مالی قربانی
دادی جان؟ احمد نمازِ عشاء کےبعد گھر داخل ہوتے ہی بولا۔
گڑیا: ہم یہاں بیٹھے ہیں ڈائننگ ٹیبل پر!
دادی جان قائد صاحب نے کہا ہے کہ تحریک جدید کا سال ختم ہونے والا ہے۔ تمام اطفال اپنے وعدہ جات کی ادائیگی مکمل کروائیں!
محمود بھاگ کر اپنا غُلَّک اٹھا کر لے آیا اور کہا: چلیں دادی جان یہ منی باکس (Money box)کھولتے ہیں۔
گڑیا: نہیں محمود! یہ منی باکس وقفِ جدید دفتر اطفال کے لیے ہے اور یہ دسمبر میں کھولنا ہے۔
محمود پریشان ہوکر بولا: تو اب اپنے وعدے کی ادائیگی کیسےکروں گا؟
دادی جان: پرسوں جمعے پر بھی اعلان ہوا تھا تو آپ کے ابوجان نے آپ کے وعدہ جات کا معلوم کیا تھا۔ آپ سب کے وعدے مکمل ادا ہو گئے ہیں!
احمد: دادی جان ہمارے وعدے کس نے ادا کر دیے۔ ہمیں معلوم ہی نہ ہوا!
دادی جان:آپ کے ابو جان نے چندہ ادا کر دیا تھا!
احمد: لیکن ہمیں کیوں معلوم نہیں ہوا۔ ہم تو منی باکس میں چندہ جمع کرتے رہے۔ دادی جان قائد صاحب تو کہتے رہتے ہیں کہ بچوں کو اپنے ہاتھ سے چندہ ادا کرنا چاہیے۔ اس کا زیادہ ثواب ہوتا ہے۔
دادی جان: بالکل درست کہا ہے ! اگلی بار ہم دو دو منی باکس بنا لیں گے۔ ایک تحریک جدید کا اور ایک وقف جدید کا!
گڑیا: تحریک جدید اور وقفِ جدید الگ الگ کیوں ہے؟
دادی جان: یہ اچھا سوال ہے! تحریک جدید اور وقفِ جدید دو تحریکات ہیں جن میں اسلام احمدیت کی تبلیغ، اشاعت اور ترقی کے لیے احبابِ جماعت چندہ دیتے ہیں۔
چلیں آج میں آپ کو تحریک جدید کی کہانی سناتی ہوں! قادیان سے باہر ابھی جماعت کا پھیلاؤ زیادہ نہ تھا۔ 1934ء میں مجلس احرار اسلام نامی ایک تحریک اٹھی اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ انہوں نے احمدیوں کی زندگی تنگ کر دی۔ قادیان جا کر احمدیوں کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ پسِ پردہ حکومت بھی ان کے ساتھ ملی ہوئی تھی۔ انہوں نے افراد جماعت پر انتہائی ظلم کیا۔ مقدمے بنائے اور بیہودہ پروپیگنڈا کیا۔ جلسے جلوسوں میں گندی اور غلیظ زبان استعمال کی۔ لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کو صبر کی تعلیم دی اور ایک الٰہی تحریک پر افرادِ جماعت کو توجہ دلائی کہ دشمن ہمیں یہاں ختم کرنا چاہتا ہے لیکن اللہ کے فضل سے اب وقت آگیا ہے کہ ہم ساری دنیا میں پھیل جائیں۔ اب اسلام احمدیت کی تبلیغ میں تیزی کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے مبلغین اور کتب کی اشاعت کی ضرورت ہوگی۔ بچو! جماعت کا اِنتظام و اِنصرام تو چندہ پر انحصار کرتا ہے اور اس وقت جماعت کے پاس اتنا سرمایہ نہ تھا۔ تو حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کو تبلیغ کے لیے چندے کی تحریک کی۔ اور پھر احمدیت میں ایک انقلاب آیا۔ اگلے چند سالوں میں کئی ممالک میں احمدیہ دار التبلیغ یعنی مشن ہاؤسز قائم ہو گئے۔ مبلغین کے گروپس افریقہ، امریکہ، یورپ، ایشیا میں پھیل گئے۔
محمود: تو ان کیا ہوا جو اینٹ سے اینٹ بجا رہے تھے؟
دادی جان: یہ محاورہ ہے جس کا مطلب ہے دشمن قادیان سے بھی جماعت کو ختم کرنا چاہ رہا تھا۔ مخالفین آج قریباً 90 سال سے اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن جماعت اللہ کے فضل سے 212 ممالک میں پھیل چکی ہے۔ ہر سال سینکڑوں مساجد، مشن ہاؤسز بن رہے ہیں۔ پہلے قادیان سے چند مبلغین کا گروپ جاتا تھا۔ اب قادیان کے علاوہ،پاکستان، کینیڈا، جرمنی، انڈونیشیا اور گھانا کے جامعات سے مبلغین و مربیان کے کئی کئی گروپس فارغ التحصیل یعنی پاس آؤٹ ہو کر دنیا میں پھیل رہے ہیں۔ اور لوکل جامعہ یعنی جامعة المبشرین ممالک کی مقامی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔ قرآن کریم کے تراجم، کتب لٹریچر کی
اشاعت اس کے تحت ہوئی۔ پھر سب سے بڑھ کر ایم ٹی اے کا انعام ہے۔ جو ایک بار میں ہی دنیا میں انقلاب پیدا کررہا ہے۔
گڑیا: ہم بچے کیا کرسکتے ہیں؟
دادی جان: خلفائے احمدیت نے جماعت کی ترقی میں بچوں کے کردار کو اہم قرار دیا ہے اور انہیں چندہ کی عادت ڈالنے کی تحریک بھی کی۔ ان کی خواہش تھی کہ بچے اپنی قربانی کے معیار سے بڑوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیں۔ہم حضور کے خطبات میں سنتے ہیں کہ احمدی بچے کس طرح اپنی سیونگز اور غُلَّک میں جیب خرچ جمع کرتے ہیں۔ اور سیکرٹری صاحب مال کو دیتے ہیں۔
احمد: تو اب کیا کریں؟ ہمارا چندہ تو ابو جان نے دے دیا ہے۔
گڑیا: سیکرٹری صاحبہ ناصرات نے بتایا تھا کہ ہم اپنے وعدے پورے کرنے کے بعد اور بھی چندہ دے سکتے ہیں۔ مجھے ایک آئیڈیا آیا ہے کہ ہم اپنے جیب خرچ سے پیسے جمع کر کے اگلے جمعہ کو اپنے ہاتھ سے رسید کٹوا دیں گے۔
دادی جان پرس میں سے پیسے نکال کر کہتی ہیں کہ ماشاء اللہ خوب ہے! چلیں میری طرف سے بونس کے طور پر ایک ایک نوٹ آپ کے لیے۔
محمود: میں سب سے زیادہ پاکٹ منی جمع کروں گا! ابو جان کو کہوں گا کہ ایک ہفتہ تک آئس کریم لانے کی بجائے مجھے پیسے ہی دے دیں تا کہ میرا چندہ زیادہ ہو!
دادی جان ہنستے ہوئے: چلیں کھانا لگ گیا ہے۔ اب ہاتھ دھو کر آجائیں!