دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے دعاؤں پر بہت زور دینا چاہیے
صرف مڈل ایسٹ یا عرب ممالک کا ہی معاملہ نہیں ہے کہ جہاں سے جنگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں۔ امریکہ اور کوریا کا بھی تناؤ ہر آنے والے دن میں بڑھ رہا ہے اور دنیا کے حالات پر نظر رکھنے والے اور تبصرہ کرنے والے اس بات کا کھل کر اظہار کررہے ہیں کہ امریکہ کا معمولی سا بھی ہتھیاروں کا استعمال اور سختی کا رویّہ، یا کوریا کی طرف سے ہتھیار کا استعمال چاہے وہ بغیر نقصان پہنچائے ڈرانے کے لئے ہی ہو، اس خطے میں بدترین جنگ پر منتج ہو گا۔ پس دنیا کے بڑے خوفناک حالات ہیں۔ چین گو کوریا کا حمایتی ہے لیکن وہ بھی حالات کی سنگینی اور جنگ کے خوفناک نتائج کو محسوس کرتے ہوئے کوریا کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے اور امریکہ کو بھی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
پھر نئی ایجادیں ہیں۔ انسانوں نے اپنے رابطوں کے لئے، اپنے ریکارڈ رکھنے کے لئے، اپنے معاشی اور دوسرے نظام چلانے کے لئے بڑی آسانیاں پیدا کی ہیں۔ کمپیوٹر نے بہت سے کاموں کو سنبھال لیا ہے۔ لیکن یہی ایجاد دنیا کی تباہی کا بھی ذریعہ بن سکتی ہے۔ آجکل بار بار کبھی کسی خاص ملک میں اور کبھی پوری دنیا میں سائبر اٹیک (Cyber attack) ہو رہے ہیں۔ سارا نظام اس سے درہم برہم ہو جاتا ہے۔ یہاں کا بھی این ایچ ایس (NHS) کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ ایئر پورٹس کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ جنگی آلات کے استعمال اور جنگوں کی وجہ بننے میں بھی یہ سائبر حملے جو ہیں خوفناک کردار ادا کر سکتے ہیں اور تباہی لا سکتے ہیں۔ چنانچہ نیٹو کے ایک نمائندے نے یہ واضح کیا ہے کہ نیٹو پر یا دنیا کے حساس معاملات میں کہیں بھی یہ سائبر حملہ ہو گیا تو ایک تباہ کن جنگ کا باعث بن سکتا ہے اور مزید ہم اس قسم کا حملہ برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ وارننگ وہ دے چکے ہیں۔ پس دنیا تو اپنی تباہی کے خود سامان کر رہی ہے اور سمجھتے ہیں کہ دنیا داروں کی ترقی ان کی حفاظت کی ضامن ہے جبکہ یہ ان کی تباہی کی وجہ بن سکتی ہے۔ …
…ہم احمدی کمزور ہیں۔ ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں ہے۔ ہمارے پاس دولت نہیں ہے۔ ہمارے پاس حکومت نہیں ہے۔ لیکن ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق آنے والے مسیح و مہدی کو مان لیا ہے جس سے اب دنیا کا امن اور سلامتی وابستہ ہے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عمل کرنے سے قائم ہو گا۔ دنیا اگر جنگوں کی تباہی اور بربادی سے بچ سکتی ہے تو صرف ایک ہی ذریعہ سے بچ سکتی ہے اور وہ ہے ہر احمدی کی ایک درد کے ساتھ ان تباہیوں سے انسانیت کو بچانے کے لئے دعا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ دعا ایسی مصیبت سے بچانے کے لئے بھی فائدہ دیتی ہے جو نازل ہو چکی ہو اور ایسی مصیبت کے بارے میں بھی جو ابھی نازل نہ ہوئی ہو۔ فرمایا کہ پس اے اللہ کے بندو! دعا کو اپنے اوپر لازم کر لو۔ (سنن الترمذی کتاب الدعوات باب من فتح لہ منکم باب الدعاء … الخ حدیث 3548)
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہمیں دعاؤں پر بہت زور دینا چاہئے۔ آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ دنیا میں بسنے والے انسانوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے، ان آنے والی تکلیفوں اور مصیبتوں کو محسوس کرتے ہوئے جو ابھی ان پر نہیں آئیں اور جن کا ان کو احساس بھی نہیں ہے۔ حکومتیں اور ایک طبقہ تو اپنے مقاصد کے لئے ایسی حرکتیں کر رہا ہے لیکن لاکھوں کروڑوں معصوم دنیا میں ہیں، ان ملکوں میں ہیں جن کو پتا بھی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور کیا ہو رہا ہے اور وہ بے ضرر اور معصوم ہیں ان کے لئے ہمارا فرض ہے کہ دعا کریں۔ یہ لوگ جو دنیا دار ہیں وہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم، جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم دنیاوی حصاروں میں رہ کر ان اثرات سے محفوظ رہیں گے۔ لیکن نہیں سمجھتے کہ آفات اور تباہی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ آج غلامان مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہی یہ فرض ہے کہ جہاں اپنے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو دین پر قائم اور مضبوط رکھے، اللہ تعالیٰ سے تعلق کو اور دعاؤں کی طرف توجہ میں انہیں بڑھاتا رہے، ان کی پریشانیوں اور مشکلات کو دور فرمائے، وہاں مُسلم اُمّہکے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی عقل دے کہ وہ اپنے مقام کو سمجھیں۔ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ غیروں اور اسلام مخالف طاقتوں کی جھولی میں نہ گریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی سلامتی، ان کی ترقی کے لئے اپنے جس فرستادے کو بھیجا ہے وہ اسے ماننے والے ہوں۔ اسی طرح ایک درد کے ساتھ انسانیت کو تباہی سے بچانے کے لئے بھی دعا کریں۔ جنگوں کے ٹلنے کے لئے دعا کریں۔ دعاؤں اور صدقات سے بلائیں ٹل جاتی ہیں۔ اگر اصلاح کی طرف دنیا مائل ہو جائے تو یہ جنگیں ٹل بھی سکتی ہیں۔ ہم اس بات پر خوش نہیں ہیں کہ دنیا کا ایک حصہ تباہ ہو اور پھر باقی دنیا کو عقل آئے اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکیں اور آنے والے کو مانیں بلکہ ہم تو اس بات پر خوش ہیں اور کوشش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو بھی اس کے بداعمال کی وجہ سے تباہی میں نہ ڈالے اور دنیا کو عقل دے کہ وہ بد انجام سے بچیں۔ جہاں مسیح موعود کے غلاموں کا یہ کام ہے کہ اس پیغام کو عام کریں کہ عافیت کا حصار اب مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جڑنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے یا جڑنے میں ہی ہے، وہاں ہم ان کے لئے دعائیں بھی کریں۔ اس یقین کے ساتھ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہماری دعاؤں سے ان کو عقل بھی آ جائے اور اللہ تعالیٰ ان کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بھی بچا لے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے اس مشن کو پورا کرنے والے ہوں جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لے کر آئے تھے کہ دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے کر آنا ہے اور اس کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور کوششوں کو بھی عمل میں لائیں اور دعاؤں کی بھی انتہا کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا غلبہ دعاؤں کے ذریعہ سے ہونا ہے۔ آپ کو دعا کا ہتھیار دیا گیا ہے۔ پس جیسا کہ میں نے کہا اب رمضان کے بعد بھی ہمیں اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق پیدا کرتے ہوئے دعاؤں اور عبادتوں میں آگے گے قدم بڑھانے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :’’دعابڑی دولت اور طاقت ہے اور قرآن شریف میں جا بجا اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنی مشکلات سے نجات پائی’’۔ فرمایا کہ ‘‘انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے۔’’ فرمایا ‘‘پس مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو۔ دعاؤں کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی ہو گی جو خدا تعالیٰ کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جاوے گا۔‘‘(ملفوظات جلد 7صفحہ 268-269۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اللہ تعالیٰ ہم سب کا خاتمہ بالخیر کرے اور ہم کبھی شیطان کی جھولی میں گرنے والے نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں کے مطابق زندگیاں گزارنے والے ہوں۔