قول سدید کی ضرورت
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۱؍ جون ۲۰۱۳ء)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا۔ یُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ وَیَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَمَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا (الاحزاب:۷۱-۷۲)
ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صاف سیدھی بات کیا کرو۔ وہ تمہارے لئے تمہارے اعمال کی اصلاح کر دے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، یقیناً اس نے ایک بڑی کامیابی کو پالیا۔
ان آیات میں خدا تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ قول سدید اختیار کرو۔ صاف اور سیدھی بات کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ قول سدید یہ ہے کہ ’’وہ بات منہ پر لاؤ جو بالکل راست اور نہایت معقولیت میں ہو۔ اور لغو اور فضول اور جھوٹ کا اس میں سرِ مُو دخل نہ ہو۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد۱صفحہ۲۰۹-۲۱۰حاشیہ نمبر۱۱)
پھر ایک جگہ آپؑ نے فرمایا کہ ’’اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو خدا سے ڈرو اور وہ باتیں کیا کرو جو سچی اور راست اور حق اور حکمت پر مبنی ہوں۔‘‘ (ست بچن، روحانی خزائن جلد۱۰صفحہ۲۳۱)
پھر فرماتے ہیں کہ ’’لغو باتیں مت کیا کرو۔ محل اور موقع کی بات کیا کرو۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد۱۰صفحہ۳۳۷)
ان تمام ارشادات میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائے ہیں، یہ واضح ہوتا ہے کہ تقویٰ کا حصول اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اُس وقت ممکن ہے جب ہر حالت میں، مشکل میں بھی اور آسانی میں بھی، فیصلہ کرتے ہوئے بھی، یعنی کسی کے ذمہ اگر کوئی فیصلہ لگایا گیا ہے اُس وقت فیصلہ کرتے ہوئے بھی اور گواہی دیتے ہوئے بھی، گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ بات چیت اور معاملات میں بھی اور رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ معاملات میں بھی، کاروبار میں کوئی چیز خریدتے ہوئے بھی اور بیچتے ہوئے بھی، ملازمت میں اگر کوئی ملازم ہے کسی جگہ وہاں کام کرتے ہوئے، اپنی سچائی کو ہمیشہ قائم رکھو اور جس کے پاس ملازم ہو اُس کے ساتھ معاملات میں بھی سچائی کو قائم رکھو۔ غرض کہ روزمرہ کے ہر کام میں اور ہر موقع پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے منہ پر ایسی بات آئے جو بالکل سچ ہو۔ اُس میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو۔ یعنی ایسا ابہام جس سے ہر ایک اپنی مرضی کا مطلب نکال سکے۔ ایسی سچائی ہو کہ اگر اس سچائی سے اپنا نقصان بھی ہوتا ہو تو برداشت کر لو لیکن اپنی راستگوئی اور سچائی پر حرف نہ آنے دو۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ روز مرہ کے معاملات میں اگر ذرا سی غلط بیانی ہو بھی جائے تو فرق نہیں پڑتا لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فرق پڑتا ہے، تمہارے تقویٰ کا معیار کم ہوتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ تقویٰ کا معیار کم ہوتے ہوئے ایک وقت میں غلط بیانی اور جھوٹ کے قریب تک تمہیں لے جائے۔ یا سچائی سے انسان بالکل دور ہو جائے اور جھوٹ میں ڈوب جائے اور پھر خدا تعالیٰ سے دور ہو جائے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وجہ سے کہ سچائی پر قائم نہیں ایک انسان ردّ کر دیا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر مومن ہو تو تقویٰ سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ قولِ سدید پر قائم رہو۔
فرمایا کہ قولِ سدید کا یہ بھی معیار ہے کہ جو الفاظ منہ پر آئیں وہ معقولیت بھی رکھتے ہوں۔ یہ نہیں کہ جو اُول شلول ہم نے سچ بولنا ہے، ہم نے بول دینا ہے۔ بعض دفعہ بعض باتیں سچی بھی ہوتی ہیں لیکن ضروری نہیں کہ کہی بھی جائیں۔ وہ معقولیت کا درجہ نہیں رکھتیں۔ فتنہ اور فساد کا موجب بن جاتی ہیں۔ کسی کا راز دوسروں کو بتانے سے رشتوں میں دراڑیں پڑتی ہیں۔ تعلقات میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بھی ہے کہ ایک بات ایک موقع پر ایک جگہ پر معقول نہیں، لیکن دوسرے موقع اور جگہ پر یہ کرنی ضروری ہو جاتی ہے۔ مثلاً خلیفۂ وقت کے پاس بعض باتیں لائی جاتی ہیں جو اصلاح کے لئے ہوں۔ پس اگر ایسی بات ہو تو گو ہر جگہ کرنے والی یہ نہیں ہوتی لیکن یہاں آ کر وہ معقولیت کا درجہ اختیار کر لیتی ہے۔ پس ایک ہی بات ایک جگہ فساد کا موجب ہے اور دوسری جگہ اصلاح کا موجب ہے۔
پھر معقولیت کی مزید وضاحت بھی فرما دی کہ کسی قسم کی لغو اور فضول بات قولِ سدید کے نام پر نہ ہو۔ بعض لوگ بات تو صحیح کر دیتے ہیں، اپنے زُعم میں اصلاح کے نام پر بات پہنچاتے ہیں لیکن اُس میں اپنی طرف سے وضاحت کے نام پر حاشیہ آرائی بھی کر دیتے ہیں۔ یہ پھر قولِ سدیدنہیں رہتا بلکہ بعض حالات میں قولِ سدید کا خون ہو رہا ہوتا ہے۔ ایک صحیح بات ایک آدھ لفظ کی حاشیہ آرائی سے اصلاح کرنے والوں کے سامنے، یا بعض دفعہ اگر میرے سامنے بھی آ رہی ہو تو حقیقت سے دُور لے جاتی ہے اور نتیجۃً اصلاح کا صحیح طریق اپنانے کے بجائے غلط طریق اپنایا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں اصلاح کے بجائے نقصان ہوتا ہے۔ مثلاً بعض دفعہ اصلاح نرمی سے سمجھانے یا صَرفِ نظر کرنے یا پھر معمولی سرزنش کرنے سے بھی ہو سکتی ہے لیکن ایک غلط لفظ فیصلہ کرنے والے کو سخت فیصلہ کرنے کی طرف لے جاتا ہے جس سے بجائے اصلاح کے نقصان ہو رہا ہوتا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ حق کے ساتھ، سچائی کے ساتھ حکمت بھی مدّنظر رہنی چاہئے۔ اگر حکمت ہو گی تو تبھی قولِ سدید بھی ہو گا۔ اور حکمت یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح اور امن کا قیام ہر سطح پر ہو، یہ مقصود ہو نہ کہ فساد۔
پس اس حکمت کو مدّنظر رکھتے ہوئے جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے، موقع اور محل کی مناسبت سے بات ہونی چاہئے۔ یعنی ہر سچی بات حکمت کے بغیر اور موقع اور محل کو سامنے رکھے بغیر کرنا قولِ سدیدنہیں ہے۔ یہ پھر لغویات اور فضولیات میں شمار ہو جائے گا۔ اور یہ صورتِ حال بجائے ایک انسان کو خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنا سکتی ہے۔ پس ایک مومن کو تقویٰ پر چلتے ہوئے قولِ سدید کی باریکیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ تقویٰ کی باریکیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر باریکی سے اس بات پر نظر ہو گی تو اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پھر ایسے انسان پر پڑتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’انسان کو دقائق تقویٰ کی رعایت رکھنی چاہئے۔‘‘ یعنی جو باریکیاں ہیں تقویٰ کی اُن کو سامنے رکھنا چاہئے۔ ’’سلامتی اسی میں ہے کہ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں کی پروا نہ کرے تو پھر ایک دن وہی چھوٹی چھوٹی باتیں کبائر کا مرتکب بنا دیں گی اور طبیعت میں کسل اور لاپروائی پیدا ہوکر‘‘ پھر ایسا انسان ’’ہلاک ہو جائے گا‘‘۔ فرمایا: ’’تم اپنے زیرِ نظر تقویٰ کے اعلیٰ مدارج کو حاصل کرنا رکھو اور اس کے لئے دقائقِ تقویٰ کی رعایت ضروری ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد۴ صفحہ ۴۴۲ ایڈیشن ۲۰۰۳ء)