گدلے پانیوں کی اندھی ڈولفن
جہاں صنعتی انقلاب کو انسانی ترقی کے استعارہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے وہیں اس کے مضمرات سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس انقلاب نے ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جس کے نتیجے میں کئی نوع کی حیات یا تو ناپید ہو چکی ہیں یا اپنی بقاء کی جدو جہد میں تباہی کے دھانے پر کھڑی ہیں۔
اس کی ایک بڑی مثال انڈس ریور یعنی دریائے سندھ میں پائی جانے والی اندھی ڈولفن بھی ہے۔جنیاتی طور پر ڈولفن کی یہ قسم اندھی نہیں تھی لیکن بڑھتی ہوئی آلودگی اور دریا کے گدلے رتیلے پانی کے سبب اس نے رفتہ رفتہ اپنی بینائی کھو دی۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر نے اندھی ڈولفن کی اس نایاب نسل کو درپیش خطرات کی بدولت ریڈ لسٹ میں شامل کیا ہوا ہے۔
دریائے سندھ میں پائی جانے والی اندھی ڈولفن اپنی نوعیت کی واحد قسم ہے جو صرف پاکستان میں ہی پائی جاتی ہے۔
اس سے ملتی جلتی قسم دریائے گنگا اور بنگلہ دیش میں بھی ملتی ہے۔ بنیادی طور پر ڈولفن سمندری مخلوق ہے لیکن کروڑوں سال قبل وسط ایشیا کی ٹیکٹانک پلیٹس کے آپس میں ٹکرانے سے وادی سندھ سمندر سے الگ ہوئی تو ڈولفن کی ایک بڑی تعداد بھی سمندر سے الگ ہو گئی۔ بعد ازاں ان ڈولفن نے وہاں موجود دریاؤں کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنالیا۔ اس طرح نسلاً بعد نسلٍ یہ میٹھے پانی میں رہنے والی ڈولفن کی نسل کے طور پر ڈھل گئی اور گدلے پانیوں کی بدولت اپنی بینائی کھو دی۔
گو کہ ان کی آنکھوں کے حلقے تو موجود ہیں مگر ان میں لینس نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہ رات اور دن میں فرق کر سکتی ہیں۔ بینائی کھو دینے سے ڈولفن کو زیادہ فرق نہیں پڑا کیونکہ وہ پانی میں نقل و حرکت کے لیے ’’ایکو لوکیشن‘‘ کا استعمال کرتی ہیں۔
یعنی آواز کی لہروں سے پانی میں راستہ اور خوراک تلاش کرنے کے علاوہ دوسری ڈولفن سے رابطہ میں رہتی ہیں۔ہائی فریکوئنسی کی حامل لہریں اس کے سر کے سامنے کے حصہ سے خارج ہوتی ہیں۔ جب یہ لہریں اشیاء سے ٹکرا کر واپس آتی ہیں تو ڈولفن کے دماغ میں اس چیز کی ہیئت، سمت، فاصلہ،جسامت وغیرہ کی مکمل تصویر بن جاتی ہے اور یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم اپنی کھلی آنکھوں سے کوئی چیز دیکھ رہے ہوں۔
ڈولفن کا شمار انسانوں کے بعد ذہین ترین مخلوق میں ہوتا ہے اور انسانوں کے علاوہ یہ واحد جاندار ہے جو ایک دوسرے کو نام سے بلاتی ہیں۔
سندھی میں اسے ’’بلھن‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ممالیہ جانور ہے جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہے۔ ان کی خوراک میں مچھلیاں اورجھینگے وغیرہ شامل ہیں۔ان کی آبادی کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ دریائے سندھ پر متعدد ڈیم بننے سے بھی ان کی آبادی منقسم ہوئی ہے جو کہ چند سال قبل ایک سروے کے مطابق مجموعی طور پر ۱۸۰۰ کے لگ بھگ ہے جو مرور زمانہ مسلسل کم ہو رہی ہے۔
(م۔ظفر)
اسلام علیکم ورحمہ اللہ
الحمد اللہ الفضل کی پوری ٹیم بہت عمدہ کا کر رہی ہے۔اور خلیفہ وقت کی بہترین ترجمان ہے۔ یوں تو ہر مضمون اپنی مثال آپ ہے۔اسجگہ خاکسار دو مضامین کے حوالے سے ذکر کروں گا ایک جو آج کے شمارے میں شایع ہوا(گدلے پانیوں کی اندھی ڈولفن) دوسرا (کلوڈ سیڈنگ )کے حوالے سے چند روز قبل شایع ہوا تھا۔دونوں مضامین معلومات سے بھرپور اور دل کو چھو جانے والے تھے۔اللہ تعالیٰ مضمون نویس م ظفر صاحب کو مزید توفیق دیتا چلا جاے۔اسی انکی مختصر ماخوذ بھی بہت عمدہ ہوتے ہیں۔میں انکو ذاتی طور پر تو نہیں جانتا مگر الفضل کے ایک قاری ہونے کے واسطے ایک تعلق ان سے جڑا ہوا ہے۔
والسلام
خاکسار
ناصر محمود
کینیا