تحریک جدید اور بچے
سر عثمان: پیارے بچو! السلام علیکم ! آج کی اسائنمنٹ کیا تھی؟
بلال: آج کی اسائنمنٹ میں احمدی بچوں اور بچیوں میں مالی قربانی کے واقعات تلاش کرنے تھے۔
سرعثمان: ہم کلاس کا آغاز کرتے ہیں۔پہلے کل کے سبق کی تھوڑی دہرائی کر لیں۔ بلال!تحریک جدید کا آغاز کب اور کس نے کیا؟
بلال: تحریک جدید کا آغاز حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ خلیفۃ المسیح الثانی نے 1934ءمیں فرمایا۔
سر عثمان: روشان! تحریک جدید کے اغراض ومقاصد کیا ہیں ؟
روشان: اس کے دو بنیادی اغراض و مقاصد ہیں۔تبلیغ اور تربیت
سر عثمان: اویس! تحریک جدید کے مطالبات سے کیا مراد ہے ؟
اویس :تحریک جدید کے 27مطالبات ہیں۔ ان مطالبات میں نمایاں وقفِ زندگی، سادہ زندگی، تبلیغ اور اس کے لیے چندہ ہیں۔
سر عثمان: کائنات! تحریک جدید کے پہلے سال کتنی رقم کا مطالبہ تھا اور جماعت نے کس قدر ادا کی؟
کائنات: مطالبہ ستائیس ہزار کا تھا۔ جماعت نے وعدے ایک لاکھ چار ہزار کے کیے اور نقد ادائیگی پینتیس ہزار روپے کردی۔
سر عثمان: فیضان! دفترتحریک جدید کی تعداد اور ان کا عرصہ کتنے سال کے لیے مقرر ہے؟
فیضان:تحریک جدید دفاتر کی تعداد اب تک 5 ہے اور ان کا عرصہ تقریباً 19سال ہے۔
سر عثمان: اسد !دفتر تحریک جدید سے کیا مراد ہے ؟
اسد:دفتر تحریک جدید سے مراد 19سال کا عرصہ ہے ، اس عرصہ کو دفتر تحریک جدید کہتے ہیں جس کا آغاز حضرت مصلح موعودؓ نے کیا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ کے دور میں2دفتر ہوئے ہیں۔دفتر اول یکم نومبر1934ء،دفتر دوم24؍نومبر1944ء۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے دفتر سوم کا آغاز 22؍ اپریل 1966ء کو کیااور اعلان کیا کہ یہ دفتر 1965ء سے جاری شدہ سمجھا جائے گا تاکہ حضرت مصلح موعودؓ کے دور کی طرف منسوب ہو۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے دور میں دفتر چہارم کا آغاز25؍اکتوبر1985ءاور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے دفتر پنجم کا آغاز 5؍نومبر2004ء میں فرمایا اور یہ دفتر اس سال ختم ہوجائے گا۔
سر عثمان:بچو! آپ سب مجھے احمدی بچوں اور بچیوں میں مالی قربانی کے جذبے کا ایک ایک واقعہ بتائیں ؟
بلال: گیمبیا کی ایک خاتون نے جب چندہ ادا کیا تو یہ دیکھ کر اُن کے بچے بھی اندر گئے اور اپنے گلّوں سے معمولی رقم نکال کر پیش کر دی اور کہتے تھے کہ ہم کیوں ثواب سے پیچھے رہیں۔
روشان: الاڈا ریجن کی ایک سات سال کی بچی اپنی والدہ کے پاس گھر میں پیسے نہ ہونے کے باعث اپنی فصل کے ٹماٹر، مرچیں اور مالٹے لے کر آئی اور مبلغ صاحب سے کہا کہ وہ یہ سب تحریک جدید کے چندہ کے لیے لائی ہے۔
کائنات: کیرالہ انڈیا میں جب تحریک جدید میں مالی قربانی کے حوالے سے تلقین کی گئی۔ تو صدر صاحب کی آٹھ سالہ بیٹی اپنا منی باکس لے کرآگئی کہ وہ چندہ تحریک جدید میں جمع کر لیں۔ باکس میں تقریباً 864 روپے تھے۔ جویہ کئی مہینوں سے جمع کررہی تھی۔
اسد: یوکے کے ایک طفل نے اپنا چھ ماہ کا جیب خرچ تحریک جدید میں ادا کر دیا۔
فائقہ :امریکہ کا ایک گیارہ سال کا بچہ جس کو ویڈیو گیم کا شوق تھا اور خریدنے کے لیے پیسے جمع کر رہا تھا جب اسے تحریک جدید کے چندے کی تحریک کی گئی تو اس نے جو ایک سو ڈالر جمع کیے ہوئے تھے وہ چندے میں ادا کر دیے۔
فارس: زنجبار کے علاقے میں چند بچے مسجد کے باہر کھیل رہے تھے تو ایک بزرگ وہاں سے گزرے۔ انہوں نے خوش ہو کر بچوں کو ٹافیاں خریدنے کے لیے چودہ سو شلنگ دیے۔ بچے پیسے لے کر ایک احمدی دکاندار کے پاس گئے اور ان پیسوں کو یعنی نوٹ تڑوا کے سکّوں میں تبدیل کروا لیے۔ وہ اپنے اپنے حصے کے پیسے لے کر مسجد آئے اور ایک ایک سو شلنگ چندہ ادا کیا اور بڑی خوشی سے اپنی اپنی رسید اپنے پاس رکھی۔
اویس : تنزانیہ کی ایک جماعت میں چوتھی جماعت کے تین بچے مالی لحاظ سے غریب تھے۔ یہ بچے آپس میں چندہ تحریک جدید ادا کرنے کا مقابلہ کرتے تھے۔ ہر ایک علیحدگی میں اپنا چندہ لاتا تھا اور کسی نے پانچ سو، کسی نے چار سو، سات سو شلنگ دیا۔ ایک دفعہ مبلغ صاحب نے ان سے پوچھا کہ تم جو یہ چندہ تحریک جدید لاتے ہو، یہ پیسے کہاں سے لے کے آتے ہو؟ ایک نے بتایا کہ اپنی والدہ کے ساتھ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے میں مدد کرواتا ہوں۔ دوسرے بچے نے بتایا کہ وہ بھی اپنی جیب خرچ میں سے چندے کی رقم علیحدہ کرتا ہے۔ تیسرے بچے نے بتایا کہ اس کے گھر کے قریبی درختوں پر پھل وغیرہ لگتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ اپنے کھانے کے لیے پھلوں سے زائد کو بیچ بھی دیتا ہے جس سے حاصل ہونے والی رقم سے چندہ ادا کر دیتا ہے۔
سر عثمان :شاباش، پس ان واقعات سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ احمدی بچوں اور بچیوں کے دل میں اپنے ہاتھ سے چندہ دینے اور مالی قربانی کی تحریک ڈالتا ہے۔پیارے بچو!آج کی کلاس میں ہمیںیہ سبق سیکھنے کو ملا ہے کہ ہمیں مالی قربا نی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے اور احمدی بچے ہونے کی حیثیت سے اپنے جیب خرچ میں سے کچھ بچا کر اللہ کی خاطر، اللہ کی راہ میں دینا چاہیے تاکہ اپنے ہاتھ سے چندہ دینے کی بھی عادت پیدا ہو۔ (الف۔ فضل)