خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍ ستمبر 2023ء
توہین رسالت کی کسی قسم کی کوئی ایسی سزا شریعت اسلام میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کے واقعات کی کوئی حقیقت ہے
مشرکین بھی اپنے شرک کو دین سمجھتے تھے اور خدائے واحد کی عبادت کو گمراہی۔ آجکل بھی یہی حال ہے
عُمَیر بن وَہْب کے قبولِ اسلام کا ایمان افروز واقعہ
عُمَیر نے عرض کیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا آپؐ کے ساتھ ہے جس نے آپؐ کوہمارے ارادوں سے اطلاع دے دی ورنہ جس وقت میری اورصفوان کی بات ہوئی تھی
اس وقت وہاں کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا اور شاید خدا نے یہ تجویز میرے ایمان لانے ہی کے لیے کروائی ہے اور مَیں سچے دل سے آپؐ پر ایمان لاتا ہوں
بدر کے بعد بعض لوگ مسلمان بھی ہوئے لیکن منافقانہ رنگ رکھتے تھے ان میں عبداللہ بن اُبَیبن سلول بھی تھا
جتنا عرصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قَرْقَرَةُ الْکُدْر میں قیام پذیر رہے کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں آنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی لڑائی کے فتحیاب ہو کر واپس آ گئے
ہجرت کے دوسرے برس رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو آپﷺ نے پہلی عیدالفطر ادا فرمائی
اسلام کی عیدیں اپنے اندر ایک عجیب شان رکھتی ہیں۔ پس یاد رکھنا چاہیے کہ عیدوں کی یہ اہمیت ہے کہ ہمیشہ صرف خوشیاں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی ہونا چاہیے اور عبادت بھی ہونی چاہیے
عَصْمَاءبنت مروان کے قتل کی روایت کا تجزیاتی مطالعہ اور توہینِ رسالت کی سزا سے متعلق ایک مشتبہ روایت پر سیر حاصل بحث
تاریخ و سیرت کی بعض کتب میں یہ واقعہ ملتا ہے لیکن صحاح ستہ اور حدیث کی کسی بھی معتبر کتاب میں اس کا تذکرہ نہیں ہے
شدت پسند ملاں نے ان واقعات کو اہمیت دے کر اسلام کی خوبصورت تعلیم کو بدنام کیا ہے اور آجکل اسی طرح من گھڑت کہانیاں بنا کر یہ مولوی احمدیوں کے خلاف بھی شدت پسندی کے اظہار کرتے رہتے ہیں اور لوگوں کو بھڑکاتے رہتے ہیں
غزوۂ بدر کے بعد وقوع پذیر ہونے والے بعض واقعات بشمول غزوۂ بنو سُلَیمیا قَرْقَرَةُ الْکُدْر کا بیان
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 29؍ستمبر 2023ء بمطابق 29؍تبوک 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
جنگِ بدر کے بعد کے واقعات کا ذکر
ہو رہا تھا۔ ان واقعات سے اگر تاریخ پڑھیں تو جہاں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور زندگی کے واقعات کا بھی پتہ چلتا ہے وہاں بعض تاریخی باتیں بھی علم میں آتی ہیں اور بعض غلط روایات کی نشاندہی بھی ہوتی ہےجنہوں نے اسلام کا غلط چہرہ غیروں کے سامنے پیش کیا ہے اور مخالفینِ اسلام اس سے اسلام کو بدنام کرنے کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور شدت پسند مسلمان اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں ۔
بہرحال آج جو واقعات مَیں بیان کرنے لگا ہوں ان میں
پہلا واقعہ عُمَیر بن وَہْب کا ہے
جو جنگ کے بعد اپنی ناکامی، مشرکین کو جو ناکامی ہوئی تھی اس کا بدلہ لینے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لیے مکہ سے مدینہ آیا تھا لیکن وہاں اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے کچھ اَور کام کیا اور اسے اسلام قبول کرنے کی توفیق بخشی۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ بدر کے قیدیوں میں وہب بن عمیربھی تھا جو بعد میں مسلمان ہو گیا۔ اسے رِفَاعَہ بن رافع نے گرفتار کیا تھا۔ اس کا باپ عُمَیر قریش کے سرغنوں میں سے تھا یعنی عمیر بن وہب جس نے مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کو بہت زیادہ تکلیفیں پہنچائی تھیں مگر پھر غزوۂ بدر کے بعد یہ مسلمان ہو گیا۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ مسلمان ہونے سے پہلے عمیر اور صفوان بن امیہ ایک دن مکہ میں حطیم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ صفوان اس وقت مسلمان نہیں ہوا تھا۔ یہ دونوں جنگِ بدر میں اپنی شکست اور اپنے بڑے بڑے سرداروں کے متعلق باتیں کر رہے تھے جو اس جنگ میں قتل ہو گئے تھے۔ صفوان نے کہا خدا کی قسم! ان سرداروں کے قتل ہو جانے کے بعد زندگی کا مزہ ہی ختم ہو گیا ہے۔ عمیر نے کہا کہ خدا کی قسم!تم سچ کہتے ہو۔ اس نے کہا کہ اگر میرے اوپر ایک شخص کا قرض نہ ہوتا جس کی ادائیگی کا میرے پاس کوئی انتظام نہیں ہو رہا اور پھر اپنے پیچھے اپنے بیوی بچوں کی پریشانی کا خیال نہ ہوتا جو میرے بعد تنگدستی میں مبتلا ہو سکتے ہیں تو میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر ان کو قتل کر دیتا کیونکہ میرے وہاں پہنچنے کی وجہ بھی موجود ہے کہ میرا بیٹا ان کے ہاتھوں میں قید ہے۔ یہ سنتے ہی صَفْوان نے عُمیر کے قرض کی ذمہ داری لے لی اور کہا تمہارا قرض میرے ذمہ رہا مَیں اس کو ادا کر دوں گا اور تمہارے بیوی بچے میرے بیوی بچوں کے ساتھ رہیں گے اور جب تک وہ زندہ ہیں مَیں ان کی کفالت اور پرورش کا ذمہ لیتا ہوں ۔ تم جاؤ اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کو نعوذ باللہ قتل کر ڈالو۔ عمیر یہ سنتے ہی جانے پہ راضی ہو گیا۔ اس نے صفوان سے کہا۔ میرے اور تمہارے درمیان جویہ معاملہ ہوا ہے اس کو راز میں رکھنا۔ صفوان نے وعدہ کر لیا۔ اب عمیر نے گھر جا کر اپنی تلوار نکالی اس پہ دھار لگائی، اس کو زہر میں بجھایا اور اس کے بعد مکہ سے روانہ ہو کر مدینہ پہنچا۔
جب عمیر مسجد نبویؐ پہنچا تو یہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور غزوۂ بدر کی باتیں کر رہے تھے۔ عمیر نے جونہی مسجد نبویؐ کے دروازے پر اپنی اونٹنی بٹھائی تو حضرت عمرؓ کی اس پر نظر پڑی کہ عمیر تلوار ہاتھ میں لیے اتر رہا ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس کو دیکھتے ہی کہا کہ خدا کا دشمن عُمیر بن وہب ضرور کسی بُرے ارادے سے یہاں آیا ہے۔ پھر حضرت عمرؓ فوراً ہی وہاں سے اٹھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپؐ کےحجرۂ مبارک میں گئے اور عرض کیا: اے پیغمبرِ خداؐ! خدا کا یہ دشمن عُمیر بن وہب ننگی تلوار لیے آیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا۔ اسے میرے پاس اندر لے آؤ۔ کوئی بات نہیں میرے پاس اندر لے آؤ۔ حضرت عمرؓ سیدھے عمیر کے پاس آئے اور تلوار کا جو پٹکا اس کی گردن میں پڑا ہوا تھا اس کو مضبوطی سے پکڑ کر عمیر کو لے چلے۔ حضرت عمرؓ کے ساتھ اس وقت وہاں جو انصاری مسلمان موجود تھے ان سے حضرت عمرؓ نے کہا کہ میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اندر چلو اور آپؐ کے قریب ہی بیٹھو کیونکہ اس کی طرف سے مجھے اطمینان نہیں ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اندر آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حال میں آ رہے ہیں کہ ہاتھ سے عمیر کی تلوار کا وہ پٹکا مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے جو اس کی گردن میں تھا تو آپؐ نے فرمایا۔ عمر! اس کو چھوڑ دو۔ پھر آپؐ نے فرمایا: عُمیر قریب آؤ۔ چنانچہ عمیر قریب آیا اور اس نے جاہلیت کے آداب کے مطابق اَنْعَمُوْا صَبَاحًاکہتے ہوئے سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عمیر ہمیں اسلام نے تمہارے اس سلام سے بہتر سلام سے سرفراز فرمایا ہے جو جنت والوں کا سلام ہے۔ تم کس لیے آئے ہو؟ عمیر نے کہا میں اپنے اس قیدی یعنی اپنے بیٹے کے سلسلے میں بات کرنے آیا ہوں جو آپ لوگوں کے قبضے میں ہے۔ میری درخواست ہے کہ اس کےسلسلے میں آپ لوگ اچھا اور نیک معاملہ کریں ۔ آپؐ نے اس کی ننگی تلوار دیکھ کے فرمایا: پھر اس تلوار کا کیا مطلب ہے؟ عمیر نے کہا خدا اس تلوار کا ناس کرے۔ کیا آپ نے ہمیں کسی قابل چھوڑا ہے؟ اس تلوار نے پہلے کونسا ہمارا ساتھ دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا مجھے سچ سچ بتاؤ تم کس مقصد سے آئے ہو؟ آپؐ کو اس کی بات پہ یقین نہیں آیا۔ عمیر نے کہا میں واقعی اس کے سوا اَور کسی ارادے سے نہیں آیا کہ اپنے قیدی کے متعلق آپ سے بات کروں ۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ ایک دن تم اور صَفْوَان بن امیہ حطیم کے پاس بیٹھے تھے اور قریش کے ان مقتولوں کی باتیں کر رہے تھے جن کو جنگِ بدر میں قتل کر کے گڑھے میں ڈالا گیا ہے۔ اس وقت تم نے صفوان سے کہا تھا کہ اگر مجھ پر ایک قرض نہ ہوتا اور اپنے بیوی بچوں کی فکر نہ ہوتی تو میں جا کر محمدؐ کو قتل کر دیتا۔ صفوان نے میرے قتل کی شرط پر تمہارا قرض اتارنے اور بیوی بچوں کی ذمہ داری لے لی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ساری باتیں اللہ تعالیٰ نے بتا دی تھیں کہ اس طرح ہوا۔ یہ سنا تو اس روایت میں یہ لکھا ہے کہ عمیر فوراً بول اٹھا کہ
مَیں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ یا رسول اللہؐ! آپؐ کے پاس آسمان سے جو خبریں آیا کرتی ہیں اور آپؐ پر جو وحی نازل ہوتی ہے ہم اس کو جھٹلایا کرتے تھے اور جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے تو اس وقت حطیم کے پاس میرے اور صفوان کے سوا کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا اور نہ ہی کسی اَور کو ہماری اس گفتگو کی خبر ہے۔ اس لیے خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ کے سوا آپؐ کو اَور کوئی اس کی خبر نہیں دے سکتا۔
پس حمد اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اسلام کی طرف ہماری راہنمائی اور ہدایت فرمائی اور مجھے اس راہ پر چلنے کی توفیق بخشی۔ اس کے بعد عمیر نے کلمہ شہادت پڑھا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا: اپنے بھائی کو دین کی تعلیم دو اور اس کو قرآن پاک پڑھاؤ اور اس کے قیدی کو رہا کر دو۔ صحابہؓ نے فوراً ہی حکم کی تعمیل کی۔
پھر حضرت عمیرؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہؐ! مَیں ہروقت اللہ کے نور کو بجھانے کی کوشش میں لگا رہتا تھا اور جو لوگ اللہ کے دین کو قبول کر چکے تھے ان کو زبردست تکلیفیں پہنچایا کرتا تھا۔ پس اب مَیں پسند کرتا ہوں کہ آپؐ مجھے مکہ جانے کی اجازت دیں تا کہ وہاں مکے والوں کو اللہ کی طرف بلاؤں اور اسلام کی دعوت دوں ۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت عطا فرما دے ورنہ پھر مَیں ان لوگوں کو ان کی بت پرستی کی بنا پر اسی طرح تکلیفیں پہنچاؤں گا جیسے مَیں اسلام کی وجہ سے آپؐ کے صحابہؓ کو تکلیفیں پہنچاتا رہا ہوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مکہ جانے کی اجازت عطا فرما دی۔ تکلیفیں پہنچانے کے لیے نہیں بلکہ تبلیغ کے لیے۔ چنانچہ وہ مکے واپس پہنچ گئے اور ان کے بیٹے وہب بن عمیر بھی مسلمان ہو گئے۔
ادھر عمیر کے مکےسے روانہ ہونے کے بعد صفوان لوگوں سے کہا کرتا تھا کہ میں تمہیں ایک ایسے واقعے کی خوشخبری سناتا ہوں جو عنقریب رونما ہونے والا ہے اور اس کے نتیجے میں تم جنگِ بدر کے حادثے اور مصیبت کو بھول جاؤ گے۔ اور صفوان ہرآنےوالے سوار سے عمیر کی کارگزاری کے متعلق پوچھا کرتا تھا۔ آخر ایک سوار مکے پہنچا اور اس نے صفوان کو بتایا کہ عمیر اسلام قبول کر چکے ہیں ۔ صفوان نے حلف اٹھایا کہ کبھی اس سے بات نہیں کروں گا اور کبھی اس کو کوئی نفع نہیں پہنچاؤں گا۔ اس کے بعد جب عمیر مکہ پہنچے تو اب وہ مسلمان ہو گئے تھے تو وہ پہلے صفوان کے گھر نہیں گئے بلکہ سیدھا اپنے گھر گئے وہاں انہوں نے گھر والوں کے سامنے اپنے اسلام کا اعلان کیا اور ان کو مسلمان ہونے کی دعوت دی۔ جب صفوان کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو اس نے کہا مَیں پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ کیوں وہ پہلے میرے پاس آنے کی بجائے اپنے گھر گیا ہے۔ وہ بے دین اور گمراہ ہو گیا ہے۔ مَیں اب کبھی اس سے بات نہیں کروں گا اور نہ اسے اور نہ اس کے گھر والوں کو کبھی میری ذات سے کوئی فائدہ پہنچے گا۔
مشرکین بھی اپنے شرک کو دین سمجھتے تھے اور خدائے واحد کی عبادت کو گمراہی۔
آجکل بھی یہی حال ہے۔
اس کے بعد عمیر صفوان بن امیہ کے پاس پہنچے اور اس کو پکار کر کہا تم ہمارے سرداروں میں سے ایک سردار ہو۔ تمہیں معلوم ہی ہے کہ ہم پتھروں کی پوجا اور ان کے لیے قربانیاں کیا کرتے تھے۔ کیا یہ کوئی دین ہوا! مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں مگر صفوان نے عمیر کی بات کا نہ کوئی جواب دیا اور نہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔
(السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 268 تا 270، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
اس واقعہ کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں بھی لکھا ہے کہ کفار مکہ جو اب تک صرف ظاہری زور اور گھمنڈ پر لڑرہے تھے اب ایک کھلے میدان میں مسلمانوں سے زک اٹھا کر مخفی اور درپردہ سازشوں کی طرف بھی مائل ہونے لگ گئے۔ چنانچہ یہ تاریخی واقعہ جو جنگِ بدر کے صرف چند دن بعدوقوع میں آیا اس خطرے کی ایک بیّن مثال ہے۔ لکھا ہے کہ بدر کے چند دن بعد عمیربن وہب اور صفوان بن امیہ بن خلف جوذی اثر قریش میں سے تھے صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے مقتولین بدر کا ماتم کررہے تھے اور وہی باتیں جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے وہ آپؓ نے یہاں تحریر فرمائی ہیں کہ وہ یہ باتیں کر رہے تھے۔ یہی کہہ رہے تھےکہ اب تو جینے کا مزہ نہیں رہا اور عمیر نے یہ بھی کہا کہ مَیں تو اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار ہوں اگر میرا قرض مجھے مانع نہ ہو اور میرے بچوں کا مجھے فکر نہ ہو اور میرے ان کے پاس جانے کا ایک بہانہ بھی ہے کہ میرا لڑکا ان کے پاس قید ہے تو وہاں جاکےمَیں نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دوں۔ بہرحال اس کے بعد صفوان نے قرض اتارنے اور بچوں کی پرورش کرنے کے بارے میں وعدہ کیا، جیساکہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ اس کے بعد آپؓ نے یہاں یہ بھی لکھا ہے کہ بہرحال اس کے بعد عمیراپنے گھر آیا، تلوار زہر میں بجھا کر مکے سے نکل کھڑا ہوا۔ مدینےپہنچا تو حضرت عمرؓ جو اِن باتوں میں بہت ہوشیارتھے اسے دیکھ کرخوفزدہ ہوئے اور فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جاکر عرض کیا کہ عمیرآیا ہے اور مجھے اس کے متعلق اطمینان نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے میرے پاس لے آؤ۔ حضرت عمرؓ اس کولینے کے لیے گئے اور جاتے ہوئے صحابہؓ کو بھی کہہ گئے کہ عمیر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملانے کے لیے لاتا ہوں۔ مجھے اس کی حالت کوئی مشتبہ معلوم ہوتی ہے۔ تم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر بیٹھ جاؤ اور چوکس رہو۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ عمیر کوساتھ لیے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے اسے نرمی کے ساتھ اپنے پاس بٹھا کر پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیوں عمیر کیسے آنا ہوا؟ عمیر نے کہا میرا لڑکا آپ کے ہاتھ میں قید ہے اسے چھڑانے آیا ہوں ۔ پھر آپؐ نے فرمایا تو یہ تلوار کیوں حمائل کر رکھی ہے؟ یہ کیوں گلے میں ڈالی ہوئی ہے۔ اس نے کہا آپ تلوار کاکیا کہتے ہیں؟ بدر میں تلواروں نے کیا کام کیا تھا؟بڑی ہوشیاری سے باتیں کرنے لگے۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں۔ ٹھیک ٹھیک بتاؤ کیسے آئے ہو؟ اس نے وہی بات کہی کہ بات وہی ہے جو مَیں پہلے کہہ چکا ہوں کہ بیٹے کو چھڑانے آیا ہوں ۔ آپؐ نے فرمایا اچھا تو گویا تم نے صفوان کے ساتھ مل کر صحن کعبہ میں کوئی سازش نہیں کی۔ آپؐ نے اشارہ دیا سازش کا۔عمیر یہ بات سن کے سناٹے میں آ گیا مگر سنبھل کر بولا۔ نہیں مَیں نے کوئی سازش نہیں کی۔ آپؐ نے فرمایاکیا تم نے میرے قتل کا منصوبہ نہیں کیا؟ مگر یاد رکھو! خدا تمہیں مجھ تک پہنچنے کی توفیق نہیں دے گا۔ عمیر ایک گہرے فکر میں پڑ گیا اور پھر بولا آپ سچ کہتے ہیں ہم نے واقعی یہ سازش کی تھی مگر
معلوم ہوتا ہے کہ خدا آپ کے ساتھ ہے جس نے آپ کوہمارے ارادوں سے اطلاع دے دی ورنہ جس وقت میری اورصفوان کی بات ہوئی تھی اس وقت وہاں کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا اور شاید خدا نے یہ تجویز میرے ایمان لانے ہی کے لیے کروائی ہے اور مَیں سچے دل سے آپ پر ایمان لاتا ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمیر کے اسلام سے خوش ہوئے اور صحابہؓ سے فرمایا۔ اب یہ تمہارا بھائی ہے اسے اسلام کی تعلیم سے آگاہ کرو اور اس کے قیدی کو چھوڑ دو۔ الغرض عمیر بن وہب مسلمان ہوگئے اوربہت جلد انہوں نے ایمان واخلاص میں نمایاں ترقی کرلی اور بالآخر نورِ صداقت کے اس قدر گرویدہ ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے باصرار عرض کیا کہ مجھے مکہ جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں تا کہ میں وہاں کے لوگوں کو جا کر تبلیغ کروں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اور عمیرنے مکہ پہنچ کراپنے جوش تبلیغ سے کئی لوگوں کو خفیہ خفیہ مسلمان بنا لیا۔ صفوان جودن رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی خبریں سننے کا منتظر تھا اور قریش سے کہا کرتا تھا کہ اب تم ایک خوشخبری سننے کے لیے تیار رہو۔ اس نے جب یہ نظارہ دیکھا تو بے خود سا رہ گیا۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 374تا 376)
بدر کے بعد بعض لوگ مسلمان بھی ہوئے لیکن منافقانہ رنگ رکھتے تھے ان میں عبداللہ بن ابی بن سلول بھی تھا۔
علامہ ابن کثیر سورہ بقرہ کی آیت نو، دس کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ جب غزوۂ بدر کا واقعہ پیش آیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے کلمے کو غالب کیا اور اسلام اور اہل اسلام کو عزت دی تو عبداللہ بن ابی بن سلول جو مدینےکا رئیس اور بنو خزرج میں سے تھا اور زمانہ جاہلیت میں ان دونوں قبائل یعنی اوس اور خزرج کا سردار تھا ان لوگوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ ان پر حکومت کرے گا۔ یعنی عبداللہ بن ابی کو اپنا سردار بنا رہے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ اس کی قوم تاج بنوا کر اسے بادشاہ بنانے کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ اسی دوران بھلائی آ پہنچی یعنی اسلام کا پیغام پہنچ گیا اور لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور اسے بھول گئے۔ اس وجہ سے اسلام اور اہل اسلام اس کے دل میں کھٹکنے لگے۔ جب بدر کا واقعہ ہوا تو وہ کہنے لگا یہ امر تو اب غالب آتا جا رہا ہے۔ پہلے تو اس کا خیال تھا کہ تھوڑے سے لوگ ہیں جب بدر کی جنگ جیتی گئی تو اس سے اس کو فکر پیدا ہوئی چنانچہ اس نے بظاہر اسلام قبول کیا اور اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کے پیروکاروں کی ایک جماعت نے بھی اسلام قبول کر لیا اور بعض اہلِ کتاب بھی ان کے ساتھ تھے۔
(تفسیر ابن کثیر جلد 1 صفحہ 87زیرآیات و من الناس من یقول…وما یشعرون،دارالکتب العلمیۃ بیروت 1998ء)
(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 3 صفحہ 418 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ نے اس طرح لکھا ہے کہ ’’ابھی تک مدینہ میں قبائل اوس اورخزرج کے بہت سے لوگ شرک پر قائم تھے۔ بدر کی فتح نے ان لوگوں میں ایک حرکت پیدا کردی اوران میں سے بہت سے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظیم الشان اورخارق عادت فتح کو دیکھ کر اسلام کی حقانیت کے قائل ہو گئے۔ اور اس کے بعد مدینہ سے بت پرست عنصر بڑی سرعت کے ساتھ کم ہونا شروع ہو گیا مگر بعض ایسے بھی تھے جن کے دلوں میں اسلام کی اس فتح نے بغض وحسد کی چنگاری روشن کردی اور انہوں نے برملا مخالفت کوخلاف ِمصلحت سمجھتے ہوئے بظاہر تو اسلام قبول کر لیا لیکن اندر ہی اندر اس کے استیصال کے درپے ہو ہو کر منافقین کے گروہ میں شامل ہو گئے۔ ان مؤخرالذکر لوگوں میں زیادہ ممتاز عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا جو قبیلہ خزرج کاایک نہایت نامور رئیس تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں تشریف لانے کے نتیجہ میں اپنی سرداری کے چھینے جانے کا صدمہ اٹھا چکا تھا۔ یہ شخص بدر کے بعد بظاہر مسلمان ہو گیا لیکن اس کادل اسلام کے خلاف بغض وعداوت سے لبریز تھا اوراہلِ نفاق کاسردار بن کر اس نے مخفی مخفی اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ریشہ دوانی کاسلسلہ شروع کر دیا۔ چنانچہ بعد کے واقعات سے پتہ لگے گا کہ کس طرح یہ شخص بعض اوقات اسلام کے لئے نہایت نازک حالت پیدا کردینے کا باعث بنا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 376-377)اس کی ایک لمبی ایک علیحدہ تاریخ ہے۔
غزوۂ بنو سُلَیم یا قَرْقَرَةُ الْکُدْر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ بدر سے لَوٹے تو چند ہی دنوں بعد آپؐ کو اطلاع ملی کہ بنوسُلَیم اور بنو غطفان کے لوگ قَرقَرةُ الکُدر کے مقام پر جمع ہیں اور مدینے پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔ قَرقَرةالکُدر ایک چٹیل میدان میں ایک چشمہ تھا اس کا نام ہے۔ یہ ادھر نجد کے راستے میں مکہ سے شام جانے والی شاہراہ پر مدینے سے چھیانوے میل کے فاصلے پر واقعہ ہے۔
بہرحال یہ خبر ملتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ بنو سلیم اور بنو غطفان کی طرف ازخود فوری پیش قدمی کر کے ان کے فاسد ارادوں کو خاک میں ملا دینا چاہیے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین سو صحابہؓ کا لشکر لے کر بنفس نفیس قَرقَرة الکُدر کی طرف روانہ ہو گئے۔
جنگ کے لیے روانگی کے بارے میں مختلف رائے ہیں ۔ ابن اسحاق کے بقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بدر سے واپسی کے سات دن بعد آخر رمضان یا شروع شوال دو ہجری میں اس مہم پر روانہ ہوئے تھے۔طبقات ابن سعد میں لکھا ہے غزوۂ بنو سلیم چھ جمادی الاولیٰ کو پیش آیا۔ واقدی کے مطابق غزوہ نصف محرم تین ہجری میں پیش آیا۔ واقدی کی زیادہ روایات عموما ًکمزور ہی ہوتی ہیں۔ اس غزوے کی قیادت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علمبردار حضرت علیؓ تھے اور اسلامی جھنڈے کا رنگ سفید تھا۔
(سیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 281، غزوہ سُلیم،دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد2 صفحہ 27 ،غزوۃ رسول اللّٰہ بنی سلیم، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
(السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق جلد 1 صفحہ 319 غزوہ سُلیم، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)
(کتاب المغازی للواقدی جلد 1 صفحہ 182، غزوۃ قرارۃ الکُدر، عالم الکتب بیروت 1984ء)
(فرہنگ سیرت صفحہ 242، معجم البلدان جلد 4 صفحہ 501،المنجدصفحہ33 زیر مادہ ’’ برد‘‘ و’’قرقر‘‘صفحہ624)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم ؓکو اپنی نیابت کا شرف عطا فرمایا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعے پر حضرت سِبَاعْ بن عُرْفُطَہ غِفَارِیؓکو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا۔ بہرحال ان دونوں باتوں کی وضاحت اس طرح کی جاتی ہے کہ انتظامی فیصلوں کے لیے حضرت سِبَاعؓ کو نیابت سونپی اور حضرت عبداللہ ابن ام مکتومؓ کو حسبِ معمول نماز پڑھانے پرمامور فرمایا۔
(سیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 280، غزوہ سُلیم،دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
بہرحال دشمن کو جب پتہ لگا کہ اسلامی لشکر آ رہا ہے۔ بنوسلیم اور بنوغطفان کے لوگوں کو اچانک یہ خبر پہنچی کہ تین سو لوگ آ رہے ہیں تو ان کے لیے یہ بڑا غیر متوقع تھا۔ خوفزدہ ہو کر وہ لوگ وہاں سے دوڑ گئے اور پہاڑوں کی چوٹیوں کے اوپر جا پہنچے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد2 صفحہ 26 ،غزوۃ رسول اللّٰہ بنی سلیم، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی لشکر کے ساتھ وادی کدر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونٹوں کے قدموں کے نشان کے علاوہ پانی کے گھاٹ بھی نظر آئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس علاقے میں دشمن کا ایک آدمی بھی نہیں ملا۔
(کتاب المغازی للواقدی جلد 1 صفحہ 182، غزوۃ قرارۃ الکُدر، عالم الکتب بیروت 1984ء)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کا ایک دستہ وادی کی بالائی جانب روانہ فرمایا اور خود کسی مزاحمت کا سامنا کیے بغیر بطنِ وادی میں تشریف لے گئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان قبائل کے کچھ چرواہے ملے ان میں یسار نامی ایک غلام بھی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بنو سلیم اور غطفان کے لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے ان کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ مَیں تو بس اونٹوں کو پانی پلاتا ہوں۔ کچھ کو پانچویں دن کچھ کو چوتھے دن باری آتی ہے اور مقامی لوگ چشموں کی طرف اوپر چڑھ گئے ہیں جبکہ ہم اونٹوں کے ریوڑ کے ساتھ اس معاملے سے بالکل الگ تھلگ ہیں۔ بہرحال یہ لوگ کیونکہ جنگ کےارادے سے آئے ہوئے تھے، ان کا سامان تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں اور چرواہوں کو حراست میں لے لیا۔ تین رات آپؐ نے وہاں قیام فرمایا ایک روایت کے مطابق دس راتیں آپؐ مقیم رہے۔
جتنا عرصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں قیام پذیر رہے کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں آنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی لڑائی کے فتحیاب ہو کر واپس آ گئے۔
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ جلد 2 صفحہ 345، غزوۃ بنی سُلیم، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اونٹ بطور مالِ غنیمت ملے ان کی تعداد پانچ سو تھی۔ کیونکہ یہ لوگ جنگ کی غرض سے آئے ہوئے تھے اور اپنا مال وہاں چھوڑ گئے تھے۔ اس لیے اس وقت کے رواج کے مطابق یہ جائز تھا کہ ان کا وہ مال لے آیا جائے۔ وہ مالِ غنیمت تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خمس نکالا۔ بقیہ چار سو مسلمانوں میں تقسیم کر دیے۔ ہر مجاہد کو دو دو اونٹ ملے۔ یہ لشکر دو سو مجاہدین پر مشتمل تھا۔ یسار آپؐ کے حصے میں آیا تو آپؐ نے اسے آزاد کر دیا۔ چرواہا جو تھا اسے آپؐ نے آزاد کر دیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مہم کے لیے پندرہ روز تک مدینے سے باہر رہے۔
(سبل الہدیٰ و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد جلد4 صفحہ 172، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
اس کی تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں اس طرح لکھی ہے کہ ’’ہجرت کے بعد قریشِ مکہ نے مختلف قبائلِ عرب کادورہ کرکے بہت سے قبائل کومسلمانوں کا جانی دشمن بنادیا تھا۔ ان قبائل میں طاقت اورجتھے کے لحاظ سے زیادہ اہم عرب کے وسطی علاقہ نجد کے رہنے والے دوقبیلے تھے جن کا نام بنوسُلیم اور بنوغطفان تھا اورقریش مکہ نے ان دوقبائل کو خصوصیت کے ساتھ اپنے ساتھ گانٹھ کرمسلمانوں کے خلاف کھڑا کردیا تھا،چنانچہ سرولیم میور لکھتے ہیں کہ’’قریش مکہ نے اب اپنی توجہ اس نجدی علاقہ کی طرف پھیری اوراس علاقہ کے قبائل کے ساتھ آگے سے بھی زیادہ گہرے تعلقات قائم کر لئے اور اس وقت کے بعد قبائل سلیم وغطفان محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سخت دشمن ہو گئے اوران کی اس دشمنی نے مسلمانوں کے خلاف عملی صورت اختیار کر لی۔ چنانچہ قریش کی اشتعال انگیزی اور ابوسفیان کے عملی نمونہ کے نتیجہ میں انہوں نے مدینہ پر حملہ آور ہونے کی تجویز پختہ کر لی۔‘‘
یہ مستشرق ہے، اس نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ اکٹھے ہو کر مدینےپر حملہ کرنا چاہتے تھے اس لیے جو بھی سلوک ان کے ساتھ ہوا اور جو مال غنیمت لائے وہ بالکل جائز تھا۔
بہرحال آگے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدر سے واپس تشریف لائے تو ابھی آپؐ کو مدینہ میں پہنچے ہوئے صرف چند دن ہی ہوئے تھے کہ آپؐ کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ قبائل سُلَیم وغَطفان کا ایک بڑا لشکر مدینہ پر حملہ آور ہونے کی نیت سے قَرقرہ الکُدر میں جمع ہو رہا ہے۔جنگِ بدر کے اس قدر قریب اس اطلاع کا آنا یہ ظاہرکرتا ہے کہ جب قریش کا لشکر مسلمانوں کے خلاف حملہ آور ہونے کی نیت سے مکہ سے نکلا تھا تو رؤسا ءقریش نے اسی وقت قبائل سُلَیم وغطفان کویہ پیغام بھیج دیا ہوگا کہ تم دوسری طرف سے مدینہ پرحملہ آور ہو جاؤ۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ جب ابوسفیان اپنے قافلہ کے ساتھ بچ کرنکل گیا، تو اس نے کسی قاصد وغیرہ کے ذریعہ ان قبائل کومسلمانوں کے خلاف نکلنے کی تحریک کی ہو۔ بہرحال ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنگِ بدر سے فارغ ہو کر مدینہ میں پہنچے ہی تھے کہ یہ وحشت ناک اطلاع موصول ہوئی کہ قبائل سُلَیم وغطفان مسلمانوں پر حملہ کرنے والے ہیں ۔ یہ خبر سن کر آپ فوراً صحابہؓ کی ایک جمعیت کوساتھ لے کر پیش بندی کے طور نجد کی طرف روانہ ہو گئے لیکن جب آپؐ کئی دن کا تکلیف دہ سفرطے کرکے موضع الکُدر کے قَرقَرہ یعنی چٹیل میدان میں پہنچے تومعلوم ہوا کہ بنو سلیم اوربنوغطفان کے لوگ لشکر اسلام کی آمد آمد کی خبر پا کر پاس کی پہاڑیوں میں جا چھپے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاش میں مسلمانوں کاایک دستہ روانہ فرمایا اور خود بطن وادی کی طرف بڑھے مگر ان کا کچھ سراغ نہیں ملا۔ البتہ ان کے اونٹوں کاایک بڑا گلہ ایک وادی میں چرتا ہوا مل گیا جس پر قوانین جنگ کے ماتحت‘‘ جو اس وقت کے قوانینِ جنگ تھے ’’صحابہؓ نے قبضہ کر لیا اور اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کو واپس لوٹ آئے۔ ان اونٹوں کاچرواہا ایک یسار نامی غلام تھا جو اونٹوں کے ساتھ قید کرلیا گیا تھا۔ اس شخص پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا ایسا اثرہوا کہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ وہ مسلمان ہو گیا اور گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حسبِ عادت اسے بطور احسان کے آزاد کر دیا مگر وہ مرتے دم تک آپؐ کی خدمت سے جدا نہیں ہوا۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ452، 453)
پھر
مسلمانوں کی پہلی عیدالفطر کے بارے میں
جو شوال دو ہجری میں ہوئی اس کے بارے میں لکھا ہے کہ ہجرت کے دوسرے برس ماہ رمضان کے اختتام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی عیدالفطر ادا فرمائی۔
(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد 6صفحہ362 مطبوعہ دارالمعارف لاہور2022ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ دَور جاہلیت میں تم جو دو دن خوشیاں منایا کرتے تھے ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ وہاں کے رہنے والوں نے عرض کیا کہ اس سے پہلے ہم یہ تہوار بالکل اسی طرح منایا کرتے تھے جو اب بھی رائج ہیں ۔ فرمایا
اللہ تعالیٰ نے ان دو تہواروں سے بہتر دن تمہارے لیے مقرر فرمائے ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے بصد اشتیاق پوچھا وہ کون سے دن ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیدالفطر اور عید الاضحی۔ ان دنوں میں کوئی روزہ نہ رکھے بلکہ کھائے پیئے اور خوشیاں منائے۔
ان دونوں عیدوں میں آپؐ عید گاہ تشریف لے جاتے۔ عید گاہ مدینےکے مشرقی حصے کی طرف تھی۔ آپؐ عید کے دن عید گاہ ایک راستے سے تشریف لے جاتے اور دوسرے راستے سے واپس ہوتے تھے اس سے جلوس کی شکل ہو جاتی اور غیر مسلموں پر رعب طاری ہوتا۔ ایک بار عیدالفطر کی نماز آپؐ نے مسجد نبوی میں بھی پڑھائی کیونکہ اس نماز کے وقت بارش بہت تیز ہوئی تھی۔
(سیرت النبیﷺ کا انسائیکلو پیڈیا از سید قاسم محمود جلد اوّل صفحہ 411، مکتبہ الفیصل لاہور 2014ء)
اس عید کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ عیدالفطر کے ضمن میں یہ جو لکھا ہے وہ یہ ہے کہ ’’رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد رمضان کا آخر آیا توآپؐ نے خدا سے حکم پاکر صدقۃالفطر کاحکم جاری فرمایا کہ ہرمسلمان جسے اس کی طاقت ہو اپنی طرف سے اور اپنے اہل و عیال اور توابع کی طرف سے فی کس ایک صاع کے حساب سے کھجور یاانگور یاجو یاگندم وغیرہ بطور صدقہ عید سے پہلے ادا کرے اور یہ صدقہ غرباء اور مساکین اوریتامیٰ اوربیوگان وغیرہ میں تقسیم کردیا جاوے تاکہ ذی استطاعت لوگوں کی طرف سے عبادت صوم کی کمزوریوں کا کفارہ ہو جاوے اور غرباء کے لئے عید کے موقعہ پرایک امداد کی صورت نکل آئے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہر عید رمضان سے پہلے صدقہ الفطر باقاعدہ طورپر ہرچھوٹے بڑے مردعورت مسلمان سے وصول کیا جاتا تھا اوریتامٰی اورغرباء اورمساکین میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔
عیدالفطر بھی اسی سال شروع ہوئی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ رمضان کا مہینہ ختم ہوجانے پر شوال کی پہلی تاریخ کومسلمان عید منایا کریں ۔
یہ عید اس بات کی خوشی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رمضان کی عبادت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ مگر کیا شان دلربائی ہے کہ آپؐ نے اس خوشی کے اظہار کے لئے بھی ایک عبادت ہی مقرر فرمائی۔
چنانچہ حکم دیا کہ عید کے دن تمام مسلمان کسی کھلی جگہ جمع ہو کر پہلے دو رکعت نماز ادا کیا کریں اور پھر اس نماز کے بعد بے شک جائز طورپر ظاہری خوشی بھی منائیں کیونکہ روح کی خوشی کے وقت جسم کا بھی حق ہے کہ وہ خوشی میں حصہ لے۔ دراصل اسلام نے ان تمام بڑی بڑی عبادتوں کے اختتام پر جو اجتماعی طور پر ادا کی جاتی ہیں، عیدیں رکھی ہیں ، چنانچہ نمازوں کی عید جمعہ ہے جوگویا ہر ہفتہ کی نمازوں کے بعد آتا ہے اور جسے اسلام میں ساری عیدوں سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ پھر روزوں کی عید عیدالفطر ہے جو رمضان کے بعد آتی ہے اور حج کی عید عیدالاضحی ہے جو حج کے دوسرے دن منائی جاتی ہے اوریہ ساری عیدیں پھر خود اپنے اندر ایک عبادت ہیں ۔ الغرض اسلام کی عیدیں اپنے اندر ایک عجیب شان رکھتی ہیں اوران سے اسلام کی حقیقت پربڑی روشنی پڑتی اوریہ اندازہ کرنے کا موقعہ ملتا ہے کہ کس طرح اسلام مسلمانوں کے ہر کام کا ذکر الٰہی کے ساتھ پیوند کرنا چاہتا ہے۔‘‘
پس
یاد رکھنا چاہیے کہ عیدوں کی یہ اہمیت ہے کہ ہمیشہ صرف خوشیاں نہیں
بلکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی ہونا چاہیے اور عبادت بھی ہونی چاہیے۔
فرماتے ہیں کہ ’’مجھے تاریخ سے ہٹنا پڑتا ہے ورنہ میں بتاتا کہ کس طرح اسلام نے ایک مسلمان کی ہرحرکت وسکون اور ہر قول وفعل کو خدا کی یاد کا خمیر دیا ہے۔ حتیٰ کہ روزمرہ کے معمول اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، سونے جاگنے، کھانے پینے، نہانے دھونے، کپڑے بدلنے، جوتاپہننے، گھر سے باہر جانے، گھرکے اندر آنے، سفر پر جانے، سفر سے واپس آنے، کوئی چیز بیچنے، کوئی چیز خریدنے، بلندی پر چڑھنے، بلندی سے اترنے، مسجد میں داخل ہونے، مسجد سے باہر آنے، دوست سے ملنے، دشمن کے سامنے ہونے، نیا چاند دیکھنے، بیوی کے پاس جانے، غرض ہرکام کے شروع کرنے اور ختم کرنے حتیٰ کہ چھینک اور اباسی تک لینے کو کسی نہ کسی طرح خدا کے ذکر کے ساتھ وابستہ کردیا ہے۔‘‘
پس یہ اسلام کی تعلیم ہے جسے ہمیشہ ہر حقیقی مسلمان کو سامنے رکھنا چاہیے کہ
اللہ تعالیٰ ہر وقت، ہر بات میں ہمارے سامنے ہونا چاہیے۔
’’اس حالت میں اگر مشرکین عرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق، جو دراصل اس تعلیم کے لانے والے لیکن کفار کے خیال میں اس تعلیم کے بنانے والے تھے، یہ کہتے ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو خدا کا جنون ہوگیا ہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ واقعی ایک دنیادار کویہ باتیں جنون کے سوا اَورکچھ نظر نہیں آ سکتیں مگر جس نے اپنی ہستی کی حقیقت کو سمجھا ہے وہ جانتا ہے کہ زندگی اسی کا نام ہے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 337-338)حقیقی زندگی یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی یاد ہمیشہ انسان کو رہے۔
اس عرصے میں جنگِ بدر کے بعد اور احد سے پہلے
دو مشتبہ واقعات
کا بھی ذکر ملتا ہے جن کا اگر سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے، اور صاف پتہ لگ رہا ہےکہ من گھڑت کہانی ہے۔
پہلا واقعہ عَصْمَاءبنت مروان کا قتل ہے۔
یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس کا قتل کیا گیا اور اس کی تفصیل میں بیان ہوا ہے کہ حضرت عُمَیر بن عَدِی خِطْمِیْ ایک نابینا صحابی تھے۔ حضرت عمیرؓ قبیلہ بنو خِطَمہ میں سب سے پہلے مسلمان ہوئے۔ ہجرت کا دوسرا سال تھا۔ رمضان کی پانچ راتیں باقی تھیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عُمیر بن عدی خِطْمِیْ کوعَصماء بنت مروان کی طرف بھیجا جو یہودی عورت تھی اور مَرثَد بن زید بن حِصْن انصاری ؓکی بیوی تھی جو مسلمان ہو گئے تھے۔عَصماء بنت مروان کے قتل کا حکم دینے کی وجہ یہ تھی کہ یہ اسلام کو گالیاں دیا کرتی تھی۔ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس لیے بھیجا کہ اسلام کو گالیاں دیا کرتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کو ابھارتی تھی اور اشعار کہتی تھی۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ یہ عورت گندے کپڑے مسجد نبویؐ میں لے جا کر ڈال دیا کرتی تھی۔ اس کہانی کو بنانے کے لیے اس روایت میں یہ بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ اور اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچایا کرتی تھی۔ حضرت عمیرؓ رات کے اندھیرے میں اس کے گھرمیںداخل ہوئے۔ بقول ان کے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو رات کے اندھیرے میں اس عورت کے گھر گئے، اس کی اولاد اس کے ارد گرد سوئی ہوئی تھی اور ایک بچے کو وہ دودھ پلا رہی تھی۔ عمیر نے اپنے ہاتھ سے اسے ٹٹولا اور اس بچے کو اس سے دُور کیا اور اپنی تلوار اس کے سینے پر رکھ کر پورا زور ڈال دیا یہاں تک کہ تلوار اس کی کمر سے پار ہو کر نکل گئی۔ اس کے بعد عمیر بن عدی نے مدینےآ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صبح کی نماز ادا کی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر اٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر عمیر پر پڑی۔ آپؐ نے اس سے پوچھا کیا تم نے مروان کی بیٹی کو قتل کر دیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا ہاں۔ کیا اس کے قتل کے نتیجہ میں مجھ پر کوئی گناہ ہوا ہے؟ اب یہ پوچھ رہے ہیں ۔ ایک طرف تو لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھیجا تھا۔ اب یہ پوچھ رہے ہیں کیا قتل کے نتیجے میں مجھے گناہ ہوا ہے۔ آپؐ نے جواب میں عربی کا ایک غیر معروف محاورہ بولا اور فرمایا۔ لَا يَنْتَطِحُ فِيهَا عَنْزَانِ، اس کی وجہ سے تو دو بکریاں بھی باہم نہ لڑیں گی۔ یعنی اس عورت کا قتل اتنا حقیر اور معمولی ہے کہ اس کی مخالفت کرنے والا بھی اس کی مخالفت نہیں کرے گا۔ لکھتے ہیں یہ کلمہ یا محاورہ ان کلمات میں سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کی زبان سے نہیں سنے گئے۔ یہی ایک روایت یہاں ملتی ہے۔ بہرحال اس واقعے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےعُمیر کا نام بصیر یعنی بینا رکھ دیا۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے کہا اس اندھے کی طرف دیکھوجس نے اطاعتِ الٰہیہ میں رات بسر کی ہے۔ آپؐ نے اسے فرمایا انہیں اندھا نہ کہو بلکہ انہیں بصیر کہو۔
ایک روایت میں عَصمَاء کے قتل کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عَصمَاء بنت مروان کے قتل کا ارادہ کیا تو لوگوں سے فرمایا کیا کوئی شخص ہے جو ہمیں اس عورت سے نجات دلا سکے؟ اس پر عمیر بن عدی نے کہا کہ اس کا کام تمام کرنا میرے ذمہ ہے۔ اس کے بعد یہ عَصمَاء کے پاس پہنچے۔ وہ عورت کھجور فروخت کر رہی تھی۔ عمیر نے اس کے سامنے رکھی کھجوروں کی طرف اشارہ کر کے کہا کیا تمہارے پاس ان کھجوروں سے اچھی کھجوریں ہیں؟ اس نے کہا ہاں اور وہ یہ کہہ کر اپنے مکان کے اندر گئی اور کھجوریں اٹھانے کے لیے جھکی۔ وہ کہتے ہیں مَیں نے دائیں بائیں دیکھا۔ مَیں نے اس کے سر پر وار کیا اور اس کو قتل کر دیا۔ تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا اگر تم ایسے شخص کی طرف دیکھنا چاہو جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نصرت کی ہے تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو۔
ایک روایت میں یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےعَصمَاءبنت مروان کا خون جائز قرار دیا تو حضرت عمیرؓ نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگِ بدر سے خیریت کے ساتھ مدینہ پہنچنا نصیب فرمایا تو میںعَصمَاء کو قتل کروں گا یعنی بدر کی جنگ میں جانے سے پہلے یہ حکم دیا تھا اور انہوں نے کہا کہ جنگ سے واپسی پر مَیں قتل کر دوں گا۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر سے کامیاب و کامران ہو کر مدینہ منورہ واپس آ گئے تو حضرت عمیرؓ نے اپنی منت پوری کرنے کے لیےعَصمَاء کے گھر جا کر اس کو قتل کیا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ عَصمَاء بنت مروان کو قتل کرنے کے بعد جب حضرت عمیرؓ اس محلے میں واپس آئے تو اس عورت کے بیٹے ایک گروہ کے ساتھ اپنی ماں کو دفن کر رہے تھے۔ عمیر کو دیکھ کر انہوں نے کہا عمیر کیا تم نے اسے قتل کیا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر کہا فَكِيْدُوْنِي جَمِيْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ۔ پس تم سب مل کر میرے خلاف چالیں چلو پھر مجھے کوئی مہلت نہ دو۔ مجھے اس ذات کی قسم! جس کے دستِ تصرف میں میری جان ہے اگر تم سارے مل کر بھی وہی باتیں کہو جو یہ عورت کہا کرتی تھی تو تم سب کی گردنیں اپنی اس تلوار سے اڑانا شروع کر دوں گا یہاں تک کہ یا تو میں شہید ہو جاؤں گا یا تمہیں واصل جہنم کر دوں گا۔ اس روز سے قبیلہ بنو خِطمَہ میں کھل کر اسلام پھیلنے لگا ورنہ اس سے پہلے ان میں جو لوگ مسلمان ہو چکے تھے وہ بھی اپنا مسلمان ہونا چھپایا کرتے تھے۔
علامہ سُہَیلی نے لکھا ہے کہ عَصماءکو قتل کرنے والے اس کے شوہر تھے اور کتاب استیعاب میں حضرت عمیرؓ کے حالات کے تحت لکھا ہے کہ انہوں نے اپنی بہن کو بھی قتل کیا تھا کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی مگر استیعاب میں عمیر کی بہن کا نام مذکور نہیں ۔
(سیرت حلبیہ (مترجم) جلد3صفحہ 482تا 485، مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2009ء)
( سبل الھدی والرشاد جلد6 صفحہ21، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
تو یہ ساری کہانی بیان کی گئی ہے۔
تاریخ و سیرت کی بعض کتب میں یہ واقعہ ملتا ہے لیکن صحاح سِتّہ اور حدیث کی کسی بھی معتبر کتاب میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ بعد کے زمانےکے بعض لوگوں نے اس طرح کے فرضی اور من گھڑت واقعات کو نہ صرف اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے بلکہ توہینِ رسالت کی سزا کے ضمن میں دلیل کے طور پر پیش کرنے لگ گئے ہیں اور آجکل کے مُلّاں اس بات کو لے کے یہی تو دلیل دیتے ہیں کہ جو توہین رسالت کرے اس کو قتل کر دو جبکہ
توہین رسالت کی کسی قسم کی کوئی ایسی سزا شریعت اسلام میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کے واقعات کی کوئی حقیقت ہے۔
مثلاً جب ہم
اس واقعہ کا تجزیاتی مطالعہ
کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اوّل تو سند کے اعتبار سے یہ روایت ضعیف ہے اور علامہ البانی نے اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔ چنانچہ علامہ ناصر الدین البانی نے اسے اپنی کتاب سلسلة الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ میں لکھا ہے کہ اس کا ایک راوی محمد بن عمر واقدی ہے جو کذاب ہے اور ابن معین نے اسے ضعیف کہا ہے۔
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ جلد 13 صفحہ 34-35 روایت نمبر 6013مکتبہ المعارف الریاض 2004ء)
اس کے علاوہ درایت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس روایت کے بارے میں کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ مثلاً صحابی نابینا ہونے کے باوجود اس عورت کے گھر تک اکیلے کیسے پہنچے؟ وہ یہ کہہ دیں کہ جی پہلے جاتے ہوں گے تو راستہ دیکھا ہوا تھا۔ باقاعدہ جاتے ہوں تو پھر راستہ ٹٹول کے پہنچ گئے لیکن عین رات کو اکیلے وہاں پہنچ بھی گئے، دروازہ پربھی پہنچ گئے، اندر بھی چلے گئے۔ پھر یہ کہ عورت کو رات کے اندھیرے میں کیسے ڈھونڈ نکالا؟ یہ پتہ کس طرح لگا کہ ارد گرد اس کے بچے بھی سو رہے ہیں؟ چلو ہر ایک کو ٹٹولتے رہے اور پھر پتہ لگا اور اس ٹٹولنے کے دوران میں کوئی نہ جاگا ۔ ٹٹول کر یہ بھی معلوم کر لیا کہ وہ بچے کو دودھ پلا رہی تھی۔ پھر اس مقتولہ نے موت کو سامنے دیکھ کر بھی نابینا سے اپنے دفاع یا بچے کو بچانے کے لیے کوئی کوشش یا مزاحمت نہیں کی حالانکہ قاتل نے روایت کے مطابق اس دودھ پیتے بچے کو زبردستی الگ کیا تھا۔ وہ نابینا تھے اور عورت کی آنکھیں تھیں تب بھی اس نے نہ شور مچایا نہ کوئی مزاحمت کی۔ اس کا شوہر بھی وہاں سو رہا تھا اس کو بھی کوئی خبر نہیں ہوئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نابینا صحابی کو کوئی آواز دیے بغیر کیسے پتہ چل گیاکہ وہی عورت عصماء بنت مروان ہی تھی، عمومی طور پر نابینا آوازوں سے پہچانتے ہیں۔
ایک دوسری روایت جو ہے۔ کہانیاں بھی مختلف ہیں ناں۔ اب دوسری کہانی میں یہ ہے کہ وہ عورت جب کھجور لینے اندر گئی تو صحابی نے اِدھر اُدھر دیکھا تو انہیں کوئی نظر نہ آیا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ صحابی تو نابینا تھے۔ اس صورت میں اِدھر اُدھر کیسے دیکھ سکتے تھے اور کیسے کہہ سکتے تھے کہ مَیں نے اِدھر اُدھر دیکھا تو کوئی نظر نہ آیا بلکہ پہلے سے پڑی ہوئی کھجوروں کو دیکھ کر یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ یہ کھجوریں عمدہ نہیں ہیں ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ہاتھ لگا کے دیکھا تھا تو چلو ٹھیک ہے لیکن اِدھر اُدھر دیکھنے والی بات تو بہرحال ہے ناں۔
ایک روایت میں ہے کہ جب وہ صحابی اس عورت کو قتل کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور اس کے قتل کی اطلاع دی اورجب دوبارہ وہاں واپس لَوٹے تووہاںاس عورت کے بیٹے اسے دفن کر رہے تھے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اِدھر وہ اسے قتل کرے اُدھر اس کے بیٹے اسے کچھ ہی دیر میں دفن بھی کرنے آ جائیں۔ تھوڑے سے وقفےمیں فوری سارے کام ہو گئے۔ ہمارے لوگوں کی یہ بھی تحقیق ہے اور یہ بیان کر دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ دیگر اختلافات جو اس واقعہ کا فرضی اور من گھڑت ہونا ثابت کرتے ہیں ان میں یہ ہے کہ اکثر روایات میں عورت کا نام عَصمَاء بنت مروان درج ہے جبکہ مصنف الاستیعاب کے نزدیک وہ عَصمَاءنہیں بلکہ عمیر کی بہن بنت عدی تھی۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 3 ذکر عمیر بن عدی الخطمی صفحہ 291 مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء )
دوسرے یہ کہ قاتل کا نام اکثر جگہوں پہ عمیر بن عدی آیا ہے لیکن بعض جگہ عمرو بن عدی بھی آیا ہے۔
(جوامع السیرة لابن حزم صفحہ19 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
جبکہ ابن دُرَیْدکے نزدیک قاتل کا نام غِشْمِیْرتھا۔
(شرح زرقانی علی المواھب اللدنیہ جزء2صفحہ342 دارالکتب العلمیۃ بیروت1996ء)
بعض اَور روایات کے مطابق مذکورہ بالا میں سے کوئی بھی قاتل نہیں تھا بلکہ اس عورت کی قوم کے کسی شخص نے اسے قتل کیا تھا جبکہ وہ کھجور بیچ رہی تھی۔
(شرح زرقانی علی المواھب اللدنیہ جزء2صفحہ344 دارالکتب العلمیۃ بیروت،1996ء)
ابن سعد کے مطابق قتل کا وقت رات کا درمیانی حصہ ہے جبکہ زرقانی کی روایت میں دن یا شام کا وقت ظاہر ہوتا ہے کیونکہ روایت کے مطابق اس وقت مقتولہ کھجوریں بیچ رہی تھی۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 2 صفحہ 21 دارالکتب العلمیۃ بیروت1990ء)
(ماخوذ از شرح زرقانی علی المواھب اللدنیہ جزء2صفحہ344 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
پھر اس واقعہ کےطریقِ واردات میں بھی اختلاف ہے۔ مقتولہ کا گلا دبایا گیا۔ اس کے پیٹ میں خنجر وغیرہ گھونپ کر اسے قتل کیا گیا۔ اسے رات سوتے میں قتل کیا گیا یا اسے کھجوریں لینے کے بہانے اس کے گھرجاکر گلا دبایا گیا۔
پھر یہ بھی ہے کہ سیرت ابنِ ہشام کے مطابق جب ابوعَفَککو قتل کر دیا گیا تو وہ منافق ہو گئی۔ اس عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا وہ پہلے مسلمان تھی اور ابوعَفَککے قتل کا سن کر منافق ہو گئی۔ اگر اس سے پہلے مسلمان تھی تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے کیسے ہجو لکھ سکتی تھی اور مسجد کی بے حرمتی کیسے کر سکتی تھی۔
واقدی کی روایت کے مطابق عمیر نے کہا اے اللہ! مجھ پر تیرے لیے نذر ہے کہ اگر مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ واپس گیا تو مَیں ضرور اسے قتل کروں گا جبکہ دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےمصنف کےبقول وہ نابینا تھے اور اس وجہ سے غزوۂ بدر میں شامل نہیں ہوسکے تھے اور اسی مصنف نے اس واقعہ کے تناظر میں واقدی کے قول کا ذکر کیا ہے کہ وہ نابینا ہونے کے باوجود جہاد میں حصہ لیتے تھے۔
(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ صفحہ 428-429 دارالمعارف لاہور 2022ء)
(کتاب المغازی للواقدی جلد 1 صفحہ 161دارالکتب العلمیۃ بیروت2013ء)
خود ہی غلط قسم کی روایات خلط ملط کر دیتے ہیں ۔ اگر یہ فرضی اور من گھڑت واقعہ نہیں ہے تو تاریخ و سیرت کی بعض کتب مثلاً تاریخ طبری، تاریخ ابن کثیر وغیرہ نے اس واقعے کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ صرف چند کتب مثلاً طبقات الکبریٰ ابن سعد وغیرہ نے سرسری سا ذکر کیا ہے جبکہ چند نے سرے سے ہی اس واقعہ کا تذکرہ تک نہیں کیا لیکن واقدی نے اس واقعہ کا ذکر نسبتاً تفصیل سے بیان کیا ہے۔
کتبِ احادیث میں بھی اس واقعہ کا ذکر نہیں ملتا حالانکہ مصنفین کتبِ احادیث نے ان تمام روایات کو اپنی کتب میں جگہ دی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوئی ہیں تو پھر اس واقعہ کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ پھر یہ بھی ہے کہ اس روایت کے مطابق جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس صحابی کو اس عورت کے قتل کے لیے بھیجا تھا تو پھر صحابی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کے پوچھنے کا کیا مطلب ہے کہ مجھے اس کے قتل کرنے سے گناہ تو نہیں ملے گا جیساکہ مَیں نے پہلے بھی کہا۔
اگر یہ واقعہ ہوا ہوتا تو یہود لازما ًیہ کہتے کہ عملی طور پر مسلمانوں نے پہلے عَصماء بنت مروان کا قتل کرکے عہد کو توڑا ہے اور مدینےکے امن کو خراب کرنا چاہا ہے جبکہ مؤرخین مثلاً الروض الانف اور تاریخ الطبری کا اتفاق ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں کی پہلی مخاصمت غزوۂ بنو قینقاع ہے۔
(الروض الانف جلد 3 صفحہ 225، دارالکتب العلمیۃ بیروت )
(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 48، دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء )
خود یہودیوں کا تو کوئی ردّعمل ایسا نہیں ہے لہٰذا یہ امور اس واقعے کو بہت زیادہ مشتبہ بلکہ غلط ثابت کرتے ہیں ۔
شدّت پسند مُلّاں نے ان واقعات کو اہمیت دے کر اسلام کی خوبصورت تعلیم کو بدنام کیا ہے اور آجکل اسی طرح من گھڑت کہانیاں بنا کر یہ مولوی احمدیوں کے خلاف بھی شدّت پسندی کے اظہار کرتے رہتے ہیں اور لوگوں کو بھڑکاتے رہتے ہیں۔
دوسرا واقعہ بھی اس سے ملتا جلتا ہی ہے وہ ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔ وہ بھی واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ غلط ہے۔