سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی (۵؍ ستمبر ۲۰۲۳ء بروز منگل)
٭… مسجد ناصر وائی بلنگن (Waiblingen) کا افتتاح،نمازِ ظہر و عصر کی ادائیگی، تقریب نقاب کشائی نیز افتتاحی ریسپشن سے حضورِ انور کا بصیرت افروز خطاب
٭… مسجد وہ جگہ ہے جہاں مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہوتے ہیں اور ایسے پروگرام کرتے ہیں جو ان کی تربیت کے لیے بہتر ہوں، جو نہ صرف انہیں دینی تعلیم دینے والے ہوتے ہیں بلکہ دنیاوی تعلیم کی طرف بھی انہیں توجہ دلانے والے ہوتے ہیں۔ انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ملکی قوانین کی آپ نے کس طرح پابندی کرنی ہے، آپ نے اچھا شہری کس طرح بننا ہے،یہ بتایا جاتا ہے کہ ہمسایوں کے ساتھ کیسے اچھا سلوک کرنا ہے
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے صبح پانچ بج کر پچاس منٹ پر تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کی مختلف دفتری امور کی ادائیگی میں مصروفیت رہی۔
آج پروگرام کے مطابق WAIBLINGEN شہر میں نئی تعمیر ہونے والی’ مسجد ناصر ‘کے افتتاح کے لیے روانگی تھی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ صبح گیارہ بجے اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے۔ اس موقع پر مکرم ڈاکٹر مسعودالحسن نوری صاحب نے جو پاکستان سے جلسہ سالانہ جرمنی میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے حضور انور کی خدمت میں سلام عرض کیا اور حضور انور نے ازراہ شفقت ان سے گفتگو فرمائی۔ اس موقع پر امریکہ سے آنے والے مبلغ ظہیر احمد باجوہ صاحب نے بھی حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں سلام عرض کرنے کی سعادت پائی۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دعا کروائی اور یہاں سے روانگی ہوئی۔
بیت السبوح فرنکفرٹ سے WAIBLINGEN شہر کا فاصلہ ۲۱۲ کلومیٹر ہے۔ قریباً سوا دو گھنٹے کے سفر کے بعد شہر میں داخل ہونے سے قبل راستہ میں ہوٹل LE VILLAGE میں کچھ دیر کے لیے رکے بعد ازاں یہاں سے روانہ ہوکر دو بج کر پانچ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ’مسجد ناصر‘ تشریف آوری ہوئی۔
جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گاڑی سے باہر تشریف لائے تو مقامی جماعت کے احباب مرد و خواتین اور بچوں نے اپنے پیارے آقا کا بڑا والہانہ اور پرجوش استقبال کیا۔
آج ان کے لیے بے انتہا خوشیوں، مسرتوں اور برکتوں کے حصول کا دن تھا۔ ان کی سر زمین پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے مبارک قدم پہلی مرتبہ پڑے تھے۔ آج ان کے لیے عید کا دن تھا۔ ہر کوئی خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا۔ ہر ایک کا دل اپنی خوش نصیبی پر جذبات تشکر سے بھرا ہوا تھا۔
مرد احباب نعرے بلند کر رہے تھے۔ خواتین شرف زیارت سے فیضیاب ہو رہی تھیں اور بچے اور بچیاں مختلف گروپس کی صورت میں خیر مقدمی، دعائیہ نظمیں پیش کر رہی تھیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ بلند کرکے سب کو السلام علیکم کہا۔ اس موقع پر لوکل صدر جماعت پرویز احمد صاحب، ریجنل امیر بشارت احمد گل صاحب اور مربی سلسلہ WAIBLINGEN شارق افتخار صاحب نے حضور انور کو خوش آمدید کہا۔
اس موقع پر شہر کے میئر BENDIKT PAULOWITSCH اور ضلعی ناظم REMS-MURR-KRIES، ڈاکٹر PETER ZAAR صاحب بھی حضور انور کو خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھے۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد کی بیرونی دیوار میں نصب تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کروائی۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد کے بالائی مردانہ ہال میں تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں جس کے ساتھ اس مسجد کا باقاعدہ افتتاح عمل میں آیا۔
نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کچھ دیر کے لیے احباب میں رونق افروز رہے۔
حضور انور نے یہاں جماعت کی تعداد کے بارہ میں دریافت فرمایا جس پر صدر صاحب جماعت نے عرض کیا کہ اس وقت تجنید ۳۹۶ ہے۔ یہ بڑھ رہی ہے اور چار سونو سے اوپر چلی جائے گی۔
بعد ازاں حضور انور نے دریافت فرمایا کہ یہاں اس جماعت میں کتنے نئے لوگ آئے ہیں۔ اس پر ایک دوست نے عرض کیا کہ وہ کچھ عرصہ قبل لاہور سے آئے ہیں۔ ایک طفل نے بتایا کہ تین ماہ قبل و ہ اپنی فیملی کے ساتھ یہاں پہنچا ہے اس کے والد صاحب یہاں پہلے سے موجود تھے۔
ایک نوجوان نے عرض کیا کہ وہ شیخو پورہ سے آیا ہے اس پر حضور انور نے فرمایا : وہاں تو مسجدوں کے مینارے گرائے جا رہے ہیں۔ وہاں وہ گراتے ہیں تو یہاں دس بن جاتے ہیں۔ آپ یہاں مسجدیں بنائیں، مینارے بنائیں۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ وہ کچھ عرصہ قبل کراچی سے آئے ہیں۔
ایک صاحب نے عرض کیا کہ وہ ربوہ سے آئے ہیں اور ’اشفاق کریانہ سٹور‘والے ہیں۔ اس پر حضور انور نے ازراہ شفقت عرض کیا کہ یہاں آکر بوڑھے ہوگئے ہیں۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کچھ دیر کے لیے مسجد کی بالائی منزل کے ٹیرس (TERRACE) پر تشریف لے گئے۔ یہاں بھی نماز کے لیے صفیں بچھائی گئی تھیں۔ حضور انور نے فرمایا : موسم اچھا ہو تو یہاں بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کی نچلی منزل پر تشریف لے آئے۔ جہاں خواتین حضور انور کی آمد کی منتظر تھیں خواتین شرف زیارت سے فیضیاب ہوئیں۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ہال سے باہر کار پارک کے ایک حصہ میں تشریف لے آئے جہاں بڑی تعداد میں بچوں والی خواتین جمع تھیں اور بچیاں ترانے پیش کر رہی تھیں۔ حضور انور نے ازراہ شفقت بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
اس موقع پر ایک خاتون منزہ سلیم صاحبہ نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ سال ۲۰۰۸ء میں حضور انور کی خدمت میں اس علاقہ میں مسجد کے حوالے سے دعا کے لیے خط لکھا تھا۔ جس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا تھا:
’’اللہ کرےاس علاقہ میں بھی ہماری مسجد ہو۔ آمین‘‘
اس کے بعد ہماری کوششیں جاری رہیں اور اب یہاں حضور انور کی دعائوں سے ہماری مسجد بن گئی ہے۔ ایک لجنہ ممبر نے درخواست کی کہ حضور ہم لجنہ ممبرز کو بھی چاکلیٹ دیں۔ اس پر ازراہ شفقت اس موقع پر موجود تمام لجنہ ممبرز کو بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
ایک طرف بچے ایک لائن میں کھڑے تھے حضور انور نے ازراہ شفقت بچوں کو بھی چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد کے بیرونی احاطہ میں بادام کا پودا لگایا اور علاقہ کے میئر نے بھی ایک پودا لگایا۔
اس کے بعد لوکل مجلس عاملہ کے ممبران نے اور مسجد کی تعمیر میں وقار عمل کے ذریعہ حصہ لینے والے احباب اور خدام نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ مختلف گروپس کی صورت میں تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کچھ دیر کے لیے مربی سلسلہ شارق افتخار صاحب کے گھر تشریف لے گئے۔ موصوف کی رہائش مسجد سے ملحقہ مشن ہائوس میں ہے۔ حضور انور کے استفسار پر مربی صاحب نے بتایا کہ LIVING ROOM کے علاوہ دو بیڈ روم پر مشتمل گھر ہے۔ حضور انور نے ازراہ شفقت گھر کے تمام کمروں اور باتھ روم، کچن وغیرہ کا جائزہ لیا۔
مسجد سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع شہر KERNEN کے کمیونٹی ہال میں مسجد ناصر کےافتتاح کے حوالہ سے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد سے تین بجے روانہ ہو کر تین بج کر دس منٹ پر اس ہال میں تشریف لے آئے۔
حضور انور کی آمد سے قبل اس تقریب میں شامل ہونے والے مہمان اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔
آج کی اس تقریب میں ۱۱۲ مہمان شامل ہوئے جن میں مقامی سیاستدان، صوبائی سیاستدان، مختلف شہروں کے میئرز، ڈاکٹرز، پولیس، شہری انتظامیہ، سوشل ورکرز، مختلف چرچوں کے نمائندگان اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔
تین بج کر بارہ منٹ پر تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم آفاق احمد شیخ صاحب نے کی اور اس کا جرمن زبان میں ترجمہ مکرم آفاق رزاق صاحب نے پیش کیا۔
اس کے بعد مکرم امیر صاحب جرمنی عبد اللہ واگس ہائوزر صاحب نے اپنا تعارفی ایڈریس پیش کیا۔
آغاز میں امیر صاحب جرمنی نے شہر (Waiblingen) کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ اس شہر کی آبادی ۵۶ ہزار ہے اور یہ شہر صوبہ WÜRTTEMBERG میں واقع ہے۔ اس شہر کی تاریخ نہایت قدیم ہے۔
یہاں جماعت کا آغاز ۱۹۸۸ء میں دس افراد سے ہوا۔ آج یہاں جماعت کی تجنید چار سو افراد سے زائد ہے۔
امیر صاحب نے مسجد کی تعمیر کے حوالہ سے رپورٹ پیش کر تے ہوئے بتایا کہ پہلے ہم ایک پلاٹ انڈسٹریل ایریا میں خریدنا چاہتے تھے لیکن اس وقت کے میئر اور شہری انتظامیہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مسجد کو شہر کے سینٹر کے قریب بنایا جائے۔
چنانچہ سال ۲۰۱۵ء میں ۵۷۶ مربع میٹر کا یہ پلاٹ خریدا گیا جو کہ ریلوے اسٹیشن کے قریب ہے۔
مسجد میں عورتوں اور مردوں کے لیے دو علیحدہ علیحدہ ہال ہیں اور ایک ملٹی فنکشنل روم بھی ہے۔ یہ مسجد تین منازل پر مشتمل ہے۔
مسجد کے مینار کی اونچائی ۱۳؍ میٹر ہے اور گنبد کا قطر ۶؍ میٹر ہے۔ مسجد سے ملحقہ مربی ہائوس بھی تعمیر کیا گیا ہے اور مسجد کے نچلے حصہ میں UNDERGROUND پارکنگ بھی ہے۔ مسجد میں لفٹ بھی لگائی گئی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر پر ۱.۵ ملین یورو کا خرچ ہوا ہے اور ساری رقم لوکل جماعت نے ہی ادا کی ہے۔
امیر صاحب جرمنی کے ایڈریس کے بعد Siegfried Lorekصاحب جو کہ صوبائی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ سب سے پہلے انہوں نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اور پھر دیگر مہمانوں کو سلام پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسے زمانہ میں سے گزر رہے ہیں جس میں انسانیت کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس بات کا احساس ہمیں جرمنی میں بھی ہو رہاہے۔ پہلے corona کا مسئلہ تھا، پھر جنگ شروع ہو گئی اور اب inflation وغیرہ کی مشکلات ہیں۔ بہت سے لوگ اس بات کے بارہ میں سوچتے ہیں کہ ان کا مستقبل یا پھر ان کے بچوں کا مستقبل کیسا ہو گا۔ ایسے حالات میں خاص طور پر دین انسان کو تقویت بخشتا ہے۔ اسی لیے مذہبی آزادی ہمارے آئین کا حصہ ہے۔
اس کے بعد انہوں نے کہا کہ آج کے دن مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میں آپ لوگوں کی تقریب میں شامل ہوسکا۔ میں آپ کو صوبائی پریذیڈنٹ Kretchmann کی طرف سےاور صوبائی پارلیمنٹ کی طرف سے بھی مسجد کے افتتاح کے موقع پر مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ مسجد ناصر ایسی جگہ پر واقع ہے جو شہر کے centre میں ہے۔
پھر انہوں نے کہا کہ آپ لوگ خدمت خلق میں بہت active ہیں اور صرف آج کل ہی نہیں بلکہ ۱۹۸۸ء سے ہی یہ بات ملتی ہے۔ ان activities کی وجہ سے آپ لوگ مختلف لوگوں اور کلچرز کے درمیان پیار و محبت کا رشتہ قائم کرتے ہیں۔ آپ لوگ مسجد کے دروازے کھولتے ہیں یا پھر خون کا عطیہ دینے کے پروگرامز منعقد کرتے ہیں۔ پھر آپ لوگ old houses میں جا کر ہمارے بڑی عمر کے لوگوں کے لیے خوشی کا باعث بنتے ہیں اور یا پھر آپ لوگ charity-walk منعقد کرتے ہیں جس کے ذریعہ سے مختلف فلاحی تنظیموں کو مدد پہنچتی ہے۔
آخر پر انہوں نے کہا کہ نئی مسجد بننے سے آپ لوگوں کو اب اکٹھے ہو نے کی ایک جگہ میسر ہو گئی ہے اور یہ مسجد جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے سب لوگوں کے لیے ہے، ہر کوئی اس مسجد میں داخل ہوسکتا ہے۔ پھر انہوں نے حضور انور کے تشریف لانے کا بھی شکریہ ادا کیا۔
بعد ازاں صوبائی ممبر پارلیمنٹ Petra Heffnerنے اپنا ایڈریس پیش کیا۔
سب سے پہلے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو سلام پیش کیا اور پھرتمام حاضر احباب و خواتین کوخوش آمدید کہا۔ پھرموصوفہ نے کہا: میں آپ لوگوں کو مسجد ناصر کے افتتاح کے موقع پر مبارک باد پیش کرنا چاہتی ہوں۔ آپ لوگوں کے لیے یہ مسجد ایک اکٹھے ہونے کی جگہ ہے، ایک امن کی جگہ ہے، ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپ لوگ اپنا تبادلہ خیال کرسکیں۔مجھے آج بہت خوشی ہو رہی ہے کہ میں مسلمانوں کے سامنے کچھ خیالات کا اظہار کر رہی ہوں۔ مجھے یہ موقع دینا اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ آپ لوگ سب سے dialogue کے لیے تیار ہیں اور خفیہ طور پر نہیں رہنا چاہتے۔
پھر موصوفہ نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ میں جرمنی میں اور صوبہ Baden-Württemberg میں رہتی ہوں۔ ہمارا آئین تمام لوگوں کو، ہر جماعت کو مذہبی آزادی دیتا ہے۔ صرف ایک ہی اس میں شرط ہے اور وہ یہ کہ آئین کی خلاف ورزی نہیں کرنی۔ مذہبی آزادی آج کل بھی تمام ممالک میں میسر نہیں ہے۔میرے نزدیک آپ لوگوں کی جماعت ہمارے علاقہ کا مفید وجود ہے۔ آپ لوگوں کی خدمت خلق کی بھی میں نہایت ممنون ہوں، خواہ وہ نئے سال کے موقع پر صفائی کا کام ہو یا خون کے عطیہ دینے کے منصوبے ہوں وغیرہ۔ معاشرہ کی ایسی خدمات قابل اعزاز اور نہایت اہم ہیں۔ آپ لوگ اس طرح سے ہمارے معاشرے میں ہم آہنگی اور امن پیدا کرنے میں ممد ہیں۔
آخر پر موصوفہ نے کہا کہ جماعت احمدیہ تو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ لوگ ہر کلچر، ہر مذہب اور ہر وطن کے ساتھ کھلے دل سے رہ سکتے ہیں۔ میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ آپ لوگوں نے مجھے سیاستدان کے طور پر بطور مہمان خصوصی مدعو کیا۔ اس لیے میں آپ لوگوں کو بھی ہماری پارلیمنٹ میں آنے کی دعوت دینا چاہتی ہوں۔ شکریہ۔
اس کے بعد Dr.Peter Zaar نے ایڈریس پیش کیا۔انہوں نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اور دیگر مہمانوں کو سلام پیش کرنے کے بعد کہا:
سب سے پہلے تو میں آپ کو پارلیمنٹ کی طرف سے آپ لوگوں کی صد سالہ جوبلی کے حوالہ سے مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ساتھ ہی میں آپ لوگوں کو مسجد کے افتتاح کے لیے بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ مجھے ابھی مسجد میں بھی ساتھ جانے کا موقع ملا تھا۔ اب آپ لوگوں کو تقریباً ۴۰۰؍ افراد کے لیے ایک عبادت گاہ میسر ہے جس میں آپ سب اکٹھے ہوسکیں، عبادت بجا لاسکیں، علم حاصل کرسکیں۔ پرانے سنٹر کی اب ضرورت نہیں رہے گی بلکہ اب آپ لوگوں کو سٹیشن کے قریب ہی ایک مسجد مل گئی جو ایک central جگہ پر واقع ہے۔
اس کے بعد موصوف نے کہا کہ پہلے یہ بھی ذکر ہوا تھا کہ جماعت کے بہت سے ممبران کا تعلق پاکستان سے ہے لیکن اب آپ لوگوںکی دوسری یا تیسری generation ہمارے اس علاقہ میں آباد ہے۔ آپ لوگوں کے پہلے احباب ۱۹۷۰ءکے بعد سے پاکستان سے ہجرت کر کے ادھر آئے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ادھر آباد ہوئے۔ پاکستان میں آپ کی جماعت پر مظالم ہوتے ہیں اور آزادی میسر نہیں۔ اس لیے ہمیں اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ہم لوگ آپ کو جرمنی میں ایک نیا گھر دے سکتے ہیں۔
پھر موصوف نے کہا کہ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ آپ لوگ سب کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح آپ لوگوں کی امن پسندی، تعلیم حاصل کرنے کی اہمیت، مذہبی آزادی، معاشرتی ہم آہنگی اور بڑوں کی عزت کرنا، ایسے اقدار ہیں جو ہمارے علاقہ کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں۔ آپ لوگوں کی خدمت خلق میں فعال خدمات کا کئی بار ذکر ہو چکا ہے، ان کو گنوانے کی اب ضرورت باقی نہیں۔ مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ کئی سالوں کی محنت کے بعد اب آپ لوگوں کی مسجد کا افتتاح آپ لوگوں کے روحانی سربراہ کی موجودگی میں ہوا ہے۔
آخر پر موصوف نے دعوت کا شکریہ ادا کیا اور جماعت کے لیے اپنی نیک تمناؤں کا ذکر کیا۔
اس کے بعد شہر Kern کے میئر Benedikt Paulowitsch نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔انہوں نے سب سے پہلے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اور پھر دیگر مہمانوں کو سلام پیش کیا۔ اس کے بعد میئر صاحب نے کہا: ہمارے لیے بہت خوشی کا دن ہے کہ آپ لوگ ہمارے شہر میں اس community-hall میں یہ خوشی کا موقع منانے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ لیکن خاص طور پر میں آپ لوگوں کو آپ کی مسجد کے قیام کے لیے مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں صرف آپ لوگوں کی جماعت کو ہی نہیں مبارک باد دینا چاہتا بلکہ یہ مسجد کا افتتاح سب کے لیے ایک خوشی کی خبر لاتا ہے۔ جرمنی بے شک secularہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ گورنمنٹ اور مذہبی جماعتوں کو آپس میں تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ سوسائٹی میں امن پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام مذاہب کی جماعتیں اور تمام دیگر گروہ اور کونسلز وغیرہ مل کر تعاون کرتے ہوئے کام کریں۔ اور جیسا پہلے مقررین سے سنا ہے کہ آپ لوگ پہلے سے بہت فعال ہیں خواہ وہ ہمارے کمزوروں اور بوڑھوں کی مدد ہو یا پھر ادھر امن پیدا کرنے کی کوششیں۔ آج کل کے زمانہ میں یہ کوئی سہل کام نہیں ہے کہ امن کے لیے کوششیں اور کام کیا جائے۔ آج کل مختلف ممالک اور مختلف مذاہب بھی آپس میں لڑائیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ لیکن ہم سب اگرمل کر امن کی کوشش کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمارے اندر امن کی ضرورت ہے۔ پھر ہمارے گھروں میں امن کی ضرورت ہو گی اور ہمارے ہمسایوں کے ساتھ امن میں رہنے کی ضرورت ہو گی۔ اس لیے یہ ایک بہت اچھی خبر ہے کہ آپ کی جماعت ادھر فعال ہے اور ہم سب مل کر تعاون کرتے ہوئے امن کے لیے کوششیں کریں۔
آخر پر میئر صاحب نے سب کا شکریہ ادا کیا۔
بعد ازاں تین بج کر ۴۵ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمایا۔
خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
برموقع افتتاحی تقریب مسجد ناصر Waiblingen جرمنی
تشہد و تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
تمام معزز مہمانان، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اس علاقہ میں مسلمانوں کو ایک مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی، جس میں وہ اکٹھے ہو کر عبادت کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ صرف عبادت کا حق ادا نہیں کرنا بلکہ اور بہت سے کام جو معاشرہ کے لیے، ہمسایوں کے لیے اور اپنی ترقی کے لیے ضروری ہے، ان کے بارہ میں سوچ بچار کرتے ہیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں اس علاقہ کے میئر، کونسلرز اور ہمسایوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر میں بھرپور طریقہ سے مدد فراہم کی۔ مسجد جو ہماری بنی ہے یہ صرف مردوں کے لیے نہیں عورتیں بھی اس سےبہت خوش ہیں۔ ابھی مسجد میں نماز کے بعد میں وہاں عورتوں اور بچوں سے ملنے بھی گیا۔ وہاں ایک خاتون نے مجھے کہا کہ ہم ایک عرصہ سے دعا کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایک گھر دے میں آپ کو دعا کے لیے بھی لکھتی تھی، آج ہم بہت خوش ہیں کہ ہمیں مسجد مل گئی ہے، جس میں اب ہم اکٹھے ہو سکتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
مسجد وہ جگہ ہے جہاں مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہوتے ہیں اور ایسے پروگرام کرتے ہیں جو ان کی تربیت کے لیے بہتر ہوں، جو نہ صرف انہیں دینی تعلیم دینے والے ہوتے ہیں بلکہ دنیاوی تعلیم کی طرف بھی انہیں توجہ دلانے والے ہوتے ہیں۔ انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ملکی قوانین کی آپ نے کس طرح پابندی کرنی ہے، آپ نے اچھا شہری کس طرح بننا ہے،یہ بتایا جاتا ہے کہ ہمسایوں کے ساتھ کیسے اچھا سلوک کرنا ہے۔ یہ ساری باتیں مسجد میں آنے والوں کو عبادت کے ساتھ ساتھ تربیت کے طور پر بتائی جاتی ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
امیر صاحب نے بتایا کہ یہاں جماعت نے فلاحی کام بھی کیے، خدمت خلق کے کام بھی کیے ہیں جسے مقامی لوگوں نے بہت سراہا۔ یہ فلاحی کام اور خدمت خلق کے کام ہی وہ چیز ہےجس سے اصل انسانیت کی قدروں کا پتا چلتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کا فضل ہے امیر ملک ہے، اتنی ضروریات نہیں ہیں لیکن پھر بھی جہاں ضرورت ہو جماعت احمدیہ فلاحی خدمت کرنے کی پوری کوشش کرتی ہے۔ لیکن جو افریقہ کے غریب ممالک ہیں، تیسری دنیا کے ممالک ہیں، وہاں جماعت احمدیہ جہاں مسجد بناتی ہے، وہاں سکول بھی بناتی ہے، ہسپتال بھی بناتی ہے، ماڈل ولیج بھی بناتی ہے جہاں بنیادی سہولتیں میسر ہوتی ہیں، پانی کی فراہمی کے سامان بھی کرتی ہے، یتیم خانے بھی بناتی ہے۔ یہ تمام فلاحی کام ہم دنیا میں کر رہے ہیں اور بلا امتیاز مذہب و نسل کر رہے ہیں۔ میں پہلے بھی کئی جگہ بیان کر چکا ہوں یہاں بھی بتا دوں کہ اکثر ہمارے فلاحی کام،سکول، ہسپتال اورفلاحی ادارے جو ہیں اوران سے دنیا میں فائدہ اٹھانے والے جو سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ہیں صرف احمدی نہیں، بلکہ ستر سے اسی فیصد وہ لوگ ہیں جونہ صرف یہ کہ احمدی نہیں، بلکہ ان میں سے مسلمان بھی نہیں۔ بہت سے عیسائی ہیں، Pagan ہیں اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیں جو فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پس یہ فلاحی کام جو ہیں یہ ہمارا امتیاز ہیں، اور فلاحی کام کرنا ہماری دینی تعلیم کا حصہ ہے۔ فلاحی کام کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم بندوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے تو تمہاری نمازیں جو تم مسجد میں آکر ادا کرتے ہو، میری عبادت کے لیے آتے ہو تو وہ تمہارے پر الٹا کر ماری جائیں گی۔ بندوں کے حق ادا کرو پھر میرے پاس آؤ تو میں تمہاری دعائیں بھی قبول کروں گا اور ان کا اجر دوں گا۔ پس یہ وہ تعلیم ہے جس پر ہم عمل کرنے والے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
امیر صاحب نے ذکر کیا کہ لارڈ میئر صاحب نے زمین کے حصول میں اور اس کی تعمیر کے مختلف مراحل میں بڑی مدد کی، میں ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ ان کا حق بنتا ہے کہ ان کا شکریہ ادا کیا جائے اور اسی طرح ہمسایوں کا بھی شکریہ ادا کیا جائے۔ Integration کے سٹیٹ سیکرٹری صاحب نے بھی یہاں آکر کچھ الفاظ کہے۔ انہوں نے یہ بات کی کہ دنیا میں بڑی مشکلات ہیں، اور مجھے ان کی یہ بات بہت اچھی لگی کہ ان مشکلات کو دُور کرنے کے لیے مذہب راستہ دکھاتا ہے۔ آج کل لوگ اللہ تعالیٰ سے دُور ہو رہے ہیں، چرچ کو بھی شکوہ ہے، مسجد کو بھی شکوہ ہے، دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی شکوہ ہےکہ مذہب سے دُور ہو رہے ہیں، اپنے پیدا کرنے والے خدا سے دُور ہو رہے ہیں اور اس وجہ سے بہت سارے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ جو دنیا میں بیماریاں ہیں یا جنگیں ہیں یا مسائل ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہیں کہ ہم یہ بات بھول رہے ہیں کہ ہم آدم کی اولاد ہیں اوراس خدا کی مخلوق ہیں جس نے تمام دنیا کو پیدا کیا۔ یہ جو مختلف رنگ کے لوگ ہیں، مختلف مذہب کے لوگ ہیں، مختلف قوموں کے لوگ ہیں،مختلف قبیلوں کے لوگ ہیں یہ تو ایک پہچان کے طور پرہے۔ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ یہ مختلف قبائل اور رنگ و نسل ہے یہ تو تمہاری پہچان کے لیےمختلف چیزیں ہیں، اصل میں تم ایک ہو، انسان ہو، اس پے ایک انسان ہونے کے ناطے اپنی اہمیت کو سمجھو۔ جب ہم اپنی اہمیت کو سمجھ لیں گے تو بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ کووڈ کی بیماری تو ایک وبا ہے، وبائیں آتی ہیں، طوفان بھی آتے ہیں لیکن بہت سارے مسائل ہم نے خود پیدا کیے ہوئے ہیں جس سے دنیا میں فساد پیدا ہورہا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم اپنے پیدا کرنے والے کو بھول رہے ہیں، ہم مذہب سے دور جا رہے ہیں۔ اگر ہم اس حقیقت کو پہچان لیں اور مذہب کی حقیقی تعلیم کی طرف توجہ دیں تو کوئی مذہب ایسا نہیں، نہ اسلام، نہ عیسائیت، نہ یہودیت، نہ کوئی اور مذہب نہ ہندوازم۔ کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جو کہتا ہو کہ ایک دوسرے کے حق مارو اور فساد پیدا کرو۔ ہر ایک مذہب کے بانی نے پیارو محبت کی تعلیم دی ہے اور اس تعلیم کو ہمیں اپنانے کی ضرورت ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
بہرحال اسلام نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ تمہارا فرض بنتا ہے کہ بندوں کے حق ادا کریں۔ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ اگر بندوں کے حق ادا نہیں کرو گے، ان کی خدمت نہیں کرو گے، فلاحی کام نہیں کرو گے، ضرورت مند کا خیال نہیں رکھو گے، یتیم کا خیال نہیں رکھو گے، مسکین کا خیال نہیں رکھو گے تو پھر تمہاری عبادتیں اور مسجد میں آنا بے فائدہ ہے۔ پس یہ سوچ ہے ہماری اور ہم اس سوچ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اسی طرح صوبائی پارلیمنٹ کی ممبر صاحبہ بھی تشریف لائیں۔ انہوں نے بھی مذہبی آزادی کے حوالہ سے بات کی۔ اس لحاظ سے میں ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ملکی قانون کی پاسداری کی انہوں نے بات کی۔ یہ تو بنیادی چیز ہے۔ اسلام ملکی قانون کی پابندی کی بڑی تلقین کرتا ہے۔ اسلام نے ہمیں حکم دیا کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے بعد اپنی حکومت کے حکم کی بھی تعمیل کرو کیونکہ انہوں نے تمہیں مذہبی آزادی دی ہوئی ہے۔ مسجد بنانے کی اجازت دی، تمہیں عبادت کرنے کی اجازت دی۔ اس لیے جہاں مذہبی آزادی ہے وہاں اس ملک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کے قانون کی پہلے سے زیادہ پابندی کرنی چاہیے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اسلام ہمیں یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ ملک کی محبت تمہارے ایمان کا حصہ ہے۔ پس اس لحاظ سے بھی یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ نہ صرف ملکی قانون کی پابندی کریں، بلکہ حکام کی بھی پابندی کریں۔ حکومت کے ساتھ بھی مکمل تعاون کریں۔ یہی چیز ہے جو فساد کو روک سکتی ہے۔ آپس میں محبت اور بھائی چارہ کی فضا قائم کر سکتی ہے۔جو امن قائم کر سکتی ہے۔ اگر یہ نہیں تو پھر کسی طرح بھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اس خاتون نے تعلیم کی بھی بات کی۔ اس لحاظ سے میں یہ بھی بتادوں کہ ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو تعلیم کی اہمیت کی طرف اس قدر توجہ دلائی ہے کہ فرمایا کہ ایک انسان کو پنگھوڑے سے لے کرقبر تک تعلیم حاصل کرتے رہنا چاہیے۔ اپنے علم کو بڑھاتے رہنا چاہیے اور یہ علم ہی ہے، یہ تعلیم ہی ہے جو تمہارے دماغ کو روشن کرے گا، تمہارے ذہن کو کھولے گا اور تمہیں اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے کی توفیق دے گا۔ اس سے پھر تم دنیا میں امن قائم کرنے کی طرف توجہ دیتے ہو اور کوشش کرتے ہو۔لڑکیوں کی تعلیم کے متعلق بعض اوقا ت شبہات ہوتے ہیں کہ پتا نہیں شاید اسلام عورت کے حق مارتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی لڑکیوں کو اچھی تعلیم دو۔ بلکہ اس قدر تاکید کی کہ فرمایا جس کی تین لڑکیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تربیت کرے اور انہیں اچھی تعلیم دے اور انہیں معاشرہ کا اچھا حصہ بنائے۔ ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے مواقع فراہم کرے تو ایسا شخص پھر جنت میں جائے گا۔ تو یہ عورت کا مقام ہے جو اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ اس طرح تم تعلیم حاصل کرو اور خاص طور پر عورتوں کی تعلیم کی طرف توجہ دوتا کہ تمہاری اگلی نسلیں بھی سنبھالی جائیں۔ جب ایسا ہو گا تو یقیناً جو اس کی تربیت کرنے والا ہے وہ تو جنت میں جائے گا بلکہ آگے جن بچوں کی اس عورت نے تربیت کی ہو گی، وہ بھی دنیا و آخرت میں اچھا مقام حاصل کرنے والےہوںگے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
میں ڈسٹرکٹ کے نمائندہ کے الفاظ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان کی اس بات پر کہ انہوں نے ہمیں اس ملک میں جگہ دی، ہمیں مذہبی آزادی دی، اس کےلیے ہم ان کے ممنون ہیں۔ اکثر لوگ جو یہاں پاکستان سےآئے ہیں وہ ایسے حالات میں آئے ہیں کہ جہاں مذہبی آزادی نہیں تھی۔ ان سے مذہبی آزادی چھین لی گئی تھی۔ یہاں آکر جب انہیں مذہبی آزادی ملی تو اس سے بڑھ کر کیا بات ہو سکتی ہے۔ اب وہ اپنے مذہب کے مطابق ایک خدا کی عبادت کر سکتےہیں اور لوگوں کو بتا سکتے ہیں کہ ہم وہ لوگ ہیں جو ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہیں اور یہ ہماری تعلیم ہے۔ اس شہر کے میئر صاحب نے بھی بہت اعلیٰ خیالات کا اظہار کیا۔ یہ بات بھی انہوں نے کی کہ یہ ایک خواب تھا جو پورا ہو گیا۔ یقیناً یہ جماعت احمدیہ کا خواب تھا جو پورا ہوا۔ جیسا کہ شروع میں میں نے ذکر کیا کہ اس عورت نے مجھےآج ہی کہا کہ ہمارا ایک خواب تھا جو آج پورا ہو گیا۔ آج ہم سب مرد، بچے، عورتیں یہاں عبادت کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ اسی طرح ہم اپنے باقی دوسرے پروگرام بھی کریںگے۔ بہرحال میئر صاحب نے بھی یہی بات کی ہے کہ مذہبی آزادی بہت ضروری چیز ہے۔ اگر حکومت مذہبی آزادی دیتی ہے تو اسی سے امن پیدا ہو گا اور اسی سے پھر معاشرہ میں بھائی چارہ اور محبت پیدا ہو تی ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پڑوسی کا حق اسلام ہمیں دیتا ہے۔ مسجد بن گئی ہے۔ ہوسکتا ہے بعض پڑوسیوں کو شکوک و شبہات بھی ہو رہے ہوں۔ آج بھی وہاں بہت لوگ اکٹھے تھے، بہت زیادہ نعرے بھی لگ رہے تھے، کچھ لوگ ڈسٹرب بھی ہوئے ہوںگے۔ لیکن پڑوسی کے حق کی بابت اسلام کہتا ہے کہ چالیس گھر تک تمہارے پڑوسی ہیں اور تم نے ان کا حق ادا کرنا ہے۔ ان کا حق ادا کرنے کی نصیحت بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حد تک فرمائی کہ صحابہ ؓ نے گمان کیا کہ شاید پڑوسی ہماری وراثت میں بھی حصہ دار نہ ہو جائیں۔ کہیں یہ حکم نہ آ جائے۔ پڑوسی کی پھر تعریف یہ ہے کہ تمہارےگھر کے ارد گرد رہنے والے چالیس گھروں تک، پھر تمہارے ساتھ سفر کرنے والے تمہارے پڑوسی ہیں، تمہارے ساتھ دفتر میں کام کرنے والے تمہارے پڑوسی ہیں، راستوں میں ملنے والے تمہارے پڑوسی ہیں۔ پس پڑوسیوں کی طرح ان کا حق ادا کرنے کی کوشش کرو۔ اس طرح معاشرہ کے ہر فرد کی طرف توجہ دلا دی کہ اس کا حق اسے اپنا ہمسایہ سمجھ کر ادا کرو۔ اگر ایسا کرو گے تو یہی چیز ہے جس سے معاشرہ میں امن، پیار اور صلح قائم ہو گی۔ یہی چیز جب صحیح طرح قائم ہو جائے تو پھر ملک کی ترقی کا بھی ذریعہ بن جاتی ہے۔ یہ چیز نہ صرف تمہاری بہتری کے لیے ہے بلکہ مجموعی طور پر ملک بھی اس سے ترقی کرتا ہے۔ یہ ہماری سوچ ہے اور اس لحاظ سے ہم ہر جگہ جماعت احمدیہ کے بارہ میں بتاتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
میں امید کرتا ہوں کہ اب اس مسجد کے بننے کے بعد احمدی اپنے رویوں کو، اپنے اخلاق کو، اپنی تعلیم کو مزید نکھار کر دنیا کے سامنےپیش کریںگے۔ اس معاشرہ، ماحول اور اس شہر کے لوگوں کے سامنے اور ہمسایوں میں تا کہ انہیں پتا لگے کہ حقیقی اسلامی تعلیم امن پیار اور صلح و آشتی کی تعلیم ہے۔ یہی وہ تعلیم ہے جس سے جہاں ہم اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے والے بن سکتے ہیں اس پر عمل کرکے وہاں لوگوں کے حق بھی ادا کرنے والے بن سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے سب احمدیوں کو جو یہاں رہتے ہیں اس با ت کی توفیق دےکہ وہ اور آپ لوگ صلح ،امن اور آشتی کا ایک سمبل بن جائیں۔ اس دعا کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں، شکریہ۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب چار بج کر دو منٹ پر ختم ہوا۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔
اس کے بعد مہمانوں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی معیت میں کھانا کھایا۔
بعد ازاں چار بج کر چالیس منٹ پر یہاں کے ریجنل ٹیلیویژن Regio TV کے نمائندہ Daniel Fink صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے انٹرویو لیا۔
صحافی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے سوال کیا کہ آپ کواس مسجد کے افتتاح پر کتنا فخر ہے؟
اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ
جہاں بھی ہم مسجد بنائیں وہاں ہم فخرمحسوس کر نے کے بجائے عاجزی اختیار کرتے ہیں۔ ہم اپنے قادرخدا کے سامنے سجدے میں گرتے ہیں کیونکہ اس نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا کہ ہم ایک عبادت کی جگہ ایک اور شہر میں قیام میں لائےہیں۔
صحافی نے اس کے بعد پوچھا کہ آپ کے نزدیک مسجد کی اہمیت کیا ہے؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جیسا کہ میں نے اپنے خطاب میں بھی بیان کیا تھا کہ مسجد کے قیام بلکہ مذہب کے دو مقصد ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ ایک ہی قادر و خالق خدا کی عبادت کی جائے یعنی جو حقوق اس خالق خدا کے ہیں انہیں سر انجام دیا جائے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ حقوق العباد بجا لائے جائیں۔ اور اسی مقصد کے لیے مساجد بنائی جاتی ہیں۔
صحافی نے پوچھا کہ آپ اس کے علاوہ دوسرے کلچرز سے رابطہ قائم کرنا چاہتے ہیں یعنی دوسرے کلچرز سے مل کر interreligious ملاقاتیں کرنا چاہتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
بالکل صحیح، یہ بات ضروری ہے۔ اس لیے ہم لوگ ہمیشہ تیار ہوتے ہیں کہ دوسروں سے بات چیت کی جائے، اسی لیے ہم بین المذاہب میٹنگز منعقد کرتے ہیں۔ اسی طرح کچھ سال قبل ہم نے انٹرنیشنل conference لنڈن میں منعقد کی تھی۔ اسی لیے ہم ہمیشہ اس کے لیے تیار رہتے ہیں کہ ہم مذاہب کے درمیان اور مختلف کلچرز کے درمیان اور سوسائٹی کے درمیان ایک رابطے کا پُل بحال کریں۔ اس طرح سے سب اپنی سوسائٹی میں امن اور محبت اور ہم آہنگی پیدا کرسکتے ہیں اور پھر اسی طرح پوری دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔
صحافی نے پوچھا کہ جیسا آپ نے فرمایا ہے کہ امن نہایت ہی ضروری ہے، تو آپ کی آئندہ کی امیدیں کیا ہیں؟
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
میں یہ بات اکثر کہتا رہتا ہوں۔ بلکہ ابھی ہی جلسہ سالانہ stuttgart کے خطاب میں بھی میں نے اس بات کا ذکر کیا کہ اگر ہم نے اپنے خالق کو نہیں پہچانا اور اگر ہم نے اس کے حقوق قائم نہیں کیے، اور اگر ہم نے حقوق العباد پر توجہ نہیں کی تو پھر آئندہ کی زندگی نہایت ہی تاریک معلوم ہوتی ہے۔ پھر کوئی بھی امیدیں نہیں رکھنی چاہئیں۔ لیکن اگر دنیا کے حالات آج کل دیکھے جائیں کہ کس طرح سے crises اور conflicts میں مبتلا ہے تو مجھے کوئی خاص امید نہیں۔
بعد ازاں پروگرام کے مطابق چار بج کر سینتالیس منٹ پر یہاں سے بیت السبوح فرنکفرٹ کے لیے روانگی ہوئی۔ راستہ میں کچھ دیر کےلیے ہوٹل LE VILLAGE رکے۔ بعد ازاں سفر جاری رہا۔ قریباً دو گھنٹہ سفر کے بعد آٹھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بیت السبوح تشریف آوری ہوئی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
بعد ازاں نو بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لا کر دو مرحومین مکرم محمد اصغر صاحب جرمنی اور بشارت علی صاحب ہالینڈ کی نماز جنازہ حاضر اور دو مرحومین مکرمہ آصفہ مشہود صاحبہ اور مکرم احمد نور صاحب کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
مرحوم محمد اصغر آصف صاحب کا تعلق جماعت HANNOVER سے تھا۔ ۳ ستمبر ۲۰۲۳ء کو بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کا نظام جماعت سے اچھا تعلق تھا۔ باقاعدگی سے چندہ جات ادا کرتے اور جماعتی پروگرام میں شامل ہوتے۔ شعبہ ضیافت میں بڑے شوق اور بھرپور طریق سے مدد کرتے آپ دھیمے مزاج کے مالک اور نہایت خوش خلق انسان تھے۔
مرحوم بشارت علی صاحب آف ہالینڈ مورخہ ۳۱؍ اگست ۲۰۲۳ء کو بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
آپ ۱۹۶۱ء میں کلاس والا ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ دو سال قبل ہالینڈ آئے تھے۔ نہایت شریف النفس، مخلص اور قربانی کرنے والے ایک با اخلاق انسان تھے۔ آپ محمد ارشد صاحب زعیم انصاراللہ جماعت بادسودن کے بڑے بھائی تھے۔
آصفہ مشہود صاحبہ زوجہ مکرم مشہود احمد صاحب (دارالصدر غربی لطیف ربوہ) نے ۵ جون ۲۰۲۳ء کو بعمر ۵۸ سال بقضائے الٰہی وفات پائی۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مرحومہ نے اپنے خاوند کی وفات کے بعد بڑی ہمت اور حوصلہ سے ہر مشکل کا مقابلہ کیا، سیکرٹری وقف نو، سیکرٹری صنعت و دستکاری، سیکرٹری تحریک جدید اور سیکر ٹری رسالہ مصباح کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔
مکرم احمد نور صاحب ابن مکرم شیر زمان صاحب (واہ کینٹ راولپنڈی) نے ۷ جون ۲۰۲۳ء کو ۹۹ سال کی عمر میں وفات پائی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم خوف خدا رکھنے والے نہایت صاف گو انسان تھے۔ ۷۸ سال کی عمر میں راہ حق کو قبول کر کے ایثار وقربانی کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ گائوں میں اکیلا احمدی گھرانہ ہونے کے باعث نہایت نامساعد حالات کا سامنا کیا مگر پائے ثبات میں ذرا لغزش نہ آئی۔ ایک پوتا محمد دانش فاروق صاحب واقف زندگی جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مرحومین سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے مرحومین کے ورثاء سے اظہار تعزیت فرمایا۔
بعد ازاں حضور انور نے تشریف لا کر نماز مغر ب و عشاء جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے آئے۔
مہمانوں کے تاثرات
آج کی اس تقریب میں شامل ہونے والے بہت سے مہمان اپنے جذبات اور تاثرات کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکے۔
یہاں بعض مہمانوں کے تاثرات پیش کیے جاتے ہیں۔
ایک خاتون مہمان آلِسّار حسّانی (Alissar Hassani) جن کا تعلق عرب ممالک سے ہے نے حضورِ انور کے خطاب کے اختتام پر بے اختیار عربی میں کہا ’تَکلّم عن وصایا الرسولﷺ‘ یعنی خلیفہ نے تمام وہ باتیں بیان فرمائی ہیں جن کی وصیت نبی کریم ﷺ نے فرمائی تھی۔ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خلیفہ کے خطاب سے میں بہت متاثر ہوئی ہوں کیونکہ خلیفہ نے صرف وہی باتیں بیان فرمائی ہیں جو نبی کریمﷺ نے بھی بیان فرمائی تھیں۔ میرے لیے تو ایک ہی اسلام ہے۔ مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے اور آج یہاں احمدیوں کے درمیان مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔ میری دلی خواہش ہے کہ مزید لوگ اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آشنا ہوں۔
خلیفہ کے خطاب میں سے سب سے ضروری بات مجھے یہ لگی ہے کہ خلیفہ نے بہت زور اس بات پر دیا کہ امن کو قائم کرنے کے لیے ہم سب کو جد و جہد کرنی چاہیے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کس طرح سے بیان کروں کہ خلیفہ کا اثر مجھ پر کتنا اچھا اور گہرا ہوا ہے۔
ایک مہمان اَیروِن وِیلنڈ (Ervin Wieland) نے کہا کہ اسلام احمدیت سے میرا ذرا بھی تعلق نہیں تھا مگر یہاں آکے مجھے بہت اچھا لگا ہے۔ آج میرا اسلام کے بارہ میں تصور مکمل طور پر بدل گیا ہے۔خلیفہ کا خطاب بہت اچھا تھا کیونکہ آپ کا خطاب ضرورتِ زمانہ کے مطابق تھا اور ان مسائل کے بارہ میں تھا جو آج ہمیں در پیش ہیں اور آپ کے خطاب میں ان کا حل بھی موجود ہے۔ خلیفہ کے خطاب میں سے سب سے اہم چیز مجھے یہ لگی ہے کہ ہم سب کو اکٹھے مل جل کر رہنا چاہیے ۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہے کہ آپ عورتوں کو بھی ہر کام میں شامل کرتے ہیں اور مسجد میں بھی عورتوں کے لیے جگہ ہے کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ آپ عورتوں کو ہر طرح سے خارج رکھتے ہیں۔خلیفہ ایک غیر جانبدارانہ شخصیت ہیں جو سیدھی اور سچی بات کرتے ہیں۔
ایک مہمان ڈاکٹر پِیٹر زَار (Dr. Peter Zaar) جو کہ Vice District Administrator ہیں اور سٹیج پر خطاب بھی کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب مجھے بہت پسند آیا ہے۔خلیفہ میں ایک خاص اور قوی کشش ہے اور آپ کو دیکھ کر فوراً یہ احساس ہو جاتا ہے کہ آپ ایک بہت خاص شخصیت ہیں۔گو میں آپ کی جماعت کا حصہ نہیں ہوں مگر خلیفہ سے ملنا میرے لیے بھی باعث فخر ہے۔
خلیفہ تمام لوگوں سے تعلقات کو بہت عمدگی سے قائم رکھنے والے وجود ہیں اور اس بات کا انداز ہ مجھے اس لیے بھی ہوا ہے کہ خلیفہ نے اپنے خطاب میں اپنے سے پہلے مقررین کی باتوں کو اپنے خطاب میں شامل فرمایا ہے۔خلیفہ نے آسان اور عمدہ زبان استعمال فرمائی جس کی وجہ سے آپ کی باتوں کو سمجھنا بھی آسان تھا۔ پہلی دفعہ مجھے مسلمانوں کی مجلس میں ان کی تمام باتوں اور تعلیمات کی سمجھ آئی ہے۔
ایک مہمان کارل (Karl B) جو کہ پروٹسٹنٹ پادری ہیں انہوں نے کہاکہ مجھے آج سے پہلے جماعت کا تعارف نہیں تھا مگر آج سے میرا جماعت کے ساتھ تعلق شروع ہوتا ہے۔خلیفہ سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔خلیفہ کا خطاب بھی مجھے بہت پسند آیا ہے کیونکہ اس میں مضامین کی وسعت بہت تھی اور خلیفہ نے اپنے خطاب میں اپنے سے قبل مقررین کی باتوں کو شامل کر کے ان کی بھی عزت افزائی فرمائی۔یہ بات مجھے بہت اچھی لگی ہے۔خلیفہ کا خطاب ہم عیسائیوں کے لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے ذریعہ معاملات کے نئے زاویے کھلتے ہیں۔ حالانکہ میں ایک عیسائی ہوں پھر بھی خلیفہ کے خطاب میں تعظیم محسوس ہوئی۔مجھے عورتوں کے حقوق والی بات اچھی لگی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اس تعلیم پر عمل بھی کیا جا رہا ہوگا۔
ایک خاتون مہمان پَیتغَا حَیْفنَا (Petra Häffner) جو کہ صوبائی پارلیمنٹ کی ممبر ہیں اور سٹیج پر خطاب بھی کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خلیفہ سے ملنا ایک بہت ہی خاص تجربہ ہے اور ایسا اعزاز روز نصیب نہیں ہوتا۔ میں اس بات سے حیران ہوئی ہوں کہ آپ کی آمد پہ آپ کی کشش سے ہال بھر گیا تھا۔لیکن اس سے بھی زیادہ میں خلیفہ کے خطاب سے متاثر ہوئی ہوں۔اگر خلیفہ کے خطاب پر صحیح طرح عمل کیا جائے تو دنیا بھر میں امن قائم ہو سکتا ہے۔
جب خلیفہ نے خطاب فرمایا تو میرے پاس لکھنے کے لیے صرف اپنی تقریر کا کاغذ تھا تو میں نے اس پر ہی خلیفہ کے خطاب میں سے کچھ فقرے لکھ لیے اب میں سمجھتی ہوں کہ وہ اتنے زبردست ہیں کہ ان کو بڑا کر کے شائع کرنا چاہیے۔ مثلاً آپ نے قرآن کی تعلیم بیان فرمائی کہ یہ رنگ و نسل اور قومیں صرف پہچان کے لیے بنائی گئی ہیں یا وہ حدیث جو خلیفہ نے بیان فرمائی ہے کہ تین بیٹیوں کو اچھی تعلیم دینے والا باپ جنت میں داخل ہوگا۔ میں سمجھتی ہوں کہ ان سب باتوں کی اشاعت اور تبلیغ دنیا بھر میں کی جانی چاہیے اور ہر مذہب کی بنیاد ایسی باتیں ہی ہونی چاہئیں۔مجھے آپ کے خطاب میں سے یہ بات بھی بہت پسند آئی کہ ہم امن صرف تب ہی قائم کر سکیں گے اگر ہم مل کر اس کے لیے کوشش بھی کریں گے۔ ورنہ امن قائم نہیں ہوگا۔
ایک مہمان کرِستِیَان بَیرگ مَن (Christian Bergman) جو کہ ایک سوشل ورکر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں خلیفہ کی شخصیت اور خطاب سے بہت متاثر ہوا ہوں۔آپ کا خطاب لمبا نہیں تھا اور آپ نے ہمارے بارہ میں نہیں بلکہ ہم سے خطاب فرمایا ہے۔ خلیفہ بہت open ہیں اور انہوں نے اپنے خطاب میں اپنے سے قبل مقررین اور دیگر مذاہب کی باتوں کو بھی شامل فرمایا ہے۔ اس سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔بحیثیت سوشل ورکر ہونے کے میرے لیے یہ بات بہت حیران کن اور عمدہ تھی کہ اسلام نے ہمسائیگی کو چالیس گھرانوں پر وسعت دی ہے۔خلیفہ کو میں ذاتی طور پر نہیں جانتا نہ میں آپ سے پہلے ملا ہوں مگر آپ سے مل کر یہ لگتا ہے کہ آپ ایک ایسی شخصیت ہیں جن سے انسان زندگی کے مختلف امور پر بات کر سکتا ہے اور بہت کچھ سیکھ سکتا ہےاور یہ بہت اچھی بات ہے۔
ایک مہمان جو کہ چرچ کے نمائندہ تھے انہوں نے کہا کہ مجھے یہاں کسی سے بھی تعارف نہ تھا اور میں بس یونہی اس مجلس میں شامل ہوا تھا کہ دیکھتے ہیں یہ کیسی مجلس ہوگی۔ اب میں خلیفہ کے خطاب سے بہت متاثر ہو گیا ہوں اور مجھے آپ کی بیان فرمودہ باتیں بہت پسند آئی ہیں۔مجھے یہ بات خاص طور پر پسند آئی ہے کہ خلیفہ نے بار بار حصول تعلیم پر زور دیا اور عورتوں میں بھی اس کی اہمیت کو واضح فرمایا ہے۔یہ پیغام میں اب عیسائیوں کو بھی دیا کروں گا۔ مجھے یہ بات بھی بہت پسند آئی ہے کہ خلیفہ نے اپنے ماننے والوں کو بھی نصیحت فرمائی ہے کہ آپس میں مل کر رہنا ہے اور ایسے رہنا ہے کہ جرمنی میں مزید یکجہتی پیدا ہو۔بحیثیت چرچ کا نمائندہ میں ان تمام باتوں سے متفق ہوں جو خلیفہ نے اپنے خطاب میں بیان فرمائی ہیں۔
ایک خاتون مہمان کَتیہ میولر (Katja Müller) جو کہ ایک مقامی سیاستدان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہے کہ مجھے بھی مدعو کیا گیا اور خلیفہ سے ملنے کا اعزاز دیا گیا ہے۔ خلیفہ کے خطاب سے میں بہت متاثر ہوئی ہوں۔ خلیفہ نے جماعت کی جو تعلیمات اپنے خطاب میں بیان فرمائی ہیں۔ میں سمجھتی ہوں ان سب کو ایک نمائش کی شکل میں شائع کرنا چاہیے ۔
خلیفہ کے خطاب میں سے مجھے خاص طور پر یہ بات پسند آئی ہے کہ ہم سب کو انفرادی طور پر اور قومی طور پر بھی امن اور سلامتی کے ساتھ اکٹھے رہنا چاہیے ۔ اسی طرح خلیفہ نے جو عورتوں کے حقوق کے بارہ میں بیان فرمایا ہے وہ بھی مجھے بہت اچھا لگا ہے۔
ایک مہمان کَلاؤس یُورگِنس (Klaus Jurgens) نے کہا کہ خلیفہ کے خطاب کا مجھ پر اور میری اہلیہ پر بہت گہرا اثر پڑا ہے کیونکہ خلیفہ کی باتوں میں ایک تازگی محسوس ہوئی ہے۔میں خلیفہ کے طرزِ خطاب سے بھی بہت متاثر ہوا ہوں کیونکہ آپ نے اپنے سے پہلے مقررین کی باتوں کو صرف سنا ہی نہیں بلکہ ان کی باتوں کو اتنے کم وقت میں اپنے خطاب کا بھی حصہ بنا لیا۔اس سے خلیفہ کی متاثرانہ دانائی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔مجھے یہ بات بھی پسند آئی ہے کہ خلیفہ نے ضروری اور اہم امور کو صرف بیان نہیں فرمایا بلکہ لوگوں کو ان باتوں پر عمل کرنے کی طرف بھی بلایا ہے۔ خلیفہ نے عورتوں کے حقوق کے بارہ میں جو تعلیم بیان فرمائی ہے اس سے میں حیران ہو گیا ہوں کیونکہ جو تصور مجھے اس بارہ میں پہلے تھا یہ اس سے بالکل الٹ تھا۔خلیفہ کے خطاب میں سےمجھے خاص طور پر یہ بات پسند آئی ہے کہ آپس میں اچھے تعلقات قائم کرنے چاہئیں اور ایک دوسرے سے عزت سے پیش آنا چاہیے۔ یہ امور میرے لیے ذاتی طور پر بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ مجھے یہ بات بھی بہت اچھی لگی ہے کہ خلیفہ نے اس بات کی بھی وضاحت فرمادی کہ یہ سب نیک اخلاق کسی انسان کی ایجاد نہیں بلکہ مذہب کے ذریعہ انسان نے سیکھے ہیں۔
ایک مہمان بَین ڈِکت پَاؤلو وِچ B(Benedikt Paulowitsch)h جو کہ مقامی میئر ہیں اور انہوں نے سٹیج پر تقریر کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ خلیفہ کا تشریف لانا میرے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ خلیفہ ایک ایسی شخصیت محسوس ہوتے ہیں جو زمانہ کی ضرورت کی پہچان اور انسانوں کی اصل ضرورت کی گہری سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ خاص طورپر محتاج لوگوں کی۔میں سمجھتا ہوں کہ خلیفہ جیسی شخصیات کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ لوگوں، مذاہب اور قوموں کے درمیان تعلقات کو قائم کریں اور دنیا کو بہتر کریں۔مجھے یہ بات اچھی لگی ہے کہ خلیفہ نے عورتوں کی تعلیم پر بھی بات کی اور اس کی ضرورت کو بھی بیان فرمایا ہے۔یہ صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ عیسائیوں کے لیے بھی بہت اہم پیغام ہے۔خلیفہ کو جب میں نے دیکھا تو دل میں ایک احترام اور عزت پیدا ہوئی مگر جب آپ سے گفتگو کرنے کا موقع ملا تو پتا چلا کہ آپ خوش دل بھی ہیں اور مزاح بھی پسند کرتے ہیں اور آپ سے گفتگو کا موقع میرے لیے بہت ہی خوبصورت تھا۔ایک طرف خلیفہ روحانیت میں بہت اعلیٰ درجہ پر ہیں مگر دوسری طرف آپ ہمدرد اور خوش اخلاق بھی ہیں۔ اس لیے آپ سے ملنا میرے لیے بہت خاص اور نایاب موقع تھا۔
ایک مہمان وَنزِک (Wanzeck) جو کہ چرچ کے نمائندہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ خلیفہ کا خطاب بہت دلچسپ تھا اور خلیفہ کے الفاظ سے نئی اور اچھی امید پیدا ہوتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس ملک کے لیے بھی اور سب دنیا کے لیے بھی زمین کو ایسے ہموار کررہے ہیں تاکہ ہر قسم کے لوگ آپس میں امن کے ساتھ رہ سکیں۔اس لیے خلیفہ کا خطاب میرے لیے ایک اچھا پیغام اور good news ہے۔خلیفہ کا خطاب امید کا پیغام اپنے ساتھ لایا ہے۔خلیفہ ایک باوقار شخصیت ہیں۔ آپ کی تشریف آوری پر ہال کا ماحول مکمل طور پر بدل گیا۔مجھے یہ بات اچھی لگی ہے کہ آپ نے تیار شدہ خطاب نہیں پڑھا بلکہ ضرورتِ حال کے مطابق خطاب فرمایا۔
ایک مہمان خاتون نے کہا کہ خلیفہ سے ایک بہت خاص کیفیت ظاہر ہوتی ہے اور مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا ہے۔ آپ کے خطاب کے تمام الفاظ میرے دل میں نقش ہوگئے۔
ایک مہمان مَاؤرِیتسِیُو ترِی غی لِیا(Maurizio Trigilia) نے کہا کہ خلیفہ سے ایک امن اور سکون کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے۔ آپ ایک بہت open انسان ہیں اور میں آپ کے وجود سے بہت متاثر ہوں۔ آپ کے ذریعہ سے میری اسلام کی جو تصویر ہے کافی بہتر ہوگئی ہے۔
ایک خاتون مہمان نے کہا کہ میں اتفاق سے آج آگئی تھی مگر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ میں آئی ہوں۔ خلیفہ کا وجود نہایت دلچسپ ہے اور مجھے بہت پسند آیا ہے کہ آپ نے ہر شخص کا نام لےکر اس کا شکریہ ادا کیا۔ میں آپ کی جماعت سے ضرور رابطہ میں رہوں گی۔
ایک مہمان نے کہا کہ میں خلیفہ کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں خلیفہ کی اس بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ ہم سب جنگوں جیسی آفات کے خود ذمہ دار ہیں۔ خلیفہ کا خطاب پُرمعارف اور پر حکمت تھا۔
ایک مہمان اُوْوے (Uwe) نے کہا کہ خلیفہ ہر ہفتے خطبات کے ذریعہ سے نصائح فرماتے ہیں۔ آپ لوگوں کی خوش قسمتی ہے کہ آپ کا ایک امام ہے جو آپ کو بھٹکنے سے محفوظ رکھتا ہے اور آپ کی ہر ہفتے راہنمائی فرماتا ہے۔ ہم امام نہ ہونے کی وجہ سے منتشر ہیں۔ اس تقریب میں ایک پُر سکون فضا تھی اور تمام کارکنان کے چہروں پر مسکراہٹ تھی اور وہ خوش اسلوبی سے پیش آرہے تھے۔
ایک مہمان نے کہاکہ آپ کے امام کا خطاب جامع تھا۔ آنحضور ﷺ کی بیان کردہ حدیث تین بیٹیوں کی اعلیٰ تعلیم وتربیت کرنے کے متعلق مجھے بہت پسند آئی کیونکہ میری اپنی بھی تین بیٹیاں ہیں۔
ایک مہمان حَنڈِ یَوْ س (Handios) جو کہ پروٹسٹنٹ ہیں، نے کہاکہ مجھے بہت اچھا لگا کہ مسلمانوں کی طرف سے ہی ایک طبقہ نے بعض اسلامی تعلیمات پر روشنی ڈالی۔ یہ مسلمان فرقو ں کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ ہم جیسوں کو بتائیں کہ اسلام میں شدت پسندی نہیں ہے بلکہ اسلام اچھی اور عظیم تعلیمات پیش کرتا ہے۔
ایک مہمان بَنٹِل مَن فَریڈ (Bantel Manfred) نے کہا کہ خلیفہ کا اندازِ بیان بہت ہی اچھا ہے۔ آپ کے خلیفہ خاموش طبع معلوم ہو تے ہیں۔ آ پ کے امام کے خطاب نے میرے بہت سے سوالات حل کر دیے ہیں۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ انہوں نے اتنے کم الفاظ میں اپنا موقف کس طرح پیش کر لیا۔ ممکن ہے کہ یہ مقدس لوگوں کا ایک خاص وصف ہو۔
ایک خاتون مہمان آئس نِش دَورَوتھی E(Eisnish Dorothee)e جو کہ ایک پادری ہیں نے کہا کہ آپ کے خلیفہ کا بہت ہی اعلیٰ خطاب تھا۔ مجھے خطاب سن کر بہت لطف آیا مگر افسوس اس بات کا ہے کہ بہت کم مسلمان ہیں جو اس طرح اپنے دین کو پیش کرتے ہیں۔ میں امید کرتی ہوں کہ پریس نے بھی اس پیغام کو سنا ہو گا تاکہ اسلام کی یہ اعلیٰ تعلیم عام عوام تک بھی پہنچے۔