الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت بُو زینب صاحبہؓ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ سعدیہ وسیم صاحبہ کے قلم سے حضرت خلیفۃ المسیح الخا مس ایدہ اللہ تعا لیٰ کی دادی محترمہ حضرت بُو زینب صاحبہؓ کی سیرت شامل اشاعت ہے جو حضرت مسیح مو عودؑ کی سب سے چھو ٹی بہو یعنی حضرت مرزا شریف احمدصاحبؓ کی اہلیہ محترمہ تھیں۔ حضرت نو ا ب محمدعلی خا ن صاحبؓ کی صاحبزادی تھیں جو حضورعلیہ السلام کے داماد بھی تھے۔
’بُو‘کا لفظ مالیرکوٹلہ میں بی بی کی جگہ احترام کے طور پر بولا جاتا تھا۔ بُوزینب صاحبہؓ کی والدہ بُو مہرالنساء صاحبہ حضرت نواب صاحبؓ کی پہلی بیوی اور خالہ زادبھی تھیں۔
حضرت بُو زینب صاحبہ ۱۹؍مئی ۱۸۹۳ء کو ریاست مالیرکوٹلہ میں پیدا ہوئیں۔ بچپن بھی یہیں گزرا۔ مطالعہ کی بہت شوقین تھیں۔ سلسلہ کی کتب اور اخبارات باقاعدگی سے پڑ ھتیں۔ قرآن شریف با قا عدگی سے مع ترجمہ پڑ ھتیں۔ ا بھی بہت چھوٹی تھیں جب آ پؓ کی وا لدہ کا انتقا ل ہو گیا۔ حضرت نوا ب صاحبؓ کی ا ہلیہ ا وّل(محتر مہ مہرالنساء بیگم صاحبہ) کے بطن سے دو لڑکیا ں اور تین لڑکے پیدا ہوئے۔ ایک بیٹی کا نام امۃالسلام تھا جو چندماہ کی عمر میں وفات پاگئی۔ حضرت مسیح مو عود علیہ السلام کے مشورہ اور تحر یک پر حضرت نوا ب صاحبؓ نے اپنی مرحومہ اہلیہ کی چھوٹی بہن محترمہ بُو ا مۃالحمید بیگم صاحبہ سے بچوں کی خاطر دوسری شادی کرلی جنہوں نے بڑی محبت سے اپنی بڑی بہن کے بچوں کی پرورش کی۔ حضرت بُوزینب صاحبہؓ کو بھی اپنی خا لہ (دوسری والدہ) سے بےحد محبت تھی جب بھی کوئی قادیان جاتا تو اسے تاکید کرتیں کہ میری خالہ کی قبر پر جاکر ضرور دعا کرنا۔
حضرت نواب صاحبؓ کی اہلیہ ثانی محترمہ بُو امۃالحمید بیگم صاحبہ کے بطن سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔وہ ۱۹۰۶ء میں وفات پاگئیں تو ان کا جنا زہ حضرت مسیح مو عودؑ نے پڑھایا۔اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے ماتحت ۱۷؍فروری ۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعودؑ کی بڑ ی صاحبزا دی حضرت نوا ب مبا رکہ بیگم صاحبہؓ کا نکا ح حضرت نوا ب محمد علی خا ن صاحبؓ سے ہو گیا۔
اپنی دوسر ی بیگم محترمہ امۃالحمید بیگم کی و فا ت کے بعد حضرت نوا ب صاحبؓ اپنی اکلوتی بیٹی بُو زینب بیگم صاحبہؓ کی شادی کے متعلق بہت فکرمند تھے۔ خود حضورؑ کو بھی اس سلسلہ میں بہت خیال تھااور اکثر فکر کے سا تھ اس کا گھر میں ذکر فرمایا کرتے تھے۔ایک روز حضرت اقدسؑ کو بھی اس طرف خاص تو جہ پیدا ہوگئی۔ حضورؑ نے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدصاحبؓ کے متعلق حضرت نوا ب صاحبؓ کو پیغا م دیا جسے اُ نہو ں نے بسروچشم قبو ل کرلیا۔ حضرت نوا ب صاحبؓ کے غیراز جماعت بھائی اور دوسرے عزیز بہت ناراض ہوئے مگر حضرت نواب صاحبؓ نے اس کی قطعاً پروا نہ کی اور فرمایا: اگر شریف احمد ٹھیکرا لے کر گلیوں میںبھیک مانگ رہا ہوتا اور دوسری جانب ایک بادشاہ رشتہ کا خواستگا ر ہوتا تب بھی مَیں شریف احمد ہی کو بیٹی د یتا ۔
حضرت صاحبز ادہ مر زا شریف احمدصاحبؓ کے نکاح کی تقریب ۱۵؍نومبر ۱۹۰۴ء (بمطا بق ۲۷؍ر مضا ن المبارک ۱۳۲۴ھ)کو عمل میںآئی۔ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ نے ایک ہزار روپیہ مہر پر نکاح پڑھا۔ شادی ۹؍مئی۱۹۰۹ء کو اور ولیمہ ۱۰؍مئی کو ہوا۔
حضرت نوا ب مبا رکہ بیگم صاحبہؓ کا بیا ن ہے کہ بُوزینب بیگم صاحبہ کا رخصتانہ نہایت سادگی سے عمل میں آیا۔ حضرت اماں جا نؓ نے سا ما ن، کپڑا، زیور و غیرہ ہما رے ہاں بھجوادیا تھا اور چونکہ نواب صاحب کا منشاء تھا کہ حضرت فاطمہؓ کی طرح ر خصتانہ ہوسو دلہن تیا ر ہوگئی تو نوا ب صاحب نے پاس بٹھاکر نصائح کیں اور پھر مجھے کہا کہ حضرت اما ں جا نؓ کی طرف چھوڑ آؤں۔ سیّدہ اُمِّ ناصرصاحبہ والے صحن میں جو سیّدہ اُمِّ وسیم صاحبہ کی طرف سے سیڑھیاں اُترتی ہیں۔ وہاں حضرت امّا ں جانؓ نے استقبال کیا اور د لہن کو دارا لبرکا ت میں لے گئیں۔
حضرت بُوزینب صاحبہؓ بہت ملنسار، خو ش خلق اور بہت مہمان نواز تھیں۔ ایک پیاری سی مسکراہٹ کے ساتھ سب کو خوش آمدید کہتیں،خا طر توا ضع کرتیں۔ اگر کوئی اپنے ہاتھ سے پکاکر ان کے لیے کچھ لے جاتا تو بہت خو ش ہوتیں،تعریف کرتیں اور دوسروں کو تعریف کرکے کھلاتیں۔ ہر ایک کا دکھ سکھ سنتیں کبھی کسی سے شکوہ نہ کر تیں۔کبھی کوئی با ت کہہ بھی دیتا تو خاموش رہتیں۔ اپنے بہن بھائیوں سے بھی آپ کو بےحدمحبت تھی اور کبھی کسی کو یہ محسوس نہ ہوتا کہ یہ سوتیلے بہن بھائی ہیں۔ ہر ایک کی خوشی میں دل سے خوش ہوتیں اور ہر ایک کی یکساں فکر بھی کرتیں، چو نکہ وہ خود بہت محبت کرنے والی اور خیال رکھنے والی خاتون تھیں اس لیے انہوں نے اپنے خاص انداز میں محبت بانٹی بھی اور پائی بھی۔
آپؓ کی چھوٹی بہن آصفہ بیگم صاحبہ کہتی ہیں وہ فرشتہ تھیں۔ آپؓ صدقہ بہت دیتیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی کہتیں کہ فلاں غریب ہے اسے کچھ دے دو۔ غریبوں کا عا م طور پر اور اپنے ملازمین کا خا ص طور پر بےحد خیال ر کھتیں۔گو خامو ش طبع تھیں۔ایک عورت کسی گاؤں سے کبھی کبھی آپؓ کے لیے انڈے لے کر آتی، لاتی تو وہ تحفہ تھی لیکن آپؓ اپنی بیٹی سے کہتیں: ’اس کو کچھ پیسے دے دو، بےچاری ا تنی دُور سے آتی ہے،غریب ہے‘۔ربوہ آکر بھی یہی حال رہا، آپؓ سے ملنے ڈھیروں خواتین روزانہ آتی تھیں لیکن پیشا نی پر کوئی بل نہ آیا بلکہ ہر ایک سے خوا ہ غریب ہو یا امیر خندہ پیشانی سے ملتیں۔بلکہ بےزبان مخلوق کا بھی خیال رکھتیں، بلاناغہ کوّوں اور چڑیوں کے لیے دانہ اورروٹی کے ٹکڑے ڈالتیں۔ خودنمائی بالکل بھی نہ تھی۔نہایت نفاست پسند خاتون تھیں،پاکی ناپا کی کا بہت زیادہ خیال ہو تا تھا۔
حضرت بُوزینب صاحبہؓ کو اپنے ہاتھ سے کا م کرنے کی عادت تھی اور شوقیہ چند چیزیں خود اپنے ہا تھ سے پکاتیں، سب عزیز کہتے ہیں کہ ان کے ہاتھ کا چھو لیا (ہر ے چنے) جیسا لا کھ کو شش پر بھی کبھی کو ئی بنا ہی نہیں سکا۔بیما ری کی حا لت میں بھی پورے گھر پر ان کی کڑی نگا ہ ہو تی۔ بڑےلو گ تو پھٹی پرانی ٹوٹی پھوٹی چیزیں پھینک دیا کرتے ہیں لیکن ان کا یہ حا ل تھا کہ وہ اس سے ایک اَور کا رآمد چیز بنا لیتیں۔ا نہیں سلمہ ستارے کا کا م ،گوٹا ٹانکنا سب آتا تھا۔ آپؓ بہت منتظم خاتون تھیں۔
کم آمدنی کے دنوں میں گھر کو احسن طریق پر چلاتیں۔ لین دین بھی رکھتیں، گھر کی،بچوں کی،ملازمین کی ضروریات پوری کرتیں، ہجرت کے بعد خرا ب حا لات میں بھی ان کے گھر میں ہمیشہ ایک رکھ رکھاؤ نظر آتا اور کبھی ان کے منہ سے حالات کی تنگی کا رونا نہیں سناگیا، ہمیشہ اپنا بھرم قائم رکھا۔ وہ جو الہام ہے ’’وہ با د شا ہ آ یا‘‘ جہاں ان کے میاں حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ د نیادا ری سے بےنیا ز ایک با د شا ہ ٹھہر ے و ہا ں ان کی بیگم ان کے گھر کی ملکہ تھیں۔
آپؓ ایک کھلے ظرف والی متقی پرہیزگار خاتون تھیں۔ آپؓ کا دل خوفِ خدا سے پُر رہتا اور یہ کوشش رہتی کہ آپؓ کے ہاتھ یا زبان یا کسی عمل سے کسی کو کو ئی تکلیف نہ پہنچے۔بہت دعاگو اور عبا دت گزا ر تھیں بچپن ہی سے آ پؓ کو تہجد پڑھنے کا خاص شوق تھا۔ راتوں کو اُ ٹھ کر بہت لمبی تہجد کی نمازپڑھا کرتیں۔ اپنی نما زوں کی حفا ظت کا ہر دم خیال رہتا یہا ں تک کہ آخری بیماری میں جب ہسپتال داخل تھیں اور نیم بےہوشی کی سی کیفیت تھی تب بھی آپؓ سکون میں ہوتیں تو ڈاکٹر دیکھتے کہ ہاتھ اپنے سر تک لے جاتی ہیں۔ انہوںنے حیر ت سے ان کی بیٹی سے پوچھا کہ یہ کیا کرتی ہیں؟ اِنہوں نے بتایا کہ جب ذرا ہوش آتی ہے تونماز شروع کردیتی ہیں۔اس پر ڈا کٹر بہت حیران ہوئے کہ اس حالت میں بھی نماز کا خیا ل ہے۔ اکثر خواتین آپؓ کو دعا کا کہنے کے لیے آتی تھیں۔آپؓ پردہ کی بھی بڑی سختی سے پا بندی کرتیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی حرم محترم صاحبزادی امۃالسبوح صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت بُوزینب صاحبہؓ بےحد محبت کر نے وا لی، دعا گو اور صابرو شاکر خاتون تھیں۔کبھی بھی ان کے منہ سے کسی کا کوئی گلہ شکوہ نہیں سنا۔جب مَیں مُلک سے باہر جا نے لگی تو ان سے ملنے گئی اور د عا کے لیے کہا تو فر ما یا : تم میر ے مسرور کی بیو ی ہو ،کیا تمہارے لیے دعا نہیں کروں گی؟ آپؓ عسر اور یسر میں خوش رہتیں۔کبھی کسی سے کوئی گلہ شکوہ نہ کیا کرتیں۔بھلے کو ئی ان سے ملتا یا نہیں وہ خا موشی سے محبت کیے جا تیں۔غیبت،چغلی سے تو انہیں بہت چڑ تھی، نہ خود کرتیں نہ سنتیں۔لڑائی سے سخت گھبراتیں۔بڑے سے بڑے صدمے اور کڑی سے کڑی بات پر بھی کوئی واویلا نہ کرتیں۔ہر بات پر خدا کی رضا پر راضی ہو جاتیں۔
آپؓ کی بیٹی محترمہ امۃالباری صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ مَیںنے کبھی بھی کسی بےحد قر یبی کی و فا ت پر بھی انہیں روتے نہیں د یکھا۔ بس سر جھکاکر خا موش کھڑ ی ہوجاتیں۔ایک چُپ سی لگ جاتی تھی۔ان کی جوان بیٹی امۃالودود صاحبہ بی اے کا امتحان دے کر فا رغ ہوئی تھیں کہ دماغ کی رگ پھٹنے سے وفا ت پا گئیں۔اس غم کی شدّت کا اندا زہ تو ہر کو ئی کر سکتا ہے لیکن آپؓ نے اُ ف تک نہ کی،کوئی واویلا نہ کیا، ایک چُپ سی آپؓ کو لگ گئی۔
خا ندان مسیح موعودؑسے محبت ووفا کا تعلق تھا۔ سب عزیز رشتہ داروں سے محبت اور پیار کا سلوک کرتی تھیںخصوصاً حضرت اماں جانؓ سے بہت محبت تھی۔ ان کے گھر آتی جاتیں اور بےحد احترام کرتی تھیں۔ خاندان کے سب بچوں سے بےحد محبت کرتیں اور ان کو اپنے گھر بلاکرخوب خاطر کرتیں۔ (خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی تیسری چوتھی نسل کے بچے بھی آپؓ سے ملنے جاتے)۔ ان کی مہمان نوازی کرتیں۔ غرضیکہ ان کا بچوں سے پیار اور شفقت کا سلوک تھا کہ سب بچے اکثر آپؓ کو سلام کرنے اور اپنے امتحانوں میں کامیابی وغیرہ کی دعائیں کروانے آپؓ کے پاس جاتے رہتے۔
آپؓ کا خلافتِ احمدیہ پر بڑا پختہ ایمان تھا۔آپؓ نے چارخلافتوں کے دَور دیکھے۔حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ تو آپؓ سے عمر اور رشتہ میں چھوٹے تھے لیکن آپؓ نے ہمیشہ انہیں اپنا روحانی آ قا مانا اور ان کے ساتھ تا دمِ آخراخلاص ووفا اور اطا عت کے رشتہ سے بند ھی رہیں۔ آپؓ بہت صائب الرائے تھیں۔حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو آپؓ کی رائے پر بہت بھروسہ تھا۔
مئی ۱۹۸۴ء میں آپ شدید بیمار ہوگئیں۔ لاہور لے جایا گیا جہاں ڈا کٹروں نے انتڑیوں کا کینسر تشخیص کیا۔آ پریشن کے با وجو د آ پؓ کی طبیعت نہ سنبھلی اور دو ماہ کی لمبی تکلیف ا ٹھاکر ۲۴؍اگست ۱۹۸۴ء کو آپؓ کی وفات ہو گئی۔ آپؓ موصیہ تھیں اور آپؓ نے اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیداد پروصیت ادا کردی تھی۔ تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا۔
………٭………٭………٭………