانی طاقت اتنی پُرکشش تھی کہ اس نے میرے جسم اور دل پرایک گہرا اثر چھوڑا۔
٭… سلواکیہ سے آنے والی ایک مہمان خاتون ٹیچر مارطینہ حَلاوَاتا (Martina Hlavata) اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں:میں بے حد شکر گزار ہوں کہ میں پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ میں شامل ہوئی ہوں۔ میں نے مہمان نوازی کا ایسا منظر دیکھا ہے جو غالباً پوری دنیا میں نہیں پایا جاتا۔ ہر ایک خوش اخلاقی اور ایک مسکراتے ہوئے چہرے سے ملتا تھا۔ اس پورے جلسہ نے میرے دل پر ایک گہرا اثر ڈالا اور خاص طور پر بیعت اور نماز کے دوران میں اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکی پوری بیعت کی تقریب کے دوران روتی رہی اس لمحہ کو میں زندگی بھر نہیں بھولوں گی کہ کس طرح تمام احمدی خلیفہ کے ہاتھ پر ایک جان ہوکر بیعت میں شامل ہوئے۔ اسی طرح میں احمدیوں کے خلیفہ سے ملاقات کو کبھی نہیں بھولوں گی اور ایک دن بعد بھی اس ملاقات کا میرے دل پر اثر ہے۔ آپ کے خلیفہ ایک بہت بڑی شخصیت اور پیغام والے ہیں اور پیار اور محبت کا چشمہ ہیں۔ میں ضرور ان سے ایک اور مرتبہ ملنا چاہتی ہوں اور اسلام کے بارہ میں خلیفہ سے براہ راست معلومات حاصل کرنا چاہتی ہوں۔
٭… سلواکیہ سے آنے والے ایک مہمان تھامس اُنڈریسکا (Tomas Ondriska) جو کہ ایک بزنس مین ہیں بیان کرتے ہیں:جلسہ سالانہ سے قبل مجھے اسلام کے بارہ میں کچھ نہیں پتہ تھا۔ میری حالت یہاں تک تھی کہ مجھے لگتا تھا کہ مسلمان محمد رسول اللہ ﷺ کو اپنا خدا مانتے ہیں۔ جلسہ میں شامل ہو کر مجھے اسلام کی تعلیم، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے اصل مقام کا تعارف حاصل ہوا اور یہ بھی پتا لگا کہ اسلام در اصل ایک امن پسند مذہب ہے اور یہاں پر خاص طور پر Mediaاسلام کے بارہ میں غلط تاثر پیدا کرتا ہے۔ میرے لیے حیرانگی ہے کہ یہ پورا جلسہ کا انتظام احمدی خود کرتے ہیں اور کتنی لگن اور کتنے جوش اور جذبہ کے ساتھ مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں۔ جب میں نے احمدیوں کے خلیفہ کو پہلی مرتبہ دیکھا تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میں نے فوراً اپنے دل میں امن اور روح پر مثبت اثر پایا۔ خلیفہ سے ملاقات کے دوران میں کچھ سوال کرنا چاہتا تھا لیکن خلیفہ وقت کا ایک ایسا پُر رعب وجود ہے کہ کوشش کے با وجود میں سوال نہیں کر سکا اور میں خلیفہ کے پُر نور چہرے کو دیکھتا رہا۔ میرا پختہ ایمان ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہی مجھے اس جلسہ میں شامل کیا ہے۔
٭… سلواکیہ سے آنے والے ایک مہمان جودُر مارٹن (Judr Martin Pavelek) جو اٹارنی آف لاؤہیں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: میں نے پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ میں شرکت کی ہے اور مجھے احمدیوں کے اخلاق اور مہمان نوازی دیکھ کر بڑی خوشی محسوس ہوئی ہے۔جلسہ سالانہ پر مجھے بہت باتیں سیکھنے کو ملیں۔مسلمان اور خاص طور پر احمدی امن پسند اور اپنی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں۔ جماعت نے جو Exhibitionتیار کی تھیں وہ بہت پسند آئیں اور مجھے اسلام اور اس کی خوبصورت تعلیم کے بارہ میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ احمدیوں کےخلیفہ ایک بہت ہی پیار کرنے والی شخصیت ہیں اور ہر احمدی سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ کس طرح خلیفہ وقت سے پیار کا تعلق رکھتا ہے۔ ایسا بھائی چارہ اور پیار دنیا میں کم ہی ملتا ہے۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
دو بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
پچھلے پہر بھی مختلف ممالک سے آنے والے وفود کی ملاقات کا پروگرا م تھا۔
غانا اور کیمرون سے آنے والے وفود کی ملاقات
پروگرام کے مطابق پانچ بج کر ۴۰ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد کے مردانہ ہال میں تشریف لائے جہاں غانا (GHANA) اور کیمرون ( CAMERON) سے آنے والے وفود نے حضور انور سے ملاقات کی سعادت پائی۔
کیمرون سے دوآلا (DOUALA) شہر کے چیف امام جلسہ میں شامل ہوئے۔موصوف جماعت کے ساتھ بہت زیادہ تعاون کرنے والے اور ہر مخالفت کے موقع پر جماعت کی حمایت کرنے والے ہیں۔ کیمرون کے مبلغ انچارج نے موصوف کا تعارف کروایا اور مختلف مواقع پر موصوف جماعت کی جو مدد کررہے ہیں اس بارہ میں بتایا۔
کیمرون سے جماعت کے صدر بھی آئے تھے موصوف نے بتایا کہ وہ سال ۲۰۱۵ء سے جماعت کیمرون کے نیشنل صدر ہیں۔ اس سے پہلے سیکرٹری مال تھے۔ موصوف نے بتایا کہ پیشہ کے لحاظ سے سول انجینئر ہوں اور اب ریٹائرڈ ہوں۔
موصوف نے عرض کیا کہ جلسہ یوکے پر آنے کے لیے کوشش کی تھی لیکن ویزہ نہ مل سکا۔اس پر حضور انور نے فرمایا۔اگلے سال ویزا کی کوشش کریں۔
صدر صاحب نے عرض کیا کہ جب جلسہ گاہ میں حضور میرے پاس سے گزرے تو میں نے کانپنا شروع کر دیا۔میں نے پہلی دفعہ حضور کو قریب سے دیکھا تھا۔
صدر صاحب نے بتایا کہ وہ ہیومینٹی فرسٹ کے چیئرمین بھی ہیں اور اس وقت قریباً ایک ہزار یتامیٰ کا خیال رکھ رہے ہیں۔ اب تک ہم نے ۹۴؍ بورہول بھی کیے ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کیا وہاں پانی مل جاتا ہے۔ کتنی گہرائی پر مل جاتاہے؟ اس پر صدر صاحب نے بتایا کہ ۶۰؍ میٹر تک پانی آجاتا ہے۔
غانا کے وفد کے ممبران نے باری باری اپنا تعارف کروایا۔ حضور انور نے غانا کے مبلغ سلسلہ احمد طاہر مرزا صاحب کو ہدایت فرمائی کہ آپ جو جماعت غانا کی تاریخ مرتب کر رہے ہیں اس میں پروف ریڈنگ کی ضرورت ہے اور ایڈیٹنگ ہونے والی ہے۔ بعض الفاظ اور فقرے درست ہونے والے ہیں۔
آخر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’اللہ حافظ ہو سب کا‘‘ کیمرون کے وفد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت بھی پائی۔
٭… کیمرون سےآنے والے امام محمد مالک فاروق صاحب دو آلہ (DOUALA) شہر کے چیف امام ہیں اور کیمرون کی دو ریجنز کی علماء کونسل کے چیئر مین بھی ہیں۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: میں پہلی دفعہ جماعت کے اتنے بڑے پروگرام میں شامل ہوا ہوں۔ میرے لیے بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ جلسہ سالانہ میں مختلف رنگوں کے لوگ سب خوشی سے ملے اور آپس میں سب ایک فیملی کے افراد کی طرح پیارو محبت سے ملتے نظر آئے اور تین دنوں میں مجھے کسی قسم کا کوئی جھگڑا نظر نہیں آیا۔
انتظامات بہت اچھے تھے کھانے اور ٹرانسپورٹ کے کارکنان بہت محنت اور خوشی سے کام کرتے نظر آئے۔ نمائشوں میں جا کر بہت علم میں اضافہ ہوا اور میں جماعت کی خدمات سے بہت متاثر ہوا ہوں۔
امام جماعت کے خطابات علم کا خزانہ تھے پُر حکمت اور اسلامی تعلیمات کی بہترین عکاسی کرتے تھے۔عورتوں سے خطاب نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اگر ہم سب ان زرّیں ہدایات کے مطابق زندگی بسر کرنا شروع کردیں تو یہ زندگی جنّت بن جائے۔
جلسہ کے دوران حضرت امام جماعت کا غیراز جماعت مہمانوں سے خطاب بہترین اسلامی تعلیمات سے پُر تھا۔ امام جماعت نے ایسی تعلیم پیش فرمائی کہ ہر مسلمان کو اپنے دین پر فخر کرنا چاہیے۔ ہم سب کو عملی طور پر اس تعلیم کو پوری دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور اس وقت اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے خلیفہ کو بہترین اسلامی تعلیم دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے کھڑا کیا ہے۔
امام جماعت نور اور ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔ دنیا کی راہنمائی فرمارہے ہیں۔ جلسہ کے تمام خطابات سے میرے علم میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ (باقی آئندہ…)