دہشت گردی، شدّت پسندی اور احمدیوں پر ظلم (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۷؍ مارچ ۲۰۱۷ء)
مسلمانوں کی حالت بھی اس وقت عجیب ہوئی ہوئی ہے۔ ایک طرف تو نام نہاد مولویوں کا طبقہ ہے یا شدت پسند لوگوں کا طبقہ ہے جس نے جیسا کہ میں نے کہا ہر طرف اسلام کے نام پر اپنوں اور غیروں کے خلاف فساد برپا کیا ہوا ہے۔ اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اُن کے ردّ عمل کے طور پر یا مغربی اور دنیاداری کے اثر کے تحت مذہب سے لاتعلق ہیں۔ اعتماد سے اسلامی تعلیم کی خوبیوں کو بیان کرنے کے بجائے یا لاتعلق ہیں یا خوفزدہ ہیں۔ بعض چیزوں میں اسلامی تعلیم کی خوبیوں کو بیان کرنے کے بجائے اور دنیاداروں کی باتوں کو غلط کہنے کی بجائے ان کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں اور اسلامی تعلیم کی غلط توجیہیں اور وضاحتیں پیش کرتے ہیں کہ یہ نہیں، اس کا مطلب تو یہ تھا یا یہ تھا۔ ان لوگوں پر دنیا کا خوف اللہ تعالیٰ کے خوف پر غالب ہے۔ اسی طرح بعض سیاستدان حکمران ہیں۔ دین سے ان کا، لوگوں کا کچھ واسطہ نہیں ہے۔ وہ اگر مولوی سے متفق نہ بھی ہوں تو اپنی کرسی کے چِھن جانے کے خوف سے کہ کہیں مولوی لوگوں کوہمارے خلاف نہ بھڑکا دے یہ بزدلی اور اپنی دنیاوی اغراض کی وجہ سے جو اُن پر غالب آ جاتی ہیں، خاموش ہیں۔ گویا کہ مسلمانوں میں سے ہر وہ طبقہ جس نے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کا انکار کیا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں سے دُور چلا گیا ہے۔ چاہے وہ مذہب کے نام پر اپنی دکان چمکانے والے مولوی ہیں۔ الزام تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپؑ نے مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کر کے دکانداری بنائی ہوئی ہے لیکن حقیقت میں ان لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت کو آسان کمائی اور دکان چمکانے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ دلیل ان کے پاس ہے کوئی نہیں جس کی وجہ سے آپ اکثر دیکھیں گے کہ گالیاں ہی دیتے ہیں۔ بہرحال مذہب کے نام پر یہ دکانداری کرنے والا طبقہ ہے یا دنیاداری کی خاطر مذہب کو ثانوی حیثیت دینے والا طبقہ ہے یہ سب لوگ نام کے مسلمان ہیں۔ اسلام کی حقیقی تعلیم سے ان کا کوئی بھی واسطہ نہیں ہے۔
ایسے حالات میں احمدیوں کو سوچنا چاہئے کہ جب انہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے تو ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مخالفین نے ان پر ظلم تو کرنے ہی ہیں اور اسی طرح مذہب سے دور ہٹے ہوئے جو لوگ ہیں اور خدا تعالیٰ کا انکار کرنے والے جو ہیں انہوں نے بھی اس وقت ہماری مخالفت کرنی ہے جب ہم ان کی ان باتوں کے خلاف بات کریں گے جو وہ آزادی کے نام پر غلط باتیں کرتے ہیں یا قوانین بناتے ہیں، تب ان لوگوں نے ہمارے خلاف ہونا ہے۔ پس کیا ایسے میں ہم خوفزدہ ہو کر چپ ہو جائیں یا ایمانی کمزوری دکھاتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگ جائیں؟ اگر ہم نے بھی ایسا ہی کرنا ہے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا کیا فائدہ؟ ہمیں تو آپؑ نے آ کر یہ بتایا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق چلنا ہے اور اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی ہے۔ اپنے ایمان کو بھی ضائع نہیں کرنا اور فساد کو بھی پیدا نہیں ہونے دینا۔ اور ساتھ ہی یہ چیز بھی سامنے رکھنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا تک پہنچانا بھی ہے تا کہ توحید کا قیام ہو اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلایا جائے اور دنیا کی اکثریت اس تعلیم کی قائل ہو۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو ہماری راہنمائی فرمائی ہے اس کے مطابق چلو اور وہ یہ ہے کہ اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَالۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَجَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ (النحل:126)یعنی اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلا اور ان کے ساتھ ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو۔
پس تبلیغ کے لئے، اسلام کی خوبصورت تعلیم پھیلانے کے لئے، اسلامی احکامات کی حکمت بتانے کے لئے دلیل کے ساتھ بات کی ضرورت ہے نہ کہ اُس طرح جس طرح یہ آجکل کے نام نہاد علماء یا شدت پسند گروہ کر رہے ہیں۔ تلوار کے ساتھ اسلام پھیلانے کا اللہ تعالیٰ نے کہیں حکم نہیں دیا۔ پھر جو دنیا دار ممالک ہیں اور جو حکومتیں ہیں ان میں بھی بعض ایسی باتیں رائج ہو گئی ہیں یا ایسی باتوں کو قانون تحفظ دیتا ہے جن کی مذہب اجازت نہیں دیتا اور مذہب کے نزدیک وہ نہ صرف اخلاق سے گری ہوئی باتیں ہیں بلکہ گناہ بھی ہیں ان کے بارے میں اگر ہم نے بات کرنی ہے اور اگر دوسرا فریق اس پر غصہ میں آتا ہے تو عارضی طور پر اس بات کو ٹالا جا سکتا ہے، وہاں سے سلام کر کے اٹھا جا سکتا ہے۔ یہی اس وقت حکمت کا تقاضا ہو گا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اس لئے کہ یہ قانون بن گیا یا دوسرا فریق غصہ میں آگیا ہم ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگ جائیں۔ اگر خوفزدہ ہو کر یا دنیاداری سے متاثر ہو کر ہاں میں ہاں ملاتے ہیں تو یہ غلط ہے اور پھر ہم اس گناہ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’آیت جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُکا یہ منشاء نہیں ہے کہ ہم اس قدر نرمی کریں کہ مداہنہ کر کے خلاف واقعہ بات کی تصدیق کرلی‘‘۔ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ305حاشیہ)
پس حکمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بزدلی دکھائی جائے بلکہ حکمت حق بات کو بغیر فساد کے کہنے میں ہے یا ایسے طریقے سے بات کی جائے کہ جس سے فساد پیدا نہ ہو اور جو اس بات کے کرنے کا حق ہے وہ بھی ادا ہو جائے۔
پس ایک مومن کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ بزدلی اور حکمت میں کیا فرق ہے۔ جو اسلام کے واضح حکم ہیں اور جن کو اسلام غلط کہتا ہے اس کو ہم نے نہیں کرنا اور غلط ہی کہنا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لے کر لڑائی بھی نہیں کرنی۔
پھر ایک جگہ اس بارے میں مزید وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’جب تُو کسی …… کے ساتھ بحث کرے تو حکمت اور نیک نصیحتوں کے ساتھ بحث کر جو نرمی اور تہذیب سے ہو۔ ہاں یہ سچ ہے کہ بہتیرے اس زمانے کے جاہل اور نادان مولوی اپنی حماقت سے یہی خیال رکھتے ہیں کہ جہاد اور تلوار سے دین کو پھیلانا نہایت ثواب کی بات ہے اور وہ درپردہ اور نفاق سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ لیکن وہ ایسے خیال میں سخت غلطی پر ہیں اور ان کی غلط فہمی سے الٰہی کتاب پر الزام نہیں آ سکتا۔‘‘ (اگر وہ ایسی باتیں کرتے ہیں تو ان کی غلطی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر الزام آئے۔) فرمایا کہ ’’واقعی سچائیاں اور حقیقی صداقتیں کسی جبر کی محتاج نہیں ہوتیں بلکہ جبر اس بات پر دلیل ٹھہرتا ہے کہ روحانی دلائل کمزور ہیں۔ کیا وہ خدا جس نے اپنے پاک رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر یہ وحی نازل کی کہ فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوالْعَزْمِ(الاحقاف:36) یعنی تُو ایسا صبر کر کہ جو تمام اولوالعزم رسولوں کے صبر کے برابر ہو۔ یعنی اگر تمام نبیوں کا صبر اکٹھا کر دیا جائے تو وہ تیرے صبر سے زیادہ نہ ہو۔ اور پھر فرمایا کہ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن (البقرۃ: 257) یعنی دین میں جبر نہیں چاہئے اور پھر فرمایا کہ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحسَنَۃِ۔ یعنی … حکمت اور نیک وعظوں کے ساتھ مباحثہ کر، نہ سختی سے۔ اور پھر فرمایا وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران: 135) یعنی مومن وہی ہیں جو غصہ کو کھا جاتے ہیں اور یاوہ گو اور ظالم طبع لوگوں کے حملوں کو معاف کر دیتے ہیں اور بیہودگی کا بیہودگی سے جواب نہیں دیتے‘‘۔ فرمایا کہ ’’کیا ایسا خدا یہ تعلیم دے سکتا تھا کہ تم اپنے دین کے منکروں کو قتل کر دو اور ان کے مال لوٹ لو اور ان کے گھروں کو ویران کر دو۔ بلکہ اسلام کی ابتدائی کارروائی جو حکم الٰہی کے موافق تھی صرف اتنی تھی کہ جنہوں نے ظالمانہ طور سے تلوار اٹھائی وہ تلوار ہی سے مارے گئے اور جیسا کیا ویسا اپنا پاداش پا لیا۔‘‘ فرمایا کہ ’’یہ کہاں لکھا ہے کہ تلوار کے ساتھ منکروں کو قتل کرتے پھرو۔ یہ تو جاہل مولویوں اور نادان پادریوں کا خیال ہے جس کی کچھ بھی اصلیت نہیں‘‘۔ (تبلیغ رسالت (مجموعہ اشتہارات) جلد 3صفحہ 194تا 196 حاشیہ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام زیر سورۃالنحل آیت 126)
جو مولوی ہیں اسلام کے پھیلانے کے نام نہاد علمبردار بنے پھرتے ہیں یا وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں یا جو اسلام کے مخالف لوگ ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اسلام کہتا ہے کہ منکروں کو قتل کرو۔ (حالانکہ یہ) کہیں نہیں لکھا۔
پس یہ ہے اسلام کی تعلیم جس پر دوسرے مسلمان تو عمل نہیں کرتے یا اس لئے کہ ان کو اسلام کا پیغام پہنچانے سے دلچسپی نہیں ہے یا اس لئے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: نادان اور جاہل مولوی ہیں۔ لیکن ہم نے مسلمانوں میں بھی اور غیر مسلموں میں بھی یہ تعلیم عام کرنی ہے۔ اس لئے اپنے اپنے حلقے میں، اپنے اپنے دائرے میں ہر احمدی کو اس طرف توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ پہلے اگر یہ لوگ چھپے ہوئے تھے اور نفاق کی زندگی گزار رہے تھے لیکن اسلام کی شدت پسند تعلیم کا نظریہ رکھتے تھے تو اب ایسے گروہ ہیں جو کھلے عام ایسی باتیں کرتے ہیں اور پھر غیروں کو ہی نہیں بلکہ مسلمان مسلمان کی گردن کاٹ رہا ہے اور اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ احمدیوں کے خلاف تو یہ سب ہیں ہی۔ ایک فرقہ دوسرے فرقے کے خلاف اور ایک گروپ دوسرے گروپ کے خلاف بھی قتل و غارت گری کر رہا ہے۔ ایسے میں احمدیوں کا کام بہت بڑھ گیا ہے۔