وراثت کے معاملہ میں ہمیشہ قول سدید سے کام لینا چاہیے
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہیں کرتے، وراثت کے حقوق اور ان کا شرعی حصہ نہیں دیتے۔ اب بھی یہ بات سامنے آتی ہے برصغیر میں اور جگہوں پر بھی ہوگی کہ عورتوں کو ان کا شرعی حصہ نہیں دیا جاتا۔ وراثت میں ان کو جو ان کا حق بنتاہے نہیں ملتا۔ اور یہ بات نظام کے سامنے تب آتی ہے جب بعض عورتیں وصیت کرتی ہیں تو لکھ دیتی ہیں مجھے وراثت میں اتنی جائیداد تو ملی تھی لیکن مَیں نے اپنے بھائی کو یا بھائیوں کو دے دی اور ا س وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ اب اگر آپ گہرائی میں جا کر دیکھیں،جب بھی جائزہ لیا گیا تو پتہ یہی لگتاہے کہ بھائی نے یا بھائیوں نے حصہ نہیں دیا اور اپنی عزت کی خاطر یہ بیان دے د یا کہ ہم نے دے دی ہے۔یا کبھی ایسا بھی ہو جاتاہے کہ بھائی یادوسرے ورثاء بالکل معمولی سی رقم اس کے بدلہ میں دے دیتے ہیں حالانکہ اصل جائیداد کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ تو ایک تو یہ ہے کہ وصیت کرنے والے،نظام وصیت میں شامل ہونے والے،ان سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تقویٰ کے اعلیٰ معیار کی امید رکھی ہے اس لئے ان کو ہمیشہ قول سدید سے کام لینا چاہئے اور حقیقت بیان کرنی چاہئے کیونکہ جو نظام وصیت میں شامل ہیں تقویٰ کے اعلیٰ معیار اور شریعت کے احکام کوقائم کرنے کی ذمہ داری ان پر دوسروں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ اس لئے جو بھی حقیقت ہے، قطع نظر اس کے کہ آپ کے بھائی پر کوئی حرف آتاہے یا ناراضگی ہو یا نہ ہو، حقیقت حال جو ہے وہ بہرحال واضح کرنی چاہئے۔تا کہ ایک تو یہ کہ کسی کا حق مارا گیا ہے تو نظام حرکت میں آئے اور ان کو حق دلوایاجائے۔ دوسرے ایک چیز جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دی ہے شریعت کی رُو سے اس سے وہ اپنے آپ کو کیوں محروم کررہی ہیں۔اور صرف یہی نہیں کہ اپنے آپ کو محروم کررہی ہیں بلکہ وصیت کے نظام میں شامل ہو کے جو ان کا ایک حصہ ہے اس سے خداتعالیٰ کے لئے جو دینا چاہتی ہیں اس سے بھی غلط بیانی سے کام لے کے وہاں بھی صحیح طرح ادائیگی نہیں کر رہیں۔تو اس لئے یہ بہت احتیاط سے چلنے والی بات ہے۔وصیت کرتے وقت سوچ سمجھ کر یہ سار ی باتیں واضح طورپر لکھ کے دینی چاہئیں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳؍جون ۲۰۰۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۸؍اگست ۲۰۰۳ء)