غار ِحرا میں آنسو بہاتے چلے گئے
ہم دل کے آنگنوں کو سجاتے چلے گئے
اِسمِ رسولؐ لب پہ جو لاتے چلے گئے
سینا کی چوٹیوں سے جو سایہ فگن ہوئے
ابرِ کرم بنے اور چھاتے چلے گئے
صدیوں کے زنگ دل سے اتارے کمال تھے
غارِ حرا میں آنسو بہاتے چلے گئے
ان کا سرور صندل و امرت سے بڑھ کے تھا
طلحہؓ جو تیر ہاتھوں پہ کھاتے چلے گئے
پہلے خدا کے در پہ جھکایا جہان کو
پھر قُوتِ یقین بڑھاتے چلے گئے
تاریخ میں لکھا ہے وہ آندھی شدید تھی
کنکر بدر کے روز اڑاتے چلے گئے
اپنے عروج خلق سے معراج پا گئے
اپنا کمال تام دکھاتے چلے گئے
جن کے لیے زمانے بنائے گئے تمام
وه بار دوسروں کے اٹھاتے چلے گئے
صدیوں سے دل تڑپتے تھے دیدارِ یار کو
تشنہ لبوں کی پیاس بجھاتے چلے گئے
ان کے لبوں پہ پھر بھی دعاؤں کا دَور تھا
طائف میں جو کہ زخم بھی کھاتے چلے گئے
زندہ خدا سے یوں بھی تعلق بڑھا گئے
مردہ بتوں سے جان چھڑاتے چلے گئے
سارے جہاں پہ چادر الفت تنی گئی
حسن ازل میں پھر وہ سماتے چلے گئے
’’بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم‘‘
یہ عشق ہم بھی دل سے نبھاتے چلے گئے
مقتل سجے ہوئے ہیں ہمارے ہی خون سے
حُبّ رسولؐ ہم جو کماتے چلے گئے
ہم تو فراز!! عشقِ محمدؐ کے جرم میں
اپنے گھروں سے جیل میں جاتے چلے گئے
(ا۔ ح ۔فراز )