الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت سیّدہ سرور سلطا ن بیگم صاحبہؓ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر1 میں مکرمہ حفصہ فردوس انوری صاحبہ کے قلم سے حضرت سیّدہ سرور سلطان بیگم صاحبہؓ بیگم حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحبؓ کی سیرت شامل اشاعت ہے۔
آپؓ حضرت مو لوی غلام حسن خان صاحب پشاوریؓ کی صاحبز ا دی تھیں جو کہ نہا یت عا بد و زا ہد بز ر گ تھے اور حضورؑ کے ساتھ بڑا اخلاص اور عقیدت رکھتے تھے۔ حضو رؑ نے ان کے بارے میں فرمایا: ’’حُبی فی اللہ مولوی غلام حسن صاحب پشاوری اس وقت لودھیانہ میں میرے پا س مو جود ہیں۔ محض ملاقا ت کی غر ض سے پشا ور سے تشر یف لا ئے ہیں۔ میں یقین رکھتا ہوںکہ وہ وفادار مخلص ہیںاور لَا یَخَافُوۡنَ لَوْمَۃَ لَائِمٍ میں داخل ہیں۔جوش ہمدردی کی راہ سے دو روپیہ ما ہوا ری چندہ دیتے ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ وہ بہت جلد للّٰہی را ہوں اور دینی معارف میں تر قی کر یں گے کیو نکہ فطرت نورا نی رکھتے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہا م حصہ دوم، صفحہ ۵۴۰)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب حضرت مولوی غلام حسن صاحبؓ کے خاندان میں اپنے بیٹے کا رشتہ کرنے کا ارادہ کیا تو آپؑ نے جو خط بھجوایا، اس میں تحریر فرمایا:’’اس سے پہلے اخویم مولوی عبدالکریم صاحب نے برخوردار محمود احمد کے رشتہ ناطہ کے لیے عام دوستوں میں تحریک کی تھی اور آپ کے خط کے پہنچنے سے پہلے ایک دوست نے اپنی لڑکی کے لیے لکھا اور محمود نے اس تعلق کو قبول کرلیا۔بعد اس کے آج تک میرے دل میں تھا کہ بشیر احمد، اپنے درمیانی لڑکے، کے لیے تحریک کروں جس کی عمر دس برس کی ہے اور صحت اور متانت، مزاج اور ہر ایک بات میں اُس کے آثار اچھے معلوم ہوتے ہیں اور آپ کی تحریر کے موافق عمریں بھی باہم ملتی ہیں۔ اس لیے یہ خط آپ کو لکھتا ہوں اور مَیں قریب ایّام میں اس بارہ میں استخارہ بھی کروں گا اور بصورت رضامندی یہ ضروری ہو گا کہ ہمارے خاندان کے طریق کے موافق آپ لڑکی کو ضروریات علمِ دین سے مطلع فرما دیں اور اس قدر علم ہو کہ قرآن شریف باترجمہ پڑھ لے، نماز اور روزہ اور زکوٰۃ اور حج کے مسائل سے باخبر ہو اور نیز با آ سانی خط لکھ سکے اور لڑکی کے نام سے مطلع فرما دیں۔‘‘
حضور اقدسؑ کا والا نامہ پہنچنے پر جناب مولوی صاحبؓ نے اس تعلق کو اپنی بہت بڑی سعادت سمجھا اور اپنی رضامندی کا خط لکھ دیا۔ چنانچہ حضرت میاں بشیر احمدصاحبؓ کا نکاح حضرت سیّدہ سرور سلطان بیگم صاحبہؓ کے ساتھ حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ نے ۱۲؍ستمبر۱۹۰۲ء کو پڑھایا۔ اس موقع پر بعض احباب کو بھی حضورؑ نے باہر سے بلایا ہوا تھا۔ حضورؑ نے بہت اعلیٰ قسم کے چھوہارے تقسیم کرنے کے لیے امرتسر سے منگوائے تھے اور حاضرین کے لیے چائے کا بھی انتظام فرمایا تھا۔ اخبار الحکم کے ایڈیٹر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ترابؓ نے اخبار کا ایک خاص نمبر شائع کیا جس میں اس بابرکت تقریب کی تمام کیفیت تفصیل کے ساتھ رقم فرمائی۔
۱۹۰۶ء میں جبکہ حضرت میاں صاحبؓ کی عمر۱۳برس کی ہو گئی تو حضرت مسیح موعودؑ نے آپؓ کی شادی کر دی۔ بارات ۱۰؍مئی کی صبح حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی قیادت میں روانہ ہوئی اور۱۶؍مئی کو واپس پہنچی۔ حضرت مرزا محمود احمد صاحبؓ، حضرت مولوی سیدسرور شاہ صاحبؓ، مکرم خواجہ کمال الدین صاحب اور کئی دیگر بزرگ بھی ہمراہ گئے۔
اﷲ تعالیٰ نے اس جوڑے کو سات بیٹے اور چار بیٹیاں عطا فرمائیں جن میں سے دو بیٹے صغر سنی میں فوت ہوگئے۔
حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ فرماتی ہیں کہ منجھلی بھابی جان بیاہ کر آئیں تو نہ معاشرت نہ طور طریق نہ وضع لباس وغیرہ نہ زبان کچھ بھی مشترک نہ تھا۔پھر نادان کم عمر تھیں۔ اگر تعلقات بگاڑنے والی ہوتیں تو بگڑ سکتے تھے۔مگر ایسی خوش اسلوبی سے نبھایا کہ ایسے نمونے ملنے مشکل ہیں۔
آپؓ خود بتاتی تھیں کہ میری عمر بہت چھوٹی تھی جب بیاہ کر قادیان آ گئی تھی۔میرے والد اس قدر اور با ر بار تاکید حضرت اقدسؑ کے احترام کے بارے میں کرتے کہ جب بھی حضورؑ تشریف لائیں تو تم نے احتراماًکھڑے ہونا ہے، ہر بار، اور اگر واپس جاتے وقت پھر پلٹ کر واپس ہوئے ہیں تو دوبارہ کھڑے ہونا ہے۔ یہ تاکید اتنی دفعہ کی کہ میرے لیے بتانا مشکل ہے۔چنانچہ جب حضورؑ پہلی بار ہمارے کمرے میں تشریف لائے تو اس وقت مَیں چارپائی پر ہی کھڑی ہوگئی۔ حضورؑ مسکرا کر باہر تشریف لے گئے۔
صاحبزادی امۃالرشید صاحبہ لکھتی ہیں کہ حضرت امّاں جانؓ قادیان میں روزانہ صبح کو سیر کے لیے جاتیں تو راستے میں مختلف گھروں میں رُک کر سلیقہ طریقہ صفائی ستھرائی کی تلقین کرتیں۔ حضرت چچی جان اُمّ مظفرصاحبہؓ بھی کبھی ساتھ ہوتیں۔اُن کو صفائی ستھرائی کا جنون کی حد تک شوق تھا۔وہ گھروں میں خود بستر ٹھیک سے بچھواتیں۔ چارپائیاں کسواتیں، چیزیں ٹھیک طرح رکھواتیں بلکہ خود کرنے لگتیں۔ اماں جانؓ تو کہا کرتیں کہ سرور سلطان کو وہم کی حد تک صفائی کی عادت ہے۔ حضرت چچی جانؓ بہت مخیّر تھیںلیکن نہایت ہی سادہ۔ پٹھانوں کا بہت ہی خیال رکھتی تھیں۔ان کے ہاں کئی پٹھان لڑکے پڑھنے کے لیے ٹھہرے ہوئے تھے۔ان کے لیے اُسی طرز کے ٹرے، کپ، چائے دانیاں رکھی ہوتیں۔ اسی طرح جو پٹھان گھرانے قادیان میں آباد تھے یا جو بچے بورڈنگ میں رہتے تھے ان کا بھی خیال رکھتیں۔آپؓ فارسی بولتی تھیں۔حضرت امّاں جیؓ حرم حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وفات پر فارسی میں ایک مضمون لکھا کیونکہ آپؓ ان سے بہت محبت کرتی تھیں۔ جب قادیان میں آپؓ نئی نئی آئی تھیں تو جب گھبراتیں تو اُن کے ہاں چلی جاتیں۔ سردیوں میں سبز چائے ہروقت تیار رہتی جسے اماں جیؓ کے گھر بھجوا دیتیں اور گرمیوں میں سوڈا واٹر بھجواتیں۔آپؓ قادیان کے لوگوں سے اس طرح گھل مل گئی تھیں کہ جیسے وہاں کی ہی پلی بڑھی ہوں۔ فارسی بولنے والے ایک پٹھان گھرانے سے بہت دوستی تھی۔حضرت لال پریؓ ان کا نام تھا۔
محترم مرزا مظفراحمد صاحب لکھتے ہیں: امّاں کا حضرت اماں جانؓ سے گہری عقیدت اوراحترام کا تعلق تھا۔ ناشتے اور دوسرے کاموں سے فارغ ہوکر قریباََروزانہ دوپہر کے کھانے تک اماں جانؓ کی پاکیزہ صحبت میں وقت گزارتیں۔حضرت اماں جانؓ فرمایا کرتیں کہ میرے دل میں سرور سلطان کی بہت قدر ہے یہ میرے بیٹے کا بہت خیال رکھتی ہیں۔
امّاں نماز، روزہ، تلاوت قرآن کریم کی سختی سے پابند تھیں۔ ان کی ان عبادات کے سینکڑوں نظارے میرے بچپن کے ایّام سے ہی میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔
امّاں اپنے ہاتھ سے کام بڑے شوق سے کرتیں۔ ہمارے بچپن کے ایام میں قادیان کی زندگی بڑی پُرسکون اور سادہ تھی۔ سکول جانے سے پہلے خود بچوں کے لیے ناشتہ تیار کرتیں۔ چائے پراٹھوں کے ساتھ یا رس بکرم کے ساتھ۔چولہے کے اردگرد پیڑھیوں پر بیٹھے ہمیں ناشتہ کراتیں اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتیں۔چولہا مٹی کا ہوتا تھا جس میں لکڑی جلتی تھی اور یہ عمل بڑی محنت چاہتا تھا، لکڑی اکثر گیلی ہوتی اور باورچی خانہ دھوئیں سے بھر جاتا تھا۔بچوں کی بیماری میں ان کا بہت خیال رکھتیں،دوائی پلاتے وقت یَا شَافِی یَا کَافِی کچھ اس سوز اور درد سے کہتیں کہ ان کی یہ دعائیہ آواز آج برسوں بعد بھی دوائی کھاتے وقت میرے کانوں میںگونج جاتی ہے۔
آپؓ نے غریب خواتین کا ہمیشہ خیال رکھا۔غریبوں کے گھروں میں ان کا حال احوال پوچھنے،ان کی دلجوئی اور تسلی کے لیے ان کے برابر بیٹھ جاتیں۔ ان کی ضرویات کو حتی الوسع پوری کرنے کی کوشش کرتیں۔ آپؓ نے کئی یتیم بچوں کی پرورش کی۔کئی لوگوں کی خبرگیری کو اپنی ذمہ داری بنالیا۔ غریب بچوں کی شادیاں کروائیں اور بیماروں کا علاج کروایا۔
محترمہ امۃالقیوم ناصرہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ آپؓ حضرت اماں جانؓ کے رنگ میں رنگین تھیں۔ اٹھنا بیٹھنا، لباس، وضع قطع حضرت اماں جانؓ کی اپنائی۔تنگ پائجامہ اورکرتہ ہمیشہ آپؓ نے پہنا۔آپؓ حضرت اماں جانؓ کا بےحد احترام کرتیں۔ساس بہو لگتی نہ تھیں۔ حضرت اماں جانؓ کے ساتھ آپؓ کے دل کے تار جڑے ہوئے تھے۔ آپؓ اپنے گھر، بچوں اور میاں کے ساتھ محو اور خوش تھیں۔گھر سادہ اور خوب صاف ستھرا رکھتیں۔ اپنی بہوؤں کا بہت خیال رکھتیں۔ اپنا کام معمول کے مطابق خود کرلیتیں، بہوؤں پر نہ ڈالتیں۔چھوٹی بہو اسی گھر کی بالائی منزل پر رہتیں، وہ کھانے کے وقت نیچے آجاتے۔ کبھی آپؓ اوپر دیکھنے نہیں گئیں کہ بہو کیا کر رہی ہے،کس طرح رہتی ہے۔ کبھی تجسّس نہیں کیا۔ کبھی کسی بہو کا شکوہ نہیں کیا۔ ان کا گھر خوشیوں کا گہوارہ تھا۔ آپؓ حضرت میاں صاحبؓ کے لباس کا خود خیال رکھتیں۔نوکروں پر یا بچوں پر نہ چھوڑتیں۔کبھی پریشان حال نہیں دکھائی دیتی تھیں۔ خاموشی کے ساتھ دعاؤں میںمصروف رہتیں۔گھر کے پاکیزہ ماحول میں حضرت میاں صاحبؓ بھی بہت خوش تھے۔ بچوں کے ہلکے پھلکے مذاق میں شریک ہو کر دونوں ان کے ساتھ ہنستے مسکراتے۔دونوں میاں بیوی کی محبت مثالی تھی گویا ایک جان دوقالب کی طرح تھے۔ایک کو تکلیف ہوتی تو دوسرے کی حالت دیکھ کرایسا لگتا کہ بیمار سے زیادہ تکلیف میں ہے۔میاں صاحبؓ بیمار ہیں تو حضرت بی بی صاحبہؓ ان کے ہسپتال جانے کی تیاری کے ساتھ ساتھ رو بھی رہی ہیں اور دعائیں بھی کر رہی ہیں۔ حضرت میاں صاحبؓ کا حضرت بیگم صاحبہؓ کی بیماری میں یہ حال تھا کہ الفضل میں دعا کے لیے درد بھرے اعلان دیتے اور نہایت انکساری سے دعا کی درخواست کرتے۔
حضرت میاں صاحبؓ سب کی تر بیت کا بہت خیا ل رکھتے۔ آپؓ آنحضرتﷺ پر دل و جان سے قربان تھے اور آپؐ کے مبا رک نام کے ساتھ ’’فداہٗ نفسی‘‘لکھا کرتے تھے۔ایک دن مَیں اپنے بیٹے طا ہر احمد کے سا تھ آپ کے گھر گئی، حضرت مصلح موعودؓ کے حوالے سے بیٹے نے پوچھا کہ کیا حضور سب سے بڑے ہیں؟ مَیں نے جواب دیا: نہیں، حضرت مسیح مو عودؑ سب سے بڑے ہیں۔ حضرت میاں صاحبؓ نے فوراً فرمایا: بیٹا! تمہاری امی تمہیں غلط بتا رہی ہیں۔حضرت مسیح موعودؑ بڑے نہیں ہیں، وہ توآنحضورﷺ کے ادنیٰ خادم ہیں۔ …
مکرم سُودے خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپؓ پانچ وقت نمازکی بےحد پابند تھیں۔ پہلے پہل پانی منگوا کر وضو کر لیا کرتی تھیں۔لیکن جب بیماری بڑھی تو پھر مکہ معظمہ کی پاک مٹی سے بھری ہوئی ایک تھیلی منگوالی اور اسی پر ہاتھ مار کر تیمم کر لیا کر تی تھیں اور بیٹھ کر یا بستر پر لیٹے لیٹے ہی نماز پڑھ لیا کرتی تھیں۔لیکن باوجود اتنی سخت بیماری کے کبھی بھی اور کسی بھی حالت میں نماز نہ چھوڑتی تھیں۔آپؓ گھر میں کام کرنے والی عورتوں اور ملاقات کی خاطر آنے والی خواتین کے لیے مشعلِ راہ تھیںاور آپؓ کے اعلیٰ کردار کی وجہ سے سب ہی نماز کی پابندی کیا کرتیں۔ آپؓ خود بھی موصیہ تھیں اور آپؓ کی تحریک پر میری والدہ اور خالہ نے بھی وصیت کر لی تھی۔ آپؓ چندے وقت پر ادا کرتیں۔ رمضان میں روزے رکھواتیں اور افطاری کا اہتمام کرتیں تو ہر ایک کی ضرورت کو مدّنظر رکھتیںموسم کے پیش نظر مشروبات کا انتظام کرواتیں۔ گھر میں سب کے نماز پڑھنے کا انتظام کرنا۔ سردیوں میں نمازوںکے وقت سب کمرے اور برآمدہ نمازیوں سے پُررونق ہو جاتے اور گرمی کے موسم میں باہر صحن میں نمازیوں کی نمازوں کا پُرکیف اور روح پرورسماں ہوتا۔رمضان میں آپؓ ہمیں باقاعدگی سے مسجد مبار ک میں نمازِ تراویح کے لیے اور دوپہر کو درس قرآن کے لیے بھجواتیں۔ الغرض بہت ہی روح پرور ماحول تھا جو کبھی بھی بھلایا نہیں جا سکتا۔
جلسہ سالانہ کے دوران آپؓ حضرت اُمّ ناصرؓ کے ساتھ مہمان نوازی کی خدمت سرانجام دیا کرتی تھیں۔
۳۱؍ جنوری اور یکم فروری ۱۹۷۰ء کی درمیانی شب کچھ دن کی بیماری کے بعد وفات پائی۔ تیسرے حصہ کی موصیہ تھیں چنانچہ آپؓ نے بیش قیمت جائیداد پیش کی۔
………٭………٭………٭………