آفاتِ زمانہ اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ (۱۸۳۵ءتا ۱۹۰۸ء)میں پیشگوئیوں کے مطابق کثرت سے آفات و حوادث کا ظہور ہوا۔بڑے بڑے زلازل آئے،آتش فشاں پہاڑ پھٹے،نئی نئی جان لیوا بیماریوں نے صفحہ ہستی سے بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیں۔بیسویں صدی میں تو ان آفات کی کثرت میں اور بھی اضافہ ہوا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان آفات کو اپنے لیے نشان قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’دسواں نشان طرح طرح کی آفات سے اس زمانہ میں انسانوں کا کثرت سے ہلاک ہونا ہے جیساکہ قرآن شریف کی اس آیت کا مطلب ہے وَاِنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اِلَّا نَحۡنُ مُہۡلِکُوۡہَا قَبۡلَ یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ اَوۡ مُعَذِّبُوۡہَا(بنی اسرائیل:۵۹)ترجمہ:کوئی ایسی بستی نہیں جس کو ہم قیامت سے کچھ مدت پہلے ہلاک نہیں کریں گے یا کسی حد تک اس پر عذاب وارد نہیں کریں گے۔سو یہی وہ زمانہ ہے کیونکہ طاعون اور زلزلوں اور طوفان اور آتش فشاں پہاڑوں کے صدمات اور باہمی جنگوں سے لوگ ہلاک ہورہے ہیں اور اس قدر اسباب موت کے اس زمانہ میں جمع ہوئے ہیں اور اس شدت سے وقوع میں آئے ہیں کہ اس مجموعی حالت کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں پائی نہیں جاتی۔‘‘(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۰۷،۲۰۶)
بائبل میں بھی مسیح کی آمد ثانی کے وقت کثرت سے آفات آنے کا ذکر ملتا ہے۔چنانچہ متی کی انجیل میں ہے کہ قومیں ایک دوسرے پر چڑھائی کریں گی اور سلطنتیں ایک دوسرے کے خلاف اُٹھیں گی، جگہ جگہ قحط پڑیں گے اور زلزلے آئیں گے۔(متی کی انجیل باب ۲۴ آیت ۷)
تب ایسی بڑی مصیبت آئے گی جو دُنیا کے شروع سے لے کر اب تک نہیں آئی اور نہ ہی دوبارہ کبھی آئے گی۔(متی کی انجیل باب ۲۴ آیت ۲۱)
گزشتہ زمانہ میں ذرائع میسر نہ ہونے کی وجہ سے تمام واقعات ریکارڈ میں نہیں ملتے لیکن جو بڑے واقعات ہیں،ان کا ذکر ضرور مل جاتا ہے۔ان حادثات و واقعات میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے۔
حضرت مسیح موعود ؑکو اللہ تعالی ٰنے زلزلوں کے بارے میں کثرت سے الہامات کیے جن کا آپ نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں ذکر کیا ہے۔چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں کہ
ھل اتاک حدیث الزلزلۃ۔ اذا زلزلت الارض زلزالھا۔ واخرجت الارض اثقالھا وقال الانسان مالھا۔ یومئذٍ تحدث اخبارھا۔ بان ربک اوحیٰ لھا۔ اَحسب الناس ان یترکوا۔ وما یأتیھم اِلابغتۃ۔ یسئلونک احق ھو۔ قل ای وربی انہ لحق۔ ولا یرد عن قوم یعرضون۔ الرحٰی یدور وینزل القضاء۔لم یکن الذین کفروا من اھل الکتاب والمشرکین منفکین حتّٰی تاْتیھم البینۃ۔
ترجمہ:کیا تجھے آنےوالے زلزلہ کی خبر نہیں ملی۔جب زمین زلزلوں سے سخت ہلائی جائے گی۔زمین اپنے بوجھوں کو باہر پھینک دے گی۔اور انسان پکار اٹھے گا۔یہ کہ سچ مچ تیرے رب نے اس کے لئے وحی کی۔ کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ ان کو یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا اور زلزلہ نہیں آئے گا۔ضرور آئے گااور ایسے وقت آئے گا کہ وہ غفلت میں ہوں گے۔ہر ایک اپنے کام میں مشغول ہوگا۔کہ زلزلہ ان کو یکایک پکڑے گا۔تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا ایسے زلزلہ کا آنا سچ ہے اور خدا سے برگشتہ ہونے والے کسی مقام سے بچ نہیں سکتے۔ایک چکی گردش میں آئے گی اور قضا نازل ہو گی۔جو لوگ اہل کتاب اور مشرکوں میں سے حق سے منکر ہو گئے۔وہ بجز اس نشان عظیم کے باز آنے والے نہیں۔(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۶،۹۵)
نیز فرمایا ’’یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے پس یقینا ًسمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوںگے اور اس قدر موت ہوگی کہ خُون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوںگے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اُس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوںگی۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۲۶۸)