برف پوش پہاڑوں سے آنے والےمردانِ خدا کا تذکرہ
ارشاد رسولﷺ بَا یِعُوْہُ وَلَوْحَبْوًاعَلیٰ الثَّلْجِ کی اتباع میں برف پوش پہاڑوں سے آنے والےمردانِ خدا کا تذکرہ
حضرت رسول کریم ﷺ نے موعود مسیح و مہدی کی بیعت کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا تھا: فَبَا یِعُوْہُ وَلَوْحَبْوًاعَلیٰ الثَّلْجِ (مستدرک حاکم کتاب الفتن و الملاحم باب خروج المہدی صفحہ ۴۱۴) یعنی جب تم اسے دیکھو تو اس کی ضرور بیعت کرنا خواہ تمہیں برف کے تودوں پر گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے۔ کیونکہ وہ خدا کا خلیفہ مہدی ہوگا۔
اس حدیث میں برف کے تودوں سے مراد مشکلات اور مصائب اور روکیں ہیں جو آغاز سے حائل ہیں مگر عشاق ان ساری دیواروں کو پھلانگتے ہوئےآتے رہے اور آ رہے ہیں مگر ان میں سے بعض ایسے جوانمرد بھی تھے جن کے رستہ میں واقعتاً برف کے پہاڑ حائل تھے۔ مگر وہ ان سے بھی اونچی چھلانگ لگاتے ہوئے حاضر خدمت ہوگئے۔ ان میں سے ایک گھرانہ ترکستان کا بھی ہے۔
حاجی جنود اللہ صاحب اور ان کا خاندان
ترکستان کے علاقہ میں مجاہد تحریک جدید محمد رفیق خان صاحب کی تبلیغ سے ۱۹۳۸ء میں احمدیت کا بیج بویا گیا اور سب سے پہلے کاشغر کے ایک نوجوان حاجی جنوداللہ صاحب حلقہ بگوش احمدیت ہوئے جو اپنے وطن سے چل کر چینی ترکستان اور کشمیر کے برفانی اور دشوار گزار کوہستانی علاقے طے کرتے ہوئے ستمبر ۱۹۳۸ء میں وارد قادیان ہوئے اور حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے دست مبارک پر بیعت کرکے احمدیت میں داخل ہونے کا شرف حاصل کیا۔ (الفضل ۲۰ا؍کتوبر ۱۹۵۹ء)
حاجی جنود اللہ صاحب کاشغر کے ایک ایسے مقتدر خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جس کا شمار دہلی کے چوٹی کے معزز خاندانوں میں ہوتا تھا مگر کمیونزم کی وجہ سے اس خاندان کی ظاہری شان و شوکت خاک میں مل گئی۔ مگر خدا نے امام وقت کی بیعت کی توفیق دے کر انہیں عظیم روحانی عظمت عطا فرمائی۔ حاجی صاحب موصوف کی اپنے وطن سے روانگی ایسے موسم میں ہوئی جب برف پگھلنی شروع ہوگئی تھی۔ آپ پیدل چلتے ہوئے کئی بار گلے تک برف میں دھنس گئے۔ ان خطرات ا ور مصائب کے علاوہ کئی ماہ کے اس لمبے سفر کے اخراجات اور راہداری اور پاسپورٹ کے ملنے کی تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے آخر منزل مقصود تک پہنچ گئے۔
حاجی صاحب کے ساتھ ان کی معمر والدہ اور ہمشیرہ بھی آنا چاہتی تھیں۔ لیکن پاسپورٹ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے رک گئیں۔ حاجی صاحب کے وارد قادیان ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور حضرت مصلح موعودؓ کی دعاؤں کی برکت سے ان کو بھی پاسپورٹ مل گیا اور وہ بھی ۱۸؍اکتوبر ۱۹۳۸ء کو ایک دوسرے قافلہ کے ہمراہ قادیان کے لئے روانہ ہوگئیں اور بذریعہ تار اپنی روانگی کی اطلاع حاجی صاحب کودی۔ اس پر حاجی صاحب قادیان سے گلگت کی طرف روانہ ہوگئے۔ حاجی صاحب قادیان سے گلگت تک چودہ پندرہ روز کا سفر آٹھ نوروز میں طے کرکے پہنچے تو معلوم ہواکہ آپ کی والدہ و ہمشیرہ ترکستان سے آنے والے پہلے قافلہ سے رہ گئی ہیں۔ اس پر آپ گلگت سے روانہ ہوگئے۔ تیسری منزل طے کررہے تھے کہ راستہ میں آپ کو وہ دوسرا قافلہ ملا۔ جس میں آپ کی والدہ اور ہمشیرہ سفر کر رہی تھیں۔ حاجی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جس وقت اس قافلہ کو میں نے دیکھا تو خیال کیا کہ ممکن ہے یہ وہی قافلہ ہو جس کے ہمراہ میری والدہ اور ہمشیرہ آرہی ہیں اور جب آپ نے قافلہ کے افراد پر نگاہ ڈالی تو پہاڑ کی چوٹی پر دوسیاہ برقعہ پوش سوار نظر آئے۔ جن کے گھوڑوں کی لگامیں دو کرایہ کشوں نے تھامی ہوئی تھیں۔ قافلہ کے نزدیک پہنچنے پر جب انہوں نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ واقعی ان کی والدہ اور ہمشیرہ ہی ہیں۔ یہ ۲۴؍نومبر ۱۹۳۸ء کی تاریخ اور عیدالفطر کا مبارک دن تھا۔ مگر جب آپ گلگت پہنچے تو معلوم ہوا کہ کشمیر کی طرف جانے کا راستہ برف باری کی وجہ سے بند ہوچکا ہے۔ آپ نے گلگت میں دس روز قیام کیا اس کے بعد اپنی والدہ و ہمشیرہ کو لے کر گیارہ دن میں چترال پہنچے یہ تمام سفر بھی گھوڑوں پر کیا گیا۔
چترال میں پانچ چھ روز ٹھہرنے کے بعد بذریعہ لاری مالاکنڈ اور درگئی کی طرف چل پڑے اور جب اشرت نام ایک پڑاؤ تک پہنچے تو پشاور کی طرف آنے والے ایک سرکاری افسر سے معلوم ہوا کہ برف باری کی وجہ سے دیر اور درگئی کا راستہ سخت خطرناک اور ناقابل عبور ہے۔ نیز اس افسر نے کہا کہ میں ایک سوقُلی کے ساتھ بڑی مشکل سے پہنچا ہوں۔ آپ کے قافلہ میں تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں راستہ میں پچیس پچیس فٹ برف پڑی ہے اور پیدل چلنے کے سوا چارہ نہیں۔ اس لیے آپ واپس دروش چلیں۔ وہاں سے آپ کے لیے جلال آباد والے راستہ سے انتظام کردیا جائے گا۔ آخر پچیس میل واپس ہوکر دروش نامی پڑاؤ میں آ ٹھہرے لیکن پندرہ روز تک انتظار کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ کسی دوسرے راستہ سے جانے کا امکان نہیں اور بہر صورت واپسی والے راستہ ہی کو طے کرنا پڑے گا۔
آخر اسی راستہ پر دوبارہ چل کھڑے ہوئے اور پہلے اسرات اور پھر چھ میل کا سفر پیدل برف پر طے کرکے شام کے وقت زیارت نامی پڑاؤ پر پہنچے۔ اگلے دن کا سفر نہایت ہی مشکل تھا کیونکہ چھ سات میل کی چڑھائی تھی اور برف نے راستہ کو زیادہ دشوار گزار بنا دیا تھا لیکن سوائے اس کے کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ آخر علی الصبح تین قلیوں اور حاجی صاحب کی مدد سے ان کی والدہ اور ہمشیرہ نے پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا۔ دوسرے افراد کے علاوہ قافلہ کے ساتھ بھی بائیس قُلی تھے۔ برف بہت گہری تھی۔ بصد مشکل صبح سے لے کر ظہر تک پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے۔ راستہ میں حاجی صاحب کی والدہ کئی دفعہ برف سے پھسل کرگر پڑیں۔ ان کی ہمشیرہ بھی اور خود حاجی صاحب بھی گرے لیکن اس خطرہ کے پیش نظر کہ کہیں موسم زیادہ خراب نہ ہوجائے اور مزید برفباری نہ شروع ہوجائے ،یہ مسافت طے کی۔
حاجی جنود اللہ صاحب کا بیان ہے کہ اس سے زیادہ سخت دن ہم پر کم آیا ہوگا۔ آخر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر کچھ دیر آرام کیا اور آگ جلا کر گرمی حاصل کی پھر تمام قافلہ نو میل کی اترائی کی طرف روانہ ہوا۔ جس طرح چڑھائی سخت مشکل تھی۔ اسی طرح برف پر جو ڈھلوان تھی اس میں اترنا اس سے بھی زیادہ مشکل تھا۔ حاجی صاحب کی والدہ صاحبہ اب چلنے سے بالکل عاجز آگئیں۔ اس لیے قلیوں نے ان کو اٹھا اٹھا کر اتارنا شروع کیا۔ جوں جوں رات قریب ہوتی جاتی تھی۔ خطرہ بڑھتا جاتا تھا۔ آخر جوں توں کرکے بخیر و عافیت رات کو اگلی منزل گوجر پڑاؤ پہنچ گئے لیکن رات کو حاجی صاحب کی والدہ کو سفر کی بے حد تکلیف کی وجہ سے بخار، سردی اور تمام بدن میں دردیں شروع ہوگئیں اور بعد کا سفر مشکل نظر آنے لگا۔ حاجی صاحب رات بھر اپنی والدہ صاحبہ کی تیمارداری میں مصروف رہے۔ صبح تک ان کی طبیعت قدرے بحال ہوگئی اور وہ تھوڑا بہت سفر کرنے کے قابل ہوگئیں۔ گوجر پڑاؤ سے چل کر دوتین میل کے فاصلہ پر گھوڑے کی سواری مل گئی۔ یہ قافلہ ریاست دیر میں پہنچا۔ یہاں رات آرام سے بسر کر کے صبح ۱۲؍جنوری ۱۹۳۹ء کو لاری پر درگئی پہنچ گئے۔ وہاں سے ریل پر سوار ہوکر ۱۳؍جنوری کو امرتسر آپہنچے اور ۱۴؍جنوری کی صبح قادیان دارالامان میں وارد ہوئے۔ (الفضل ۲۸؍فروری ۱۹۳۹ء)
اس کے بعد ۲۷؍ستمبر ۱۹۳۹ء کو حاجی صاحب کے بڑے بھائی حکیم سید آل احمد صاحب اور حکیم صاحب کے بیٹے امان اللہ خاں صاحب بھی انہی دشوار گزار راستوں سے گزرتے ہوئے قادیان آپہنچے اور حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے دست مبارک پر بیعت کرلی اور پھر یہ خاندان قادیان میں ہی رہائش پذیر ہوگیا۔ مگر ۱۹۴۷ء کے فسادات میں اسے دوسرے احمدیوں کے ساتھ ہی پاکستان میں پناہ گزین ہونا پڑا۔ پاکستان آکر حاجی جنوداللہ صاحب نے سرگودھا میں بودوباش اختیار کرلی۔
سید عبدالرحیم صاحب
اس راہ وفا کے ایک اور مسافر سید عبدالرحیم صاحب تھے۔ جو مانسہرہ کے قریب پھگلہ کی وادی میں آباد تھے۔ آپ ۱۸۸۷ء میں پیدا ہوئے۔ طبیہ کالج لاہور سے حکمت کی تعلیم حاصل کی اور خوب خدمت خلق کی۔ آپ چونکہ سعید فطرت تھے اس لیے خدا تعالیٰ نے آپ کو احمدیت کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس کا موقع یوں پیدا ہوا کہ آپ کے گاؤں میں ایک احمدی نوجوان عبدالرؤف صاحب آئے تو آپ ان کے مناظرات اور مجالس میں شامل ہونے لگے۔ آپ جلد احمدیت کی صداقت کے قائل ہوگئے۔ آپ کے ایک استاد تھے جن سے آپ نے قرآن و حدیث کا علم حاصل کیا تھا ان سے آپ نے احمدیہ نکتہ نظر کا ذکر کیا تو انہوں نے بھی اس کے صحیح ہونے کی تصدیق کی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ احمدیہ مؤقف ٹھیک ہے۔ لیکن ہم پبلک کے سامنے اسے تسلیم نہیں کرسکتے۔
آپ نے اس واقعہ کا ذکر اپنے چچا سے کیا تو انہوں نے بجائے آپ کا ساتھ دینے کے آپ کو ڈانٹا۔ چونکہ صداقت آپ کے دل میں گھر کرچکی تھی اس لئے اگلے دن باوجود برفباری ہونے کے آپ مانسہرہ تک پیدل گئے۔ آپ نے برف کی پرواہ نہ کی کیونکہ سیدنا آنحضرت ﷺ کا ارشادان کو یاد تھا کہ ’’اگر تمہیں برف پر سے گھسٹ کر بھی جانا پڑے تو امام مہدی کو جا کر میرا سلام کہنا۔‘‘(صوبہ خیبرپختونخواہ (صوبہ سرحد)میں احمدیت کا نفوذ صفحہ ۹۷)
آپ نے عملی طور پر اس حکم کی تعمیل کی اور بیعت کرلی۔
ان جیسے اور بھی بہت سے خوش نصیب ہوں گے جن کے دل خراش واقعات ہم تک نہیں پہنچےمگر کائنات کا خدا انہیں جانتا ہے یہ وہ مردان خدا ہیں جن پر آسمان بھی رشک کرتا ہے اور ان پر برکتیں اور رحمتیں بھیجتا رہتا ہے اور زمین بھی ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔