مشرقی افریقہ کا ایک اہم ملک تنزانیہ
جغرافیائی طور پر دنیا اس وقت سات بر اعظموں پر مشتمل ہے جن کی کل آبادی آٹھ ارب ہے۔رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ایشیا سب سے بڑااور آسٹریلیا سب سے چھوٹا بر اعظم ہے۔براعظم افریقہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔دنیا کے کل رقبے کا ۲۰؍ فیصدافریقن ممالک پر مشتمل ہے اور آبادی کا تناسب ۱۸؍ فیصد ہے (افریقہ کی کل آبادی ایک ارب تیس کروڑ ہے )۔براعظم افریقہ ۵۴؍ ممالک پر مشتمل ہے جو کسی بھی بر اعظم میں شامل ممالک کی تعداد میں سب سے زیادہ ہے۔ان ۵۴؍ ممالک میں سے ۳۲؍ ممالک ایسے ہیں جو ساحل سمندر پر واقع ہیں۔ جبکہ ۱۶؍ ممالک ساحل سمندر سے دور ہیں جنہیں Land Locked Countriesکہا جاتا ہے۔باقی چھ ممالک جزائر پر مشتمل ہیں۔رقبے کے لحاظ سے الجیریا افریقہ کا سب سے بڑا ملک ہے جبکہ Seychellesسب سے چھوٹا مگر سب سے امیر افریقی ملک ہے۔
بر اعظم افریقہ کو پانچ بڑے خطوں میں تقسیم کیا گیا ہے
٭…مغربی افریقہ
٭…مشرقی افریقہ
٭…شمالی افریقہ
٭…جنوبی افریقہ
٭…وسطی افریقہ
مشرقی افریقہ
اقوام متحدہ کے مطابق مشرقی افریقہ ۱۳؍ ممالک پر مشتمل ہے۔بعض جغرافیہ دان یہ تعداد ۱۹؍ بھی بیان کرتے ہیں۔لیکن ایسٹ افریقن کمیونٹی( EAC) کے مطابق مشرقی افریقہ میں بنیادی طور پر تین ممالک شامل ہیں یعنی تنزانیہ، کینیا اور یو گنڈا۔ EACنومبر ۱۹۹۷ء کوایک معاہدے کے تحت عمل میں آئی جبکہ اس کا باقاعدہ آغاز جولائی ۲۰۰۰ء میں ہوا۔اس کا مرکزی دفتر تنزانیہ کے شہر اروشا ( ARUSHA) میں قائم ہے۔ ۲۰۰۷ء میں رَوانڈا اور برونڈی کو بھی اس تنظیم میں شامل کر لیا گیا( یہ دونوں ممالک پہلے وسطی افریقہ میں شامل تھے)۔بعد ازاں جنوبی سوڈان اور کونگو کی شمولیت کے بعد اب اس تنظیم کے ممالک کی تعداد سات ہو گئی ہے۔
تنزانیہ مشرقی افریقہ کا ایک اہم ملک ہے۔اس کا کل رقبہ ۹۴۵,۰۸۷؍ مربع کلومیٹر اور آبادی تقریباً ساڑھے چھ کروڑ ہے۔جغرافیائی لحاظ سے یہ ۶.۳؍ ڈگری جنوب اور ۳۴.۸؍ ڈگری مشرق میں اور خط استوا سے ساڑھے چھ سو کلو میٹر دور جنوبی خطے میں واقع ہے۔سرکاری زبان سواحیلی ہے جبکہ کسی مذہب کو سرکاری درجہ حاصل نہیں۔حکومت مذہبی رواداری پر یقین رکھتی ہے اور اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کرواتی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تنزانیہ میں مسیحیوںکی اکثریت ہے مگر مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں اور مسیحیوںکی تعدادبرابر ہے۔بعض مسلمان تنظیمیں مسلمانوں کی اکثریت کا دعویٰ بھی کرتی ہیں۔تنزانیہ کے ہمسایہ ممالک میں، شمال میں یوگنڈا اور کینیا ہیں۔جنوب میں موزمبیق، ملاوی اور زیمبیا ہیں۔مغربی سرحد کونگو، روانڈا اور برونڈی سے ملتی ہےجبکہ مشرق میں بحر ہند ہے۔تنزانیہ میں تین بڑی اور تین چھوٹی جھیلیں ہیں۔دنیا کی دوسرے نمبر پر میٹھے پانی کی جھیل Lake Victoria ہے جو شمال میں تنزانیہ کوکینیا اور یوگنڈا سے علیحدہ کرتی ہے۔دوسری بڑی جھیل Lake Tanganyika ہے جو دنیا کی سب سے لمبی اور گہرائی میں دوسرےنمبر پر ہے۔یہ جھیل مغرب میں تنزانیہ کو کونگو سے علیحدہ کرتی ہے۔تیسری جھیل Lake Malawiہے جسےLake Nyasa بھی کہاجاتا ہے یہ تنزانیہ کو ملاوی سے جدا کرتی ہے۔تنزانیہ میں کل ۱۲۰؍ قبائل آباد ہیں۔
تنزانیہ کا پرانا نام ٹانگا نیکا تھا۔ٹانگا نیکا پر ۱۸۸۰ء سے ۱۹۱۹ء تک جرمن حکمران رہے۔پہلی جنگ عظیم کے بعد یعنی ۱۹۱۹ء سے لے کر۱۹۶۱ء تک یہ علاقہ برطانیہ کے قبضے میں رہا۔ ٹانگانیکا کو برطانیہ کے تسلّط سے آزاد کروانے کے لیے پہلی باقاعدہ تحریک ۱۹۵۴ء میں شروع ہوئی جب بابائے قومJulius Nyerereنے ٹانگانیکا افریقن ایسوسی ایشن (TAA) کی بنیاد رکھی۔اس سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں ٹانگانیکا پر ۹؍دسمبر ۱۹۶۱ء کو آزادی کا سورج طلوع ہوا۔
زنجبار جزیرہ(Zanzibar)
ٹانگا نیکا کے مشرق میں تقریباً ۷۴کلو میٹر دور بحر ہند میں زنجبار جزیرہ واقع ہے۔یہ جزیرہ دنیا بھر میں سیاحت کی وجہ سے مشہور ہے۔اس کے علاوہ اس کی وجہ شہرت spices (مصالحہ جات جیسے لونگ، کالی مرچ، دار چینی وغیرہ ) کی پیداوار ہے۔ زنجبار کا ذکر حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے ایک شعر میں یوں فرمایا ہے:
روشنی میں مہر تاباں کی بھلا کیا فرق ہو
گرچہ نکلے روم کی سرحد سے یا از زنگبار
زنجبار کا جزیرہ قدیم سے تجارت کا مرکز رہا ہے اور یورپی، ایشین اور عرب تاجر مختلف وقتوں میں بکثرت یہاں آتے رہے ہیں۔واسکوڈے گاما ۱۴۴۹ء میں زنجبار آیا اورچند سال بعد یہ جزیرہ پرتگالیوں کے قبضہ میں آ گیا۔۱۶۹۸ء میں سلطان آف عمان نے پُرتگالیوں کو شکست دے کر یہاں عرب سلطنت کاجھنڈا لہرایا۔۱۸۴۰ء میں سلطان نے اپنا دارالخلافہ مسقط سے زنجبار منتقل کر کے یہیں سکونت اختیار کر لی۔۱۸۹۰ء میں یہ علاقہ برطانیہ کے کنٹرول میں آگیا اگرچہ عمان کی بادشاہت کو بھی قائم رکھا گیا۔۱۲؍جنوری ۱۹۶۴ء میں ایک انقلاب کے ذریعہ سلطنت عمان کے آخری بادشاہ جمشید بن عبد اللہ کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور اس طرح یہاں پہلی جمہوری حکومت کا آغاز ہوا۔ ۲۶؍اپریل ۱۹۶۴ء کو ٹانگانیکا اور زنجبار کا الحاق ہو گیا۔
متحدہ سلطنت کا نیا نام
ٹانگا نیکا اور زنجبار کے الحاق کے بعد اس نئی سلطنت کا نام تجویز کرنے کے لیے جدوجہد آزادی کے ہیرو بابائے قوم معلم Julius Nyerere کی طرف سے دعوت عام دی گئی اور انعام کا اعلان بھی کیا گیا۔یہ مقابلہ موروگورو کے ایک احمدی طالب علم محمد اقبال ڈار نے جیت لیا اور نیانام تنزانیہ تجویز کیا۔یہ نیا نام اس طرح رکھا گیا:
TAN: TANGANYIKA
ZAN: ZANZIBAR
I: IQBAL
A:AHMADIYYA
مکرم اقبال ڈار صاحب آجکل برمنگھم ( انگلستان ) میں رہائش پذیر ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی عمر اور صحت میں برکت دے آمین۔
بابائے قوم معلم Julius Nyerere
بابائے قوم معلم جولئیس نریرے سوشلسٹ خیالات رکھتے تھے اور آزادی کے بعد کم و بیش تیس سال تک تنزانیہ سوشلزم کے چُنگل میں پھنسے رہے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں اس پالیسی میں تبدیلی آئی اور نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی شروع ہوئی۔اس کے نتیجے میں بڑے پیمانےپر کاروبار کو وسعت ملی اور نجی کمپنیوں اور انفرادی طور پر تاجروں نے اپنا سرمایہ لگانا شروع کر دیا۔
شیخ امری عبیدی صاحب
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ آزادی کی جدو جہد میں ایک نمایاں نام مکرم شیخ امری عبیدی صاحب کا ہے جو معلم Nyerereکے قریبی دوست اورہم جماعت تھے۔ یہ جامعہ احمدیہ ربوہ سے فارغ التحصیل تھے اور تنزانیہ میں جماعت احمدیہ کے مبلغ کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کی وجہ سے ملکی سیاست میں قابل احترام سمجھے جاتے تھے۔ مکرم امری عبیدی صاحب نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اجازت سے ملکی سیاست میں فعال کردار ادا کرنا شروع کر دیا اور جدوجہد آزادی میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ ٹانگانیکاکی آزادی کے بعد امری عبیدی صاحب دارالسلام کے پہلے میئر (Mayor) منتخب ہوئے، بعد ازاں پہلے وزیر انصاف بنے۔ امری عبیدی صاحب نہایت متقی، مخلص اور جاںنثار احمدی تھے۔ حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان رضی اللہ عنہ نے انہیں افریقہ کا ہیرا قراردیا۔ ایک مرتبہ جامعہ احمدیہ ربوہ میں طلبہ سے خطاب کے بعد ایک طالب علم نے حضرت چودھری صاحب سے سوال کیا کہ آپ دنیا بھر کی احمدی جماعتوں کا دورہ کرتے رہتے ہیں، بیرون ملک کس احمدی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تو حضرت چودھری صاحب نے امری عبیدی صاحب کا نام لیا۔’’تحدیث نعمت‘‘ میں حضرت چودھری صاحب نے تفصیلاً امری عبیدی صاحب کے بارے میں لکھا ہے۔ امری عبیدی صاحب ۱۹۶۴ء میں جوانی کی عمر میں وفات پا گئے۔ اس وقت ان کی عمر صرف چالیس برس تھی۔ تنزانیہ کے ایک بڑے شہر Arusha میں قائم ایک سٹیڈیم آپ کے نام سے منسوب ہے۔
ملکی سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ
تنزانیہ بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور زیادہ تر آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔ ملکی برآمدات میں بڑا حصہ زرعی پیداوار کا ہے جو کل ملکی پیداوا رکا تیس فیصد ہے اس میں کافی، تمباکو، کاجو (Cashew Nuts)، کاٹن، چائے، لونگ اور پٹ سن سر فہرست ہیں۔ دوسرے نمبر پر معدنیات ہیں جن میں سونا اور ہیروں کی برآمد ہے۔ دنیا کا معروف اور مہنگا ہیرا Tanzaniteصرف تنزانیہ سے برآمد کیا جاتا ہے۔ ملکی درآمدات میں سر فہرست پٹرولیم مصنوعات، عمارتی سامان، پام آئل اور ٹرانسپورٹ وغیرہ شامل ہیں۔ اگرچہ تنزانیہ کا شمار دنیا کے غریب ممالک میں ہوتاہے مگر اس کی GDP میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۲۱ءمیں جی ڈی پی ۴.۹؍ فیصد تھی جو ۲۰۲۳ء میں ۵.۷؍ فیصد ہے۔ یہاں تجارت کے وسیع مواقع ہیں ۔اس وقت مارکیٹ چائنا اور انڈیا کے قبضے میں ہے۔سیاسی استحکام اور مذہبی امن پسندی کی وجہ سے تنزانیہ کاروبار کے لیے بہت مناسب علاقہ ہے۔ انفراسٹرکچر میں تیزی سے بہتری لائی جا رہی ہے۔ تنزانیہ کی پہلی تیز رفتار ٹرین (Bullet Train) کا کام تقریباًمکمل ہو چکا ہے اوربہت جلد اس کا آغاز کر دیا جائے گا۔ ۲۰۲۳ء کے سروے کے مطابق فی کس آمدنی ۱.۳۴۸؍ ڈالر ہے۔ تنزانیہ کی کرنسی شلنگ ہے اور اس وقت ایک ڈالر تقریباً ۲۵۰۰؍ شلنگ کا ہے۔
انتظامی طور پر تنزانیہ کو ۳۱؍ صوبوں اور ۱۸۴؍ اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سیاسی طور پر اگرچہ بہت سی سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں اور انتخابات میں حصہ بھی لیتی ہیں مگر عملی طور پر تنزانیہ کی آزادی سے لے کر آج تک ایک ہی پارٹی کی بالادستی ہے اور وہ حکومتی پارٹی ہے جس کا نام CCM ہے۔ معلم نریرے نے ۱۹۵۴ء میں ٹانگا نیکا افریقن ایسوسی ایشن ( TAA) کے نام سے جو تنظیم بنائی تھی اور جس نے تحریک آزادی میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا ۱۹۵۴ء میں اسے ٹانگا نیکا افریقن نیشنل یونین ( TANU) کا نام دیا گیا۔ بعدازاں ۱۹۹۷ء میں TANUکو حکومتی پارٹی CCM میں ضم کر دیا گیا۔آجکل تنزانیہ کی صدر سمیعہ حسن ہیں جن کا تعلق حکومتی پارٹی سے ہے۔ وزیر اعظم قاسم ماجالیوا ہیں۔ تنزانیہ میں صدارتی سرپرستی میں پارلیمانی نظام قائم ہے۔ صدر کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹ سے ہوتا ہے۔ موجودہ صدر کا نام مکرمہ سمیعہ حسن صاحبہ ہے۔