نمازوں سے متعلق بعض مسائل
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۷؍ جنوری ۲۰۱۷ء)
… رکوع میں بعض لوگ شامل ہوتے ہیں۔ سوال پوچھتے ہیں کہ رکعت ہو جاتی ہے؟ عموماً تو ہر ایک کو پتا ہے، بچپن سے ہی بتایا جاتا ہے یعنی کوئی لیٹ آیا ہے۔ رکوع میں شامل ہو گیا تو اس کی رکعت ہو گئی۔ اس بات کا ذکر آیا کہ جو شخص جماعت کے اندر رکوع میں آ کر شامل ہو اس کی رکعت ہوتی ہے یا نہیں۔ (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جو دوسرے علماء بیٹھے تھے ان سے دوسرے مولویوں کی رائے دریافت کی۔ مختلف اسلامی فرقوں کے مذاہب نے اس امر کے متعلق کیا بیان کیا ہے وہ پتا کیا۔) آخر حضرت صاحب نے فیصلہ دیا اور فرمایا کہ ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ لَا صَلوٰۃَ اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَاب۔کہ آدمی امام کے پیچھے ہو یا منفرد ہو، ہرحالت میں اس کو چاہئے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے مگر ٹھہر ٹھہر کر پڑھے تا کہ مقتدی سن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے۔ یا (امام کے بارے میں ہدایت کر رہے ہیں کہ) ہر آیت کے بعد امام اتنا ٹھہر جائے کہ مقتدی بھی اس آیت کو پڑھ لے۔ بہرحال مقتدی کو یہ موقع دینا چاہئے کہ وہ سن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے۔ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے کیونکہ وہ اُمّ الکتاب ہے۔ لیکن جو شخص باوجود اپنی کوشش کے جو وہ نماز میں ملنے کے لئے کرتا ہے آخر رکوع میں آ کر ملتا ہے اور اس سے پہلے نہیں مل سکا تو اس کی رکعت ہو گئی اگرچہ اس نے سورۃ فاتحہ اس میں نہیں پڑھی۔ کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس نے رکوع کو پا لیا اس کی رکعت ہو گئی۔ مسائل دو طبقات کے ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ مسائل دو طبقات کے ہوتے ہیں۔ ایک جگہ تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تاکید کی کہ نماز میں سورۃ فاتحہ ضرور پڑھیں وہ اُمّ الکتاب ہے اور اصل نماز وہی ہے مگر جو شخص باوجود اپنی کوشش کے اور اپنی طرف سے جلدی کرنے کے رکوع میں ہی آ کر ملا ہے تو چونکہ دین کی بنا آسانی اور نرمی پر ہے۔ (دوسرا یہ بھی حکم ہے کہ دین میں آسانی اور نرمی ہے) اس واسطے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی رکعت ہوگئی۔ گو سورۃ فاتحہ کا ذکر نہیں ہے بلکہ دیر میں پہنچنے کے سبب رخصت پر عمل کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرا دل خدا نے ایسا بنایا ہے کہ ناجائز کام میں مجھے قبض ہو جاتی ہے۔ (یعنی دل رکتا ہے) اور میرا جی نہیں چاہتا کہ میں اسے کروں اور یہ صاف ہے کہ جب نماز میں ایک آدمی نے تین حصوں کو پورا پا لیا اور ایک حصہ میں بسبب کسی مجبوری کے دیر میں مل سکا تو کیا حرج ہے۔ انسان کو چاہئے کہ رخصت پر عمل کرے۔ ہاں جو شخص عمداً سستی کرتا ہے اور جماعت میں شامل ہونے میں دیر کرتا ہے تو اس کی نماز ہی فاسد ہے۔ (الحکم 24 فروری 1901ء صفحہ 9 جلد 5 نمبر 7)
پھر سورۃ فاتحہ کے بارے میں مزید کہ امام کے پیچھے پڑھنی چاہئے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑی سختی کے ساتھ اس بات پر زور دیتے تھے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ پڑھنی ضروری ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی فرماتے تھے کہ باوجود سورۃ فاتحہ کو ضروری سمجھنے کے مَیں یہ نہیں کہتا کہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی کیونکہ بہت سے بزرگ اور اولیاء اللہ ایسے گزرے ہیں جو سورۃ فاتحہ کی تلاوت ضروری نہیں سمجھتے تھے اور مَیں ان کی نمازوں کو ضائع شدہ نہیں سمجھ سکتا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کہتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حنفیوں کا عقیدہ ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کو خاموش کھڑے ہو کر اس کی تلاوت کو سننا چاہئے اور خود کچھ نہیں پڑھنا چاہئے اور اہلحدیث کا یہ عقیدہ ہے کہ مقتدی کے لئے امام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے اور حضرت صاحب اس مسئلہ میں اہل حدیث کے مؤید تھے مگر باوجود اس عقیدے کے آپ غالی اہلحدیث کی طرح یہ نہیں فرماتے تھے کہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول حصہ دوم صفحہ 334-335 روایت نمبر 361)
منشی رستم علی صاحب کے ایک سوال کے جواب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خط میں تحریر فرمایا کہ نماز مقتدی بغیر سورۃ فاتحہ بھی ہو جاتی ہے مگر افضلیت پڑھنے میں ہے۔ اگر کوئی امام جلد خواں ہو تو ایک آیت یا دو آیت جس قدر میسر آوے آہستہ پڑھ لیں۔ (اگر وہ امام جلدی جلدی پڑھ رہا ہے تو پیچھے پڑھنے والے ایک یا دو آیتیں جو بھی پڑھ سکتے ہیں پڑھ لیں لیکن) جو مانع سماعت قراءت امام نہ ہو۔ (یعنی اتنی اونچی نہیں پڑھنی کہ تم لوگ امام کی بات نہ سن سکو۔) اور اگر میسر نہ آ سکے تو مجبوری ہے۔ (اگر نہیں پڑھ سکتے تو مجبوری ہے۔ امام کی تلاوت تو تم نے بہرحال سننی ہے تو) نماز ہو جائے گی مگر افضلیت کے درجہ پر نہیں ہو گی۔‘‘(مکتوبات احمدؑ جلد 2 صفحہ 467 مکتوب نمبر 20 بنام منشی رستم علی صاحبؓ)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضور کی خدمت میں سورۃ الحمد خلف امام پڑھنے کے متعلق (امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ، سورۃ حمد پڑھنے کے بارے میں ) سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ ’’قراءت سورۃ الحمد خلف امام بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اگر نہ پڑھا جائے تو نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟ فرمایا کہ نماز تو ہو جاتی ہے مگر افضل تو یہی ہے کہ اَلْحمد خلف امام پڑھا جاوے۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر بِدُوں سورۃ الحمد خلف امام نماز نہ ہوتی ہو تو حنفی مذہب میں بڑے بڑے صالح لوگ گزرے ہیں وہ کس طرح صالح ہو جاتے۔ (بہت بزرگ گزرے ہیں جو نہیں پڑھتے تھے اس کے قائل نہیں تھے۔) فرمایا کہ نماز دونوں طرح سے ہو جاتی ہے۔ فرق صرف افضلیت کا ہے۔ ایسا ہی آمین بالسرّ پر آمین بالجہر کو ترجیح دی جاتی تھی۔‘‘(سیرت المہدی جلد دوم حصہ چہارم صفحہ 153 روایت نمبر 1210) پیر سراج الحق روایت کرتے ہیں کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم ایک دفعہ فرماتے تھے کہ ایک شخص سیالکوٹ یا اس کے گرد و نواح کا رہنے والا تھا اور ہر روز ہم اس کو امام کے پیچھے نماز میں اَلْحمد پڑھنے کو کہتے تھے اور ہم اپنی دانست میں تمام دلیلیں اس بارے میں دے چکے مگر اس نے نہیں مانا اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ امام کے پیچھے نہ پڑھی اور یوں نماز ہمارے ساتھ پڑھ لیتا۔ ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں قادیان آ گیا۔ ایک روز اسی قسم کی باتیں ہونے لگیں۔ صرف حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ نماز میں اَلحمد شریف امام کے پیچھے پڑھنی چاہئے اور کوئی دلیل قرآن شریف یا حدیث شریف سے بیان نہیں کی۔ وہ شخص اتنی بات سن کر امام کے پیچھے نماز میں اَلحمد شریف پڑھنے لگا اور کوئی حجت نہیں کی۔
ایک شخص نے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے) سوال کیا کہ جو شخص نماز میں اَلْحمد امام کے پیچھے نہ پڑھے اس کی نماز ہوتی ہے یا نہیں؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ سوال نہیں کرنا چاہئے کہ نماز ہوتی ہے یا نہیں؟یہ سوال کرنا اور دریافت کرنا چاہئے کہ نماز میں الحمد امام کے پیچھے پڑھنا چاہئے کہ نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ضرور پڑھنی چاہئے۔ نماز کا ہونا یا نہ ہونا تو خدا تعالیٰ کو معلوم ہے۔ حنفی نہیں پڑھتے اور ہزاروں اولیاء حنفی طریق کے پابند تھے اور خلف امام اَلْحمد نہیں پڑھتے تھے۔ جب ان کی نماز نہ ہوتی تو وہ اولیاء اللہ کیسے ہو گئے؟ فرمایا کہ چونکہ ہمیں امام اعظم سے(امام ابو حنیفہ سے) ایک طرح کی مناسبت ہے۔ اور ہمیں امام اعظم کا بہت ادب ہے ہم یہ فتویٰ نہیں دے سکتے کہ نماز نہیں ہوتی۔ اس زمانے میں تمام حدیثیں مدوّن و مرتب نہیں ہوئی تھیں اور یہ بھید جو کہ اب کھلا ہے نہیں کھلا تھا۔ اس واسطے وہ معذور تھے۔ اور اب یہ مسئلہ حل ہو گیا اب اگر نہیں پڑھے گا تو بیشک اس کی نماز درجہ قبولیت کو نہیں پہنچے گی۔ ہم یہی بار بار اس سوال کے جواب میں کہیں گے کہ اَلْحمد نماز میں خلف امام پڑھنی چاہئے…(تذکرۃ المہدی حصّہ اول صفحہ 179-180)