انصار اپنی ترجیح دین کو دنیا پر مقدم بناتے ہوئے اپنے ’’انصاراللہ‘‘ ہونے کی لاج رکھیں
مجلس انصار اللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ولولہ انگیز اختتامی خطاب
(مسجد بیت الفتوح، مورڈن، ۸؍اکتوبر۲۰۲۳ء، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزمسجد بیت الفتوح، مورڈن میں منعقد ہونے والے مجلس انصاراللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع (منعقدہ ۶ تا۸؍اکتوبر۲۰۲۳ء) کے اختتامی اجلاس میں بنفسِ نفیس رونق افروز ہوئے اور اردو زبان میں بصیرت افروز اختتامی خطاب ارشاد فرمایا۔ یہ خطاب ایم ٹی اے کے مواصلاتی رابطوں کے توسّط سے پوری دنیا میں براہ راست سنا اور دیکھا گیا۔ یاد رہے کہ مجلس انصاراللہ امریکہ اور فرانس نے بھی ان ہی ایام میں اپنے اجتماعات کا انعقاد کیا اور آج کے اختتامی اجلاس میں آن لائن شمولیت اختیار کی۔ چنانچہ ایم ٹی اے کی سکرین پر برطانیہ کے علاوہ امریکہ اور فرانس سے بھی مجلس انصاراللہ کے اجتماع کے مناظر دکھائے جا تے رہے۔
حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ کی چار بج کر سات منٹ پر مسجد بیت الفتوح کے احاطے میں تشریف آوری ہوئی۔ ڈاکٹر چودھری اعجاز الرحمان صاحب صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ، صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب ناظم اعلیٰ اجتماع و نائب صدر صف دوم اور محترم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعتہائے احمدیہ برطانیہ نے حضور پُر نور کا استقبال کیا۔ بعد ازاں مسجد بیت الفتوح کے صحن میں مختلف گروپس کی صورت میں مجلس انصار اللہ برطانیہ کے بعض عہدیداران کوحضور انور کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان میں زعماء مجالس، نیشنل عاملہ مجلس انصاراللہ، ناظمینِ اعلیٰ ریجنز، علمِ انعامی حاصل کرنے والی مجلس Dudleyکی عاملہ، بہترین ریجن قرار پانے والے بیت الفتوح ریجن کی عاملہ اور اجتماع کمیٹی کے گروپس شامل تھے۔
چار بج کر ۱۸ منٹ پر حضورِ انور مسجد بیت الفتوح کے مین ہال میں تشریف لائے اور نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد چار بج کر۵۵ منٹ پر حضور انور پُرجوش نعروں کی گونج میں طاہر ہال میں داخل ہوئے اور کرسیٔ صدارت پر رونق افروز ہوئے۔
اجلاس کی کارروائی کا آغازتلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ مکرم حافظ طیب احمد صاحب نے سورۃ الجمعۃ کی پہلی پانچ آیات کی تلاوت اور ان کا انگریزی زبان میں ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ بعد ازاں حضور انور کی اقتدا میں تمام شاملین نے انصاراللہ کا عہد دہرایا۔ ان کے ساتھ ایم ٹی اے کے مواصلاتی صلاتی رابطوں کے توسط سے براہ راست دنیا بھر کے انصار اور دیگر احباب و خواتین نے بھی یہ عہد دُہرانے کی سعادت حاصل کی۔اس کے بعد مکرم منیرعودہ صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا عربی قصیدہیَا عَیْنَ فَیْضِ اللّٰہِ وَ الْعِرْفَانٖ یسْعٰی اِلَیْکَ الْخَلْقُ کَالظَّمْاٰنٖمیں سے منتخب اشعار ترنّم کے ساتھ پیش کیے۔ ان اشعار کا انگریزی ترجمہ مکرم ٹومی کالون صاحب کو پیش کرنے کی سعادت ملی۔ مکرم عمر شریف صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے اردو منظوم کلام بعنوان ’’شان اسلام‘‘ میں سے منتخب اشعار خوش الحانی سے پیش کیے۔ ان اشعارکا آغاز درج ذیل شعر سے ہوا:
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نُور سارا
نام اُس کا ہے محمدؐ دلبر مِرا یہی ہے
بعد ازاں ڈاکٹرچودھری اعجاز الرحمان صاحب صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ نے اجتماع کی رپورٹ پیش کی۔
رپورٹ اجتماع از صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ
مکرم صدر صاحب مجلس انصاراللہ برطانیہ نے اجتماع کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجلس انصاراللہ برطانیہ بہت خوش قسمت ہے کہ حضور انور نے ایک مرتبہ پھر ہمارے اجتماع کو اپنی تشریف آوری کے ساتھ رونق بخشی۔ خاکسار مجلس انصاراللہ کی طرف سے حضورِانور کا تہِ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہے کہ حضورِانور نے ہماری کمزوریوں کے باوجود ہم پر یہ خاص شفقت فرمائی اور ہماری حوصلہ افزائی فرمائی۔ نیز حضورِانور سے دعا کی عاجزانہ درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور انور کی توقعات پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
امسال ہمارے اجتماع کا مرکزی عنوان ’حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے اغراض و مقاصد‘ تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے امسال ۱۴۵؍ مجالس میں سے ۱۳۲؍مجالس اور تمام ۱۸؍ریجنز نے اپنے مقامی اجتماعات منعقد کرنے کی توفیق پائی۔
اجتماع کے تینوں دن باجماعت نمازوں کے علاوہ نماز تہجد اور درس القرآن کا انتظام کیا گیا تھا۔ اجتماع کا افتتاح جمعے کے روز مکرم امیر صاحب نے ساڑھے چار بجے کیا۔ اجتماع کے دوران علمائے سلسلہ نے مختلف عناوین پر سیر حاصل تقاریر کیں جنہوں نے اپنی تقاریر میں خلافت کی برکات بھی بیان کیں۔ علمی و ورزشی مقابلہ جات کے علاوہ کئی ورکشاپس کا انعقاد بھی کیا گیا جن میں سائیکلنگ کی اہمیت اور اس کے فوائد، صحت مند طرزِزندگی، رشتہ ناطہ، مالی قربانی کی اہمیت اور قرآن کریم میں بیان شدہ پیشگوئیاں اور سائنسی نکات وغیرہ شامل تھے۔ اسی طرح ناصر ہال میں مختلف قسم کی نمائشیں بھی لگائی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ انصاراللہ کی دلچسپی کے لیے پینل ڈسکشن پروگرامز بھی منعقد کیے گئے جو ’بعثت حضرت مسیح موعودؑ اور ہماری ذمہ داریاں‘اور’مجلس انصاراللہ یوکے کے خدمت انسانیت کے پروجیکٹس‘ اور ’جماعت کا پیغام پھیلانے میں چیریٹی واک کا کردار‘ کے عناوین پر تھے۔
خاکسار ناظمِ اعلیٰ اجتماع مکرم صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب اور ان کی ٹیم کا بے حد ممنون ہے جنہوں نے بھر پور محنت اور لگن کے ساتھ اس اجتماع کو کامیاب بنایا۔ خاکسار امیر صاحب یوکے اور افسر جلسہ سالانہ کا بھی ان کے بھرپور تعاون پر شکریہ ادا کرتا ہے۔
آخر پر خاکسار مجلس انصارا للہ یوکے کی طرف سے حضور انور کی خدمت میں ایک مرتبہ پھر دعا کی درخواست کرنا چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضورانور کی منشائے مبارک کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
عَلم انعامی
بعد ازاں مجالس انصاراللہ برطانیہ میں امسال بہترین قرار پانے والی مجلس Dudley نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دستِ مبارک سے علم انعامی وصول کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔
خلاصہ خطاب حضورِ انور
امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزپا نچ بج کر ۲۳منٹ پر خطاب فرمانے کے لیے منبر پر تشریف لائے اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عنایت فرمایا۔ تشہد، تعوّذ اور تسمیہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور نے فرمایا:
آج انصاراللہ یوکے کا اجتماع اختتام کو پہنچ رہا ہے، اسی طرح فرانس اور امریکہ میں بھی اجتماع ہو رہے ہیں۔ ایم ٹی اے نے اب تمام دنیا کے احمدیوں کو ایک کردیا ہے۔ آج بھی یوکے کے اجتماع کی بدولت تمام دنیا میں موجود انصار ان باتوں کو دیکھ اور سُن رہے ہوں گے۔ پس آج یہاں جو بھی باتیں میں بیان کروں گا اس کے مخاطب تمام دنیا کے انصار ہیں۔ بانی تنظیم انصاراللہ سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک موقعے پر انصار سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا کہ آپ کا نام انصاراللہ سوچ سمجھ کر رکھا گیا ہے۔ پندرہ سے چالیس سال کا زمانہ جوانی اور اُمنگ کا زمانہ ہوتا ہے اس لیے اُس عمر کے افراد کا نام خدام الاحمدیہ رکھا گیا ہے تاکہ خدمتِ خلق کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں اور چالیس سال سے اوپر والوں کا نام انصاراللہ رکھا گیا ہے۔ اس عمر میں انسان اپنے کاموں میں استحکام پیدا کرلیتا ہے اور اگر وہ کہیں ملازم ہوتو ملازمت میں ترقی کر لیتا ہے اور اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سرمائے سے دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرسکے۔ پس آپ کا نام انصاراللہ اس لیے رکھا گیا ہے تاکہ جہاں تک ہو سکے آپ دین کی خدمت کی طرف توجہ کریں اور یہ توجہ مالی لحاظ سے بھی ہو اور دینی لحاظ سے بھی۔
پس اس حقیقت کو ہر ناصر کو سمجھنا چاہیے کہ اس نے اپنی عبادت کے معیار کو بڑھانا ہے۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی ہے۔ باجماعت نماز کی طرف توجہ دینی ہے۔ گھروں میں اپنی اولاد کے سامنے اپنی عبادت کے معیار کے نمونے قائم کرنے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال دی ہے کہ قرآن کریم نے حضرت ابراہیم کی یہی خوبی بیان کی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو نماز کی تلقین کرتے رہتے تھے، اور یہی اصل خدمت اور فرض انصاراللہ کا ہے۔
ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بات پر بیعت کی ہے کہ خدا تعالیٰ کی حکومت کو دنیا میں قائم کریں گے۔ شیطان کی حکومت کو دنیا سے مٹائیں گے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے۔ اس مقصد کا حصول اللہ تعالیٰ کے حکموں اور فرائض کی بجا آوری کے بغیر ممکن نہیں۔ پس اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے باربار اپنی جماعت کو اس طرف توجہ دلائی ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: نماز کو باقاعدہ التزام سے پڑھو۔ بعض لوگ صرف ایک ہی وقت کی نماز پڑھ لیتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ نمازیں معاف نہیں ہوتیں، یہاں تک کہ پیغمبروں تک کو معاف نہیں ہوئیں۔
پس وہ لوگ جو نمازوں کی ادائیگی میں سستی سے کام لیتے ہیں انہیں بہت فکر کی ضرورت ہے۔ اگر نمازوں کی ادائیگی کے ذریعے اپنے نمونے قائم نہیں کریں گے تو اولادیں کس طرح دین پر قائم ہوں گی۔ پھر اگر اولاد بگڑ جاتی ہے تو شکوہ نہیں ہونا چاہیے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ لوگ نمازوں سے غافل اور سست اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ ان کو اس لذت اور سُرور پر اطلاع نہیں جو اللہ تعالیٰ نے نماز کے اندر رکھا ہے۔
پس ہمارا پہلا کام تو یہ ہے کہ خالص ہوکر خدا تعالیٰ کے آگے جھکیں۔ سوز اور رقّت کے ساتھ اس سے دعائیں مانگیں۔ پھر ایسی حالت پیدا ہوجائے گی کہ نمازوں سے غفلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب یہ حالت ہو گی تو ہم عملی طور پر ان لوگوں کے سوال کا جواب دینے والے ہو جائیں گے جو کہتے ہیں کہ بعض لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور پھر بدیاں اور برائیاں کرتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ یعنی نیکیاں بدیوں کو زائل کردیتی ہیں۔ پس ان حسنات اور لذات کو دل میں رکھ کر دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ وہ نماز عطا کرے جو صدیقوں اور محسنوں کی نماز ہے۔
نماز کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ایک موقعے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں یوں نصیحت فرمائی کہ جب تک انسان کامل طور پر توحید پر کاربند نہیں ہوتا اس میں اسلام کی عظمت اور محبت قائم نہیں ہوتی۔ فرمایا نماز میں لذّت اور سرور اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک برے ارادے اور ناپاک اور گندے منصوبے بھسم نہ ہوں۔ انانیت اور شیخی دُور ہوکر نیستی اور فروتنی نہ آجائے۔ عبودیت کاملہ کے سکھانے کے لیے بہترین معلم اور افضل ترین ذریعہ نماز ہی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو ایک نمونہ بناناچاہتا ہے۔ پس ہر لحاظ سے یہ نمونے قائم کرو۔ اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے سب ترساں رہو اور یاد رکھو کہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ عاجزی انکساری پیدا کرو۔ کسی پر ظلم نہ کرو، نہ تیزی دکھاؤ، نہ کسی کو حقارت سے دیکھو۔ جماعت میں اگر ایک آدمی بھی گندا ہے تو وہ سب کو گندا کر دیتا ہے۔ تمہارے قول و فعل ایک ہونے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کا خوف اسی میں ہے کہ انسان دیکھے کہ اُس کا قول و فعل کہاں تک مطابقت رکھتا ہے۔ اگر اس کا قول و فعل برابر نہیں تو پھر وہ مورد غضب الٰہی ہوگا۔ جو دل ناپاک ہے خواہ قول کتنا ہی پاک ہو وہ دل خدا کی نگاہ میں قیمت نہیں پاتا۔ پس میری جماعت سمجھ لے کہ وہ میرے پاس آئے ہیں اس لئے کہ تخم ریزی کی جائے جس سے وہ پھل دار درخت ہوجائیں۔ پس ہر ایک غور کرے کہ اس کا اندرونہ کیسا ہے اور اس کی باطنی حالت کیسی ہے۔ اگر ہماری جماعت بھی خدا نخواستہ ایسی ہے کہ اس کی زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے تو پھر خاتمہ بالخیر نہ ہوگا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ بدر کی فتح کی پیشگوئی ہوچکی تھی لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رو رو کر دعا مانگتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ جب ہر طرح فتح کا وعدہ ہے تو پھر اس الحاح کی ضرورت کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ وہ ذات غنی ہے۔ ممکن ہے کہ وعدہ الٰہی میں کوئی مخفی شرائط ہوں اس لیے دعا کی ضرورت ہے۔ پس بڑے خوف کا مقام ہے کہ انصار جنہوں نے عہد کیا ہے ہم اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گےاور اپنی اولادوں کو بھی دین سے جوڑے رکھیں گے تو اُن کو ہر وقت اس فکر میں رہنا چاہیے کہ ایسے نمونے قائم کریں جو عبادتوں کے بھی اور عملی حالتوں کے بھی اعلیٰ معیار ظاہر کرنے والے ہوں تاکہ اپنے بیوی بچوں کے لیے ایک نمونہ ہوں۔ ہمارے ذمہ خدا نے بہت بڑا کام لگایا ہے۔ ہم نے صرف اپنی اور اپنی اولادوں کی تربیت نہیں کرنی بلکہ دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں جو نصائح فرمائی ہیں اُن کی جگالی کرتے رہنا چاہیے۔ اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے تب ہی ہم کامیاب انصار بن سکتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں فلاح دارین حاصل ہو اور لوگوں کے دلوں کو فتح کرو تو پاکیزگی اختیار کرو۔ عقل سے کام لواور کلام الٰہی کی ہدایت پر چلو۔ اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھاؤ۔ حقیقی عقل اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور اس کے لیے قرآن کریم پڑھنا سمجھنا اور اس کے احکام پر چلنا ضروری ہے۔ عملی نمونہ پیش کرو تب ہی کامیابی حاصل ہوگی۔ اگر دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرنی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اتباع کرنی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا میں لہرانا ہے تو دلوں کو پاکیزہ بنانا ہوگا اور اس کے لیے تقویٰ ضروری ہے اور تقویٰ کے لیے قرآن کریم پڑھنا ضروری ہے۔ پس قرآن کریم کو تدبر سے پڑھیں اس پر عمل کریں اور اس کی تعلیم دنیا میں پھیلائیں۔ اگر عمل نہیں تو پھر اس کی تعلیم کا بھی اثر نہیں ہوگا ۔ اگر ہم ان سب پر عمل کریں گے تو ہمارے قول و فعل ایک ہوں گے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہو تو پہلے خود تقویٰ اختیار کرو ۔ تم دیکھتے ہو کہ مسلمانوں کی طاقت کمزور ہوگئی ہے اور قومیں انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں اگر تمہاری حالت بھی یہ ہوگئی تو پھر خاتمہ سمجھو۔ پس اس ارشاد کو بھی ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ اگراسلام کی خدمت کرنی ہے اور اسلام کے خادم ہونے کا اعزاز حاصل کرنا ہے تو پھر تقویٰ کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہوں گے اور اپنے عملی نمونے پیش کرنے ہوں گے۔
ہمیں کس فکر کے ساتھ نمازوں کو سنوارنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں کس فکر کے ساتھ تعلق باللہ کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ چالیس سال سے زائد عمر والے خود اپنا جائزہ لیں ۔
انصار کو چاہیے کہ دنیا کو نہیں بلکہ دین کو ترجیح بنا ئیں۔ گذشتہ ہفتہ میں نے خدام سے عہدلیا تھا۔ خدام الاحمدیہ کے ذمہ اوّل توخدمت خلق کا کام دیا گیا تھا لیکن بعد میں ان سے تبلیغ اسلام کی خدمت بھی لی گئی لیکن اصل میں تو یہ کام انصاراللہ کا بھی ہے اس لیے یہ عہد اب میں دوبارہ صدر صاحب انصاراللہ پاکستان کی تجویز پر کہ حضرت مصلح موعودؓ کی خواہش تھی کہ ہر موقع پر یہ عہد دہرایا جائے اب دوبارہ دہرا رہا ہوں۔ بعد ازاں حضور انور نے اردو اور پھر انگریزی میں درج ذیل عہد دہرایا:
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ
ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لیے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فریضے کی تکمیل کے لیے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اوراُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کرکے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچا رکھیں گے۔ ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لیے آخر دم تک جدو جہد کرتے رہیں گے ۔ اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے آخر دم تک مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے ۔ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے ۔ اے خدا! تُو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے توفیق عطا فرما۔اللّٰھُمَّ آمِیْن ۔ اللّٰھُمَّ آمِیْن ۔ اللّٰھُمَّ آمِیْن
حضور انور نے فرمایا کہ اللہ ہمیں یہ عہد بھی پورا کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
حضور انور کا خطاب چھ بج کر ۴ منٹ تک جاری رہا۔ اس کےبعد حضورِ انور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد حضورِ انور نے حاضری کے حوالے سے فرمایا کہ صدر صاحب کی اطلاع کے مطابق اجتماع پر انصار کی حاضری ۳۴۳۰؍ہے، ۱۳۸؍مہمانان ہیں، کُل حاضری ۳۵۶۸؍ ہے۔ حضورِ انور نے اس حاضری کو مزید بہتر کرنے کی طرف توجہ دلائی۔
ادارہ الفضل انٹرنیشنل محترم صدر صاحب مجلس انصاراللہ برطانیہ، فرانس و امریکہ، انتظامیہ اجتماعات اور ممبران مجلس انصاراللہ برطانیہ، فرانس و امریکہ کو کامیاب اجتماعات کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہے نیز دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اجتماعات کے نیک اثرات مترتب فرمائے۔ آمین