خلافت احمدیہ اور امّتِ واحدہ کا قیام
’’آپ خلافت احمدیہ کے اس مرکزی نقطہ کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں اور اپنی نسلوں کو بھی اس کی اہمیت بتائیں۔ یہ مرکزی نقطہ یعنی خلافت احمدیہ کوئی معمولی چیز نہیں‘‘
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَدِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَلَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ(سورۃ الصف : ۱۰) وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسے دین (کے ہر شعبہ) پر کلیۃً غالب کر دے خواہ کافر ناپسند کریں۔
یہی آیت آخر میں تھوڑے فرق کے ساتھ سورۃ الفتح:۲۹ میں آئی ہے جس کے آخر میں ’’وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘‘ کی جگہ فرمایا “ؕ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ’’یعنی گواہ کے طور پر اللہ بہت کافی ہے۔
حضرت خاتم الخلفاء مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کی نسبت علماء محققین کا اتفاق ہے کہ یہ مسیح موعود کے ہاتھ پر پوری ہوگی۔‘‘ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۳۲)
چنانچہ آپؑ کے ذریعے خلافت علیٰ منہاج نبوت کا از سر نو آغاز ہوا اور انتہائی مخالفت اور قلت تعداد کے باوجود اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ فرماتا ہے:کَمۡ مِّنۡ فِئَۃٍ قَلِیۡلَۃٍ غَلَبَتۡ فِئَۃً کَثِیۡرَۃًۢ بِاِذۡنِ اللّٰہِ (البقرہ : ۲۵۰) یعنی کتنی ہی کم تعداد جماعتیں ہیں جو اللہ کے حکم سے کثیر التعداد جماعتوں پر غالب آگئیں۔
خلافت۔ امت واحدہ بنانے کا مرکزی نقطہ
ایک موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے انصار اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’…خلافت راشدہ کے بعد یہ گروہ کثیر، خدا کے برگزیدوں کی یہ جماعت، اخیار و ابرار کی یہ جماعت، مجددین اور اولیاء اللہ کا یہ گروہ کہ جن کی لاکھوں کی تعداد تھی ان کا کوئی مرکزی نقطہ نہیں تھا جس کے ساتھ وہ بندھے ہوئے ہوتے اور اس میں خدا تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت تھی …انسان کو امت واحدہ بنانے کا کام مہدی اور مسیح کے سپرد تھا…پہلی تین صدیوں میں گواسلام کو بہت ترقی حاصل ہوئی لیکن اس وقت امت واحدہ بنانے کا وعدہ ہی نہیں تھا…اس وقت یہ کام ویسے بھی نا ممکن تھا کیونکہ ذرائع آمد و رفت کے نہ ہونے کی وجہ سے مثلاً افریقہ سے تاشقند یا ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچنا کوئی آسان کام نہیں تھا…
اب جماعت احمدیہ میں خلافت احمدیہ وہ مرکزی نقطہ ہے جس کے بغیر خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا نہیں ہو سکتا کہ نوع انسانی کو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دیا جائے گا ۔اور یہ گروہ اتنا ہی بڑا ہے جتنا پہلا گروہ تھا شاید کچھ کم ہوگا منعم علیہ کے پہلے گروہ سے۔ لیکن وہ ایک سلسلہ میں پروئے ہوئے نہیں تھے۔ وہ موتی ایک لڑی میں منسلک نہیں تھے۔ لیکن اب ایک مرکزی نقطہ ہے۔ گو اس وقت لاکھوں کی تعداد میں خدا تعالیٰ کے مقربین اولیاء اللہ اور ابرار و اخیار تھے۔ لیکن خلافت راشدہ جو تھوڑے سے عرصہ تک رہی اس کے بعد وہ کون سا مرکزی نقطہ تھا جس کے گرد وہ مضبوطی سے جمع ہو جاتے۔ جہاں سے ان کو ہدایت ملتی یا جہاں سے ان کو دعائیں ملتیں یا جہاں سے ان کو رہنمائی ملتی یا جہاں سے ان کو وہ منصوبے ملتے جس کے نتیجہ میں اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کی کوشش کی جاتی۔…
رسالہ الوصیت کی رُو سے دوسرا نظام ایک روحانی نظام اور نہایت ہی عظیم نظام ہے اور وہ ہے نظام خلافت اور یہی جماعت احمدیہ کا مرکزی نقطہ ہے۔…
بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنانے کے لئے ایک مرکزی نقطہ یعنی خلافت احمدیہ کو قائم کر دیا گیا ہے۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے اور خدا تعالیٰ کے ارادوں کو پورا کرنے کے لئے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے اور خدا تعالیٰ کی جنتوں میں بطور لیڈر داخل ہونے کے لئے یعنی ساری دنیا آپ کے پیچھے چل کر خدا کی جنتوں میں داخل ہونے والی ہو، آپ خلافت احمدیہ کے اس مرکزی نقطہ کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں اور اپنی نسلوں کو بھی اس کی اہمیت بتائیں۔ یہ مرکزی نقطہ یعنی خلافت احمدیہ کوئی معمولی چیز نہیں۔‘‘ (سبیل الرشاد جلد دوم صفحہ ۳۳۸ . ۳۵۳ خطاب انصار اللہ ۳۰؍اکتوبر۱۹۷۷ء)