حق مہر کی اہمیت و حکمت نیز تعیین کا طریق
مہر اس مال کا نام ہے جو نکاح کے نتیجہ میں خاوند کی طرف سے بیوی کو واجب الادا ہوتا ہے۔بیوی اس مال پر کلّی تصرف کا حق رکھتی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ فَمَااسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِیْضَۃً۔(سورۃ النساء: ۲۵)ترجمہ: اور تمہارے لیے حلال کر دیا گیا ہے جو اس کے علاوہ ہے کہ تم (انہیں) اپنانا چاہو، اپنے اموال کے ذریعہ اپنے کردار کی حفاظت کرتے ہوئے نہ کہ بے حیائی اختیار کرتے ہوئے۔ پس ان کو ان کے مہر فریضہ کے طور پر دو اس بنا پر کہ جو تم ان سے استفادہ کر چکے ہو۔
میاں بیوی کو خلوت صحیحہ میسر آ جانے کے بعد پورا حق مہر واجب ہو جاتا ہے، میاں کو حق مہر کی ادائیگی خوش دلی سے کرنی چاہیے۔ جیسا کہ فرمایا: وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً۔(سورۃ النساء:۵)ترجمہ: اور عورتوں کو ان کے مہر دلی خوشی سے ادا کرو۔
نکاح کے لیے مہر کا ہونا ضروری ہے
مہر کی تعیین فریقین کی رضا مندی سے ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کی تعیین بعد میں بھی ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا:لَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْھُنَّ اَوْتَفْرِضُوْا لَھُنَّ فَرِیْضَۃًوَّمَتِّعُوْھُنَّ عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ۔(سورۃ البقرہ:۲۳۷)ترجمہ: تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو طلاق دےدو جبکہ تم نے ابھی انہیں چھوا نہ ہو یاابھی تم نے ان کے لیے حق مہر مقرر نہ کیا ہو۔اور انہیں کچھ فائدہ بھی پہنچاؤ۔ صاحب حیثیت پر اس کی حیثیت کے مطابق فرض ہے اور غریب پر اس کی حیثیت کے مناسب حال۔ (یہ) معروف کے مطابق کچھ متاع ہو۔ احسان کرنے والوں پر تو (یہ) فرض ہے۔
اگر نکاح کے وقت مہر کی مقدار مقرر نہ کی گئی ہو تو بعد میں اس کا فیصلہ باہمی رضامندی سے ہو سکتا ہے۔بصورت تنازعہ مہر کا فیصلہ قضا فریقین کے حالات کو مدنظر رکھ کر کرے گی۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام مہر کی تعیین کے بارےمیں فرماتے ہیں: ’’ تراضی طرفین سے جو ہو اس پر کوئی حرف نہیں آتا اور شرعی مہر سے یہ مراد نہیں کہ نصوص یا احادیث میں کوئی اس کی حد مقرر کی گئی ہے بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لوگوں کے مروّجہ مہر سے ہوا کرتی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ خرابی ہے کہ نیت اَور ہوتی ہے اور محض نمود کے لئے لاکھ لاکھ روپے کا مہر ہوتا ہے۔ صرف ڈراوے کے لیے یہ لکھا جایا کرتا ہے کہ مرد قابو میں رہے اور اس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہیں۔ نہ عورت والوں کی نیت لینے کی ہوتی ہے اور نہ خاوند کی دینے کی۔
میرا مذہب یہ ہے کہ جب ایسی صورت میں تنازعہ آپڑے تو جب تک اس کی نیت ثابت نہ ہو کہ ہاں رضا و رغبت سے وہ اسی قدر مہر پر آمادہ تھا جس قدر کہ مقرر شدہ ہے، تب تک مقررہ مہر نہ دلایا جاوے اور اس کی حیثیت اور رواج وغیرہ کو مدنظر رکھ کر پھر فیصلہ کیا جاوے کیونکہ بدنیتی کی اتباع نہ شریعت کرتی ہے اور نہ قانون۔‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۲۸۴، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ جن عورتوں کا مہر مچھر کی دو من چربی ہو وہ کیسے ادا کیا جاوے؟ حضور علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا: ’’لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا(البقرہ: ۲۸۷) اس کا خیال مہر میں ضرور ہونا چاہیے۔ خاوند کی حیثیت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اگر اس کی حیثیت دس روپے کی نہ ہو تو وہ ایک لاکھ روپے کا مہر کیسے ادا کرے گا اور مچھروں کی چربی تو کوئی مہر ہی نہیں۔یہ لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَامیں داخل ہے۔‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۶۰۶)
مہر مقرر کرنے کی ایک حکمت
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’درحقیقت عورت کا مہر اس لئے رکھا گیا ہے کہ بعض ضروریات تو خاوند پوری کر دیتا ہے لیکن بعض ان سے بھی زائد ضرورتیں ہوتی ہیں جن کو عورت اپنے خاوند پر ظاہر نہیں کر سکتی۔ پس وہ اپنے اس حق سے ایسی ضروریات کو پورا کر سکتی ہے اس لئے اسلام نے مہر کے ذریعہ عورت کا حق مقرر کیا ہے اور وہ خاوند کی حیثیت کے مطابق رکھا ہے۔‘‘ (الفضل ۳۱؍ اگست۱۹۶۰ء صفحہ۴)
سیدنا حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی مہر کی مقدار کی بابت راہنمائی
آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’میں نے مہر کی تعیین چھ ماہ سے ایک سال تک کی آمد کی ہے یعنی مجھ سے اگر کوئی مہر کے متعلق مشورہ کرے تو میں یہ مشورہ دیا کرتاہوں کہ اپنی چھ ماہ کی آمد سے ایک سال تک کی آمد بطور مہر مقرر کردو اور یہ مشورہ میرا اس امر پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام سے الوصیت کے قوانین میں دسویں حصہ کی شرط رکھوائی ہے۔ گویا اسے بڑی قربانی قرار دیا ہے۔ اس بناء پر میرا خیال ہے کہ اپنی آمدنی کا دسواں حصہ باقی اخراجات کو پو را کرتے ہوئے مخصوص کر دینا معمولی قربانی نہیں بلکہ ایسی بڑی قربانی ہے کہ جس کے بدلہ میں ایسے شخص کو جنت کا وعدہ دیا گیاہے۔ اس حساب سے ایک سال تک کی آمد جو گویا متواتر دس سال کی آمد کا دسواں حصہ ہوتا ہے۔ بیوی کے مہر میں مقرر کردینا مہر کی اغراض کو پورا کرنے کے لئے بہت کافی ہے بلکہ میرے نزدیک انتہائی حد ہے۔‘‘(الفضل ۱۲؍دسمبر۱۹۴۰ء)
پس جماعت احمدیہ کا مسلک یہ ہے کہ حق مہر نہ اتنا کم ہو کہ وہ عور ت کے وقار کے منافی محسوس ہو اور شریعت کے ایک اہم حکم سے مذاق بن جائے اور نہ اتنا زیادہ ہوکہ اس کی ادائیگی تکلیف مالا یطاق ہوجائے۔
اس اصول کی بنا پر خاوند کی جو بھی مالی حیثیت ہو اس کے مطابق بالعموم چھ ماہ سے بارہ ماہ تک کی آمدنی کے برابر حق مہر کو معقول اور مناسب خیال کیا گیا ہے۔
وعدوں کی پاسداری اور حق مہر کی ادائیگی
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نےوعدہ پورا کرنے کے حوالہ سے اسلامی تعلیم کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’عام روزمرہ کے کاموں میں بھی وعدہ خلافیاں ہو رہی ہوتی ہیں اور ہوتے ہوتے بعض دفعہ سخت لڑائی پر یہ چیزیں منتج ہو جاتی ہیں۔ جھگڑوں کے بعد اگر صلح کی کوئی صورت پیدا ہو تو معاہدے ہوتے ہیں اور جب صلح کرانے والے ادارے دو فریقین کی صلح کرواتے ہیں تو وہاں صلح ہو جاتی ہے، وعدہ کرتے ہیں کہ سب ٹھیک رہے گا، بعض دفعہ لکھت پڑھت بھی ہو جاتی ہے لیکن بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ صلح کرکے دفتر یا عدالت سے باہر نکلے تو پھر سر پھٹول شروع ہو گئی، کوئی وعدوں اور عہدوں کا پاس نہیں ہوتا۔ پھر نکاح کا عہد ہے فریقین کا معاملہ ہے اس کو پورا نہیں کر رہے ہوتے۔
یہ معاہدہ تو ایک پبلک جگہ میں اللہ کو گواہ بنا کر تقویٰ کی شرائط پر قائم رہنے کی شرط کے ساتھ کیا جاتا ہے لیکن بعض ایسی فطرت کے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ اس کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ بیویوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے ہوتے ان پر ظلم اور زیادتی کر رہے ہوتے ہیں، گھر کے خرچ میں باوجود کشائش ہونے کےتنگی دے رہے ہوتے ہیں، بیویوں کے حق مہر ادا نہیں کر رہے ہوتے، حالانکہ نکاح کے وقت بڑے فخر سے کھڑے ہو کر سب کے سامنے یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ ہاں ہمیں اس حق مہر پر نکاح بالکل منظور ہے۔
اب پتا نہیں ایسے لوگ دنیا دکھاوے کی خاطر حق مہر منظور کرتے ہیں کہ یا دل میں یہ نیت پہلے ہی ہوتی ہے کہ جو بھی حق مہر رکھوایا جا رہا ہے لکھوا لو کو نسا دینا ہے، تو ایسے لوگوں کو یہ حدیث سامنے رکھنی چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اس نیت سے حق مہر رکھواتے ہیں ایسے لوگ زانی ہوتے ہیں۔
اللہ رحم کرے اگر ایک فیصد سے کم بھی ہم میں سے ایسے لوگ ہوں، ہزار میں سے بھی ایک ہو تو تب بھی ہمیں فکرکرنی چاہئے۔ کیونکہ پرانے احمدیوں کی تربیت کے معیار اعلیٰ ہوں گے تو نئے آنے والوں کی تربیت بھی صحیح طرح ہو سکے گی۔ اس لئے بہت گہرائی میں جا کر ان باتوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍فروری ۲۰۰۴ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍مارچ ۲۰۰۴ء)
ایک اور جگہ حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حق مہر کی ادائیگی کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس نے کسی عورت سے شادی کے لئے مہر مقرر کیا اور نیت کی کہ وہ اسے نہیں دے گا تو وہ زانی ہے اور جس کسی نے قرض اس نیت سے لیا کہ ادا نہ کرے گا تو میں اسے چور شمار کرتا ہوں۔ (مجمع الزوائدجلد۴صفحہ۱۳۱)اب دیکھیں حق مہر ادا کرنا مرد کے لئے کتناضرور ی ہے۔ اگر نیت میں فتور ہے تو یہ خیانت ہے، چوری ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ۶؍فروری ۲۰۰۴ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍اپریل ۲۰۰۴ء)
حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزحق مہر کی ادائیگی کے ضمن میں مزید فرماتے ہیں :’’بعض دفعہ دوسروں کی باتوں میں آ کریا دوسری شادی کے شوق میں، جو بعض اوقات بعضوں کے دل میں پیدا ہوتا ہے بڑے آرام سے پہلی بیوی پر الزام لگادیتے ہیں۔ اگر کسی کو شادی کا شوق ہے، اگر جائز ضرورت ہے اور شادی کرنی ہے تو کریں لیکن بیچاری پہلی بیوی کو بدنام نہیں کرنا چاہیے۔اگر صرف جان چھڑانے کے لئے کر رہے ہو کہ اس طرح کی باتیں کروں گا تو خود ہی خلع لے لے گی اور میں حق مہر کی ادائیگی سے(اگر نہیں دیا ہوا) تو بچ جاؤں گا تو یہ بھی انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔ اول تو قضاکو حق حاصل ہے کہ ایسی صورت میں فیصلہ کرے کہ چاہے خلع ہے حق مہر بھی ادا کرو۔ دوسرے یہاں کے قانون کے تحت، قانونی طور پر بھی پابند ہیں کہ بعض خرچ بھی ادا کرنے ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍نومبر۲۰۰۶ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر ۲۰۰۶ء)
حق مہر کے متعلق نظام سلسلہ کا اختیار
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس بابت ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ’’پھر شادی بیاہوں میں مہر مقرر کرنے کا بھی ایک مسئلہ ہے۔ یہ بھی رہتا ہے ہروقت۔ اور اگر کبھی خدانخواستہ کوئی شادی ناکام ہو جائے تو پھر لڑکے کی طرف سے اس بارے میں لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے جس کی و جہ سے پھر ان کے خلاف ایکشن بھی ہوتا ہے۔ اس لئے پہلے ہی سوچ سمجھ کر مہر رکھنا چاہئے دنیا کے دکھاوے کے لئے نہ رکھنا چاہئے بلکہ ایسا ہو جو ادا ہو سکے۔ ایسا مہر مقرر نہ ہو، جیسا کہ مَیں نے کہا، صرف دکھاوے کی خاطر ہو اور پھر معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والا ہو۔
حضرت ابو ہریرہ ؓسے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مَیں نے انصار کی ایک عورت کو شادی کا پیغام بھجوایا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ کیا تم نے اسے دیکھ لیا ہے کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کوئی چیز ہوتی ہے۔ اس نے کہا: مَیں نے اسے دیکھ لیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا :تو مہر کیا رکھ رہے ہو؟ اس نے کہا چار اوقیہ چاندی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: چار اوقیہ؟ سوال کیا۔ چاراوقیہ گویا تم اس پہاڑ کے گوشے سے چاندی کھود کر اسے دو گے۔ ہمارے پاس اتنا نہیں ہے جو ہم تجھے دیں لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ ہم تمہیں کسی مہم پر بھجوا دیں وہاں سے تم کچھ مال غنیمت حاصل کر لو۔ پھر آپ نے ایک دستہ بنی عبس کی طرف بھجوایا تو اس شخص کو اس میں شامل کیا۔ (مسلم۔ کتاب النکاح۔ باب ندب من اراد نکاح امرأۃ الی ان ینظر الی وجھھا)تو دیکھیں مہر کے بارے میں بھی آپؐ نے یہ پسند نہیں فرمایا کہ طاقت سے بڑھ کر ہو۔ جو اس کی حیثیت کے مطابق نہیں تھا تو کہا یہ بہت زیادہ ہے۔ اور پھر یہ بھی پتا تھا کہ آپ سے مانگے گا، نظام سے درخواست کرے گا۔ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا کہ مہم پر جاؤ مال غنیمت مل گیا تو اس سے اپنا مہر ادا کر دینا اور یہی بات ہے کہ مہر جو ہے سوچ سمجھ کر رکھنا چاہئے جتنی توفیق ہو جتنی طاقت ہو۔
مہر ایک ایسا معاملہ ہے جس کی و جہ سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ قضاء میں بہت سارے کیس آتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر تو بڑی عجیب صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ شادی سے پہلے لڑکی والے لڑکے کو باندھنے کی غرض سے زیادہ مہر لکھوانے کی کوشش کرتے ہیں اور شادی کے بعد اگر کہیں جھگڑے کی صورت پیدا ہو جائے، طلاق کی صورت ہو جائے، تو لڑکے بہانے بنا کر اس کو ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر نظام کے لئے اور میر ے لئے اور بھی زیادہ تکلیف دہ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں سزا بھی دینی پڑتی ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑے واضح ارشادات فرمائے ہیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ کسی نے پوچھا مہر کے متعلق کہ اس کی تعداد کس قدر ہونی چاہئے؟ آپؑ نے فرمایا کہ مہر تراضیٔ طرفین سے ہو، آپس میں جو فریقین ہیں ان کی رضا مندی سے ہو جس پر کوئی حرف نہیں آتا اور شرعی مہر سے یہ مراد نہیں کہ نصوص یا احادیث میں کوئی اس کی حد مقرر کی گئی ہے۔ کوئی حد نہیں ہے مہر کی بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لوگوں کے مروّجہ مہر سے ہوا کرتی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ خرابی ہے کہ نیت اور ہوتی ہے اور محض نمود کے لئے لاکھ لاکھ روپے کا مہر ہوتا ہے۔ صرف ڈراوے کے لئے یہ لکھا جایا کرتا ہے کہ مرد قابومیں رہے اور اس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہیں۔ نہ عورت والوں کی نیت لینے کی ہوتی ہے نہ خاوند کی دینے کی۔ جیسا کہ فرمایا : مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب لڑائی جھگڑے ہوں۔ فرمایا کہ میرا مذہب یہ ہے کہ جب ایسی صورت میں تنازع آ پڑے تو جب تک اس کی نیت ثابت نہ ہو کہ ہاں رضاو رغبت سے وہ اسی قدر مہر پر آمادہ تھا جس قدر کہ مقرر شدہ ہے تب تک مقرر مہر نہ دلایا جاوے اور اس کی حیثیت اور رواج وغیرہ کو مدنظر رکھ کر پھر فیصلہ کیا جاوے کیونکہ بدنیتی کی اتباع نہ شریعت کرتی ہے اور نہ قانون۔
تو اس بارے میں جو معاملات آتے ہیں اس کو بھی قضاء کو دیکھنا چاہئے۔ اتنا ہی نظام کو یا قضا کو بوجھ ڈالنا چاہئے جو اس کی حیثیت کے مطابق ہو اور اس کے مطابق حق مہر کا تعیّن کرنا چاہئے۔ ایسے موقعوں پربڑی گہرائی میں جا کر جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حیثیت کا تعین کرنے کے لئے فریقین کو بھی قول سدید سے کام لینا چاہئے۔ نہ دینے والا حق مارنے کی کوشش کرے اور نہ لینے والا اپنے پیٹ میں انگارے بھرنے کی کوشش کرے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍نومبر۲۰۰۵ء۔الفضل انٹرنیشنل ۱۶تا۲۲؍دسمبر۲۰۰۵ء صفحہ نمبر ۷اور ۸)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ’’بہر حال جب حق مہر زیادہ رکھوائے جاتے ہیں تو جب خلع طلاق کے فیصلے ہوتے ہیں تو قضا کو یہ اختیارہے کہ اگر کسی شخص کی حیثیت نہیں ہے اور ناجائز طور پر حق مہر رکھوایا گیا تھا تو اُس حق مہر کو خود مقرر کر دے اور یہ ہوتا ہے۔ ‘‘ (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب از مستورات فرمودہ ۲۵؍جون ۲۰۱۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۳؍اپریل ۲۰۱۲ء)
حق مہر کا بخشنا یعنی عورت کی طرف سے خاوند کو معاف کرنے کا بیان دینا
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نصیحت فرمائی:’’حق مہر کی ادائیگی کے بارے میں ایک اور مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ ایک عورت اپنا مہر نہیں بخشتی۔ (شادی کرکے اس کو کہتے ہیں کہ بخش بھی دو) توحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ’’یہ عورت کا حق ہے۔ اسے دینا چاہئے اول تو نکاح کے وقت ہی ادا کرے ورنہ بعد ازاں ادا کرنا چاہئے۔ پنجاب اور ہندوستان میں یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر(یعنی عورتوں کی یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر) خاوند کو اپنا مہر بخش دیتی ہیں۔ یہ صرف رواج ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۶۰۶ ایڈیشن۱۹۸۸ء)
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک صحابی نے عرض کیا کہ میری بیوی نے مجھے مہر بخش دیا ہے، معاف کر دیا ہے۔ تو آپؑ نے فرمایا تم نے اس کے ہاتھ پر رکھا تھا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایاجاؤ پہلے ہاتھ پہ رکھو پھر اگر وہ بخش دے، معاف کر دے تو پھر ٹھیک ہے۔ تو جب واپس آئے کہتے ہیں مَیں نے تو اس کے ہاتھ پر رکھا اور وہ دینے سے انکاری ہے۔ فرمایا یہی طریقہ ہے۔ (تلخیص از الازھار لذوات الخمار صفحہ ۱۶۰طبع دوم)
اصل طریقہ بھی یہی ہے پہلے ہاتھ پر رکھو پھرمعاف کرواؤ۔ اس لئے جو کوشش کرتے ہیں ناں مقدمہ لانے سے پہلے کہ جو ہم نے یہ کہہ دیا وہ کہہ دیا ان کو سوچنا چاہئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍نومبر۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶تا۲۲؍دسمبر۲۰۰۵ء صفحہ نمبر۸)
حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۱۱ء میں احمدی خواتین سےارشاد فرمایا:’’بعض لڑکوں سے بڑی بڑی رقمیں حق مہر رکھوا لیا جاتا ہے کہ کونسا ہم نے لینا ہے۔ یا یہ کہہ دیتی ہیں ہم نے حق مہر معاف کر دیا۔ اگرلینا نہیں تو یہ بھی جھوٹ ہے۔ حق مہر مقرر ہی اس لئے کیا جاتا ہے کہ عورت لے اور یہ عورت کا حق ہے، اُس کو لینا چاہئے۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک صحابی نے کہا کہ حق مہر میری بیوی نے واپس کر دیا ہے۔ معاف کر دیا ہے۔ آپ نے کہا کہ جا کے پہلے بیوی کے ہاتھ پر حق مہر رکھو، پھر اگر وہ واپس کرتی ہے تب حق مہر معاف ہوتا ہے۔ نہیں تو نہیں۔ بے چارے کی دو بیویاں تھیں۔ خیر انہوں نے قرض لے کر جا کرجب دونوں کے ہاتھ میں برابر کا حق مہر رکھ دیا اور کہا کہ واپس کر دو، تم معاف کر چکی ہو۔ انہوں نے کہا :ہم تو اس لئے معاف کر چکی تھیں کہ ہمارا خیال تھا کہ تمہیں دینے کی طاقت نہیں ہے اور تم نہیں دو گے۔ تو کیونکہ اب تو تم نے دے دیا ہے تو دوڑ جاؤ۔ وہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آئے تو آپ بڑے ہنسے اور آپ نے کہا ٹھیک ہے، ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍جولائی ۱۹۲۵ء۔ خطبات محمود جلد ۹صفحہ ۲۱۷)
حق مہر کی اہمیت کے حوالے سے حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’تو حق مہر لینے کے لئے ہوتا ہے، حق مہر معاف کرنے کے لئے نہیں ہوتا اور یہ عورت کا حق ہے کہ لے۔ جنہوں نے معاف کرنا ہے وہ پہلے یہ کہیں کہ ہمارے ہاتھ پر رکھ دو۔ پھر اگر اتنا کھلا دل ہے، حوصلہ ہے تو پھر واپس کر دیں۔‘‘(جلسہ سالانہ جرمنی خطاب از مستورات فرمودہ ۲۵؍جون ۲۰۱۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۳؍اپریل ۲۰۱۲ء)
مرحومہ بیوی کا مہر اس کے شرعی ورثاء میں بحصص شرعی تقسیم ہوتا ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ’’اسی ضمن میں ایک اوربات بھی بیان کر دوں کیونکہ کل ہی بنگلہ دیش سے ایک نے خط لکھ کر پوچھا تھا کہ میری بیوی فوت ہو گئی ہے اور مہر میں نے ادا نہیں کیا تھا تو ایسی صورت میں اب مجھے کیا کرنا چاہئے۔ تو اسی قسم کا ایک سوال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پیش ہوا تھا کہ میری بیوی فوت ہو گئی ہے مَیں نے نہ مہر اس کو دیا ہے نہ بخشوایا ہے۔ اب کیا کروں۔ تو آپ نے فتویٰ دیا، فرمایا کہ مہر اس کا ترکہ ہے اورآپ کے نام قرض ہے۔آپ کو ادا کرنا چاہئے اور اس کی یہ صورت ہے کہ شرعی حصص کے مطابق اس کے دوسرے مال کے ساتھ تقسیم کیا جاوے۔ جس میں ایک حصہ خاوند کا بھی ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے نام پر صدقہ دیا جاوے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍نومبر۲۰۰۵ء۔الفضل انٹرنیشنل ۱۶تا۲۲؍دسمبر۲۰۰۵ءصفحہ نمبر۸)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معیّن الفاظ یہ ہیں کہ’’اسے چاہیے کہ اس کا مہر اس کے وارثوں کو دیدے۔ اگر اس کی اولاد ہے تو وہ بھی وارثوں سے ہے۔ شرعی حصہ لے سکتی ہے اور علیٰ ہذا القیاس خاوند بھی لے سکتاہے۔‘‘(اخبار بدر نمبر ۷ جلد ۴ مورخہ ۵؍ مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۲)
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک استفسار ان الفاظ کے ساتھ پیش ہوا تھا کہ ’’ایک شخص مثلاً زید نام لاولد فوت ہو گیا ہے۔ زید کی ایک ہمشیرہ تھی جو زید کی حین حیات میں بیاہی گئی تھی۔بہ سبب اس کے کہ خاوند سے بن نہ آئی اپنے بھائی کے گھر میں رہتی تھی اور وہیں رہی یہاں تک کہ زید مر گیا۔زید کے مرنے کے بعد اس عورت نے بغیر اس کے کہ پہلے خاوند سے باقاعدہ طلاق حاصل کرتی ایک اور شخص سے نکاح کر لیا جوکہ ناجائز ہے۔ زید کے ترکہ میں جو لوگ حقدار ہیں کیا ان کے درمیان اس کی ہمشیرہ بھی شامل ہے یا اس کو حصہ نہیں ملنا چاہیے؟
حضرتؑ نے فرمایا کہ اس کو حصہ شرعی ملنا چاہیے کیونکہ بھائی کی زندگی میں وہ اس کے پاس رہی اور فاسق ہوجانے سے اس کا حق وراثت باطل نہیں ہو سکتا۔شرعی حصہ اس کو برابر ملنا چاہیے باقی معاملہ اس کا خدا کے ساتھ ہے …اس کے شرعی حق میں کوئی فرق نہیں آسکتا۔‘‘(ملفوظات جلد۵ صفحہ ۲۶۶۔ایڈیشن ۲۰۲۲ء)
یورپ میں حق مہر کے متعلق ہدایت
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ’’بعض لوگ جو یہ سمجھتے ہیں یہاں یورپ میں بعض دفعہ ایسے جھگڑے آ جاتے ہیں کہ ملکی قانون جو ہے وہ حقوق دلوا دیتا ہے طلاق کی صورت میں وہ کافی ہے حق مہر نہیں دینا چاہئے۔ ایک تو یہ ہے کہ وہ حقوق بعض دفعہ اگر بچے ہوں تو بچوں کے ہوتے ہیں۔ دوسرے کچھ حد تک اگر بیوی کے ہوں بھی تو وہ ایک وقت تک کے لئے ہوتے ہیں اس لئے بعد میں یہ مطالبہ کرنا کہ حق مہر نہ دلوایا جائے اور حق مہر میں اس کو ایڈجسٹ کیا جائے یہ میرے نزدیک جائز نہیں۔
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلی تو بات یہ کہ دیکھ کر حق مہر مقرر کیا جائے۔ حیثیت سے بڑھ کر نہ ہو۔ اس کا تعیّن قضا کر سکتی ہے کتنا ہے۔ اور جب تعین ہو گیا ہے تو فرمایا کہ یہ تو ایک قرض ہے اور قرض کی ادائیگی بہرحال کرنی ضروری ہے اس لئے یہ بہانے نہیں ہونے چاہئیں کہ حق مہر ادا نہیں کیا۔ تو یہ قرض جو ہے وہ قرض کی صورت میں ادا ہونا چاہئے اس کا ان حقوق سے کوئی تعلق نہیں جو ملکی قانون دلواتے ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍نومبر۲۰۰۵ءمطبوعہ الفضل الفضل انٹرنیشنل ۱۶تا۲۲؍دسمبر۲۰۰۵ءصفحہ نمبر۸)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ’’بعض ایسے بھی ہیں جو عدالت میں اپنے مفادات لے لیتے ہیں اور لے لیتی ہیں، لڑکیاں بھی اور لڑکے بھی، اور پھر اس کے بعد کہتے ہیں ہمارا شرعی حق یہ بنتا تھا۔ پھر جماعت میں بھی آ جاتے ہیں۔ اگر شرعی حق بنتا تھا تو پھر شرعی حق لو یا قانونی حق لو۔ بعض دفعہ قانونی حق شرعی حق سے زیادہ ہو جاتا ہے اس لئے بہر حال حق ایک طرف کا ہی لینا چاہئے۔ ظلم جو ہے وہ نہیں ہونا چاہئے۔ ایک فریق پر زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔ نہ لڑکے پر، نہ لڑکی پر۔ پھر اس کے لئے جھوٹ کا سہارالیا جاتاہے۔ پس یہ ایسے کراہت والے کام ہیں کہ ان کو دیکھ کر ایک شریف شخص کراہت کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب از مستورات فرمودہ ۲۵؍جون ۲۰۱۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۳؍اپریل۲۰۱۲ء)