انسان کے کلام اور کلام الٰہی میں فرق
سورۃ الحاقۃ آیت۴۱تا۴۸کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
یہ قرآن کلام رسولؐ کا ہے یعنی وحی کے ذریعہ سے اس کو پہنچا ہے۔ اور یہ شاعر کا کلام نہیں مگر چونکہ تمہیں ایمانی فراست سے کم حصہ ہے اس لئے تم اس کو پہچانتے نہیں۔ اور یہ کاہن کا کلام نہیں۔ یعنی اس کا کلام نہیں جو جنّات سے کچھ تعلق رکھتا ہو مگر تمہیں تدبّر اور تذکّر کا بہت کم حصّہ دیا گیا ہے اس لئے ایسا خیال کرتے ہو۔ تم نہیں سوچتے کہ کاہن کس پست اور ذلیل حالت میں ہوتے ہیں بلکہ یہ ربّ العالمین کا کلام ہے جو عالم اجسام اور عالم ارواح دونوں کا ربّ ہے۔
(اربعین ،روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۳۸۸)
منجّم۔ طبیب۔ قیافہ دان۔ کاہن۔ رمّال۔ جفری۔ فال بین اور بعض بعض مجانین اور حال کے زمانہ میں مسمریزم کہ بعض امور ان سے مکشوف ہوتے رہے ہیں تو پھر امور غیبیہ الہام کی حقانیت پر کیونکر حُجّت قاطع ہوں گے۔ اس کے جواب میں سمجھنا چاہیئے کہ یہ تمام فرقے جن کا اوپر ذکر ہوا صرف ظن اور تخمین بلکہ وہم پرستی سے باتیں کرتے ہیں یقینی اور قطعی علم ان کو ہرگز نہیں ہوتا۔ اور نہ ان کا ایسا دعویٰ ہوتا ہے اور بعض حوادث کونیہ سے جو یہ لوگ اطلاع دیتے ہیں تو ان کی پیشین گوئیوں کا ماخذ صرف علامات و اسباب ظنیہ ہوتے ہیں جنہوں نے قطع اور یقین کے مرتبہ سے مَس بھی نہیں کیا ہوتا اور احتمال تلبیس اور اشتباہ اور خطا کا اُن سے مرتفع نہیں ہوتا۔ بلکہ اکثر ان کی خبریں سراسر بے اصل اور بے بنیاد اور دروغ محض نکلتی ہیں۔
(براہین ا حمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۴۰ حاشیہ نمبر ۱۱)
خدا کے قول سے قولِ بشر کیوں کر برابر ہو
وہاں قدرت یہاں درماندگی فرقِ نمایاں ہے
(در ثمین صفحہ ۵)