سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی (۴؍ستمبر ۲۰۲۳ء بروز سوموار) (قسط سوم۔ آخری)
بلغاریہ سے آنے والے وفد کی ملاقات
بعد ازاں ملک بلغاریہ (BULGARIA) سے آنے والے وفد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ملاقات کی سعادت پائی۔ بلغاریہ سے ۴۰؍ افراد پر مشتمل وفد جلسہ میں شامل ہوا تھا۔
حضور انور نے فرمایا جو احمدی نہیں ہیں انہوں نےجلسہ سالانہ کیسا دیکھا؟
ایک مہمان نے عرض کیا کہ میں جماعت جرمنی کے سو سال پورے ہونے پر مبارک باد دیتا ہوں۔ آپ کی دعوت کا شکریہ ادا کرتا ہوں میرے تاثرات بہت اچھے ہیں۔
ایک مہمان نے عرض کیا کہ وہ وکیل ہیں اور یونیورسٹی میں استاد ہیں۔ آجکل سیاست میں کام کرتے ہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ پڑھے لکھے لوگوں کو بتائیں کہ جماعت احمدیہ پُرامن جماعت ہے۔ جماعت کا پیغام پہنچائیں۔ اس پر موصوف نے کہا کہ ہم بالکل مدد کریں گے۔ اس لیے میں آیا ہوں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا خدا تعالیٰ فضل کرے۔
ایک خاتون نے عرض کیا کہ میں یونیورسٹی کی طالبہ ہوں اور پیدائشی مسلمان ہوں۔ ٹرانسلیٹر ہوں اور ٹیچر بھی ہوں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: ہماری کتابوں کا ترجمہ کرو اس طرح تم اسلام کا اچھا نالج حاصل کرلو گی۔
ایک نوجوان نے عرض کیا کہ وہ پہلے سے احمدی ہیں۔ حضور انور نے اس کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنا نالج، علم بڑھائو اور اچھا ذریعہ یہی ہے کہ ترجمے کرو۔ اس سے دینی علم بڑھے گا۔خدا برکت دے۔
٭…ملک بلغاریہ سے آنے والی ایک عیسائی خاتون نتالیہ(Natalia) صاحبہ جو پہلی مرتبہ جلسہ میں شامل ہوئیں۔ کہتی ہیں: یہ جلسہ میرے ذہن میں نقش رہے گا۔ میں نے پہلی بار ہزاروں مسلمانوں کو ایک ساتھ عبادت کرتے دیکھا۔ یہ نہایت خوبصورت نظارہ تھا۔ میں عیسائی ہوں اور اس طرح کے جلسہ میں پہلی بار شامل ہوئی ہوں۔ تمام لوگ ہم سے بہت ادب اور شائستگی سے پیش آتے جس نے ایک عجیب مسرت کا احساس دیا۔جلسے کا اختتامی حصہ مجھے بہت اچھا لگا جس میں حضور کی تقریر بہت سبق آموز تھی۔
جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھی کہ سب لوگ ہم سے ایسے ادب سے پیش آتے جیسے ہم بہت خاص ہوں۔ ڈیوٹی پر موجود لوگ اس بات کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کر رہے تھے کہ کسی مہمان کو کوئی مشکل نہ ہو۔
پہلے دن ہمیں ترجمہ کے لحاظ سے تھوڑا مسئلہ محسوس ہوا جو کہ بعد میں ٹھیک ہو گیا تھا۔
٭…بلغاریہ سے آنے والی ایک نومبائع خاتون اِیوَیلینا چوبانووَا(Ivelina Chobanova) نے بیان کیا:جلسہ کے یہ تین دن بہت بہترین دن تھے۔ میں آپ کی بلکہ اب ’ہماری‘ جماعت کی ایک نئی ممبر ہوں۔ جلسہ کی ایک تقریر نے مجھے بے حد متاثر کیا جس کا عنوان تھا ’میں (خدا) ایک مخفی خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں‘۔ اس تقریر کا وہ حصہ جس میں ایک بزرگ کی ایک خواب کا ذکر تھا کہ اس نے خواب میں ایک لڑکے کو نہایت بُری حالت میں دیکھا، اس لڑکے کا جواب کہ وہ کون ہے، اس جواب نے میری روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ میں اب تک اسی سوچ سے باہر نہیں نکلی۔
جلسہ کے یہ تین دن میرے لیے نہایت ایمان افروز تھے۔
٭…بلغاریہ سے آنے والی ایک عیسائی خاتون وَالِنٹِینَا جَورْ جِیوا (Valentina Georgieva) بیان کرتی ہیں: اس جلسہ میں ایک عجیب پُر سکون ماحول میں تقاریر اور نہایت پیاری نظمیں سننے کا موقع ملا۔
خلیفہ کی تقاریر سے مجھے اسلامی تعلیم کے مطابق، تربیت اولاد، گھریلو ماحول، میاں بیوی، ماں باپ، بچوں کے تعلقات کے متعلق سیکھنے کا موقع ملا اور امن کی تعلیم سے آگاہی ہوئی جس نے مجھے سوچ میں ڈال دیا۔
ویسے تو میرا تعلق عیسائیت سے ہے لیکن اس جلسہ پر میں نے آپ کی جماعت کے افراد کے ساتھ آپ کی عبادت میں حصہ لیا اور خدا سے اپنے خاندان اور قریبی لوگوں کے لیے دعائیں مانگیں۔
میں آپ کا دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں کہ مجھے اس ایمان افروز اور علم افزا ماحول کا حصہ بننے کا موقع دیا۔
٭…بلغاریہ سے آنے والی ایک عیسائی خاتون ڈاکٹر وَیرونِیکا ستَوئی لووا (Dr. Veronika Stoilova) جو وکیل اور یونیورسٹی لیکچرار ہیں،نے کہا: ایسا بہترین منظم جلسہ منعقد کیا گیا۔ جو چہرہ بھی میں نے دیکھا، کسی پر بھی گھبراہٹ یا غصہ نہیں پایا۔ تمام لوگ بہت مخلص اور ہر طرح ہر وقت مدد کرنے کو تیار نظر آتے۔ ہر شخص اپنی حالت پر شکر گذار تھا۔ بلاشبہ اس تقریب نے مجھے روحانی طور پر بحال کیا۔
تمام تنظیمیں، مرد، عورتیں، یہاں تک کہ بچے بھی بہت منظم تھے۔ مجھے ان دنوں جماعت احمدیہ کے متعلق بہت سی دلچسپ چیزیں سیکھنے کو ملیں مثلاً رواداری اور دوسروں کو باوجود اختلافات کے قبول کرنا۔میں بلا شبہ اس بات سے بہت متاثر ہوں کہ برلن کی مسجد عورتوں نے اپنے جمع شدہ پیسے اور زیورات بیچ کر بنائی۔ عورتوں کی طرف کا انتظام بھی مجھے بہت اچھا لگا۔ میں بہت سے دوسرے جلسوں میں جاتی ہوں مگر میں کہہ سکتی ہوں کہ یہ بات میں نے اور کہیں نہیں دیکھی۔ ایسی مثال بہت کم کوئی قائم کر سکے گا۔
خلیفہ کی تقاریر نے، روحانیت، انسانیت اور امن کے خیالات نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میرا ماننا ہے کہ ہم سب سے پہلے انسان ہیں پھر ملک کے شہری اور پھر مذہبی برادری کا حصہ ہیں۔ ہمیں اپنے درمیان مشترکہ چیزوں کو تلاش کرنا چاہیے نہ کہ اختلافات کو جو ہمیں الگ کریں۔
نائیجر، سائوٹومے، سینیگال، بورکینافاسو اور بینن سے آنے والے وفود کی ملاقات
اس کے بعد پروگرام کے مطابق افریقن ممالک نائیجر (NIGER)، سائو ٹومے (SAO TOME)، سینیگال (SENEGAL)، بورکینا فاسو (BURKINA FASO) اوربینن (BENIN) سے آنے والے وفود نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی سعادت حاصل کی۔
نائیجر سے چھ افراد، سائو ٹومے سے پانچ افراد، سینیگال سے ۱۳؍ افراد، بورکینا فاسو سے ۳۵؍ افراد اور بینن سے ۲۱؍ افراد پر مشتمل وفد جلسہ جرمنی میں شامل ہوا۔
حضور انور نے صدر صاحبہ لجنہ بینن کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ واپس جا کر اپنی لجنہ کو آرگنائز کریںاور اپنی تجنید ٹھیک کریں۔ اس پر موصوفہ نے عرض کیا کہ ان شاءاللہ کروں گی۔
حضور انور نے فرمایا: صدر صاحب انصار اللہ کو بھی کہیں کہ وہ بھی اپنی تجنید ٹھیک کریں۔ احمدیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو تجنید میں ظاہر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر کابورے صاحب نے عرض کیا کہ وہ احمدیہ ہسپتال بورکینا فاسو کے انچارج ہیں اور پہلی بار جلسہ پر آئے ہیں۔
ڈاکٹر عبد الناصر صاحب نے عرض کیا کہ وہ آنکھوں کے علاج میں سپیشلائزیشن کریں گے۔
سابق صدر صاحب خدام الاحمدیہ بورکینا فاسو نے بتایا کہ وہ ایک NGO میں پراجیکٹ مینیجر ہیں اور خدام الاحمدیہ میں نائب صدر بھی ہیں۔ جرمنی جلسہ پر پہلی دفعہ آیا ہوں۔جلسہ یوکے میں دو دفعہ آچکا ہوں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے امیر صاحب بینن سے دریافت فرمایا کہ آپ کو یہاں کا جلسہ زیادہ آرگنائزڈ لگا یا جلسہ سالانہ یوکے، تو اس پر امیر صاحب بینن نے عرض کیا کہ جلسہ سالانہ یوکے زیادہ آرگنائزڈ تھا۔ اس پر حضور انور نے فرمایا جرمنی جماعت کے لیے یہ آئی اوپننگ (eye opening) ہے۔
بعد ازاں افریقہ سے آئے ہوئے سب مبلغین نے باری باری اپنا تعارف کروایا۔
اس کے بعد سائو ٹومے سے آنے والے ایک مہمان جو ایڈووکیٹ ہیں او ر کونسل کے ہیڈ ہیں۔ انہوں نے بہت شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ جماعت سائو ٹومے بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ موصوف نے حضور کو دعوت دی کہ سائو ٹومے تشریف لائیں۔
حضور انور نے فرمایا: میں سائو ٹومے کی رپورٹس دیکھتا ہوں وہاں کی تصویریں بھی دیکھی ہیں۔بہت اچھا کا م ہورہا ہے۔ اور حکومت بھی تعاون کر رہی ہے۔
حضور انور نے فرمایا: بینن میں سکولوں کے انچارج مربی صاحبان ہیں۔ وہاں تبلیغ کرنے والا کوئی نہیں۔ حضور انور نے ملاقات کے آخر پر تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹے بچوں کا چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
جارجیا سے آنے والے وفد کی ملاقات
بعد ازاں پروگرام کے مطابق ملک جارجیا (GEORGIA) سے آنے والے وفد کے ممبران نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شرف پایا۔
جارجیا سے ۳۴؍ افراد پر مشتمل وفد جلسہ میں شامل ہوا تھا۔
ایک خاتون عائشہ نے عرض کیا کہ وہ ماسٹرز کر رہی ہیں۔ جلسہ کے تمام انتظامات بہت اچھے تھے۔ یہاں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: اب واپس جا کر اپنے لوگوں کو تعلیم دیں ان کو بتائیں۔
ایک خاتون نے عرض کیا۔ یہاں کے انتظامات میں دیکھا ہے آپ کی لجنہ بہت اچھی آرگنائزر اور ٹرینڈ ہیں۔
ایک مہمان نے عرض کیا کہ وہ پولیٹیکل پارٹی کے ممبر ہیں۔ ہیومینٹی فرسٹ جارجیا میں رجسٹرڈ ہے اور بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ جلسہ کا تمام انتظام بہت اچھا تھا۔ ہرایک خدمت میں مصروف تھا۔ ہر ایک نے کامیابی کے لیے کام کیا۔ اپنا حصہ ڈالا اور جلسہ کے پروگرام کو کامیاب کیا۔
ایک مہمان نے عرض کیا کہ حضور کا جارجیا آنے کا کوئی پروگرام ہے تو اس پر حضور انور نے عرض کیا کہ اب آپ نے دعوت دی ہے تو کوئی پلان بنائوں گا۔
ایک مہمان نے عرض کیا کہ جارجیا میں جماعت کے ممبران اور آفیشل کا کسی سیاسی پارٹی پر کوئی اثر نہیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ وہاں ہم محدود تعداد میں ہیں کسی کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہے۔ جہاں تک مقامی احمدیوں کا تعلق ہے وہ بحیثیت شہری کسی بھی پارٹی میں شامل ہو سکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں حضورانور نے فرمایا کہ جارجیا میں ہمارے مبلغ موجود ہیں۔ اگر آپ کو کوئی مدد کی ضرورت ہے تو وہ کردیں گے۔
ایک مہمان نے عرض کیا کہ وہ ڈاکٹر ہیں اور ICU میں ان کی ڈیوٹی ہے۔ جلسہ سالانہ اپنے انتظامات کے لحاظ سے بہت اعلیٰ تھا۔ میں دوسری مرتبہ آیا ہوں۔ جلسہ پہلے سے بہتر تھا۔
٭…ایک Georgian خاتون مہمان نے کہا: میں نے آج خلیفہ کے دونوں خطاب سنے اور دونوں خطاب بہت عمدہ تھے اور بہت گہری حکمتوں سے پر تھے۔ خلیفہ کے خطاب سے مجھے آج یہ بات سمجھ آئی ہے کہ حقیقی integration کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے مذہب، قوم اور انسانیت کی خدمت کرے۔ مجھے لگتا ہے کہ خلیفہ بہت گہری سوچ رکھنے والے اور ہر ایک کو سچے دل سے خوش آمدید کہنے والی شخصیت ہیں۔مجھے خلیفہ کی تلاوت بہت پسند آئی ہے کیونکہ اس میں بہت نرمی اور سکون ہے مگر ساتھ ہی آپ کی تلاوت میں ایک عجیب طاقت بھی ہے۔میں نے ایسی تلاوت پہلے کبھی نہیں سنی۔مجھے جلسہ سالانہ کا ماحول بہت پسند آیا ہے کیونکہ یہاں ہر قسم کی قوم و نسل اور ہر مذہب کے لوگ بڑی محبت اور اتفاق کے ساتھ پر امن اکٹھے ہوئے ہیں جو کہ مجھے اپنے ملک میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ خلیفہ کے لجنہ سے خطاب میں مجھے پہلی دفعہ اسلام کی عورتوں کے مقام کے بارہ میں تعلیم میں اتنی وسعت کا پتا چلا ہے کہ ایسی مسلمان عورتیں بھی گزری ہیں جنہوں نے جنگوں میں بھی بڑے اہم کردار ادا کیے۔یہ میرے لیے بڑی حیران کن بات تھی۔
٭…جارجیا سے ایک دوست Mr. Yashar Askarovi صاحب جنہوں نے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ڈگر ی کی ہوئی ہے جلسہ میں دوسری مرتبہ شامل ہوئے۔ وہ کہتے ہیں: میں ۲۰۱۹ء میں جلسہ سالانہ جرمنی میں پہلی مرتبہ شامل ہوا تھا۔ جلسہ کے بعد میں نے اپنی زندگی اسلام کے مطابق بسر کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ اسلام کے بارہ مزید مطالعہ کرکے اسلامی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے سے مجھ میں مثبت تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہوئیں۔
اس دفعہ میرا بھائی پہلی مرتبہ میرے ساتھ آیا ہے اور اسے بھی جلسہ نے حیران کردیا ہے کہ اس طرح کا امن اور بھائی چارہ کا انتظام دنیا میں کم ہی جماعتوں میں دیکھا جاتا ہے۔
ہمیں Quran exhibition اور جماعت احمدیہ جرمنی کی صد سالہ exhibition نے یہ بھی دکھایا کہ یہ جماعت کس طرح ترقی کرتی چلی جارہی ہے۔اسی طرح مجھے بہت پسند آیا کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے جلسہ کے دوسرے دن اعتراضات کے جوابات قرآن کی رو سے دیا اور اس طرح ان اعتراضات کا تسلی بخش جواب بھی سننے کو ملا۔
٭…جارجیا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون Miss Lia Dekanadze صاحبہ کہتی ہیں:میں Holland میں اس وقت Theology & Religious studies کا Masterکر رہی ہوں۔ میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ کے تمام خطابات کی بہت قدر کرتی ہوں، خاص طور پر جب آپ خواتین سے مخاطب ہوئے تھے۔ یہ ہمارے لیے اور ہر ایک انسان کے لیے بہت ضروری لائحہ عمل ہے۔
مجھے جلسہ پر بار بار دیکھنے کو ملا کہ کس طرح چھوٹے اور بڑے ایک خاص جانفشانی سے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ عالمی بیعت کو دیکھ کر جذبات کو control میں نہیں لایا جارہا تھا۔ یہ جلسہ کے آخری دن میں ایک وعدہ سب سے لیا جارہا ہے کہ ہم اسلام کے مطابق ائندہ بھی اپنی زندگی سنواریں گے۔
میرے ذہن میں ایک اہم بات نقش کر گئی ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے قلمی جہاد کا تصور ہمارے سامنے رکھا جس کی میں۱۰۰ فیصد تصدیق کرتی ہوں۔ مجھے بہت پسند آیا کہ عورتوں کو بھی اسلام تلقین کرتا ہے کہ وہ اسلام کی تعلیم کو پھیلائیں۔ میرا پختہ ایمان ہے کہ مستقبل میں دنیا اسلام کے بارہ غور و فکر کرے گی اور اسی کے ذریعہ لوگ اپنے خدا کو پہچاننے والے بنیں گے۔
٭…جارجیا سے ایک جرنلسٹ Miss Tika Bujiashvili صاحبہ بیان کرتی ہیں: جارجیا میں میرا آپ کی جماعت کے ساتھ کافی سالوں سے ایک بہت اچھا اور دوستانہ تعلق ہے۔ مجھے جارجیا میں مختلف پروگراموں میں شامل ہونے کا موقع بھی ملاہے۔ میں دوسری دفعہ جلسہ پر آئی ہوں۔ مجھے جلسہ سالانہ پر جماعت احمدیہ کا گہرائی میں جا کر تعارف حاصل ہوا ہے۔ میں ضرور کہوں گی کہ آپ کی جماعت ایک خاص جماعت ہے۔ آپ کی بے لوث انسانیت کی خدمت، پیارو محبت کی فضا قائم کرنا اور خاص طور پر یہ محسوس ہوا کہ عیسائی ہونے کے باوجود میں آپ کی جماعت کو اپنی جماعت سمجھتی ہوں۔
سارا سال میں آپ کی جماعت سے تعلق رکھنے والے مضامین کا مطالعہ بھی کرتی ہوں اور MTA بھی دیکھتی ہوں۔ آپ کی جماعت کو جاننے سے قبل میں مسلمانوں سے تعلق نہیں رکھتی تھی اور اسلام کے بارہ کچھ نہیں جانتی تھی۔ یہ آپ کا جلسہ ہی ہے جس نے میرے اندر ایسی تبدیلی لائی کہ میں جلسہ کے بعد اسلام کے بارہ میں مسلمانوں کے ساتھ گفتگو کرنا پسند کرنے لگ گئی ہوں۔ ویسے تو میں عیسائی ہوں مگر اپنے آپ کو مسلمان بھی سمجھتی ہوں کیونکہ آپ جو تعلیم پیش کرتے ہیں وہ امن اور صلح اور بھائی چارہ کی ہے جس کی دنیا کو بہت ضرور ت ہے۔
٭…جارجیا سے ایک سنی سکالر Mr. Veisel Orujovi جلسہ میں شامل ہوئے۔ وہ کہتے ہیں: میں جارجیا میں رہتا ہوں اور ۱۵؍ سال کی عمر میں میں نے عیسائت چھوڑ کر اسلام قبول کیا۔اس کے بعد تقریباً ۱۵؍ سال میں نے مدینہ منورہ میں گزارے۔ اسلام کا علم اور عربی زبان میں نے مدینہ میں سیکھی۔ میری پڑھائی کے دوران مجھے آپ کی جماعت کے بارہ میں منفی باتیں سننے کو ملی تھی کہ احمدی ہمیں کافر کہتے ہیں اور احمدیوں کا عقیدہ ہی مختلف ہے۔ جارجیا میں میں آپ کی جماعت کے مشنری سے ملا ہوں اور جماعت احمدیہ کا تعارف بھی ملا ہے۔ آ پ نے مختلف دیہات میں قربانی کا گوشت عید الاضحی کے موقع پر تقسیم کیا اور ہمارے ساتھ رابطہ بھی رہتا رہا ہے۔
موصوف نے جلسہ پر آنے سے پہلے جامعۃ الازہر سے جماعت کے بارے میں فتوے دیکھے اور تمام امت اسلامیہ کے جماعت احمدیہ کے بارے میں خیالات کو پڑھا۔انہوں نے تمام فتاویٰ دیکھ کر یہی فیصلہ کیا کہ میں جماعت احمدیہ کو نزدیک سے دیکھنا چاہتا ہوں۔پھر جلسہ میں آکر جماعت کو قریب سے دیکھ کر کہنے لگے کہ جماعت احمدیہ یقیناً اسلام کا حصہ ہے۔
مزید کہتے ہیں:میں نے آپ کے خلیفہ کے خطابات غور سے سنے ہیں اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آپ لوگوں کو کافر کہنا بالکل غلط ہے۔ آپ بھی دوسرے فرقوں کی طرح اسلام کا ایک فرقہ ہیں۔میں آپ کے خلیفہ کو مجدد سمجھتا ہوں اور آپ کے خلیفہ کی بہت قدر کرتا ہوں۔ میرے ذہن میں کئی سوالات تھے جو جلسہ کے تین دنوں میں مختلف نشستوں میں حل ہوئے۔ آپ کی جماعت اور آپ کے بانی کے بارہ میں تفصیل سے بات کرنے کا موقع ملا ہے۔ واپس جارجیا جا کر آپ کی جماعت کی مختلف کتب کا مطالعہ شروع کرونگا۔ مجھے آپ سب سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے۔
گیمبیا اور یوگنڈا سے آنے والے وفود کی ملاقات
اس کے بعد پروگرام کے مطابق گیمبیا (GAMBIA) اور یوگنڈا (UGANDA) سے آنے والے وفود نے حضور انور ایدہ اللہ سے ملاقات کی سعادت پائی۔
گیمبیا سے ۵۸؍ افراد اور یوگنڈا سے ۱۳؍ افراد جلسہ میں شامل ہوئے تھے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے سب احباب سے باری باری تعارف حاصل کیا۔ مبلغین کی فیملیز بھی موجود تھیں۔ حضور انور نے ازراہ شفقت فیملیز سے بھی گفتگو فرمائی۔
گیمبیا سے ایک دوست محمد لامین صاحب آئے تھے۔ موصوف بہت غریب آدمی ہیں اور مسرور سینئر احمدیہ سیکنڈری سکول میں کیئر ٹیکر (CARE TAKER) کے طور پر کام کرتے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ پندرہ سال سے میں اپنا کھانا کم کر کے رقم بچاتا رہا ہوں محض اس لیے کہ ٹکٹ خرید کر یوکےجا سکوں اور اپنے آقا کا دیدار کر سکوں۔ آج خدا تعالیٰ نے مجھے پیارے آقا کا دیدار کروا دیا ہے میں بہت خوش ہوں۔ میں سب سے پہلے حضور انور کے لیے دعا کرتا ہوں۔ پھر اپنے لیے اور اس کے بعد رشتہ داروں کے لیے۔ بعد ازاں حضور انور نے صدر صاحبہ لجنہ گیمبیا سے فرمایا کہ اپنی تجنید مکمل کرو۔ آپ کی تجنید تسلی بخش نہیں ہے۔
یوگنڈا اور گیمبیا کے وفد کی حضور انور سے یہ ملاقات سات بج کر بارہ منٹ پر ختم ہوئی۔
لٹویا اور لتھوانیا سے آنے والے وفود کی ملاقات
بعد ازاں ملک لٹویا (LATVIA) اور لتھوانیا (LITHUANIA) سے آنے والے وفود نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے شرف ملاقات پایا۔
لتھوانیا سے تیرہ اور لاٹویا سے چھ افراد پر مشتمل وفد جلسہ جرمنی میں شامل ہوا۔
ایک خاتون MRS. LIUDMILA BYKOVYSKAYA نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں عرض کیا کہ جلسہ کے دوران ہم نے نمائش کا وزٹ کیا جہاں ہمیں معلوم ہوا کہ یسوع مسیح ہندوستان میں مدفون ہیں اب ہم نے یہ عزم کیا ہے کہ ہم وہاں جائیں اور یسوع مسیح کی قبر کی زیارت کریں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ پہلے کتاب ’مسیح ہندوستان میں‘ پڑھیں۔ اس کا رشین ترجمہ موجود ہے۔ وہاں کے مبلغ آپ کو یہ کتاب مہیا کر دیں گے۔
ایک مہمان نے سوال کیا کہ حضور انور نے فرمایا تھا کہ سب انسان برابر ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے۔اس پر حضور انور نے فرمایا: برابر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسانیت کے لحاظ سے آپ برابر ہیں۔ ورنہ کوئی بہت زیادہ پڑھا لکھا ہے کوئی کم پڑھا لکھا ہے اور کوئی ان پڑھ ہے تو یہ برابر نہیں ہوسکتے۔ حضور انور نے فرمایا تما م مذاہب خدا کی طرف سے آئے۔ سب مذاہب سچے ہیں۔ آنحضرتﷺ آخری نبی ہیں۔ قرآن کریم آخری کتاب ہے جو اپنی اصلی حالت میں ہے۔ اور اب اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو ہر لحاظ سے کامل ہے۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ وہ گذشتہ چار ماہ سے مسلمان ہیں۔ اسلام میں ۷۲؍ فرقے ہوجائیں گے اور پھر ایک فرقہ ایسا ہوگا جو جنت میں جائے گا اس سے کیا مراد ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا: آنحضرتﷺ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں مسیح و مہدی آئے گا جو مذہب کا احیائے نو کرے گا۔ اسلام کی حقیقی اور اصلی تعلیم سے روشناس کروائے گا۔ جو اس تعلیم پر عمل کرے گا تو وہ جنت میں جائے گا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ آنے والا مسیح ومہدی میرا نائب ہوگا جو کہ اسلام کو زندہ کرے گا۔ تم اس کو قبول کرنا اور اس پرایمان لانا۔
حضور انور نے فرمایا: باقی خدا تعالیٰ کسی کو بھی جنت میں بھجوا سکتا ہے۔ہم کچھ نہیں کہہ سکتے نہ کوئی فتویٰ لگا سکتے ہیں۔ مسیح و مہدی کو صرف قبول کر لینا کافی نہیں بلکہ جو تعلیمات آپؑ نے بیان فرمائی ہیں اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ پس اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے کی صورت میں ہی خدا تعالیٰ جنت کا وعدہ دیتا ہے۔
ایک مہمان MR. JARONIMAS جو کہ مصنف اور رائٹر ہیں نے عرض کیا کہ مجھے حضور انور کی باتیں بہت پسند آئی ہیں میرا ایک رسالہ بھی جس میں، میں نے حضور انور کی تصاویر بھی شائع کی ہیں۔
موصوف نے سوال کیا کہ ہر طرف بد امنی، بے چینی بڑھ رہی ہے اور معاشی حالات بہت خراب ہیں تو ہم کس طرح اسکا مقابلہ کر یں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا جب انسان خدا کو بھول جاتا ہے تو اس کو فکر نہیں رہتی کہ انجام کا ر کیا ہونا ہے۔ خدا سے کوئی تعلق نہیں کوئی خوف نہیں۔ اگر انسان کو یہ خوف ہو کہ خدا تعالیٰ مجھ سے پوچھے گا تو پھر جب تک خدا تعالیٰ کو نہیں پہچانتے۔ اس کی عبادت کا حق ادا نہیں کرتے اور اُس کے بندوں کے حقوق کی طرف توجہ نہیں دیتے تو یہ فتنہ وفساد قائم رہے گا۔ محض خالی اسلام کو قبول کر لینا کافی نہیں بلکہ قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے۔
٭…لتھوانیا کی یونیورسٹی کی ایک عربی کی پروفیسرMrs Gintare Serekaite بھی جلسہ میں شامل ہوئیں۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ کا لتھوانین زبان میں ترجمہ بھی کیاہے۔ وہ بیان کرتی ہیں: اسلامی دنیا میں جماعت احمدیہ کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جماعت احمدیہ جس طرح غیر ازجماعت اور غیر مسلموں کےساتھ رابطہ رکھتی ہے کوئی اور جماعت ایسا نہیں کرتی۔ ایک ریسرچر ہونے کی حیثیت سے مجھے اسلامی کلچر اور اسلامی روایات میں کافی دلچسپی ہے لیکن لتھوانیا میں جماعت احمدیہ کے علاوہ کسی بھی اسلامی جماعت کے ساتھ ملنا اور رابطہ رکھنا بہت مشکل ہے۔ اور جلسہ سالانہ نے مجھے شاندار موقع دیا کہ میں جماعت احمدیہ کو ہرلحاظ سے پرکھ سکوں۔ یقیناً جماعت احمدیہ اپنے ماٹو ’محبت سب کےلیے، نفرت کسی سے نہیں‘ پر حقیقی رنگ میں عمل پیراہے۔ ۴۷ ہزار اجنبیوں میں مجھے ذرا بھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوا اور میں نے اپنے آپ کو بہت محفوظ سمجھا۔
٭… لتھوانیا سے ہی ایک دوست Mr Giedrius Motiejunas صاحب بھی جلسہ میں شامل ہوئے۔ وہ اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہتے ہیں:یہ میرا پہلا جلسہ سالانہ تھا لیکن اس جلسہ میں شمولیت کا تجربہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا۔ میں گرمجوشی کے ساتھ استقبال کرنے والی اس جماعت سے بہت محظوظ ہواہوں۔ جلسہ کے خطابات اور لوگوں سے مل کر میں نے اسلام کے متعلق بہت کچھ نیا سیکھاہے۔ اس جلسہ کی سب سے دلچسپ چیز خلیفہ وقت کی تقاریر تھیں۔ ان تقاریر کو سن کر میں نے اپنی زندگی کی اقدار اور مقاصدکو ازسرِ تشکیل دیا۔ جلسہ سالانہ روحانیت سے بھرپور تجربہ تھا۔
٭… لتھوانیا سے ایک مصنف اور جرنلسٹ Jeronimas Laucius کہتے ہیں:میں دنیا میں موجود بد امنی اوربے انتہا غربت سے بہت پریشان ہوں۔ ہمیشہ سوچتا ہوں ایسے حالات میں ایک عام آدمی کیا کرسکتاہے۔ لیکن جب یہی سوال میں نے خلیفۃ المسیح سے پوچھا تو مجھے نہایت ہی مطمئن جواب ملا کہ انسان کا مقصد تو وہی ہے جو قرآن کریم میں بیان ہواہے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرناہے۔ لوگوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ موت کے بعد بھی ایک زندگی ہے۔ اگر لوگ اس طرف توجہ نہیں دیں گے تو دنیا میں ہمیشہ بد امنی رہے گی۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ خلیفہ وقت کی توجہ پہلے سے ہی اس مسئلہ کی طرف ہے اور وہ لوگوں کو اپنے خطابات اور خطبات میں دنیا کے مسائل کا حل بھی بتارہے ہیں۔
٭… محترمہ تاتسیلنا محمد صاحبہ جن کا تعلق بیلاروس سے ہے اور تیرہ سال سے ہمارے احمدی بھائی مکرم محمد انور صاحب آف ڈارم شٹڈ (Darmstadt) جرمنی کی اہلیہ اور ان کی دو بیٹیوں کی والدہ ہیں، اب تک اپنے آبائی مذہب عیسائیت پر ایمان رکھتی ہیں، پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ کے دوسرے روز جلسہ میں شریک ہوئیں، اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے تحریر کرتی ہیں کہ میں دوسرے دن جلسہ سالانہ میں شریک ہوئی۔ رشین وفد کو ڈھونڈنے میں مجھے کچھ وقت لگا۔ انتظامیہ اور طوعی خدمت کرنے والیوں نے بہت مدد کی۔ اس کے علاوہ جو بات مجھے قابل ذکر لگی وہ ان لوگوں کی تعدا د تھی جو ہر جگہ خدمت میں لگے ہوئے تھے۔ ہر کام کے لیے کافی طوعی خدمت کرنے والے موجود تھے اور لوگوں کو پانی پلانے کی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے۔ میری نظر میں وہ بچے یہ کام مجبور ہو کر نہیں کر رہے تھے بلکہ پوری دلی خوشی سے یہ کام کر رہے تھے۔ یہی نہیں۔ بلکہ میں نے اور میری دونوں بیٹیوں نے حضور کا بہت نزدیک سے دیدار کیا۔ اتنا قریب سے کہ میں سمجھتی ہوں اگر عیسائیوں کا پوپ ہوتا تو ہم بغیر کسی پابندی کے اتنا قریب نہ آسکتے۔ اگلے سال ہم جلسے پر زیادہ وقت گزارنے کی کوشش کریں گے۔ کھانے پر بھی انتظامات بہت اچھے تھے اور کوئی افراتفری نہیں تھی۔ پارکنگ کے لحاظ سے بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ جگہ بہت وسیع تھی۔
بنگلہ دیش سے آنے والے وفد کی ملاقات
بعد ازاں بنگلہ دیش سے آنے والے وفد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کی سعادت پائی۔
بنگلہ دیش سے پانچ ممبران پر مشتمل جماعتی وفد آیا تھا۔ سبھی ممبران نے باری باری اپنا تعارف کروایا۔ ان ممبران نے بتایا کہ جلسہ سالانہ بہت اچھا گزرا۔سبھی نے حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی۔اس وفد میں صدر لجنہ ڈھاکہ بھی شامل تھیں موصوفہ نے بھی حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی ہے۔ حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
بنگلہ دیش وفد کی حضور انور کے ساتھ یہ ملاقات سات بج کر چالیس منٹ پر ختم ہوئی۔
الجزائر اور فلسطین سے آنے والے وفود کی ملاقات
اس کے بعد پروگرام کے مطابق الجزائر اور فلسطین سے آنے والے وفود نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرف ملاقات پایا۔
ملک الجزائر (ALGERIA) سے سات مرد و خواتین پر مشتمل وفد آیا تھا۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ مجھ پر تین مقدمات قائم ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ وہ لوگ جرمانہ کرتے ہیں۔ جرمانے دیتے رہیں کوئی فرق نہیں پڑتا اور آزادی سے رہیں۔ مطلب ہے کہ جیل میں نہ ہوں اپنے گھروں میں ہوں اور اپنی فیملی کے پاس ہوں۔
حضور انور نے فرمایا کہ الجزائر کے احباب کے لیے یہ مشکل کا وقت ہے۔اس کا ثواب بھی ہے۔ ان شاء اللہ خدا تعالیٰ حالات بہتر کرے گا۔
کردستان کے صدر جماعت احسان امین صاحب بھی جلسہ جرمنی پر آئے ہوئے تھےوہ بھی اس مجلس میں موجود تھے۔ موصوف نے عرض کیا کہ وہ پہلی دفعہ جلسہ پر آئے ہیں۔ جلسہ بہت اچھا تھا۔ انتظامی لحاظ سے بہت اچھا تھا۔ بڑا پُر امن اور پُر سکون تھا۔ کھانے پینے، رہائش کے سارے انتظامات بہت اچھے تھے۔
فلسطین سے آنے والے ایک دوست نے عرض کیا۔جلسہ کا بہت روحانی ماحول تھا۔ بہت لطف اٹھایا۔ فلسطین میں ہمارے سینٹر دارالامن کی تیسری منزل بنانے کی حضور انور نے اجازت عطا فرمائی ہے۔ ہم حضور کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہم اپنے پروگراموں کے لیے اس میں جمع ہوتے ہیں۔ صدر جماعت عبد القادر صاحب نے فہرست بھجوائی ہے احباب حضور انور کی خدمت میں سلام کہتے ہیں اور دعا کی درخواست کرتے ہیں۔ حضور انور نے فرمایا: خدا سب پر فضل کرے۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ خدا کرے چار سال قبل والا خواب پورا ہوجائے کہ حضور انور ہمارے مرکز دارالامن میں آئے ہیں۔حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
موصوف نے عرض کیا کہ تین سال سے شادی ہوئی ہے دعا کریں کہ بچے ہوں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: اللہ فضل کرے بچے بھی ہوجائیں گے۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ دس سال قبل ۲۰۱۳ء میں احمدی ہوا ہوں اس وقت سٹراس برگ(فرانس) کی یونیورسٹی میں ماسٹر کر رہا ہوں۔
صدر لجنہ الجزائر نے عرض کیا کہ وہ جلسہ پر آکر بہت خوش ہیں۔ ساری لجنہ الجزائر حضور انور کی خدمت میں سلام عرض کرتی ہیں۔ موصوفہ نے عرض کیا، کیا ہم لجنہ ممبرات بورکینا فاسو جا سکتی ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ بور کینا فاسو کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ وہاں ان علاقوں میں پہنچنا مشکل ہے۔ ابھی نہیں جا نا چاہیے۔ اب تو افریقہ کے ممالک میں بھی صورتحال خراب ہورہی ہے۔
صدر لجنہ نے عرض کیا کہ ہم نے حضور انور کی اقتدا میں نمازیں پڑھیں اور بہت فائدہ اٹھایا۔
ایک خاتون نے عرض کیا کہ الجیریا میں فزکس میں پی ایچ ڈی کر رہی ہوں۔ بعد میں کیا کروں۔ ریسرچ میں جائوں، یا لیکچر شپ کے لیے اپلائی کروں یا یورپ میں کسی جگہ اپلائی کروں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: پہلے اپنی تعلیم مکمل کرو پھر اس کے بعد بتائو۔
ایک خاتون نے عرض کیا کہ کیا ہم جلسہ کی تصاویر شیئر کر سکتے ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: جلسہ کی اپنی تصاویر شیئر نہ کرو،مردانہ حصہ کی ٹھیک ہیں۔عورتوں کی ٹھیک نہیں ہیں۔
ایک خاتون نے عرض کیا کہ وہ سیکنڈری سکول میں فرنچ ٹیچر ہیں اور دعا کی درخواست کی۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
الجزائر اور فلسطین کے وفد کی حضور انور کے ساتھ یہ ملاقات آٹھ بج کر پانچ منٹ تک جاری رہی۔
پولینڈ سے آنے والے وفد کی ملاقات
بعد ازاں پروگرام کے مطابق پولینڈ (POLAND) سے آنےوالے وفد کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات شروع ہوئی۔
امسال پولینڈ سے ۲۴؍ افراد کا وفد جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوا تھا۔ جس میں تاجک افراد بھی شامل تھے جو کئی سالوں سے پولینڈ میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ لوکل پولش احمدی، ایک سیرین دوست اور نو پاکستانی احمدی احباب شامل تھے۔
ایک خاتون نے عرض کیا کہ جلسہ کا انتظام اور پروگرام بہت اچھے تھے۔ ہر طرح سے ہمارا خیال رکھا گیا۔ہمیں ہر طرح سے سہولت تھی۔
حضور انور نے فرمایا کہ خدا کی خاطر قربانی کرنا بڑا جہاد ہے۔
ایک تاجک دوست نے عرض کیا کہ وہ تاجکستان سے آکر پولینڈ میں مقیم ہیں۔ ہم جماعت کی دعوت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہم یہاں آئے۔جلسے کا انتظام بہت عمدہ تھا۔ ہم اپنے ساتھ یہاں کی بہت اچھی یادیں لے کر جا رہے ہیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اللہ سب پر فضل فرمائے۔
پولینڈ کے وفد کی حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ ملاقات آٹھ بج کر اٹھارہ منٹ تک جاری رہی۔
٭… ایک لوکل پولش احمدی خاتون Katarzyna Chojnowska صاحبہ کہتی ہیں:تین سال پہلے ایک خواب میں دیکھا کہ میں ایک ملاقات میں ہوں اور حضورانور سے کچھ سوال کرنا چاہتی ہوں لیکن مجھے سوال کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔ اس پر میں بہت پریشان ہوئی۔ اور میرا سوال بھی بہت ضروری تھا۔لیکن اس مرتبہ جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوئی اور ملاقات کا شرف ملا تو مجھے وہ سوال کرنے کا موقع بھی مل گیا اور ایک نہایت مطمئن کر دینے والا جواب بھی مل گیا۔اس کے بعد مجھے ایک عجیب سی سکینت حاصل ہوئی۔ میں بہت مشکور ہوں۔
٭… پولینڈ سے انگیلیکا ویرک لوکل احمدی بیان کرتی ہیں کہ ایک بہت ہی پیاری ملاقات تھی۔میں شروع سے ہی ایک خاص کیفیت میں تھی جس کو میں سمجھ نہیں پا سکی۔ہمت نہ کرسکی سوال کرنے کی لیکن اگلی دفعہ ضرور ہمت کروں گی کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو دعا کی درخواست کرسکوں۔ وہ ساری پولش جماعت کے لیے دعا کی درخواست کرتی ہیں۔ خاص طور پر اپنی بیٹی کے لیے جو پہلی پولش واقفہ نو ہے۔ آخر میں موصوفہ نے کہا کہ وہ حضور انور کے لیے بہت دعا کرتی ہیں۔
سُرینام سے آنے والے وفد کی ملاقات
اس کے بعد ملک سُرینام (SURINAME) سے آنےو الے جماعتی وفد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی سعادت پائی۔
سُرینام سے چھ احباب پر مشتمل وفد آیا تھا۔ حضور انور نے وفد کے ممبران کو تبلیغ کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا: پیغامیوں کو احمدی بنانا آسان ہے۔ پہلے پیغامیوں کو احمدی بنائیں اور پھر عیسائیوں کو احمدی بنائیں۔ پیغامیوں کے پاس تو کچھ نہیں ہے۔ ان کو تبلیغ کرو اور احمدی بنا لو۔ اپنے اعلیٰ نمونے قائم کرو آپ لوگوں کے نمونے دیکھ کر آئیں گے۔
حضور انور کے استفسار پر مبلغ سلسلہ نے عرض کیا کہ سارے ملک کی آبادی پانچ لاکھ ہے جس میں سے تین لاکھ تو دارالحکومت کی ہے۔باقی دو لاکھ سارے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: تبلیغ کے لیے کریش پروگرام بناؤ اللہ تعالیٰ فضل کرے۔
سُرینام وفد کے ساتھ یہ ملاقات آٹھ بج کر ۲۵ منٹ تک جاری رہی۔
انڈونیشیاسے آنے والے وفد کی ملاقات
بعد ازاں انڈونیشیا سے آنے والے پانچ افراد پر مشتمل جماعت وفد نے ملاقات کی سعادت پائی۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ وہ سابق سیکرٹری رشطہ ناطہ اور وقف نو ہیں اور ان کا بیٹا بھی ساتھ ہے جو کہ یورالوجسٹ ہے اور ڈاکٹر ہے۔حضور انور کے استفسار پر ڈاکٹر نے بتایا کہ ابھی شادی نہیں ہوئی جس پر حضور انور نے فرمایا کہ شادی کرو۔
وفد کے ایک ممبر نے بتایا کہ وہ لائف انشورنس میں کام کرتے ہیں۔ اپنی جماعت میں سیکرٹری خدمت خلق اور سیکرٹری تعلیم القرآن ہیں۔ حضور انور کے استفسار پر وفد نے بتایا کہ وہ ہالینڈ کا ویزا لے کر آئے ہیں۔ سہولت کے ساتھ مل جاتا ہے۔ آخر پر وفد کے ممبران نے دعا کی درخواست کی۔جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل کرے۔
یہ ملاقات آٹھ بج کر تیس منٹ پر ختم ہوئی۔بعد ازاں حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
نوبجے حضور انور نے تشریف لاکر نماز مغر ب و عشاء جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔