تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (قسط ۳۹): گوشت خوری (مصنفہ حضرت منشی برکت علی صاحب رضی اللہ عنہ )
اندازاً ۱۹۰۱ء میں حضرت اقد س مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت کرکے آپؑ کی غلامی میں آنے والے حضرت منشی برکت علی صاحبؓ کے والد آپ کے بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ برکت علی صاحب ؓ آٹھ سال کی عمر میں ایک دیہاتی سکول میں داخل ہوئے۔ ذہین اتنے تھے کہ پانچویں کلاس میں ضلع بھر میں اوّل آئے۔ سلسلہ تعلیم کے بعد ملازمت میں آگئے۔ حضرت منشی صاحبؓ جب دوران ملازمت شملہ میں قیام پذیر تھے تو ۱۹۰۰ء کے لگ بھگ آپ کے کانوں میں احمدیت کی باتیں پڑیں۔ آپؓ کی رہائش ایک ہوسٹل نما مکان میں تھی جس کے ایک کمرے میں دو تین احمدی بھی رہائش رکھتے تھے۔ اخراجات کی کفایت کی خاطر خرچ مشترک تھا۔ حضرت منشی صاحبؓ کے بقول ’’ایک احمدی احمدیت کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا‘‘ کے مصداق اس موقعہ پر احمدیت کا ذکر بھی چھڑ جاتا۔ آپ کو مطالعہ کا شوق تھا چنانچہ احمدیت کے متعلق بھی کتابیں پڑھنے کا آپ کو موقعہ میسر آیا۔ مخالفین کے اشتہارات میں دی گئی حضرت مسیح موعودؑ کی عبارات کا جب آپ نے اصل کتب سے موازنہ کیا تو حقیقت آشکار ہوگئی اور آپ کو حضرت اقدسؑ سے ایسی عقیدت پیدا ہوگئی کہ چار آنے ماہوار چندہ دینا بھی شروع کردیا۔ کچھ عرصہ بعد آپ کو خیال آیا کہ اگر یہ سلسلہ سچا ہے تو وہ قلیل رقم جو آپ نے جماعت کو دی ہے اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق اس دنیا میں بھی آپ کو بڑھا چڑھا کر لوٹائے گا۔ لیکن آپ حیران تھے کہ ایسا کیونکر ہوگا؟ ۱۹۰۱ء میں مردم شماری کے زمانہ میں آپ کو اپنے محکمہ کی جانب سے حفظانِ صحت کے بارے میں کچھ اعداد و شمار اکٹھے کرنے کا کام سونپا گیا اور آپ کے افسر نے آپ کی محنت اور سلیقہ شعاری سے متاثر ہوکر آپ کو ڈیڑھ صد روپے بطور انعام عطا کیے۔
اس ایمان افروز واقعہ کے کچھ عرصہ بعد آپ نے خواب میں حضرت مسیح موعودؑ سے شرفِ ملاقات حاصل کیا۔ حضورؑ نے پوچھا ’’برکت علی تم ہماری طرف کب آؤ گے؟‘‘ آپ نے عرض کی ’’اب آ ہی جاؤں گا‘‘۔ اس کے بعد ۱۹۰۱ء میں ہی آپ کو بیعت کی سعادت بھی حاصل ہوگئی۔
اللہ تعالیٰ نے قلمی اور علمی لحاظ سے بھی حضرت خانصاحبؓ کو خدمت سلسلہ کی توفیق عطا فرمائی اور آپؓ نے بعض مبسوط مضامین شائع کرواکے مفت تقسیم فرمائے۔
۱۹۱۰ء بمطابق ۱۳۲۸ ہجری میں محمد عبدالقادر تائب کے آرمی پریس شملہ میں محمدمنظور علی صاحب مینیجر کے زیر اہتمام شائع ہونے والے اس رسالہ کے پچاس سے زائد صفحات ہیں اوراس کے شروع میں ایک قلمی نوٹ درج ہے کہ ’’یہ رسالہ سیکرٹری انجمن احمدیہ شملہ سے درخواست کرنے پر بقیمت ۳ آنہ فی کاپی مل سکتا ہے۔‘‘
حضرت منشی برکت علی صاحبؓ کی تقریر اول جوحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی حین حیات میں یعنی ۸؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء میں پڑھی گئی، ۱۶؍ صفحات پر ممتد ہے۔ جس میں بعد تشہد و تعوذ قرآن کریم سے گوشت خوری کے متعلق فطری تعلیم کو آسان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے اور بتایا کہ قرآن کریم کے مطابق گوشت کا کھانا انسانی فطرت میں طبعی طور پر داخل ہے اور اس کا ثبوت ہمیں تین طرح سے ملنا چاہیے: اول نیچر سے، دوم بناوٹ انسانی سے اور سوم حکمِ الٰہی یعنی کتب سماوی سے۔
اس کے بعدکے صفحات میں نیچر کی دلیل پر مختلف مثالوں سے روشنی ڈالی ہے۔ پھر انسانی بناوٹ کی دلیل کو کھول کر لکھا ہے اور صفحہ۹؍پر حکم الٰہی یعنی کتب سماوی کی دلیل کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف مذاہب کی آسمانی کتب سے مثالیں پیش کی ہیں اور آریہ سماجیوں کو بطور خاص ملزم کرنے کے لیے ان کی اپنی کتب کے معین حوالے بطور نمونہ لائے گئے ہیں نیز برصغیر کے اطباء یعنی حکمائے ہند کی کتب سے گوشت خوری کے فوائد اور عمدہ نتائج بیان کیے گئے ہیں۔ نیز بتایا کہ تواریخ سے ثابت ہے کہ اہل ہنود کے بزرگ گوشت کھایا کرتے تھے۔
اس کے بعدمصنف نے گوشت خوری پر ہونے والے مختلف اعتراضات کے جوابات کو جگہ دی ہے، مثلاً ذی روح کی جان لینا ظلم ہے اور یہ کہ ذبح کرنے سے روح کو تکلیف پہنچتی ہے۔
دوسری تقریر ۱۵؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء کو پڑھی گئی، جوکتاب کے صفحہ ۱۷ تا ۳۶پر شائع شدہ ہے۔
اس دوسری تقریر کو فاضل مصنف نے اعتراضات کے جوابات کے لیے مخصوص کرتے ہوئے متفرق اعتراضات کے ردّ میں کافی و شافی مواد پیش کیا ہے ۔ مثلاً کہا گیا کہ گوشت خوری جائز و مناسب خوراک کے دائرہ میں نہیں آسکتی کیونکہ یہ اگر مضر صحت نہ بھی ہو، اس کے کھانے سے طبیعت میں نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔
جبکہ تقریر سوئم جو ۲۲ اکتوبر ۱۹۰۴ء کو پڑھی گئی وہ صفحہ ۳۷ تا ۵۶ پر درج ہے۔ جس میں بعد بسم اللہ کہا کہ ’’حاضرین جلسہ! میں نے اپنی پہلی تقریر میں مختلف پہلوؤں سے ثابت کرکے کہ گوشت کھانا انسان کے واسطے جائز ہے بیان کیا تھا کہ گوشت کھانا کوئی مذہبی فرض نہیں جس کے ادا نہ کرنے سے گناہ لازم آئے…‘‘
اپنی اس تیسری تقریر میں بھی فاضل مصنف نے متفرق اعتراضات کے جوابات بہم پہنچائے ہیں اور دیگر ماخذوں سے بھی متعلقہ موضوع پر قابل قدر مواد کا اضافہ کرکے اپنے موقف کے حق میں ایک زبردست کتاب مرتب کی ہے۔