جناب شوکت تھانوی اور جماعت احمدیہ
احمدی ہم آپ سب ہی ہیں، احمد ہمارے رسولؐ بر حق کا اسمِ پاک تھا اور ان سے نسبت دینا ہم اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہیں
جناب شوکت تھانوی کا اصل نام محمد عمر تھا۔ آپ کا آبائی وطن تھان بھون ضلع مظفر نگر تھا لیکن آپ کی پیدائش بندرابن (Vrindavan) ضلع ماتھورا (یو پی۔ انڈیا) کی ہے۔ آپ کا بچپن بھوپال میں گزرا، ۱۹۱۴ء میں آپ کے والد صاحب پولیس ملازمت سے سبکدوش ہوکر لکھنؤ میں مقیم ہوگئے چنانچہ آپ پھر اسی شہر سے وابستہ رہے۔ آپ ایک بہترین مزاح نگار، افسانہ نگار، ناول نگار، شاعر، ادیب، صحافی اور کالم نگار تھے۔ کئی اخبارات کے عملہ ادارت میں بھی اور بطور مدیر بھی کام کیا۔ قیام پاکستان سے قبل آل انڈیا ریڈیو اور بعد میں ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ روزنامہ جنگ راولپنڈی کے ایڈیٹر رہے۔ شعری مجموعہ ’’گہرستان‘‘ کے نام سے شائع ہواپچھتّر سے زائد کتب تحریر کیں، معروف تحریرات میں سے چند یہ ہیں: ایک دلچسپ شرارت، سودیشی ریل، سناؤں تمہیں بات اک رات کی، وغیرہ وغیرہ، کراچی کی بسیں، موج تبسم، بحر تبسم، خدانخواستہ۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں ’’تمغۂ امتیاز‘‘ سے نوازا۔ ۴؍مئی ۱۹۶۳ء کو لاہور میں وفات پائی اور میانمیر قبرستان میں ابدی نیند سوگئے۔
جناب شوکت تھانوی کی شادی لکھنؤ میں جناب حکیم مولوی سجاد حسین (وفات: ۱۱؍اگست ۱۹۳۲ء) کی بیٹی کے ساتھ ہوئی تھی جو کہ خود تو احمدی نہیں تھے لیکن ان کے باقی بھائی محترم ڈاکٹر محمد عمر صاحب، محترم مولوی محمدعثمان صاحب، مولوی محمد زبیر صاحب اور محترم محمد طلحہ صاحب ایڈووکیٹ سب احمدی تھے۔ کچھ اس وجہ سے بھی مخالفین احمدیت آپ کے احمدی یا قادیانی ہونے کا شور مچا کر آپ کو احمدیت سے دُور رہنے کی تنبیہ کرتے تھے لیکن اصل بات یہ ہے کہ آپ کے دل میں جماعت احمدیہ کے متعلق نہایت احترام تھا اور آپ برملا احمدیت کی خدمات اسلام اور خوبیوں کا اظہار کرتے تھے۔ گو کہ آپ مزاح نگار تھے لیکن اس مزاح نگاری میں آپ نےہمیشہ دوسروں کے مذہبی جذبات کا ادب ملحوظ خاطر رکھا، آپ خود لکھتے ہیں: ’’میں نے آج تک بحمد للہ خدا اور رسول اور بزرگانِ دین یا عقائد کا مذاق نہیں اڑایا ہے۔‘‘ (بیگم بادشاہ غلام صفحہ ۱۸) پس جماعت احمدیہ کے متعلق آپ کی سوچ اور برتاؤ سلجھا ہوا تھا اور آپ جاہل مسلمانوں کے تمسخرانہ رویّہ سے بیزار تھے۔ شوکت تھانوی صاحب نے ۱۹۴۵ء میں اپنی آپ بیتی ’’ما بدولت‘‘ کے نام سے شائع کی جس میں احمدیت کے حوالے سے بھی اپنے مشاہدات کا تذکرہ فرمایا جن میں سے بعض حوالے ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
پنجاب کا پہلا سفر
’’کسی کو کلکتہ اور بمبئی دیکھنے کا شوق ہوتا ہے، کسی کو کشمیر جنت نظیر کی زیارت کی تمنا مگر ہم کو نہ معلوم کیوں ہمیشہ سے لاہور دیکھنے کی تمنا تھی۔ بچپن ہی سے لاہور میں ہمارے لیے خدا جانے کیا کشش تھی کہ ہمیشہ لاہور جانے کو دل چاہا مگر یہ آرزو کبھی پوری نہ ہو سکی مگر جب اس تمنا کے بر آنے کا وقت آیا تو اچانک پوری بھی اس طرح ہوگئی کہ گمان تک نہ ہو سکتا تھا۔ ایک دن ڈاکٹر محمد عمر صاحب نے فرمایا چلتے ہو پنجاب! دل نے کہا نیکی اور پوچھ پوچھ۔ وہ لاہور سے بھاوج صاحبہ مسز عمر کو لینے جا رہے تھے اور ارادہ تھا کہ راستہ میں قادیان بھی ٹھہریں گے چنانچہ ہم ان کے ہمرکاب ہوگئے، امرتسر پہنچ کر ہم لوگ قادیان کی طرف مڑ گئے، قادیان پہنچ کر معلوم ہوا کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ڈلہوزی تشریف لے گئے ہیں، پھر بھی تمام دن قادیان میں گزرا۔ قادیان کے مختلف شعبے سرسری طور پر دیکھے، بہشتی مقبرہ دیکھا، اخبار الفضل کے دفتر گئے، قاضی اکمل صاحب سے ملے اور سہ پہر کو یہ سن کر کہ آج ہی حضرت صاحب ڈلہوزی سے شملہ جاتے ہوئے امرتسر سے گزریں گے ہم لوگ واپس امرتسر آگئے اور امرتسر میں حضرت صاحب سے ملاقات ہوگئی، خیال تھا کہ ہم کو دیکھتے ہی احمدیت کی تبلیغ شروع کر دیں گے ہم کو بیعت کی دعوت دی جائے گی اور ہم جب انکار کریں گے تو ڈاکٹر صاحب کو ہدایت دی جائے گی کہ ان کو جماعت کا لٹریچر پڑھنے کو دیا جائے مگر نہ وہاں احمدیت کا کوئی ذکر تھا نہ بیعت کا کوئی سوال، نہ کوئی ایسی بات جس سے یہ اندازہ ہو سکے کہ ہم کو غیر احمدی سمجھا جارہا ہے اور احمدی بنانے کی تحریک ہو رہی ہے بلکہ بجائے اس کے حضرت صاحب نے کچھ ادبی اور کچھ شاعرانہ گفتگو چھیڑ دی تا کہ ہم کو دلچسپی ہو سکے۔ سب نے مل کر ریفریشمنٹ روم میں ہندوستانی کھانا کھایا اور اس کے بعد حضرت صاحب شملہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس پہلی ملاقات میں ان کی گفتگو کا رخ زیادہ تر سیاسیات کی طرف تھا اور ہم صرف یہ اندازہ کر سکے کہ ان کی مذہبی حیثیت تو درکنار ان کی سیاسی حیثیت بھی نہایت بلند ہونا چاہیے جو عمیق نظر ان کی سیاست کی باریکیوں پر پڑ رہی تھی وہ صرف ایک مشاق ماہر سیاست کی ہو سکتی تھی، ادبی معاملات میں جو گفتگو آپ نے فرمائی وہ خالص ادبی رنگ لیے ہوئے تھی اور معلوم ہوتا تھا کہ ایک منجھا ہوا ادیب یہ باتیں کر رہا ہے۔ ان باتوں کے علاوہ نگاہیں نیچی، لبوں پر تبسم اور آواز میں ایک دلکشی غالباً ان ہی باتوں کو غیر احمدی قادیانیوں کی جادوگری کہتے ہوں گے۔‘‘ (صفحہ ۱۳۵-۱۳۷)
پنجاب کا دوسرا سفر
’’روزنامہ حق کی ملازمت ہی کے درمیان ہم کو پھر قادیان جانا پڑا، لکھنؤ میں احمدیت کے خلاف جو پروپیگنڈا ہو رہا تھا اسی سلسلہ میں مولوی محمد عثمان صاحب احمدی نے ’’حقیقت‘‘ کے ایڈیٹر انیس احمد عباسی کو اور اس خاکسار کو دعوت دی کہ آپ لوگ قادیان چل کر وہاں کے حالات کا خود مطالعہ کریں اور اپنے اس مطالعہ کی روشنی میں اگر مناسب سمجھیں تو کچھ لکھیں۔ انیس احمد صاحب عباسی نے اور ہم نے علیحدہ مشورہ کیا اور آخر اس دعوت کو منظور کر لیا۔ …
اس مرتبہ قادیان پہنچ کر ہم لوگوں نے نہایت تفصیل کے ساتھ ہر شعبہ کو تنقیدی نظر سے دیکھا، خود حضرت صاحب سے ملے اور دعوت بھی ان کے ساتھ کھائی۔ ہمارے اعزاز میں ایک مشاعرہ بھی منعقد کیا گیا، اسکول کو دیکھا اور حضرت صاحب کی مکمل سیکریٹریٹ کی سیر کی جہاں ہر ایک شعبہ کا علیحدہ ناظم تھا اور جتنے ناظم تھے وہ سب نہایت ایثار کے ساتھ اپنی اعلیٰ قابلیتوں کے باوجود، نہایت قلیل معاوضہ پر کام کر رہے تھے۔ برادر محترم مولوی محمد عثمان صاحب نے ہم دونوں کی تواضع اور آرام کا ہر ممکن انتظام ہر جگہ کیا اور آخر ہم سب ایک رائے قائم کر کے وہاں سے واپس ہوئے۔ انیس صاحب سیدھے لکھنؤ آ گئے اور مولوی محمد عثمان صاحب اور ہم لاہور گئے … اور لاہور کی اس دوسری سیر کے بعد اپنے آپ کو لاہور کا اور بھی تشنہ بنا کر واپس آگئے۔‘‘ ( صفحہ ۱۶۹-۱۷۱)
شوکت تھانوی مردہ باد
’’جماعت احمدیہ کی طرف سے ہر سال جلسہ سیرۃالنبیﷺ ہوا کرتا تھا اور ہر جلسہ میں ہم ایک نظم پڑھا کرتے تھے مسلسل چار سال تک ہم نے جلسہ میں نظمیں پڑھی تھیں اور اب تک اس جلسہ میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہ تھا مگر ہم تو بڑے مبارک قدم واقع ہوئے ہیں جہاں اور جس معاملہ میں ہمارا دخل ہو جائے پھر خیریت ذرا مشکل ہی سے نظر آتی ہے چنانچہ جس جلسہ کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس کے لیے صدر ہم کو منتخب کیا گیا تھا اور لکھنؤ میں اس جلسہ کے خلاف پروپیگنڈا ہو رہا تھا کہ یہ قادیانی جلسہ سیرۃ النبی ﷺ کے پردے میں در اصل اپنی تبلیغ کرتے ہیں اور ان کی ’’چالاکیوں‘‘ کو مسلمان سمجھتے نہیں بلکہ اس دھوکے میں چلے جاتے ہیں کہ یہ جلسۂ سیرۃ ہے مگر ہم پر اس پروپیگنڈے کا کوئی اثر نہ تھا، ہمارے پاس بھی لوگ آئے اور ہم کو منع کیا مگر ہم اپنی رائے پر قائم رہے کہ یہ ذکر رسولؐ ہے اور ذکر رسولؐ خواہ کسی جماعت کی طرف سے بھی ہو ہر مسلمان کے لیے باعث کشش ہونا چاہیے۔ سمجھ میں نہ آیا کہ آخر اب اس اختلاف کی کیا وجہ پیدا ہوگئی، اب سے پہلے ہر سال بڑے بڑے غیر احمدی علماء نے اس جلسہ میں شرکت کی تھی، غیر مسلم مقرر اس میں حضور سرور دوعالَم صلعم کی زندگی پر اپنے خیالات پیش کرتے تھے، شیعہ اور سنی علماء ہر مرتبہ شریک رہے تھے مگر اب اس جلسہ کو یکایک احمدی حضرات کا ایک ’’داؤ‘‘ سمجھ لیا گیا تھا، بہر صورت ہم نے کسی کی ایک نہ سنی اور جلسہ کی صدارت کرنے مقررہ وقت پر گنگا پرشاد میموریل ہال پہنچ گئے، اس وقت بھی ہال کے دروازہ پر ایک قسم کی پکٹنگ ہو رہی تھی، لوگوں کو جلسہ کی شرکت سے روکا جا رہا تھا مگر اس کے باوجود جلسہ میں حاضرین کی تعداد کافی تھی۔ ہم نے ایک مختصر سے خطبۂ صدارت کے بعد جلسہ کی کارروائی شروع کر دی مگر حاضرین جلسہ میں بہت سے حضرات اسی غرض سے آئے تھے کہ جلسہ میں ابتری پیدا کریں چنانچہ ہال کے اندر ہی کچھ لوگوں نے شور و غل شروع کر دیا۔ ہم نے ایک مختصر تقریر میں پھر لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کی کہ آپ حضرات سینما ہاؤسز میں خاموش بیٹھ سکتے ہیں اور تماشہ کے اختتام پر ’’خدا بادشاہ کو سلامت رکھے‘‘ والا ترانہ نہایت ادب سے کھڑے ہو کر سنتے ہیں مگر یہاں اس وقت شہنشاہ دو عالمؐ کا ذکر ہو رہا ہے اور آپ اس کو خود سننا تو درکنار دوسروں کو بھی سننے دینا نہیں چاہتے۔ فرض کر لیجیے کہ یہ جلسہ احمدیوں کا ہے مگر ذکر کن کا ہو رہا ہے، جن کے نام لیوا آپ بھی ہیں اور رویّہ آپ نے یہ اختیار کیا ہے گویا احمدیوں کی ضد میں آپ ان سے بھی بغاوت کر رہے ہیں جو آپ کے ہیں مگر ان الفاظ کا بھی بہت کم لوگوں پر اثر ہوا اس لیے وہ تو گھر ہی سے طے کر کے آئے تھے کہ جلسہ میں ابتری پیدا کریں گے، تھوڑی ہی دیر میں جلسہ کے باہر بہت کافی مجمع ہوگیا اور لوگوں نے نعرے بلند کرنا شروع کر دیے جو جماعت احمدیہ کے خلاف تھے مگر اس کے باوجود جلسہ کی کارروائی جاری رہی مگر باہر کے شور و غل کا اثر اب ہال کے اندر بھی پہنچنے لگا، آخر حاضرین جلسہ میں سے ایک بزرگ نے کھڑے ہوکر کہا کہ میں جناب صدر سے استدعا کروں گا کہ وہ جلسہ کی کارروائی ختم کر دیں اس لیے کہ ہم کو ذکر حبیبؐ سننے کے لیے جس سکون کی ضرورت ہے وہ یہاں حاصل نہیں ہو رہا ہے۔ اس آواز کی تائید اور لوگوں نے بھی کی اور اسی وقت باہر سے پھر ایک طوفان اٹھا، اب جو نعرے بلند ہو رہے تھے وہ اس خاکسار کے متعلق تھے یعنی ’’شوکت تھانوی مردہ باد‘‘ اِدھر سے کچھ لوگوں نے نعرہ بلند کیا ’’شوکت تھانوی زندہ باد‘‘ اور ہم حیران تھے کہ ہمیں ان دونوں میں سے کس کے مشورہ پر عمل کرنا چاہیے۔ لوگوں نے ہم کو مشورہ دیا کہ آپ پشت کے دروازے سے نکل جائیے مگر ہم نے اس کو منظور نہ کیا اور اس وقت اپنے دل میں بلا کی جرأت پیدا کر کے ہم صدر دروازہ ہی سے باہر نکلے جہاں دو رویہ لوگوں کی ایک بہت بڑی بھیڑ ہمارے خلاف نعرے بلند کر رہی تھی مگر ہمارے پہنچتے ہی پھر دو قسم کے نعرے شروع ہوگئے ’’شوکت تھانوی مردہ باد‘‘ اور ’’شوکت تھانوی زندہ باد‘‘ اور ہم اسی طوفان سے گذر کر سواری تک آئے۔ بانیانِ جلسہ نے اسی درمیان پولیس کا بھی انتظام کر لیا تھا مگر ہم نے باہر نکل کر پولیس کو اپنی حفاظت سے روکا اور یہ کہہ کر اس مجمع سے گذرنے لگے کہ میرا فیصلہ ان ہی حضرات کو کرنے دیجیے۔ ایک صاحبزادے کچھ حملہ کرنے کے ارادے سے آگے بڑھے تھے کہ ان ہی کے چند ساتھیوں نے ان کو روکا اور ہم بخیریت مجمع سے گذر کر اپنے گھر آگئے۔ گھر پر اس ہنگامے کی اطلاع پہنچ چکی تھی اور سب بے حد پریشان تھے مگر ہم نے گھر جاکر سب کو مطمئن کر دیا کہ دیکھ لو میرے دھڑ پر میرا سر موجود ہے اور میرے تمام اعضاء صحیح سالم ہیں۔‘‘ (صفحہ۱۷۹-۱۸۱)
احمدی
’’اس سے قبل بھی اس بات کی شہرت تھی کہ شوکت تھانوی ’’قادیانی‘‘ ہے، وجہ یہ تھی کہ برادران محترم ڈاکٹر محمد عمر صاحب، مولوی محمد عثمان صاحب، ڈاکٹر محمد زبیر صاحب اور مولوی محمد طلحہ ایڈووکیٹ احمدی عقائد رکھتے تھے اور ان ہی کی حقیقی بھتیجی سعیؔدہ ہیں، چنانچہ یہ عام طور پر خیال تھا کہ ایک احمدی لڑکی غیر احمدی کے نکاح میں نہ آئی ہوگی اس لیے کہ احمدی حضرات غیر احمدی لڑکی بیاہ تو لاتے ہیں مگر غیر احمدی کو دیتے نہیں۔ اس کے علاوہ اب تک دو مرتبہ قادیان جا چکے تھے، حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب سے مل چکے تھے، ان کے یہاں دعوت کھا چکے تھے، بعض احمدی مسائل پر مضامین لکھ چکے تھے، ان تمام حالات کے ماتحت ہمارے احمدی ہونے کی خبر گرم تھی اس کو بلاوجہ تو نہیں کہا جا سکتا۔ خواہ وہ کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو مگر اس جلسہ کے بعد تو اس روایت پر گویا تصدیق کی مہر بھی لگ گئی اور اب ہمارے احمدی ہونے کا ان سب کو بھی یقین ہوگیا، جو اَب تک مشکوک تھے۔ ہم سے جس کسی نے بھی پوچھا ہم نے یہی جواب دے دیا کہ حضرت سچ پوچھیے تو احمدی ہم آپ سب ہی ہیں، احمد ہمارے رسولؐ بر حق کا اسمِ پاک تھا اور ان سے نسبت دینا ہم اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہیں، رہ گیا آپ کا یہ خیال کہ ہم مرزا غلام احمد صاحب کو مسیح موعود مانتے ہیں یا نہیں! اس کے متعلق ہم نے آج تک غور ہی نہیں کیا ہے۔ البتہ احمدی حضرات کے اسلامی جوش، ان کے اسلامی اصولوں پر سختی سے کاربند ہونے اور تبلیغ و اشاعت اسلام کے سلسلہ میں ان کی دیوانہ وار سرگرمیوں کو ہم بیشک نہایت قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود لوگ یہی کہتے رہے کہ صاحب یہ کیونکر ممکن ہے کہ شوکت قادیانی نہ ہوں۔ اور سر ظفر اللہ خان ان کے دیوان پر گول میز کانفرنس کے اجلاس کی مصروفیتوں کے باوجود لندن میں بیٹھ کر تبصرہ لکھیں، خلیفہ صاحب قادیان اپنے خطبہ جمعہ میں ان کی سودیشی ریل کا ذکر کریں اور قادیانیوں کا اخبار الفضل ان کا ذکر اپنے کالموں میں کرے! مگر ہم نے اپنی احمدیت کی اس شہرت پر سنجیدگی کے ساتھ کبھی غور نہیں کیا اس لیے کہ اول تو ہم مذہبی آدمی نہیں ہیں دوسرے اگر مذہبی آدمی ہوتے بھی تو مذہب کے معاملہ میں خدا کو یقین دلانے کی کوشش کرتے نہ کہ اس کے بندوں کو، مذہب تو خدا اور اس کے بندوں کے درمیان ایک رشتہ کا نام ہے، یہ کوئی سوسائٹی کی چیز نہیں۔‘‘ (صفحہ ۱۸۱-۱۸۳)
آپ کی اس سوانح عمری کے علاوہ بعض دیگر جگہوں پر بھی آپ کی احمدیت کے خلاف تعصّب اور کینہ سے پاک سوچ کا ثبوت ملتا ہے۔ ۱۹۳۶ء میں آپ کی ایک کتاب ’’سودیشی ریل‘‘ منظر عام پر آئی، آپ نے اس کتاب کا انتساب حضرت چودھری سر ظفر اللہ خان صاحبؓ کے نام کیا ہے، آپ لکھتے ہیں: ’’اس کتاب کی اشاعت کو آنریبل چودہری سر محمد ظفر اللہ خان ممبر کامرس و ریلوے گورنمنٹ آف انڈیا نے انتساب کی استدعا منظور فرما کر نمایاں اہمیت دے دی ہے۔ مجھ کو فخر ہے کہ میری ایک کتاب کو سر محمد ظفر اللہ خاں ایسے مایہ ناز مدبر، منفرد مقنن اور یگانہ روزگار علمی ادبی ذوق رکھنے والی ہستی سے یہ نسبت حاصل ہو رہی ہے، یہ شرف صرف مجھ ہی کو حاصل ہوا ہے کہ سر محمد ظفر اللہ خان نے اس قسم کی استدعا منظور فرمائی ورنہ آپ ایسے مواقعہ کو عموماً نظر انداز فرما دیا کرتے ہیں اور اب تک کوئی اس قسم کی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے مگر مجھ کو اپنے خلوص پر ایسا ہی اعتماد تھا اور میرا ایمان ہے کہ خلوص اگر خلوص ہے تو وہ کبھی بے اثر نہیں ہو سکتا۔‘‘ (سودیشی ریل صفحہ۱۴۔۱۵ پہلا ایڈیشن)
اس کتاب کا مقدمہ لکھنے والے محترم خان بہادر علامہ ڈاکٹر سید نجم الدین احمد صاحب جعفری ڈپٹی ڈائریکٹر آف انفارمیشن گورنمنٹ آف انڈیا نے اپنے مقدمہ کے آخر پر لکھا: ’’مجھے اس امر کی خوشی ہے کہ مصنف نے ’’سودیشی ریل‘‘ کو آنریبل چودہری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے نام پر معنون کیا ہے اس لحاظ سے کہ سر موصوف گورنمنٹ آف انڈیا کے ریلوے ممبر ہیں۔ یہ انتخاب نہایت برجستہ، بر محل اور موزوں ہے اس کے علاوہ آپ کا ذوق ادب و علم بھی نہایت اعلیٰ ہے اور آپ کی ذات میں بحیثیت انسان کے ایسی خوبیاں جمع ہیں جن کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے۔‘‘
افسوس کہ ’’سودیشی ریل‘‘ کی بعد کی اشاعتوں میں اس انتساب اور اس مقدمہ کو اڑا دیا گیا ہے۔
اسی طرح ایک مرتبہ جماعت احمدیہ لکھنؤ کے پانچویں سالانہ جلسے بمقام گنگاپرشاد میموریل ہال کے موقع پر آپ نے ایک نظم کہی جس سے بھی آپ کی بے تعصبی اور مذہبی رواداری کا اظہار ہوتا ہے، آپ کی یہ نظم اخبار الفضل میں یوں درج ہے:
تو کہاں لے آئی ہے میری رواداری مجھے
آج کرنا ہے بتادے کس کی غمخواری مجھے
احمدی حضرات کی اس انجمن میں مَیں کہاں
ہو رہا ہوں اپنی شرکت سے میں خود ہی بد گماں
مَیں ہوں اُن لوگوں میں جن سے مذہبًا ہے اختلاف
باوجودِ اختلاف اس کا مگر ہے اعتراف
جس کے ہم سودائی ہیں خود اس کے شیدائی ہیں یہ
یہ ہی رشتہ ہم سے ہے جس رشتے سے بھائی ہیں یہ
ہاں مگر ہم بھائیوں میں باہمی ہے امتیاز
امتیاز ایسا ہے جس میں اب نہیں ہے کوئی ساز
ان میں جو جوشِ عمل ہے، ہم میں وہ مفقود ہے
ہم نے جو کچھ کھو دیا ہے، ان میں وہ موجود ہے
ان کی یہ تنظیم یہ شیرازہ بندی دیکھیے
اور ہماری بے محل یہ خود پسندی دیکھیے
مُردنی چھائی ہے اور غفلت میں ہم سرشار ہیں
یہ مگر مردہ نہیں، زندہ ہیں اور بیدار ہیں
ان میں ہے وہ حلم جو اسلام کی پہچان ہے
ان میں وہ ایثار ہے جو مسلموں کی شان ہے
ان میں مذہب کے لیے اک ولولہ، ایک جوش ہے
ولولہ ہم میں بھی ہے مدّت سے جو خاموش ہے
ہم کو دنیا کے جھمیلوں ہی سے فرصت ہے کہاں
ان کو لے دے کر مذہب سے ہیں فقط دلچسپیاں
ہم نے مذہب کو کبھی سمجھا نہیں، جانا نہیں
کون ہیں ہم کیا ہیں ہم اپنے کو پہچانا نہیں
بس یہی مذہب ہے اپنا طاق پر قرآن ہے
باپ دادا کا جو تھا ایمان وہ ایمان ہے
کُفر سمجھے بیٹھے ہیں مذہب کی تحقیقات کو
جزو ایماں کر لیا ہے اوندھی سیدھی بات کو
نکتہ چیں ہم میں بہت ہیں نکتہ رس کوئی نہیں
کام کرنے کے لیے ڈھونڈو تو بس کوئی نہیں
راہ حق سے ہم نے یہ مانا یہ ہیں کھوئے ہوئے
ہم سے تو اچھے ہیں پھر بھی، ہم تو ہیں سوئے ہوئے
گھر سے تو نکلا ہے لے کر ان کو شوق جستجو
نام تو اللہ کا لیتے ہیں جاکر چار سو
یورپ اور امریکہ میں ایک دھوم ہے اسلام کی
ہم مگر کرتے نہیں کچھ قدر ان کے کام کی
قابلِ تقلید ہے دراصل یہ جوشِ عمل
اے مسلمانو! تعصب اس جگہ ہے بے محل
(الفضل ۱۶؍ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۲)