سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی (۶؍ستمبر ۲۰۲۳ء بروز بدھ)
٭…حضور انور سے ملاقات کرنے والے بعض احباب جماعت کے تاثرات
٭… ہم MTAپر جب حضور انور کو دیکھتے ہیں تو وہ اصل کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔اتنا نور ہے کہ اس کیفیت کا اظہار ممکن نہیں
٭… حضور انور کو دیکھ کر ایسا سکون ملا کہ ساری تھکاوٹ دور ہوگئی
حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پانچ بج کر پچاس منٹ پر تشریف لا کرنماز فجر پڑھائی۔نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
صبح حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، رپورٹس اور خطوط ملاحظہ فرمائے اور ہدایات سے نوازا اور مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
پروگرام کے مطابق سوا گیارہ بجے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔
آج پروگرام کے مطابق ۴۱؍ فیملیز کے ۱۳۹؍ افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ ان سبھی فیملیز اور احباب نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضور انور نے ازارہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور طالبات کوقلم عطا فرمائےاور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
آج ملاقات کرنے والوں میں جرمنی کی دو جماعتوں ’بیت السبوح NORD‘ اور DIETZENBACH کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک بینن، بورکینا فاسو، غانا، مالی (MALI)، سینیگال، ترکی، انڈیا، ٹوگو، چاڈ، گیمبیا، آئیوری کوسٹ ،شارجہ اور پاکستان سے آنے والی فیملیز اور احباب شامل تھے۔
ان ملاقات کرنے والوں میں بہت سی فیملیز اور احباب ایسے تھے جو اپنی زندگیوں میں پہلی بار اپنے آقا سے شرف ملاقات پا رہے تھے اور اپنے آقا کے دیدار سے فیضیاب ہو رہے تھے۔
٭…ملاقات کرنے والوں میں ایک نوجوان ہود احمد ساحل صاحب بورکینا فاسو سے آئے تھے۔اُن کی یہ پہلی ملاقات تھی ۔یہ بیان کرتے ہیں کہ میرا تو جسم کانپ رہا تھا۔آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔ملاقات کےبعد دل کو بہت تسلّی ہوئی۔حضور انور نے میری پڑھائی کی بابت دریافت فرمایا اور مجھے قلم عطا فرمایا۔
٭…سینیگال سے آنے والے مجیب الرحمٰن صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہماری زندگی کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ پاکستان سے ملاقات کے لیے آنے کا تو ہم تصوّر بھی نہیں کر سکتے تھے۔اللہ تعالیٰ ہمیں افریقہ لے گیا اور پھر وہاں سے ملاقات کے لیے آنا ممکن ہوا ہے۔ ہمارے لیے جذبات کا بیان تو ممکن نہیں ہے۔ بہت ہی روحانی ماحول تھا۔میرے اور میری اہلیہ کے پورے خاندان نے حضور انور کی خدمت میں سلام اور دعا کی درخواست بھجوائی تھی اس طرح وہ سب بھی اس ملاقات میں شامل ہوگئے۔
٭…بینن سے آنے والے احمد علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ ان کی زندگی کی پہلی ملاقات تھی۔ ہم MTAپر جب حضور انور کو دیکھتے ہیں تو وہ اصل کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔اتنا نور ہے کہ اس کیفیت کا اظہار ممکن نہیں۔حضور انور نے ازراہ شفقت میرے بیٹے کی آمین بھی کروائی۔
٭…پاکستان سے آنے والے ایک دوست مظفر احمد چیمہ صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج میری زندگی کی پہلی ملاقات تھی۔ مجھ سے تو بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔نور ہی نور تھا۔چہرہ مبارک دیکھنے کو دل ترستا تھا۔آج حضور کو قریب سے دیکھ کر دل مطمئن ہوگیا۔ حضور انور نے ازراہ شفقت قلم عطا فرمایا اور شہد تبرک کرکے عنایت فرمایا۔
٭…بورکینا فاسو سے آنے والے ایک نوجوان مرزا ایقان احمد طاہر صاحب نے بیان کیا کہ آج کی ملاقات ایک عظیم روحانی تجربہ تھا جو بیان سے باہر ہے۔ اندر جاتے ہی میری کیفیت بدل گئی تھی۔حضور انور نے مجھے ازراہ شفقت قلم عطا فرمایا۔ میں میڈیکل کا طالبعلم ہوں۔حضور انور نے میری راہنمائی فرمائی کہ جس فیلڈ میں زیادہ دلچسپی ہے اس میں سپیشلائزیشن کرلوں۔حضور انور نے مجھے بے شمار دعائوں سے نوازا۔
٭…بینن سے آنے والے ایک نوجوان ابرا رالحق صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب جلسہ پر حضور انور کو دیکھا تو بہت خوشی ہوئی۔ مگر زیادہ قریب سے نہیں دیکھ پایا۔ اب آج قریب سے دیکھ کر دل کو بہت سکون ملاہے۔ حضور انور نے میری پڑھائی کی بابت دریافت فرمایا اور مجھے دعائوں سے نوازا۔
٭…رضوان کوثر صاحب جو کہ غانا سے آئے تھے بیان کرتے ہیں کہ یہ ان کی اور فیملی کی پہلی ملاقات تھی۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے کہنے لگے کہ MTA پر دیکھنے اور اصل میں دیکھنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بہت حسین اور پُر نور چہرہ ہے۔ حضور انور نے ازراہ شفقت انگوٹھیاں تبرک کرکے عنایت فرمائیں۔میں نے ایک جائے نماز بھی تبرک کروا یا۔ حضور انور نے ازراہ شفقت بیٹی کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھا اور بےشمار دعائوں سے نوازا۔
٭…عبد السلام صاحب جرمنی کی جماعت گروس گیرائو (GROSS GERAU) سے اپنی پوری فیملی کے ساتھ آئے تھے۔ موصوف ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید کے بیٹے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ملاقات کا احوال الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے ایک انسان بہت پیاسا ہو اور وہ اچانک سامنے چشمہ کو دیکھ لے۔ میری ہمشیرہ کی شادی ہے اس کے لیے اور اس کے میاں کے لیے حضور انور نے ازراہ شفقت انگوٹھیاں تبرک کرکے عطا فرمائیں۔ حضور انور نے ازارہ شفقت مجھے بھی اور میری اہلیہ کے لیے بھی انگوٹھیاں تبرک کرکے عطا فرمائیں۔حضور انور نے بہت شفقت فرمائی۔بہت پیار دیا اور اپنا بہت سا قیمتی وقت عنایت فرمایا۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام دوپہر دو بجے تک جاری رہا۔
بعد ازاں حضور انور نے تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
پروگرام کے مطابق چھ بجے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔
آج شام کے اس سیشن میں ۴۰؍ فیملیز کے ۱۳۳؍ افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔
ملاقات کرنے والی یہ فیملیز اور احباب جرمنی کی مختلف ۲۸ جماعتوں سے آئے تھے۔ ان میں سے بعض بڑے طویل سفر طے کر کے پہنچے تھے۔ جماعت RENNINGEN سے آنے والے ۲۰۰ کلومیٹر، TRIER سے آنے والے ۲۰۱ ؍ کلومیٹر، STUTTGART سے آنے والے ۲۱۵؍ کلومیٹر اور جماعت BOCHUM سے آنے والے ۲۲۵؍ کلومیٹر کا سفر طے کر کے پہنچے تھے۔ جبکہ MUHLHEIMسے آنے والے ۲۴۴ کلومیٹر، HERFORDسے آنے والے ۳۱۱؍ کلومیٹر اور DRESDEN سے آنے والے احباب اور فیملیز ۴۴۸؍ کلومیٹر کا لمبا سفر طے کرکے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کے لیے پہنچی تھیں۔
ملاقات کرنے والے ان سبھی احباب اور فیملیز نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور طالبات کو قلم عطا فرمائےاور چھوٹی عمر کے بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
آج شام کے اس سیشن میں بھی ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ سے مل رہے تھے۔
٭…گجرات پاکستان سے آنے والے ایک دوست عدنان احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور کو دیکھ کر ایمان کی حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ انسان سب کچھ بھول جاتا ہے۔ بس خدا کا وجود نظر آنے لگتا ہے۔ ہمارا گھر جرمنی میں مسجد سے دور تھا۔ میری اہلیہ کی بہت خواہش تھی کہ ہمارا گھر مسجد کے پاس ہو تو حضور انور کی آمد کی برکت سے ہمیں یہاں اپنے گائوں میں مسجد کے لیے جگہ مل گئی ہے۔ الحمد للہ۔ اب ہمیں مسجد کے لیے زیادہ دور نہیں جانا پڑے گا۔
٭…ایک دوست مبارک احمد صاحب جن کا تعلق جماعت آفن باخ سے ہے انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار رکرتے ہوئے کہا کہ حضور انور کا چہرہ بہت روشن تھا۔ہمیں بہت سکون ملا۔ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ حضور انور کو دیکھ کر ایسا سکون ملا کہ ساری تھکاوٹ دور ہوگئی۔
٭…فیصل آباد پاکستان سے آنے والے ایک دوست محمد ہارون صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا۔ ٹی وی میں حضور کو دیکھتے تھے اور سوچتے تھے کہ کاش ہمیں بھی کبھی ملاقات نصیب ہوگی۔ آج ہمیں یہ سعادت نصیب ہوئی ہے۔ فیصل آباد میںمَیں کپڑے کا کاروبار کرتا تھا۔حضور انور نے فرمایا: میں یہاں بھی کپڑے کا کاروبار شروع کروں۔اب ان شاء اللہ یہی کام کروں گا۔
٭…ایک نوجوان نعیم احمد صاحب جن کا تعلق ٹھٹھہ جوئیہ ضلع سرگودھا سے ہے بیان کرتے ہیں کہ جذبات پر کنٹرول نہیں تھا۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا ہورہا ہے۔جو باتیں کرنی تھیں وہ ہم بھول گئے۔ خلیفہ وقت کا جو وجود ملاقات میں نظر آتا ہے وہ TV دکھا ہی نہیں سکتا۔
٭…ایک نوجوان اشعر ساجد صاحب جن کا تعلق پاکستان میں ناصر آباد سے ہے بیان کرتے ہیں کہ میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ دل کی دھڑکن تیز ہوگئی تھی۔ حضور نے ہم سے بہت ساری باتیں کیں۔حضور نے ہماری بیٹی کو پیار دیا۔
٭…محمد قیصر صاحب جو ربوہ سے جرمنی آئے تھے بیان کرتے ہیں کہ یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں جو اس کیفیت کو بیان کر سکیں۔ ہم اپنے والدین کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں اس جماعت پر قائم رکھا۔ یقین نہیں آرہا کہ ہماری ملاقات ہوگئی ہےمیرا بڑا بیٹا بولتا نہیں ہے۔ میں نے حضور انور سے دعا کی درخواست کی تو حضور نے فرمایا کہ ’’یہ اب بولے گا‘‘ان شاء اللہ۔ اب ہمیں یقین ہے کہ حضور انور کی دعا سے یہ اب بولنے لگے گا۔ ان شاء اللہ
٭…پاکستان سے آنے والے ایک نوجوان محمد دانش طاہر صاحب کی زندگی کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ کہنے لگے کہ میں بہت EXCITEDتھا، بہت نروس تھا۔ حضور انور کا چہرہ دیکھ کر مجھے بہت سکون ملا۔
٭…راجہ عتیق احمد صاحب جو ایک سال قبل ربوہ سے جرمنی آئے تھے بیان کرتے ہیں کہ میری حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے آج یہ پہلی ملاقات تھی حضور انور نے بہت پیار دیا اور بہت شفقت فرمائی اور میری اہلیہ کو انگوٹھی تبرک کر کے دی۔ہم بہت خوش قسمت ہیں اور بہت خوش ہیں۔ربوہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک دوست سلیم احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ آج یہ ہماری پہلی ملاقات تھی اور ایک ناقابل یقین تجربہ تھا۔ جب چھوٹے بیٹے نے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا تو اس نے بتایا کہ مجھے ایسا لگا جیسے چاند زمین پر آگیا ہو۔ حضور انور نے بہت شفقت فرمائی اور ہمیں تحفے عطا فرمائے۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام شام سوا آٹھ بجے تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضور انور کچھ دیر کے لیے اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
نو بجے حضور انور نے تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔