قیامِ امن کامل انصاف کا تقاضا کرتا ہے
(انتخاب از خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۷؍جون۲۰۱۲ء)
اسلام ہر معاملہ میں کامل عدل اور مساوات کا درس دیتا ہے۔ چنانچہ سورۃ المائدہ آیت نمبر ۳ میں ہمیں ایک اور بہت ہی اہم راہنما اصول ملتا ہے۔ اس میں یہ بیان ہے کہ عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان لوگوں سے بھی عدل و انصاف کا سلوک کیا جائے جو اپنی دشمنی اور نفرت میں تمام حدود پار کر گئے ہیں۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ جہاں کہیں بھی اور جو کوئی بھی تمہیں نیکی اور بھلائی کی نصیحت کرے اسے قبول کرنا چاہیے اور جہاں کہیں بھی اور جو کوئی بھی تمہیں گناہ اور ناانصافی کی طرف بلائے تمہیں چاہیے کہ تم اس کو رَدّ کر دو۔
ایک سوال طبعًا پیدا ہوتا ہے کہ اسلام جس عدل کا تقاضا کرتا ہے اس کا معیار کیا ہے؟ سورۃ النساء آیت نمبر ۱۳۶؍ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خواہ تمہیں اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا اپنے والدین یا اپنے عزیز ترین رشتہ دار کے خلاف گواہی دینی پڑے تب بھی تمہیں انصاف اور سچائی کو قائم رکھنے کے لیے ایسا کرنا چاہیے۔ طاقتور ممالک کو غریب اور کمزور ملکوں کے حقوق اپنے حقوق کی حفاظت کی کوشش کرتے ہوئے غصب نہیں کرنے چاہئیں۔ نہ ہی غریب ممالک کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک روا رکھنا چاہیے۔ دوسری طرف غریب اور کمزور ممالک کو نہیں چاہیے کہ وہ طاقتور اور امیر ممالک کو نقصان پہنچانے کے موقع کی تلاش میں رہیں بلکہ دونوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ انصاف کے اصولوں کی پوری پوری پابندی کریں۔ در حقیقت مختلف ممالک کے مابین پر امن تعلقات قائم رکھنے کے لیے یہ ایک بہت ہی اہم بات ہے۔
انصاف پر مبنی بین الاقوامی امن کے ایک اور تقاضا کا ذکر سورۃ الحجر آیت نمبر ۸۹؍ میں کیا گیا ہے جہاں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کسی فریق کو نہیں چاہیے کہ وہ دوسروں کی دولت اور ان کے وسائل کو کبھی بھی حاسدانہ رنگ میں دیکھے۔ اسی طرح کسی ملک کو نہیں چاہیے کہ وہ ناانصافی کرتے ہوئے دوسرے ممالک کے وسائل پر ان کی مدد کرنے کے جھوٹے عذر کا سہارا لے کر غاصبانہ قبضہ کر لے۔ اسی طرح تکنیکی مہارت فراہم کرنے کی بنیاد پر حکومتوں کو نہیں چاہیے کہ وہ دوسری اقوام کے ساتھ غیر منصفانہ تجارتی معاملہ یا معاہدات کر کے ناجائز فائدہ اٹھائیں۔ اِس طرح مدد یا مہارت فراہم کرنے کی بنیاد پر حکومتوں کو ترقی پذیر اَقوام کے اثاثوں یا قدرتی وسائل کو اپنے قابو میں کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ البتہ جہاں کم تعلیم یافتہ افراد یا حکومتوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہو کہ وہ اپنے قدرتی وسائل کو کس طرح صحیح رنگ میں استعمال کر سکتے ہیں تو یہ کرنا چاہیے۔
پھر قوموں اور حکومتوں کو ہمیشہ ان کی خدمت اور مدد کی کوشش بھی کرنی چاہیے جن کے پاس وسائل کم ہیں لیکن یہ مدد اپنے قومی یا سیاسی مفاد کی خاطر یا کسی قسم کا کوئی اور فائدہ اٹھانے کی نیت سے نہیں ہونی چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ گذشتہ چھ سات عشروں میں اقوام متحدہ نے کئی ایسے پروگرام شروع کیے ہیں اور کئی ایسی فاؤنڈیشنز بنائی ہیں جن کا مقصد غریب ممالک کی مدد کرنا ہے تاکہ وہ ترقی کر سکیں۔ اس کوشش میں انہوں نے ترقی پذیر ممالک کے قدرتی وسائل کو چھان مارا ہے لیکن ان کوششوں کے باوجود ان ممالک میں سے کوئی ایک ملک بھی ترقی یافتہ ممالک کی سطح تک نہیں پہنچا ہے۔ اس کی ایک وجہ یقیناً ان غریب ممالک کی حکومتوں کی وسیع کرپشن ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اس کے باوجود اپنے مفادات کے حصول کے لیے اس قسم کی حکومتوں کے ساتھ چلتے جا رہے ہیں۔ تجارتی وکاروباری معاہدے بھی ہو رہے ہیں اور امداد بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ اس کے نتیجہ میں معاشرے کے غریب اور محروم طبقات کی بے اطمینانی اور بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور یہ صورت حال ان ممالک میں اندرونی فساد اور بغاوت پر منتج ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے عوام اس قدر مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے راہنماؤں کے بلکہ بڑی طاقتوں کے بھی خلاف ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ شدت پسندوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں جنہوں نے ان کی مایوسیوں کا فائدہ اٹھایا ہے اور ان کی اس امر میں حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور ان کے نفرت انگیز نظریات کو آگے بڑھائیں۔ اس کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کا امن تباہ ہو چکا ہے۔
اسلام نے قیام امن کے کئی ذرائع کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے۔ یہ کامل انصاف کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ہمیشہ سچی گواہی دینے کا حکم دیتا ہے۔ اسلام ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم کبھی بھی دوسروں کی دولت کی طرف حسد اور لالچ کی نظر سے نہ دیکھیں۔ اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ ترقی یافتہ اقوام اپنے مفادات کو ایک طرف رکھ کر غریب اور کم ترقی یافتہ اَقوام کی درحقیقت بےغرضانہ مدد اور خدمت کریں۔ اگر اِن تمام اصولوں کی پابندی کی جائے تو دنیا میں حقیقی امن قائم ہو جائے گا۔
اگر مذکورہ بالا تمام اقدامات کے باوجود کوئی ملک سراسر زیادتی کرتے ہوئے کسی دوسرے ملک پر حملہ کرے اور اُس کے وسائل پر ناجائز طور پر قبضہ کرنا چاہے تو دوسرے ممالک کو چاہیے کہ وہ ضرور اس قسم کے ظلم کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے بھی انہیں ہمیشہ انصاف سے کام لینا چاہیے۔ اسلامی تعلیم پر مبنی اس قسم کا قدم جن حالات میں اُٹھایا جائے گا اس کی تفصیل سورۃ الحجرات میں بیان ہے۔ (سورۃ الحجرات:۱۰؍۔ناقل) جہاں فرمایا کہ جب دو قوموں کا اختلاف جنگ کی شکل اختیار کر جائے تو دیگر اَقوام کو چاہیے کہ وہ انہیں مذاکرات اور سیاسی روابط کی طرف لانے کی پُر زور تحریک کریں تاکہ وہ بات چیت کی بنیاد پر صلح کی طرف آ سکیں لیکن اگر ایک فریق صلح کی شرائط تسلیم کرنےسے انکار کر دے اور جنگ کی آگ بھڑکائے تو دیگر ممالک اس کو روکنے کے لیے اکٹھے ہوکر اس سے جنگ کریں۔ جب جارحیت کرنے والی قوم شکست کھا کر باہمی مذاکرات پر آمادہ ہو جائے تب تمام فریق ایک ایسے معاہدہ کے لیے کوشش کریں جس کے نتیجہ میں صلح ہو اور دیرپا امن قائم ہو۔ ایسی سخت اور غیر منصفانہ شرائط عائد نہیں کرنی چاہئیں جو کسی قوم کے ہاتھ پاؤںباندھ دینے کے مترادف ہوں کیونکہ ان شرائط سے ایک ایسی بے چینی پیدا ہو گی جو بڑھتی اور پھیلتی جائے گی اور بالآخر مزید فساد پر منتج ہو گی۔ پس ایسے حالات میں جو حکومت فریقَین کے مابین صلح کروانے کے لیے ثالث کا کردار ادا کرے تو اسے پورے خلوص اور مکمل غیر جانبداری سے کام کرنا چاہیے۔ اگر کوئی ایک فریق اس کے خلاف بولے تب بھی یہ غیر جانبداری قائم رہنی چاہیے۔ پس ان حالات میں ثالث کو کسی غصہ کا اظہار یا کوئی انتقامی کارروائی نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی کسی رنگ میں کوئی نا انصافی کرنی چاہیے۔ ہر فریق کو اس کے جائز حقوق ملنے چاہئیں۔
پس انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ معاہدے کی خاطر بات چیت کروانے والے ممالک خود اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں نہ ہی کسی ملک سے ناجائز طور پر فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں۔ انہیں کسی قسم کی غیر منصفانہ مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ نہ ہی کسی ایک فریق پر کوئی نا حق دباؤ ڈالنا چاہیے۔ کسی بھی ملک کے قدرتی وسائل سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ ایسے ممالک پر غیر ضروری اور ناحق پابندیاں عائد نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ یہ نہ تو انصاف کا طریق ہے اور نہ ہی اس طرح کبھی بھی ممالک کے مابین تعلقات میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے۔
…خلاصہ کلام یہ کہ اگر ہم عالمی امن کے خواہاں ہیں تو ہمیں اعلیٰ مقصد کی خاطر ذاتی اور قومی مفادات کو بالائے طاق رکھنا ہو گا اور اس کی بجائے ایسے باہمی تعلقات قائم کرنا ہوں گے جو مکمل طور پر مبنی بر انصاف ہوں۔ بصورت دیگر آپ میں سے بعض مجھ سے اتفاق کریں گے کہ مختلف ممالک کے گٹھ جوڑ اور بلاکس کی وجہ سے جو مستقبل میں بن سکتے ہیں یا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بننے شروع ہو گئے ہیں، بعید نہیں کہ فساد بڑھتا ہی جائے اور بالآخر ایک بڑی تباہی پر منتج ہو۔ ایسی جنگ اور تباہی کے اثرات یقینی طور پر کئی نسلوں تک باقی رہیں گے۔ اس لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو دنیا کے طاقتور ترین ملک ہونے کے اعتبار سے اپنا کردار حقیقی انصاف کے ساتھ اور ان نیک عزائم کے ساتھ ادا کرنا چاہیے جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو دنیا ہمیشہ بہت تعریف کے ساتھ آپ کی عظیم کوششوں کو یادرکھے گی۔ میری دعا ہے کہ یہ امید ایک حقیقت بن جائے۔
(خطاب فرمودہ۲۷؍جون۲۰۱۲ء بمقام کیپٹل ہل، واشنگٹن ڈی سی۔ امریکہ)