حالاتِ حاضرہ

کرکٹ کا عالمی کپ ۲۰۲۳ء

ایک زمانہ تک روایتی انداز میں صرف پانچ روزہ ٹیسٹ میچز ہوا کرتے تھے۔ قریباً ایک سوسال بعد۱۹۷۱ءمحدوداوورز پرمشتمل ایک روزہ کرکٹ کاآغاز ہوا۔کمرشل ازم اور جدید میڈیا کے سبب آج کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں بلکہ ایک انڈسٹری بن چکا ہے جس میں کھلاڑیوں اور شائقین کے لیے دلچسپی اور کشش کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔

اس وقت ون ڈے کرکٹ ورلڈکپ کی آمد آمد ہےلہٰذا قارئین کے لیے اس عالمی ٹورنامنٹ کی تاریخ اور نمایاں ریکارڈز پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا مقصود ہے تا کہ اس کھیل کے دلدادہ بھارت میں منعقد ہونے والے ۲۰۲۳ءکے عالمی کرکٹ میلہ سے زیادہ محظوظ ہو سکیں اور ان کی پرانی یادیں کچھ حدتک تازہ ہوسکیں۔

۱۹۷۵ء میں انگلستان کی سَر زمین پر پہلے ورلڈ کپ میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والی چھ ٹیموں انگلینڈ،آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز، پاکستان،بھارت اور نیوزی لینڈ کے علاوہ سری لنکا اورایسٹ افریقہ کی ٹیموں نے حصہ لیا۔ویسٹ انڈیز نے کلائیو لائیڈ کی قیادت میں آسٹریلیا کو شکست دے کر ورلڈ کپ جیتا۔

۱۹۷۹ء میں دوسرا عالمی کرکٹ ٹورنامنٹ بھی انگلستان میں کھیلا گیااور آٹھ ٹیموں میں ایسٹ افریقہ کی جگہ کینیڈا کی ٹیم شامل ہوئی۔ایک مرتبہ پھر ویسٹ انڈیز اپنے شاندارکھیل سے میزبان انگلینڈ کو شکست دے کر دوسری مرتبہ ورلڈ چیمپئن بنا۔

۱۹۸۳ء میں انگلینڈ میں ہونے والے تیسرے ورلڈ کپ میں بھی آٹھ ٹیمیں شامل ہوئیں۔پہلی مرتبہ شامل ہونے والی زمبابوے کی ٹیم نے اپنے پہلے ہی میچ میں آسٹریلیا کی مضبوط ٹیم کو ہرا دیا۔فائنل میں دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز کو بھارت کے ہاتھوں شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور یوں کرکٹ پر حکمرانی کاتاج ہندوستانی ٹیم کے سَر پر سجا۔اس بار ایک روزہ کرکٹ میں پہلی مرتبہ 30 yardsیا 27 meters کا دائرہ متعارف کروایا گیا جس میں ہر وقت کم از کم چار فیلڈرز کی موجودگی ضروری تھی۔

۱۹۸۷ء کا عالمی کپ سرزمینِ برّصغیریعنی پاکستان اور بھارت میں منعقد ہوا جس میں ایک بار پھر آٹھ ٹیمیں شامل ہوئیں ۔اس ٹورنامنٹ میں میچ کی ہر اننگز کو ۶۰کی بجائے ۵۰ اوورز کا کردیا گیا۔اس ورلڈ کپ میں دونوں میزبان ممالک کو سیمی فائنلز میں شکست کاسامنا کرنا پڑا۔فائنل میں آسٹریلیا نے روایتی حریف انگلینڈ کو سات رنز سے شکست دے کر چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

۱۹۹۲ء کے ورلڈ کپ کی میزبانی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے مشترکہ طور پر کی۔جنوبی افریقہ کی شمولیت سے ٹیموں کی تعداد نو ہو گئی۔اس ٹورنامنٹ کے فارمیٹ میں یہ تبدیلی کی گئی کہ پہلے راؤنڈ میں ہر ٹیم نے دوسری سب ٹیموں کے خلاف میچز کھیلے۔پھر بہترین چارٹیموں نے سیمی فائنل مقابلوں تک رسائی حاصل کی۔سیمی فائنل میں پاکستان نے میزبان نیوزی لینڈ جبکہ جنوبی افریقہ کو انگلینڈ کے ہاتھوں شکست کا مزہ چکھنا پڑا۔یوں پاکستان اور انگلینڈ کے مابین فائنل میلبورن کرکٹ گراؤنڈ(MCG) میں کھیلا گیا جس میں پاکستانی ٹیم کی شاندار اور یادگار کارکردگی نے پاکستان کو فتح دلائی۔اس ٹورنامنٹ کی خاص بات کھلاڑیوں کا رنگین لباس،سفید گیند کا استعمال اوربرقی قمقموں کی روشنی میں ڈے اینڈ نائٹ میچز کا انعقاد تھا۔اس ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کے مایہ ناز بلے باز مارٹن کرو کو مجموعی طور پر ۴۵۶رنز سکور کرنے پر ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ دیا گیا۔

۱۹۹۶ء کا چھٹا عالمی کرکٹ ٹورنامنٹ ایک مرتبہ پھر پاکستان اور بھارت کی سرزمین پرکھیلا گیا۔سری لنکا کو بھی چند میچز کی میزبانی دی گئی، البتہ آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں نے وہاں کھیلنے سے انکار کردیا نتیجۃًسری لنکن ٹیم کو ان کے خلاف میچز میں فاتح قرار دیا گیا۔اس ٹورنامنٹ میں ۱۲؍ ٹیمیں شامل ہوئیں۔کینیا،متحدہ عرب امارات اور ہالینڈ کی ٹیمیں پہلی مرتبہ ورلڈ کپ میں شامل ہوئیں۔اس بار سری لنکن ٹیم نے آسٹریلوی ٹیم کو لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں شکست دے کر عالمی کپ اپنے نام کیا۔سری لنکا کے سنتھ جے سوریا ۲۲۱؍ رنز اور۷؍ وکٹوں کے ساتھ ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔

۱۹۹۹ء میں کرکٹ ورلڈ کپ چوتھی مرتبہ انگلستان میں منعقدہوا۔تاہم چند میچز سکاٹ لینڈ، آئر لینڈ، ویلز اور نیدرلینڈز میں بھی کھیلے گئے۔ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے ۹ممالک کے علاوہ بنگلہ دیش،سکاٹ لینڈ اور کینیا کی کرکٹ ٹیموں نے بھی شرکت کی۔فائنل میں آسٹریلیا نے پاکستان کو بآسانی شکست دی۔سب سے دلچسپ میچ جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے مابین سیمی فائنل کھیلا گیا تھا جوبرابر(tie)ہوا،لیکن آسٹریلوی ٹیم فائنل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔اس ٹورنامنٹ میں جنوبی افریقہ کے آل راؤنڈر لانس کلوزنر نے ۲۸۱رنز اور ۱۷ وکٹوں کے ساتھ Player of the tournament کا اعزاز اپنے نام کیا۔

۲۰۰۳ء میں جنوبی افریقہ، زمبابوے اور کینیا میں آٹھواں عالمی کرکٹ کپ منعقد ہوا۔جس میں ۱۴ٹیموں نے شمولیت کی۔پاکستانی ٹیم اور میزبان جنوبی افریقہ جلد باہر ہوگئے۔حیران کن بات یہ تھی کہ کینیا کی بظاہر کمزور ٹیم نے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی۔جوہانسبرگ کے The Wanderersکرکٹ گراؤنڈ میں کھیلے گئے فائنل میں کپتان رکی پونٹنگ کی شاندار بیٹنگ کی بدولت آسٹریلیا نے بھارت کو شکست دے کر لگاتار دوسری مرتبہ اور مجموعی طور پرتیسری مرتبہ ورلڈ ٹائٹل اپنے نام کیا۔بھارت کے مایہ ناز بلے بازسچن رمیش ٹنڈولکر۶۷۳؍رنز سے ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی قرارپائے۔

نواں کرکٹ ورلڈکپ ۲۰۰۷ء میں جزائر غرب الہند (West Indies)میں منعقد ہوا۔اس مرتبہ ۱۶ٹیمیں ورلڈ کپ میں شامل ہوئیں جنہیں ۴گروپس میں تقسیم کیا گیا۔کنگسٹن جمیکا میں ہونے والے فائنل میں آسٹریلوی وکٹ کیپر بلے باز ایڈم گلکرسٹ کی طوفانی بیٹنگ کی بدولت آسٹریلیا نے سری لنکا کو شکست دے کرنہ صرف ۱۹۹۶ء کا بدلہ چکایا بلکہ چوتھی مرتبہ کرکٹ کے عالمی چیمپئن ہونے کا اعزاز بھی حاصل کرلیا۔ آسٹریلیا کے فاسٹ باؤلر گلین میگراتھ نے ۲۶وکٹیں کیں اور ورلڈ کپ کےبہترین کھلاڑی قراردئیے گئے۔

کرکٹ کا دسواں عالمی کپ ۲۰۱۱ء میں بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں کھیلا گیا۔سیکیورٹی کے مسائل کی بنا پرپاکستان کو میزبانی سے محروم ہونا پڑا۔اس ٹورنامنٹ میں شامل ۱۴ٹیموں کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا۔پاکستانی ٹیم سیمی فائنل میں بھارت کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئی۔فائنل مقابلہ سری لنکا اور بھارت کے مابین ممبئی کے وانکڈے سٹیڈیم میں کھیلا گیا جس میں مہندر سنگھ دھونی اور گوتم گھمبیر کی شاندار پرفارمنس کی بدولت بھارتی ٹیم نے دوسر ی مرتبہ عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔یووراج سنگھ نے ۳۶۲؍ رنزاور ۹؍ وکٹوں کے ساتھ بہترین کھلاڑی کا ایوارڈحاصل کیا۔

۲۰۱۵ء میں ہونے والے گیارہویں کرکٹ ورلڈکپ کی میزبانی ایک مرتبہ پھر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے حصہ میں آئی جس میں ۱۴ٹیمیں شامل ہوئیں ۔افغانستان پہلی مرتبہ شامل ہوا۔ ۲۹؍مارچ ۲۰۱۵ء کو میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلے جانے والے فائنل میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی ٹیمیں مدّمقابل آئیں جس میں آسٹریلیا نے یک طرفہ میچ کے بعد بآسانی فتح حاصل کرکے پانچویں بارکرکٹ کا عالمی چیمپئن بننے کا اعزازحاصل کیا۔کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دو بلے باز وں نے ڈبل سینچری بنائی۔نیوزی لینڈ کے مارٹن گپٹل نے ناقابل شکست ۲۳۷؍ جبکہ ویسٹ انڈیز کے کرس گیل نے ۲۱۵؍ رنز کی اننگز کھیلی۔اس ورلڈکپ میں بہترین کھلاڑی ۸میچوں میں ۲۲؍ وکٹیں حاصل کرنے والے آسٹریلوی فاسٹ باؤلر مچل سٹارک قرارپائے۔

۲۰۱۹ء میں عالمی کرکٹ ٹورنامنٹ پانچویں مرتبہ انگلستان کی سرزمین پر کھیلا گیا۔جس میں دنیائے کرکٹ کی ۱۰؍ بہترین ٹیمیں شامل ہوئیں۔ پہلے راؤنڈ میں ہرٹیم نے مخالف ٹیموں کے خلاف میچز کھیلےاور بہترین چارٹیموں نے سیمی فائنلز تک رسائی حاصل کی۔نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے مقابلہ میں بہترنیٹ رن ریٹ کی بنیادپر سیمی فائنل میں پہنچی جہاں اس نے بھارت کی مضبوط ٹیم کے خلاف کامیابی حاصل کرتے ہوئے دوسری مرتبہ ورلڈ کپ فائنل میں جگہ بنائی ۔دوسرے سیمی فائنل میں میزبان انگلینڈ نے آسٹریلیا کو شکست دی۔۲۰۱۹ء ورلڈ کپ کا فائنل کئی لحاظ سے شائقین کرکٹ کو ہمیشہ یادرہے گا۔نیوزی لینڈ اورانگلینڈ کے مابین یہ یادگار میچ لارڈزکرکٹ گراؤنڈ لندن میں کھیلا گیا۔سنسنی خیز اوراتارچڑھاؤ سے بھرپور۵۰۔۵۰ اوورز کے بعد میچ برابری پر ختم ہوا۔جس کے بعد ورلڈکپ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپر اوورکروایا گیا لیکن حیرت انگیز طورپردونوں ٹیمیں اس مرحلہ میں بھی برتری حاصل نہ کرسکیں۔سپراوورٹائی ہونے کے بعد قواعد کے مطابق میچ کے دوران مجموعی طورپر زیادہ چوکے چھکے لگانے والی انگلش ٹیم کو ورلڈچیمپئن قراردیا گیا۔یوں انگلینڈ نے اوئن مورگن کی قیادت میں ناقابلِ یقین صورتحال میں پہلی مرتبہ عالمی کپ جیت لیا۔اس ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن قرارپائے جنہوں نے ۵۷۸رنز کے ساتھ ۲؍ وکٹیں بھی حاصل کیں۔

تیرہواں عالمی کرکٹ ٹورنامنٹ ۵؍اکتوبر تا ۱۹؍ نومبر ۲۰۲۳ء بھارت کے دس شہروں میں کھیلا جائے گا۔ گذشتہ ورلڈکپ کی طرح ۱۰؍ ٹیمیں آپس میں نبردآزما ہوں گی۔ بعدازاں ٹاپ چارٹیمیں سیمی فائنل تک پہنچیں گی۔فائنل سمیت مجموعی طورپر۴۸میچز کھیلے جائیں گے۔افتتاحی مقابلہ دفاعی چیمپئن انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے مابین احمدآباد میں کھیلا جائے گا۔روایتی حریف پاکستان اور بھارت کے مابین مقابلہ ۱۴؍اکتوبرکواحمدآباد میں دنیا کےسب سے بڑے کرکٹ سٹیدیم میں ہوگا جہاں ایک لاکھ ۳۲ہزارافرادکے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔۱۹؍ نومبرکو فائنل معرکہ بھی اسی میدان میں ہوگا۔سیمی فائنل مقابلے ممبئ اورکلکتہ میں کھیلے جائیں گے۔اس ورلڈ کپ میں ایک خاص امر یہ بھی ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے ہدایت کی ہے کہ تمام گراؤنڈز میں باؤنڈری کی حد کم ازکم ۷۰میٹر رکھی جائے۔اس ٹورنامنٹ کے لیے انعامی رقم مجموعی طورپردس ملین امریکی ڈالرز رکھی گئی ہے جس میں سے چارملین ڈالرز فاتح ٹیم جبکہ دو ملین ڈالرز رنراَپ ٹیم کے حصہ میں آئیں گے ۔

کرکٹ ماہرین اورسابقہ کرکٹرزکے مطابق روہت شرما کی قیادت میں ورلڈکلاس کھلاڑیوں پرمشتمل بھارتی ٹیم اس ورلڈ کپ میں فیورٹ ہوگی جبکہ انگلینڈ، آسٹریلیا اور پاکستان کی ٹیمیں بھی ورلڈ کپ جیتنے کی تمام ترصلاحیت رکھتی ہیں۔یہ پہلا موقع ہے کہ دومرتبہ کی عالمی چیمپئن ویسٹ انڈیز کی ٹیم ورلڈ کپ میں شرکت سے محروم ہے۔

(ن۔م۔طاہر)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button