ایک والدہ کی شرک سے نفرت کی مثال
ایک واقعہ ہے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی والدہ کا نمونہ کہ آپ کو کس طرح شرک سے نفرت تھی۔ کہتے ہیں کہ آپ کے بچے اکثر وفات پاجاتے تھے۔ ایک دفعہ آپ کا ایک بچہ بیمار ہوا۔ بچے کا علاج کیاگیا۔ ایک آدمی تعویذ دے گیا۔ اور ایک عورت نے یہ تعویذ بچے کے گلے میں ڈالنا چاہا۔ لیکن بچے کی والدہ نے تعویذ چھین کر چولہے کی آگ میں پھینک دیا اور کہا کہ میرابھروسہ اپنے خالق و مالک پر ہے۔ مَیں ان تعویذوں کو کوئی وقعت نہیں دوں گی۔ بچہ دو ماہ کا ہوا تو وہی جے دیوی ملنے کے لئے آئی اور بچے کو پیار کیا اور آپ سے کچھ پارچات اور کچھ رسد اس رنگ میں طلب کی جس سے مترشح ہوتاتھاکہ گویا یہ چیزیں ظفر پر سے بلا ٹالنے کے لئے ہیں ۔ آپ نے جواب دیا کہ تم ایک مسکین بیوہ عورت ہو۔ اگر تم صدقہ یا خیرات کے طورپر کچھ طلب کروتو مَیں خوشی سے اپنی توفیق کے مطابق تمہیں دینے کے لئے تیارہوں ۔ لیکن مَیں چڑیلوں اور ڈائنوں کی ماننے والی نہیں ۔ مَیں صرف اللہ تعالیٰ کو موت اور حیات کا مالک مانتی ہوں اور کسی اَور کا ان معاملات میں کوئی اختیار تسلیم نہیں کرتی۔ ایسی باتوں کو مَیں شرک سمجھتی ہوں اور ان سے نفرت کرتی ہوں اس لئے اس بنا پر مَیں تمہیں کچھ دینے کے لئے تیار نہیں ہوں ۔ جے دیوی نے جواب میں کہا کہ اچھا تم سوچ لو اگربچے کی زندگی چاہتی ہوتو میرا سوال تمہیں پور اہی کرنا پڑے گا۔
چند دن بعد آپ ظفر کو غسل دے رہی تھیں کہ پھر جے دیوی آگئی اور بچے کی طرف اشارہ کرکے دریافت کیا :اچھا یہی ساہی راجہ ہے؟ آپ نے جواب دیا:’’ ہاں یہی ہے‘‘۔ جے دیوی نے پھر وہی اشیاء طلب کیں ۔ آپ نے پھروہی جواب دیا جو پہلے موقع پر دیا تھا۔ اس پر جے دیوی نے کچھ برہم ہوکر کہا :’’اچھا اگر بچے کو زندہ لے کر گھر لوٹیں تو سمجھ لینا کہ مَیں جھوٹ کہتی تھی‘‘۔ آپ نے جواب دیا:’’ جیسے خدا کی مرضی ہوگی وہی ہوگا‘‘۔ ابھی جے دیوی مکان کی ڈیوڑھی تک بھی نہ پہنچی ہوگی کہ غسل کے درمیان ہی ظفر کو خون کی قے ہوئی اور خون ہی کی اجابت ہوگئی۔ چند منٹوں میں بچے کی حالت دگرگوں ہوگئی۔ اور چند گھنٹوں کے بعد وہ فوت ہو گیا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کی یا اللہ ! تُو نے ہی دیا تھا اور تُونے ہی لے لیا۔ مَیں تیری رضا پر شاکر ہوں ۔ اب تُو ہی مجھے صبر عطا کی جیو۔ اس کے بعد خالی گود ڈسکہ واپس آگئیں ۔(اصحاب احمد جلد ۱۱ صفحہ ۱۵۔ ۱۶)
دیکھیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بھی کتنے انعامات سے نوازا۔ اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحبؓ جیسا بیٹا انہیں دیا جس نے بڑی لمبی عمر بھی پائی اور دنیا میں ایک نام بھی پیداکیا۔
(خطبہ جمعہ ۲۶؍ستمبر ۲۰۰۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۶؍نومبر ۲۰۰۳ء)