متفرق مضامین

لوح مزار میرزا مبارک احمد

(امۃالباری ناصر)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یہ اشعار اپنے بیٹے کی قبر کے کتبے پر لکھنے کے لیے کہے۔ یہ درثمین میں سینتیسویں نظم ہے اس کے تین اشعار ہیں اس نظم پر ایک نوٹ ہے:

نوٹ’’میں جو غلام احمد نام خدا کا مسیح ہوں۔مبارک ؔاحمد جس کا اوپر ذکر ہے۔میرا لڑکا تھا۔وہ بتاریخ ۰۷؍شعبان۱۳۲۵ھ مطابق ۱۶؍ستمبر۱۹۰۷ء بروز دوشنبہ بوقت نمازِصبح وفات پا کر الہامی پیشگوئی کے موافق اپنے خدا کو جا ملا۔کیونکہ خدا نے میری زبان پر اس کی نسبت فرمایا تھا کہ وہ خدا کے ہاتھ سے دنیا میں آیا اور چھوٹی عمر میں ہی خدا کی طرف واپس جائے گا۔منہ

۱۔

جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خُو تھا

وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر

پاک خو :paak khooپاکیزہ عادات والا Pious, virtuous

حزیں: hazeeN غمگین

ہمارے جگر کا ٹکڑا ’بہت پیارا بیٹا جو بے حد حسین اور پاکیزہ عادتوں کا مالک تھا ہمیں غمگین چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے جدا ہوگیا ہے۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے چوتھے بیٹے حضرت مرزا مبارک احمد ۲۶؍جون ۱۸۹۹ء میں پیدا ہوئے تھے۔آپؑ کو خدا کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ یہ لڑکا آسمان سے آتا ہے اور آسمان کی طرف ہی اٹھ جائے گا۔ آپؑ نے اس الہام کی یہ تعبیر فرمائی کہ یا تو یہ لڑکا خاص طور پر نیک اور پاکباز اور روحانی امور میں ترقی کرنے والا ہو گا اور یا بچپن میں ہی فوت ہو جائے گا۔ یہ الہام اس طرح پورا ہوا کہ یہ بچہ آپ کی زندگی میں ہی وفات پاگیا۔ آپؑ اپنے بچوں کے ساتھ بہت محبت کرتے تھے۔ مبارک احمد سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے نسبتاً زیادہ لاڈلے تھے۔

۲۔

کہا کہ آئی ہے نیند مجھ کو یہی تھا آخر کا قول لیکن

کچھ ایسے سوئے کہ پھر نہ جاگے تھکے بھی ہم پھر جگا جگا کر

ابھی مبارک احمدکی عمر ۸؍ سال کی تھی کہ شدید بیمار پڑگئے۔علاج ہورہا تھا حضرت مسیح موعودؑ دن رات آپ کی تیمارداری میں مصروف رہتے اور بڑے درد سے آپ کے لیے دعائیں کرتے۔ مگر خدا تعالیٰ کا فیصلہ جاری ہوچکا تھا ۱۴؍ ستمبر کو الہام ہوا تھا لَا عِلاجَ وَلا یُحفَظ ( نہ علاج ہو سکے گا اور نہ اس کی کسی طرح سے حفاظت ہو سکے گی۔ تذکرہ صفحہ ۶۱۸) ٹھیک دو دن بعد یہ الہام پورا ہوگیا۔مبارک احمد ابدی نیند سو گئے۔تاریخ احمدیت میں لکھا ہے کہ، جس وقت صاحبزادہ مبارک احمد فوت ہونے لگے تو وہ سوئے ہوئے تھے۔

۳۔

برس تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اُسے بلایا

بلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پہ اے دل تو جاں فِدا کر

جاں فداکرنا:Jaan fidaa karnaaTo sacrifice life(اس شعر کے دوسرے مصرع کو غلطی سے دو حصوں میں لکھ دیا جاتا ہے جبکہ یہ طویل بحر کا ایک ہی مصرع ہے )

یہ پیارا بچہ ابھی صرف آٹھ سال اور کچھ مہینوں کا تھا جب اللہ تعالیٰ کا بلاوا آگیا۔آپؑ فرماتے ہیں اے میرے دل و جان سے پیارے! تو مجھے بہت پیارا ہے مگر جس نے بلایا ہے وہ سب سے پیارا ہے اس لیے اپنی جان اس کے حوالے کردے اسی نے تمہیں زندگی دی تھی اب وہ مانگ رہا ہے تو اس کی رضا میں راضی رہتے ہوئے اپنی جان قربان کر دے۔

آپؑ نے خود بھی انتہائی صبر سے بچے کو قبر کے حوالے کیا۔صبرو رضا کا یہ نمونہ آنحضرت ﷺ کی سیرت کا عین عکس تھا۔ جب آپؐ کی آخری عمر کی آخری اولاد بے حد لاڈلے صاحبزادے حضرت ابراہیم ؓآپؐ کے وصال سے قریباً ایک سال پہلے وفات پاگئے۔ آپؐ نے بچے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا:تَدْمَعُ الْعَيْنُ، وَيَحْزَنُ الْقَلْبُ، وَلَا نَقُولُ مَا يُسْخِطُ الرَّبَّ، وَإِنَّا بِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُونَ(مسلم کتاب الفضائل باب رحمۃ الصبیان حدیث )

آنکھ تو آنسو بہاتی ہے اور دل کو رنج ہوتا ہے پر زبان سے ہم وہی کہتے ہیں جو ہمارے رب کو پسند ہے بے شک ابراہیم ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس عظیم سانحہ کے موقع پر فقط اتنا فرمایا:’’ خدا تعالیٰ اتنی مد ت سے ہم پر رحم کرتا آیا ہے۔ ہرطرح سے ہماری خواہش کے مطابق کام کرتا آیا ہے اس نے اٹھارہ برس کے عرصے میں ہم کو طرح طرح کی خوشیاں پہنچائیں اور انعام و اکرام کئے گویا کہ اپنی رضا پر ہماری رضا کو مقدم کر لیا۔پھر اگر ایک دفعہ اس نے اپنی مرضی ہم کو منوانی چاہی تو کونسی بڑی بات ہے۔ اگر ہم باوجود اس کے اس قدر احسانات کے پھر بھی جزع فزع اور واویلا کریں توہمارے جیسا احسان فراموش کوئی نہ ہوگا‘‘۔ (’تشحیذ الاذہان‘اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۲۵۔ بحوالہ اصحاب احمد جلد ۱ صفحہ ۴۱۔مرتبہ مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے۔)

’’جامبارک تجھے فردوس مبارک ہووے‘‘

فردوس:firdaus جنت، بہشت، خلدparadise

یہ مصرع بھی لوح مزار پر کندہ ہے۔

حضرت مصلح موعوؓداپنے خطبہ عید الفطر فرمودہ ۰۶؍مئی ۱۹۲۴ءقادیان میں فرماتے ہیں:حضرت صاحبؑ نے جب دیکھا کہ مبارک احمد فوت ہوگیا ہے تو باوجود اتنی سخت محبت کے جو آ پؑ کو اس کے ساتھ تھی آپؑ نے اس کی وفات پر بالکل کسی قسم کی گھبراہٹ ظاہر نہ کی اور لوگ آپؑ کی محبت کی وجہ سے جو آپؑ کو مبارک احمد کے ساتھ تھی خیال کرتے تھے کہ نہ معلوم حضرت صاحب کی کیا حالت ہوگی لیکن آپؑ بجائے رنج کرنے کے خوش نظر آتے تھے اور فرماتے تھے خدا کی پیشگوئی پوری ہوئی۔ اور آپؑ نے کس خوشی سے کہا ’’جا مبارک تجھے فردوس مبارک ہووے‘‘اور اپنے دوستوں کو تسلی کے خطوط لکھے کہ فکر نہ کریں۔(خطبات محمود جلد اول صفحہ۱۲۱،۱۲۲)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button