مکتوب نیوزی لینڈ
نیوزی لینڈ کا حکومتی انتخابات کا نظام
نیوزی لینڈ میں ہر تین سال بعد عام انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ نیوزی لینڈ پارلیمنٹ صرف ایک ایوان پر مشتمل ہوتی ہے۔ موجودہ سال انتخابات کا سال ہے اور ۱۴؍اکتوبر ۲۰۲۳ءکی تاریخ عام انتخابات کے لیے مقرر تھی۔ نیوزی لینڈ میں الیکشن کا نظام باقی دنیا سے مختلف ہے۔ اس نظام کو MMP)Mixed members proportional) متناسب نمائندگی کا ووٹنگ سسٹم کہا جاتا ہے۔ اس نظام کے تحت ہر ووٹر کو دو (۲) ووٹ ڈالنے کا حق ہے؛ ایک ووٹ امیدوار کو اور دوسرا پارٹی کو۔ اس نظام کے تحت حکومت عام طور پر دو یا دو سے زیادہ پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے ذریعے تشکیل دی جاتی ہے۔
ملک کے ووٹنگ سسٹم کو فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ (FPP) سے ایم ایم پی(MMP) مخلوط اراکین کی متناسب نمائندگی میں تبدیل کرنے کی مہم ان لوگوں نے چلائی جو ایک ایسی پارلیمنٹ چاہتے تھے جو مختلف مفاد پرست گروہوں کے لیے زیادہ جوابدہ ہو۔ اس کا مقصد اکثریتی جماعت کے ایوان پر تسلط کو روکنا بھی تھا۔ یہ عمل ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کی دہائیوں میں شروع ہوا اور ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کی دہائیوں میں اس نے زور پکڑا۔ ۱۹۹۳ء میں نیوزی لینڈ کے باشندوں نے اپنے ووٹنگ کے نظام کو روایتی فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ (FPP) کے طریقہ کار سے مخلوط اراکین کی متناسب نمائندگی (MMP) میں تبدیل کرنے کے لیے ایک ریفرنڈم میں ووٹ دیا۔ ۱۰۰ سال قبل خواتین کے حق رائے دہی کے آغاز کے بعد سے ملک کے انتخابی نظام میں یہ سب سے زیادہ ڈرامائی تبدیلی تھی۔ اس سسٹم کے آنے سے اب کئی چھوٹی پارٹیاں بھی پارلیمنٹ ہاؤس تک پہنچ سکتی ہیں۔
MMP کیسے کام کرتا ہے؟
ایم ایم پی کے تحت، ۱۲۰؍ عوامی نمائندگان پارلیمنٹ کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ ۷۲؍ کا انتخاب پورے ملک کے انفرادی ووٹرز کے ذریعے کیا جاتا ہے اور ۴۸؍ سیاسی جماعتوں کی فہرستوں سے ہوتے ہیں۔ یہ ایک متناسب نظام ہے جس کا مطلب ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب پارلیمنٹ میں اس کی نشستوں کی تعداد کو ظاہر کرتا ہے۔
ہر ووٹر کو دو ووٹ ملتے ہیں۔ پہلا ووٹ اس سیاسی جماعت کے لیے ہے جسے ووٹر منتخب کرتا ہے۔ اسے پارٹی ووٹ کہا جاتا ہے اور یہ سب سے اہم ہے کیونکہ ہر پارٹی کے پارٹی ووٹوں کی کل تعداد بڑی حد تک اس بات کا تعین کرتی ہے کہ ہر سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں کتنی نشستوں کی حقدار ہے۔ دوسرا ووٹ اس رکن پارلیمان کا انتخاب کرنا ہے جس میں وہ رہتے ہیں۔ اسے الیکٹوریٹ ووٹ کہا جاتا ہے۔ ووٹر ووٹ First past the Post (فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ) سسٹم کا استعمال کرتا ہے جس میں کسی دوسرے امیدوار کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار جیت جاتا ہے۔
موجودہ ایم ایم پی قوانین کے تحت ایک سیاسی جماعت جو کم از کم ایک انتخابی نشست جیتتی ہے یا پارٹی ووٹ کا پانچ فیصدبنتی ہے، وہ پارلیمنٹ میں نشستوں کا حصہ حاصل کرتی ہے۔ یہ حصہ کل پارٹی ووٹوں میں اس کے حصہ کے تناسب سے ہوتا ہے۔
کسی پارٹی کو حاصل ہونے والی سیٹوں کی کل تعداد سب سے پہلے پارٹی کے ووٹ سے طے ہوتی ہے۔ اس کے بعد پارٹی کی جیتی ہوئی ووٹر سیٹوں کی تعداد کو اس مجموعے سے نفی کردیا جاتا ہے۔ مثلاً یہاں انتخابی کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق اگر کسی پارٹی کو پارٹی ووٹوں کے ۳۰؍ فیصد ووٹ ملتے ہیں تو اسے پارلیمنٹ میں تقریباً ۳۶؍ ایم پیز ملیں گے (۱۲۰؍ سیٹوں کا ۳۰؍ فیصد)۔ لہٰذا اگر اس پارٹی کے ۲۰؍ امیدوار براہ راست اپنے متعلقہ حلقوں سے جیت جاتے ہیں تو وہ پارٹی اپنے مزید۱۶؍ نمائندگان پارٹی ووٹوں کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں لے آئے گی جو کہ لسٹ اراکین پارلیمنٹ کہلاتے ہیں۔
نیوزی لینڈ پارلیمنٹ میں کل ۱۲۰ سیٹیں ہیں۔ حکومت کرنے کے لیے کسی بھی پارٹی کو ۶۱ سیٹیں مطلوب ہوتی ہیں۔
۲۰۱۷ءمیں نیشنل پارٹی نے ۴۴.۴فیصد پارٹی ووٹ لیے۔ چنانچہ ان کو ۵۶سیٹیں پارلیمنٹ میں ملیں۔ نیشنل پارٹی کو حکومت بنانے کے لیے کم از کم ۵ اور سیٹیں درکار تھیں لیکن وہ کسی بھی چھوٹی پارٹی سے ان کی شرائط کے ساتھ اتحاد نہ کر پائے، جبکہ لیبر پارٹی کو الیکشن میں صرف ۴۶سیٹیں ملیں۔ لیبر پارٹی نے دو چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد کر کے ۶۳ سیٹیں حاصل کر لیں۔ اس طرح لیبر پارٹی کی لیڈر جیسنڈہ آرڈرن (Jacinda Ardern) ملک کی وزیر اعظم بن گئیں۔
بعض لوگ اس سسٹم کو اس لیے نا پسند کرتے ہیں کہ اس نظام میں پارٹی ووٹ کی حیثیت الیکٹوریٹ ووٹ سے زیادہ ہے اور اس طرح بڑی پارٹی کے کافی ایم پیز الیکشن لڑے بغیر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔
اس وقت ملک میں نیشنل پارٹی اور لیبر پارٹی دو بڑی پارٹیاں ہیں۔ ان کے علاوہ کافی چھوٹی چھوٹی پارٹیاں ہیں جیسے ماؤری پارٹی، ایکٹ پارٹی، گرین پارٹی وغیرہ۔ جو چھوٹی پارٹی ۵ فیصد ووٹ حاصل کر لیتی ہے وہ کسی ایک بڑی پارٹی کے ساتھ معاہدہ کر کے حکومت کا حصہ بن سکتی ہے۔
اکتوبر میں الیکشن بھی اسی MMP نظام کے تحت ہی ہوا ہے جس کے مطابق نیشنل پارٹی نے پچاس سیٹ حاصل کرکے انتخاب جیت لیا اور امید کی جاتی ہے کہ وہ کسی چھوٹی پارٹی سے مل کر حکومت بنائیں گے۔
سمندری طوفان گیبریئیل کے نقصانات
نیوزی لینڈ کے بارہ میں عام طور پر یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ سوائے زلزلوں کے باقی ہر قسم کے خطرات سے محفوظ ہے۔ لیکن حالیہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ ملک بھی محفوظ نہیں رہا۔ حال ہی میں ایک تباہ کن سمندری طوفان گیبریئیل نےیہ تاثر بھی ختم کر دیا ہے۔ ماہ فروری میں آنے والے اس سمندری طوفان کے نتیجہ میں کئی جانیں گئیں اور اس نے بڑے پیمانہ پر تباہی مچائی۔
نیوزی لینڈ میں درجہ حرارت ماضی میں کافی کم رہتا رہا ہے لیکن اب چند سالوں میں آہستہ آہستہ درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے سائیکلون کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فروری ۲۰۲۳ء کے اوائل میں، بحرالکاہل میں ایک ٹراپیکل کم دباؤ کا نظام تشکیل پایا اور اس نے مغرب کی طرف بڑھنا شروع کیا، جہاں گرم درجہ حرارت اور ماحول کے سازگار حالات نے اسے تیز کر دیا اور یہ طوفان کی صورت اختیار کر گیا۔ ۸؍فروری ۲۰۲۳ء کو، آسٹریلوی بیورو آف میٹرولوجی نے اس نظام کو ٹراپیکل سائیکلون گیبریئیل کا نام دیا۔ اس تین روزہ طوفان نے جو ۱۲ سے ۱۴؍فروری تک رہا نیوزی لینڈ میں ایسی تاریخی تباہی مچائی کہ اس جیسی پہلے کبھی واقع نہیں ہوئی تھی۔ شمالی جزیرے میں ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے، پل ٹوٹ گئے، بجلی بند ہو گئی اور ہر طرف سیلاب آ گیا۔
گیبریئیل طوفان، سب سے پہلے جزیرہ نورفولک میں ۱۵۵ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی طوفانی ہواؤوں کے ساتھ ٹکرایا، جس سے بجلی کے کھمبے ٹوٹ گئے اور بیشمار درخت گر گئے۔ نیوزی لینڈ میں غیر یقینی حد تک کم دباؤ کی وجہ سے سمندر کی سطح بہت بلند ہوگئی جس سےجنوب مشرق کی طرف سے چلنے والی سمندری لہریں شمالی ریجن کے صدر مقام فانگارائے کے ساحل سے ۱۰؍ میٹر بلند ہوگئیں۔ اسی طرح نیوزی لینڈ کے انتہائی شمالی مقام کیپ رینگا پر ۱۴۰؍ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چلنے لگیں۔ اتوار کو راتوں رات، شمالی ریجن میں تیز ہوائیں اور خطرناک بارش شروع ہو گئی جس سے کئی پہاڑوں سے لینڈ سلائیڈنگ ہو گئی اور راستے ان کی زد میں آگئے۔ بیشمار درخت گر گئے اور ہزاروں گھر بجلی سے محروم ہو گئے۔
فانگارائے نیوزی لینڈ کا پہلا شہر تھا جس میں صرف چوبیس گھنٹوں میں ۳۴۸؍ ملی میٹر بارش ہوئی۔ اس سے پورے علاقے میں خطرناک سیلاب آگیا۔اور بیشمار لوگ بے گھر ہو گئے۔ پیر تک طوفان گیبریئیل سفید رنگ کے ایک بہت بڑےگھومتے ہوئے سفید بادلوں کی شکل میں پورے شمالی جزیرے کو لپیٹ میں لے چکا تھا جس میں بے پناہ بارش اور خطرناک تیز ہوا تھی۔
جیسے جیسے دن چڑھتا گیا، آکلینڈ طوفانی لہروں، تیز ہواؤں اور بارش سے متاثر ہونا شروع ہو گیا۔ آکلینڈ کے مغربی حصہ میں وائٹاکرے پہاڑوں کا سلسلہ ہے جہاں بارہ گھنٹے میں ۱۶۰؍ ملی میٹر بارش نے اس سارے علاقہ کی آبادیوں کو ڈبو دیا۔
شمال مشرقی ساحل پر واقع ریجن، کورومینڈل، بھی طوفانی ہواؤں اور شدید بارشوں کی زد میں آ گیا جس نے اس جزیرہ نما کو مکمل طور پر منقطع کر دیا، اس کے ایک تہائی باشندوں کی بجلی بند ہو گئی اور بڑے پیمانے پر لینڈ سلائیڈ ہوئی اور کئی گھر اس کی زد میں آکر دب گئے۔ بڑے پیمانے کا سیلاب آگیا۔
نیوزی لینڈ کے شمالی جزیرہ کی مشرقی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ دو مزید ریجنز، ہاکس بے اور گزبورن بھی اس طوفان سے بہت متاثر ہوئے۔ نیوزی لینڈ میں پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار کا بڑا حصہ ان علاقوں سے آتا ہے۔ گزبورن کے انتہائی شمالی علاقہ سے لے کر ہیسٹنگز تک، بجلی اور مواصلاتی نیٹ ورک ٹوٹ گیا، ندیوں میں سیلاب آ گیا اور ساری آبادیاں پانی میں ڈوب گئیں۔کھڑی فصلیں اور پھلوں کے تمام باغات تباہ ہوگئے۔ بدھ کی رات تک، کم از کم ۱۰,۵۰۰ لوگ بے گھر ہو چکے تھے۔ ۱۴۴,۰۰۰ جائیدادیں بجلی کے بغیر تھیں۔ چھ پل ٹوٹ گئے جس کی وجہ سے یہ علاقے کئی دنوں تک باقی علاقوں سے منقطع رہے۔ مجموعی طور پر گیارہ افراد اس طوفان کے نتیجہ میں ہلاک ہوئے۔
سمندری طوفان گیبریئیلنے شمالی جزیرے کے شمالی اور مشرقی علاقوں میں مکانات، بنیادی ڈھانچے اور ذریعہ معاش کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ طوفان زلزلوں کو چھوڑ کر نیوزی لینڈ کی سب سے بڑی قدرتی آفت تھی جس کے معاشی نقصانات اربوں ڈالرز میں شمار کیے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ گرانٹ رابرٹسن کا کہنا ہے کہ اس سے جائیدادوں اور بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ ساڑھے تیرہ بلین ڈالر بنتا ہے۔
نیوزی لینڈ جیسے محفوظ ملک کو جب ہم نئی قسم کے طوفانوں سے دوچار ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ پیشگوئی یاد آ جاتی ہے جس میں جزائر کے رہنے والے لوگوں کو بھی بڑی تباہیوں سے متنبہ کیا تھا۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید اُن سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے۔ اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے۔ نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ۔‘‘(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۶۹)