خلافت اور جماعت کے باہمی پیار کا تعلق (قسط اوّل)
(عبدالسمیع خان۔کینیڈا)
للّٰہی محبت کی حیرت انگیز داستانیں جو آج صرف جماعت احمدیہ میں نظر آتی ہیں
خلافت احمدیہ اور جماعت احمدیہ کے درمیان محبت اور پیار کا وہی تعلق ہے جو الٰہی جماعتوں میں ہوتا ہے اور جس کا کامل نمونہ ہمیں حضرت اقدس محمد مصطفی ٰﷺ اور آپ کے صحابہؓ میں نظر آتا ہے۔ رسول کریمﷺ کو ہم ہمیشہ صحابہ کی دینی اور دنیاوی فلاح وبہبود کے لیے سرگرم عمل دیکھتے ہیں۔آپﷺ نے انہیں روحانی لحاظ سے آسمان کے ستارے بنا دیا اور دنیاوی لحاظ سے انہیں دنیا کی حکومتیں عطا کر دیں۔ دوسری طرف آپ صحابہؓ کو اپنی جان،مال، وقت،عزت،اولاد اور جذبات رسول اللہﷺ پر قربان کرتے ہوئے دیکھیں گے۔ حضرت زید بن دثنہؓ کا قول اس پر گواہ ہے جن کو کافروں نے ایک جنگ میں قید کر لیا اور انہیں شہید کرنے سے پہلے کہا کہ تمہیں یہ خیال نہیں آتا کہ تم گھر میں ہوتے اور تمہاری جگہ محمد(ﷺ)یہاں پر ہوتے؟ اس صحابی نے غیرت سے جواب دیا کہ میں تو یہ بھی گوارا نہیں کرتا کہ میں گھر میں آرام سے بیٹھا ہوں اورمدینہ کی گلیوں میں چلتے ہوئے میرے آقا محمد رسول اللہﷺکے قدموں میں کانٹا بھی چبھ جائے۔ یہ سن کر ابو سفیان نے کہا میں نے اس جیسی محبت کبھی نہیں دیکھی۔(سیرۃابن ہشام باب غزوۃ الرجیع )
یہ نظارے آج دنیا کو صرف جماعت احمدیہ میں نظر آتے ہیں۔ خلافت اور جماعت کا تعلق ایک ایسا روحانی نظام ہے جس کی نظیر کسی اور انسانی تعلق میں نظر نہیں آتی اور اس کے گواہ آپ سارے لوگ ہیں جو یہاں مجھے سن رہے ہیں یا دنیا بھر میں دیکھ رہے ہیں اور میرا یہ دعویٰ بلا دلیل نہیں۔
ہر تعلق مشکل اور مصیبت میں آزمایا جاتاہے آج ہم اسی حوالےسے اس سچائی کو پرکھیں گے۔
۲۸؍مئی ۲۰۱۰ءکو لاہور میں جماعت احمدیہ کی دو مساجد پر حملہ کر کے ۸۶؍ احمدیوں کو شہید کر دیا گیا۔ ہمارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شہیدوں کے لواحقین کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ایک عظیم الشان فیصلہ فرمایا۔ آپ نے تمام شہداء کے گھروں میں ٹیلی فون کر کے تعزیت کی اور تسلی دی۔ شہداء کی بیویاں اور اولاد کہتی ہیں کہ اس پیاری آواز نے ہمارے سارے دکھ دور کر دیے اور سینے سکون سے بھر گئے۔حضور کے اس فون کی خبر ربوہ میں ایک احمدی بچی کو ملی تو اس نے اپنے والد سے کہا کہ اگر آپ بھی شہید ہو جاتے تو ہمارے گھر بھی حضور کا فون آتا۔ اس والد نے کسی دوست سے ذکر کر دیا اور یہ بات چلتے چلتے بالآخر حضور اقدس تک پہنچ گئی۔حضور نے اس احمدی بچی کا پتا کروا کے اسے فون کیا اور اسے فرمایا کہ تمہیں اپنے والد کو شہید کرانے کی ضرورت نہیں میں اس کے بغیر بھی تمہاری خواہش پوری کر دیتا ہوں۔
باپ اور بیٹی کا تعلق نہایت جذباتی ہوتا ہے مگر احمدی بیٹیاں اپنے امام کی ایک آواز سننے کے لیے باپوں کو قربان کر سکتی ہیں۔ دوسری طرف امام کہتا ہے کہ جب تک پاکستان میں تمام مقامات سے جمعہ کی نماز خیریت سے گزر جانے کی اطلاع نہ ملے تو مجھے فکر رہتی ہے۔حضور جمعہ کے دن خاص طور پر پاکستانی احمدیوں کے لیے دعاؤں میں مصروف رہتے ہیں اور بار بار ساری دنیا میں مظلوم احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک بھی کرتے رہتے ہیں۔( خلافت از ادارہ الفضل آن لائن صفحہ ۵۱ )
پھر خلافت احمدیہ نے ان مظلوموں کی آباد کاری کا بیڑا اٹھایا اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثر بہترین زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ حالات دیکھ کر پاکستان کے ایک بڑے سرکاری افسر نے ہمارے امیر ضلع راولپنڈی سے کہا کہ اے کاش! ہمارا بھی کوئی اس طرح کا راہنما ہوتا جو ہمارے دکھوں کو سمیٹ لیتا۔
یہی وہ نعمت ہے جو رسول کریمﷺکے ذریعہ مسلمانوں کو عطا ہوئی تھی جن کے بارےمیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ(توبہ: ۱۲۸) یہ تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں مگر مومنوں کے لیے ان کی رحمت کے چشمے ناپیدا کنار ہیں۔فرمایا تمہاری ہر تکلیف پر یہ وجود تڑپ اٹھتا ہے اور تمہارے لیے ہر خیر کے حصول کے لیے بے چین رہتا ہے اور خدا کی صفت رؤف اور رحیم کا مظہر کامل ہے۔ اپنے بعد جب رسول اللہﷺ نے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی بشارت دی تو اس کی بھی مرکزی خوبی یہی بیان فرمائی کہخِيَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ، وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ، وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ، وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ(صحیح مسلم کتاب الامارہ باب خیار الائمۃ حدیث نمبر۱۸۵۵،المعجم الکبیر طبرانی جلد ۱۸ صفحہ ۶۳حدیث نمبر۱۱۶)رسول کریمﷺ نے فرمایا تمہارے بہترین لیڈر وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں اور وہ تمہارے لیے دعائیں کرتے ہیں اور تم ان کے لیے دعائیں کرتے ہو اور تمہارے بد ترین لیڈر وہ ہیں جن سے تم نفرت کرتے ہو اور وہ تم سے نفرت کرتے ہیں تم ان پر لعنت کرتے ہو اور وہ تم پر لعنت کرتے ہیں۔
پھر فرمایا: أَلَا إِنَّ خِيَارَ أَئِمَّتِكُمْ خَيْرُ النَّاسِ وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمْ شِرَارُ النَّاسِ۔ ( الآحاد والمثانی۔ابن ابی عاصم۔جلد ۵ صفحہ ۳۰۲ حدیث نمبر ۲۸۳۱) سنو تمہارے بہترین ائمہ انسانوں میں سے بہترین ہیں اور برے لیڈر لوگوں میں سے بد ترین ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے بدری صحابہؓ پر خطبات میں خلفائے راشدین کے متعلق تفصیل سے بتایا ہے کہ وہ کس طرح مسلمانوں کے لیے محبت سے پُر تھے۔ آج یہ نعمت حضرت مسیح موعودؑ کے طفیل دوبارہ جماعت احمدیہ کو عطا ہوئی ہے اور جماعت اس کی برکتوں کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ دنیا کےکسی خطے میں کسی احمدی کو کوئی تکلیف ہو ان سب کے دکھ خلافت احمدیہ کے سینے میں جمع ہوتے ہیں اور وہاں سے دعاؤں کا چشمہ بہنے لگتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکے زمانہ میں ہندوستان کے علاقہ حیدر آباد دکن میں سیلاب آیا۔ جس میں جماعت کے کچھ لوگ بھی متاثرہوئے۔ حضورؓ بے قرار ہو گئے اور اس زمانہ میں متواتر تاریں دے کر احباب کی خیریت دریافت کی۔ پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو خاص طور پر ایک آدمی کو بھیجا۔عام طور پر آپ جماعت کے لیے دعاؤں میں مصروف رہتے تھے مگر جمعہ کے دن،جمعہ کے بعد مغرب تک خصوصی دعاؤں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ایڈیٹر الحکم کی گواہی ہے کہ میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہےکہ جب آپ کے پاس ڈاک آتی ہے تو ایک ایک خط کو آپ اپنے ہاتھ میں لے کر دعاکرتے ہیں۔ (حیات نور صفحہ ۴۲۲)
ایک رات حاکم دین صاحب نے بیوی کی تکلیف کا ذکر کیا تو حضور نے دعا کر کے کھجور دی۔ انہوں نے جا کر بیوی کو کھلا دی تو تھوڑی دیر بعد ہی وہ صحت یاب ہو گئی اور دونوں سو گئے مگر حضور ساری رات دعا میں لگے رہے۔صبح حاکم دین صاحب نے حضور کو بتایا توحضور نے فرمایا: رات کو مجھے بھی بتا دیتے تو میں بھی کچھ دیر سو جا تا۔ (الفضل انٹر نیشنل ۲۴؍مئی ۲۰۱۹ء )
حضورؓ ۱۹۱۰ء میں گھوڑے سے گر کر زخمی ہو گئے تو جماعت کے لیے قیامت کا لمحہ تھا۔گھر کےباہر مردوں اور عورتوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا ۔فرمایا: ان سب سے کہہ دو کہ میں گھبراتا نہیں سب اپنے نام لکھوادیں اور گھروں کو چلے جائیں میں ان کے لیے دعا کرتا رہوں گا۔(حیات نور صفحہ ۴۷۲)
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ بھی اسی طرح سراپا محبت تھے اور جماعت کے روحانی باپ تھےاور اس بزرگ مسیح کے بیٹے تھے جو سخت سردی کی راتوں میں اپنے گرم کپڑے مہمانوں کو دے کر خوشی محسوس کرتا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے تو خلافت کا تعارف ہی اس طرح کروایا تھا کہ تمہارے لیے ایک شخص درد رکھنے والا،تمہاری محبت رکھنے والا تمہارے لیے راتوں کو دعائیں کرنے والاہےوہ تمہارے لیے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے۔(برکات خلافت،انوار العلوم جلد۲ صفحہ ۱۵۸ )اور یہ کام کسی انجمن کا نہیں صرف خدا کے خلیفہ کا ہے۔حضور فرماتے ہیں: میں دیانت داری سے کہہ سکتا ہوں کہ لوگوں کے لیے جو اخلاص اور محبت میرے دل میں میرے اس مقام پر ہونے کی وجہ سے ہے جس پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے اور جو ہمدردی اور رحم میں اپنے دل میں پاتا ہوں وہ نہ باپ کو بیٹے سے ہے اور نہ بیٹے کو باپ سے ہو سکتا ہے۔(الفضل۱۴؍اپریل ۱۹۲۴ء)
قادیان سے پاکستان ہجرت کے دنوں میں مشہور ہو گیا کہ قادیان کے قریب کوئی جنّ ہے جو رات دیر گئے چلتا پھرتا ہے۔بعض لوگوں نے ٹوہ لگائی تو پتا لگا یہ حضرت مصلح موعودؓتھے جو رات کو چھپ کر گھر سے دور تنہائی میں جماعت کے لیے دعائیں کرتے تھے۔حضور نے قادیان سے ہجرت سے پہلے احمدیوں کی امانتوں کو لاہو ربھجوا دیا جس سے ہزاروں احمدیوں کو نئی زندگی شروع کرنے میں آسانی ہو گئی۔حضور ہندوستان سے پاکستان ہجرت کر کے آنے والے احمدیوں کے لیے خاص طور پر ۲۵ روپے روزانہ صدقہ دیتے تھے۔ ان کے آنے کے وقت قرآن کی تلاوت کرتے رہتے اور بے چینی کی وجہ سے بیٹھ نہیں سکتے ٹہل کر پڑھتے تھے۔جب تک ان کی آمد کی خبر نہ مل جاتی۔ (الفضل ۱۶؍فروری ۲۰۰۰ء)
لاہور میں راشن کی کمی تھی اور سب کارکنان کے لیے روٹی کا کوٹہ مقرر تھا جس کی حضور بھی پابندی کرتےتھے۔حضور کے ایک پوتے نے کہا کہ میرا اس سے پیٹ نہیں بھرتا۔ فرمایا: جو کوٹہ عام جماعت کے لیے ہے وہی تمہارے لیے بھی ہے میری آدھی روٹی تم کھا لیا کرو۔
حضرت مصلح موعودؓ کی ازواج میں سے ایک نے گھر میں قالین بچھایا۔ وہ کچھ خاص قیمتی نہیں تھا۔ایک خاتون حضورؓ سے ملنے آئی اور مٹی سے لت پت پاؤں لے کر اس قالین پر چڑھ گئی اور کام کے بعد واپس چلی گئی بعد میں حضور کو احساس ہواکہ کسی گھر والے نے اس کا برا منایا ہے تو حضور نے فوراًایک ملازمہ کو بلا کر فرمایا: یہ قالین فوراً یہاں سے لے جا کر باہر پھینک دو۔ یہ میرے اور میری جماعت کے درمیان حائل ہو رہا ہے۔(الفضل ۲۴؍مئی ۲۰۱۹ء)
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ملتان میں ڈپٹی کمشنر تھے حضور وہاں تشریف لے گئےوہاں ان کے گھر قیمتی فرنیچر دیکھا تو فرمایا تمہارا قیمتی فرنیچر غریب اور کمزور احمدیوں سے ملاقات میں روک نہیں بننا چاہیے۔(الفضل ۱۶؍فروری ۲۰۰۰ء)
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی روایت ہے کہ جماعت کسی ابتلا سے گزر رہی ہوتی تو حضور بستر چھوڑ کر فرش پر سوتے جب تک کہ خدا کی طرف سے کوئی اشارہ نہ ہوتا۔(الفضل ۱۶؍فروری۲۰۰۰ء)
حضورؓ کے بچے گھرسے باہر دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھےکہ حضور کے ایک لڑکے نے کسی لڑکی کو تھپڑ مار دیا۔ حضور نے دیکھا تو دونوں کو بلا لیا اور اس لڑکی سے کہا کہ میرے بیٹے کے منہ پر اسی طرح تھپڑ مارو۔ اس لڑکی کی تو ہمت نہ پڑی مگر حضور نے اپنے بیٹے سے فرمایا: میں اس کا بھی باپ ہوں اب اگر تم نے اس پر ہاتھ اٹھایا تو میں تمہیں سخت سزا دوں گا۔ (الفضل ۲۴؍مئی ۲۰۱۹ء )
اسی لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرمایا کرتے تھے کہ خلافت اور جماعت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے پرائیویٹ سیکرٹری بیان کرتے ہیں کہ ایک احمدی بچی حضورؒ کو اپنی کسی مشکل کے لیے روزانہ دعا کا خط لکھتی تھی۔ ایک رات حضور رات کو دیر تک ٹہل رہے تھے توپرائیویٹ سیکرٹری نے پوچھا تو فرمایا: آج اس بچی کا خط نہیں ملا اس کی وجہ سے پریشان ہوں۔
۱۹۷۴ء میں احباب جماعت جن دکھوں سے گزر رہے تھے ان میں ان کا محبوب خلیفہ بھی ساتھ تھا۔ حضور کئی کئی راتیں مسلسل جاگ کر دعاؤں میں گزارتے،مجھے صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے بتایا کہ ان دنوں وہ پرائیویٹ سیکرٹری تھے۔ ایک دن گوجرانوالہ سے امیر صاحب ضلع نے فون کیا کہ حضور کو اطلاع کر دیں کہ سب احمدی ایک جگہ اکٹھے ہیں دشمن نے چاروں طرف سے گھیرلیاہےحضور دعا کریں۔حضور دعا میں لگ گئے تھوڑی دیر بعد فون آیا کہ خطرہ اور بڑھ گیا ہے کچھ دیر بعد فون آیا کہ حضور کی خدمت میں ہمارا آخری سلام قبول ہو کیونکہ اب بچنے کی کوئی صورت نہیں۔حضور جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور قریبی کمرہ میں جا کر سجدہ میں گر گئے اور جب کافی دیر بعد اٹھے تو فون آیا کہ خطرہ ٹل گیا ہے اور سب احمدی خیریت سے ہیں۔ اس طرح خلافت کی بے قرار دعائیں موت کے منہ سے کھینچ لاتی ہیں۔
۱۹۷۴ء کے حالات میں احمدی لٹے پٹے ربوہ میں آتے تھے۔طبعی طور پر افسردہ اور بےچین چہروں کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے ملتے تھے اور ہنستے مسکراتے چہروں کے ساتھ باہر آتے تھے۔ وہ کیا چیز تھی جو ان کے چہروں کی زردی کو سرخی میں بدل دیتی تھی۔ وہ ایک باپ کی محبت تھی۔ ایک ٹھنڈا سایہ تھا،وہ پیار کا چشمہ تھا جس میں سارے غم دھل جاتے تھے۔
بعد میں جب یہی احمدی یورپ اور کینیڈا میں آباد ہونے لگے تو خلافت احمدیہ پھر ان کی مدد کے لیے آئی اور ہزاروں لوگوں کی آباد کاری میں پوری معاونت کی۔ آپ میں سے بھی سینکڑوں لوگ اس احسان کے ذاتی طور پر گواہ ہیں۔
رسالہ لاہور کے مخلص احمدی ایڈیٹر ثاقب زیروی صاحب اور رسالہ کے غیر احمدی پرنٹر میاں محمد شفیع صاحب پر سرگودھا میں مقدمہ دائر ہوا۔وہ لاہور سےسرگودھا جاتے ہوئے ربوہ میں رکے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے رات کا کھانا پیش کیا اور دعا کر کے جاتے ہوئے فرمایا: آپ جلد بری ہو جائیں گے۔میاں محمد شفیع کہنے لگے بری تو ہو جائیں گے مگر تین سال بعد۔صبح سرگودھا پہنچے تو عدالت نے حیرت انگیز طور پر باعزت بری کر دیا۔ واپس دوپہر کو ربوہ آئے تو حضور کو اطلاع دی تو حضور فکر مندی سے ٹہل رہے تھے۔فرمایا: ہم نے ابھی کھانا نہیں کھایا آپ بیٹھیں میں نفل پڑھ کے آتا ہوں۔ میاں محمد شفیع یہ سن کر دھاڑیں مار کر رونے لگ گئے کہ مجھ پر آج یہ راز کھلا ہے کہ تم اپنے امام کے اس قدر شیدائی کیوں ہو ایسی محبت تو میں نے سگے والدین میں بھی نہیں دیکھی۔(الفضل آن لائن ۲۸؍مئی ۲۰۲۲ء)
خلافت رابعہ میں کلمہ مہم کے دوران گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا اور سینکڑوں احمدیوں نے امام کی آوازپر کلمہ طیبہ کی محبت میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔حضورؒ کا دل ہر ایک کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ خطبات میں ان کا ذکر کرتے ہوئے آواز بھرا جاتی ان کو تسلی دینے کے لیے طویل خط لکھتے۔ایک بار حضور کو مچھلی پیش کی گئی تو حضور کو ان مظلوموں کی یاد آگئی آپ نے پیغام بھیجا کہ جیسے بھی ممکن ہو ان اسیران کو بھی مچھلی فراہم کی جائے اور ہر قیمت پر کی جائے۔ چنانچہ اللہ کے فضل سے اس کی تعمیل کی گئی اور اسیران کی آنکھوں سے دریا بہ پڑے۔
وہ عکس بن کے مری چشم تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
اسیران ساہیوال کو موت کی سزا سنائی گئی تھی اس لیے ان کا درد تو حد سے زیادہ تھا ان کے لیے مشہور نظم بھی کہی
جو درد سسکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے
شاید کہ یہ آغوش جدائی میں پلا ہے
اس دردناک نظم کے آخری شعروں نے تو کہرام مچا دیا:
خیرات کر اب ان کی رہائی مرے آقا!
کشکول میں بھر دے جو مرے دل میں بھرا ہے
حضورؒ نے یہ نظم اپنی آواز میں ریکارڈ کر کے اسیران کو جیل میں بھجوائی۔حضور کو اس دعا کی قبولیت کی خبر ایک رئویا میں دی گئی اور غیر معمولی حالات میں یہ سب اسیر رہا ہو کر حضور سے آملے اور کئی آج اس جلسہ جرمنی میں خلافت اور جماعت کی بے نظیر محبت کی گواہی دے رہے ہیں۔
۱۹۸۴ء میں حکومتی پابندیوں کی وجہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الربع ؒکو پاکستان سے لندن ہجرت کرنی پڑی۔۲۶؍اپریل کو آرڈیننس جاری ہوا اور ۲۷؍کو جمعہ تھا۔ حضور نے وکلاء کے مشورہ پر مسجد اقصیٰ میں جمعہ نہیں پڑھایا اور ایک اَور صاحب نے جمعہ پڑھایا مگر آپ خطبہ سے پہلے منبر پر تشریف لائے اور صرف ہاتھ سے سلام کا اشارہ کیا۔میں نےدیکھاکہ حضور نے دائیں سے بائیں طرف ہاتھ ہلایا زبان خاموش تھی مگر آنکھوں کی سرخی اور نمی مجھے صاف نظر آ رہی تھی۔ لوگوں کے لیے یہ ناقابل برداشت تھا کہ ان کا محبوب امام ان کے سامنے منبر پر کھڑا ہو اور اس کو سلام کرنے کی اجازت نہ ہو۔مسجد کے نمازیوں کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور ہلکی سسکیوں کی آواز اونچی ہوتی گئی یہ سلسلہ خطبہ اور نماز کے دوران بھی جاری رہا۔نماز کے بعد حضور پھر منبر پر تشریف لائے۔ اب آہوں کا طوفان رکنے والا نہیں تھا۔
ہجرت سے ایک رات پہلے آپؒ نے مغرب کی نماز مسجد مبارک میں پڑھانے کے بعد احباب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں اس مجلس میں بھی موجود تھا۔فرمایا: میں نے آپ کو اس لیے نہیں بٹھایا کہ میں کوئی تقریر کرنی چاہتا ہوں۔میں صرف آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں کیونکہ آپ کو دیکھنے سے میری آ نکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو تسکین ملتی ہے۔ مجھے آپ سے پیارہے۔حضور یہ کہہ کر چلے گئے اور اس کے بعد مسجد میں آنسوؤں کا طوفان برپا ہو گیا۔
حضور لندن پہنچ گئے مگر اہل پاکستان کی سب سے بڑی کمی حضور کا خطبہ جمعہ تھا۔ہم لندن سے آنے والے ہر شخص سے سب سے پہلے حضور کا حال پوچھا کرتے تھے۔جماعت حضور کو سننے اور حضور جماعت سے ملنے کے لیے بےتاب تھے۔ پہلے آڈیو کیسٹس کا سلسلہ شروع ہوا مگر دل تسلی نہیں پاتے تھے۔پھر ویڈیوز آنی شروع ہوئیں تو پیاس اور بڑھ گئی تب خدا نے آسمان سے ایم ٹی اے کا نظام جاری کیا یہ ہمارے لیے محض ٹی وی سٹیشن نہیں ہے۔یہ جماعت اور خلیفہ وقت کی محبت کی لہروں کا نقطۂ وصال ہے۔وہ شخص جسے خداکے سامنے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ رخصت کیا تھا وہ ہمارے گھروں میں اتر آیا
ہوا کے دوش پہ لاکھوں گھروں میں در آیا
جو شخص چھوڑ کے نکلا تھا گھر خدا کے لئے
سرینام کے ابتدائی احمدی محترم حسینی بدولہ صاحب تھے۔ ۱۹۹۴ء میں سرینام میں ایم ٹی اے کا اجراہوا تو آپ نے کئی دفعہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں ایک ایسا بوسٹر لگوانا چاہتا ہوں کہ سرینام میں ہر گھر میں ایم ٹی اے دیکھا جاسکے اور وہ اس کام کے لیے پورا خرچ دینے کو تیار ہو گئے۔ (الفضل ۱۸؍نومبر۲۰۱۳ء)
جمعہ کے دن ایک احمدی کی سب سے بڑی اور بابرکت مصروفیت حضور کا خطبہ جمعہ سننا ہے۔دنیا میں دن کا آغاز سورج طلوع ہونے سے ہوتا ہے مگر احمدی کا سورج اس کا محبوب امام ہے۔ پہلے ہم پاکستان میں شام کے وقت خطبہ سنتے تھے پھر گھانا میں عین دوپہر کے وقت سنتے تھے۔ اب ہم کینیڈا میں صبح ۸بجے سنتے ہیں اور جرمنی میں ۲ بجے دوپہر کو سنتے ہیں۔دنیا میں ایسے ملک بھی ہیں جو رات گئے اور بعض فجر کے وقت سنتے ہیں۔ایسے گھرانے بھی ہیں جہاں صرف ایم ٹی اے چلتا ہے اور اپنوں کے لیے تربیت اور غیروں کے لیے تبلیغ کا سامان مہیا کرتا رہتا ہے۔
اس جمعہ نے جماعت احمدیہ کی اندرونی زندگی کو متعدد جمعوں سے بھر دیا ہے۔ دنیا میں جب سورج ڈھلتا ہے تو جماعت احمدیہ کا سورج طلوع ہوتا ہے۔تمام آنکھیں ٹیلی ویژن کی سکرین پر جم جاتی ہیں سب ایک آواز اور ایک تصویر کے منتظر ہوتے ہیں کہیں دن،کہیں رات،کہیں صبح کی ٹھنڈی ہوائیں،کہیں تپتی دوپہریں، کہیں مرغزار، کہیں گلستان، کہیں نخلستان، کہیں برف زار، مگر سب کے دل ایم ٹی اے کی برقی لہروں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ خدا کا پیارا جب السلام علیکم کے ذریعہ ساری دنیا میں سلامتی کا پیغام دیتا ہے تو لاکھوں زبانوں سے وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کا جواب فضا کو برکتوں سے بھر دیتا ہے۔ اس جمعہ کی عید نے عید الفطر اور عیدالاضحی کی خوشیوں کو بھی دو چند کر دیا ہے۔ ہر طرف پھیلی دھند میں وہ ٹھنڈی چاندنی احمدیوں کی قوت اور سہارا ہے۔
ایم ٹی اے کے قیام سے پہلے اخبار الفضل قریباً نوّے سال تک بلا شرکت غیرے خلافت اور جماعت کی محبت کا حوالہ بنا رہا۔ یہ آغا ز میں ہفت روزہ تھا مگر جماعت حضور کا خطبہ اور دیگر خبریں سننے کے لیے ایک ہفتہ انتظار نہیں کر سکتی تھی۔ اس لیےجماعت نے بار بار درخواستیں کیں کہ اسے روزانہ کر دیا جائے۔
اس پر حضورؓ نے۱۹۳۵ء میں فیصلہ فرمایا کہ الفضل کو فی الحال چھ ماہ کے لیے روزانہ کر دیا جائے الفضل روزنامہ ہوگیا اور ۶ ماہ کی بجائے ہمیشہ کے لیے ہو گیا۔ اسے ربوہ سے بند کیا گیا تو لندن سے روزنامہ الفضل انٹر نیشنل خلافت اور جماعت کی محبت کی گواہی دے رہا ہے۔اب ایم ٹی اے کے آٹھ چینل اسی محبت کے نئے جلوے دکھا رہے ہیں۔جب سے خلیفہ وقت کے خطبات ایم ٹی اے پر نشر ہونا شروع ہوئے ہیں ایک آدھ کے سوا کوئی ناغہ نہیں ہوا حتی کہ ایک خلیفہ نے آخری خطبہ دیا اور اگلا جمعہ نئے خلیفہ نے پڑھایا۔حضور کا پتے کا آپریشن ہوا تو اس طرح پلان کیا کہ خطبہ کا ناغہ نہ ہو۔
کورونا کی وبا کی وجہ سے دنیا بھر کے رابطے منقطع ہو گئے مگر خلافت احمدیہ کا رابطہ نہیں ٹوٹا۔ جب جمعہ پڑھنا ممکن نہ رہا تو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دفتر سے پیغام دیااس طرح بھی جمعہ پڑھایا کہ خطبہ کے وقت سامنے صرف ایک خادم ہوتا تھا اور نماز میں چند خدام۔مگر اپنی جماعت سے رابطہ قائم رکھا۔ذاتی ملاقاتیں آن لائن ملاقاتوں میں تبدیل ہو گئیں اور اب تک متعدد ممالک کی سینکڑوں جماعتیں اور ہزاروں احباب یہ سعادت پاچکے ہیں۔ جن میں یہ عاجز بھی شامل ہے۔جامعہ احمدیہ انٹر نیشنل گھانا سے ملاقات کے دوران حضور نے مجھے طلبہ کے درمیان پہچانا اور نام لے کر مخاطب کیا اور مجھے نئی زندگی دے دی۔
ابھی نیا نیا سسٹم تھا حضور کو پتا لگا کہ ایک ملک میں بچوں کو ٹھنڈ میں بٹھایا گیا تھا تو حضور نے اس ملک کے صدر صاحب خدام الاحمدیہ سے جواب طلبی کی۔(اے چھاؤں چھاؤں شخص تری عمر ہو دراز۔عابد خان کی ڈائری۔از ادارہ الفضل آن لائن صفحہ۴)
۲۰۲۱ء کی بات ہے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ یہاں جرمنی میں خدام الاحمدیہ کے اجتماع سے آن لائن خطاب فرما رہے تھےکہ تیزبارش شروع ہو گئی مگر تمام خدام پورے سکون کے ساتھ بیٹھے سنتے رہے تمام عالم نے یہ نظارہ دیکھا اور خلافت اور جماعت کے بےمثال تعلق کا مشاہدہ کیا۔
بعض والدین کا یہ کہنا تھا کہ ہمیں بچوں میں خلافت سے محبت کا پہلے اتنا اندازہ نہیں تھا لیکن اب اس بات سے اندازہ ہوا کہ آن لائن ملاقات سے ایک رات پہلے بچوں نے سونے سے پہلے اپنے کپڑے تیار کیے۔ الارم لگائے، صبح اٹھ کر تہجد کی نماز ادا کی۔ صدقہ دیا اور ہمیں کہا کہ جلدی ہمیں کلاس میں لے کے چلیں ہم کہیں لیٹ نہ ہو جائیں۔ ایک ماں کہتی ہیں میرے دو بچے اس خوشی میں ساری رات نہیں سوئے کہ کل ان کی حضورسے ملاقات ہے اور اگلی رات اس لیے نہیں سوئے کہ حضور نے انہیں تحفہ میں چاکلیٹ دی تھی۔ (اے چھاؤں چھاؤں شخص صفحہ تری عمر ہو دراز۔عبد خان صاحب ۱۰۶ )
ایک زمانہ میں لائبیریا کے حالات خراب ہوئے اور باغیوں نے قتل و غارت شروع کر دی ایک علاقہ میں ہمارے مربی بھی تھے رابطے کٹ گئے تھے اور کوئی خبر نہیں تھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بہت فکر مند تھے دعا بھی کر رہے تھے اور صدقہ بھی دے رہے تھے۔ فرمایا: اس سے پہلے بھی ایک مربی صاحب کے لیے صدقہ دیا تھا اور وہ مل گئے تھےانشاءاللہ یہ بھی مل جائیں گے۔ دو ہفتوں بعد ان کی خیریت کی خبر ملی تو حضور کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ (ماہنامہ خالد طاہر نمبر ۲۰۰۴ء صفحہ ۹۹ )
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جلسہ سالانہ جرمنی کی ڈیوٹیوں والی کارکنات کے قریب سے گزر رہے تھے ایک خاتون کے ساتھ اس کی چھوٹی بچی بھی تھی اس بچی نے بلند آواز سے کہا کہ حضور آپ نے ہمیں پیار ہی نہیں کیا حضور جو آگے جا چکے تھے واپس لوٹے اس بچی کے گال پر پیار کیا۔ (الفضل ۲۱؍مئی ۲۰۲۱ء )
یہ وہ محبت اور عشق کا تعلق ہے جو صرف خدا پیدا کرتا ہے ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ اپریل ۲۰۰۳ء میں منصب خلافت پر فائز ہوئے۔ اس وقت بیرون پاکستان بہت کم احمدی آپ سے ذاتی طور پر واقف تھے مگر خلیفہ بنتے ہی خدا نے دونوں طرف محبت کے ایسے چشمے رواں کیے جو بے مثال ہیں ۔آپ فرماتے ہیں:دنیا میں کوئی ایسی جماعت نہیں اور کوئی ایسا لیڈر نہیں جو ایک دوسرے کے لیے اتنے بے قرار ہوں۔حضور فرماتے ہیں:دنیا میں کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں میں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لیے سوتے وقت بھی اور جاگتےوقت بھی دعا نہ کرتا ہوں۔ (الفضل یکم اگست ۲۰۱۴ء)
ایک دفعہ جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر شام کے وقت بارش شروع ہو گئی۔قافلے جلسہ گاہ سے قیام گاہوں کی طرف واپس جا رہے تھے کہ سسٹم درہم برہم ہو گیا اور سینکڑوں احمدی کئی گھنٹے بارش میں کھڑے رہے۔حضور کو معلوم ہوا تو تمام مصروفیات چھوڑ کر تشریف لے آئے اور احباب کے پاس بارش میں اس وقت تک کھڑے رہے جب تک تمام مہمان خیریت سے روانہ نہیں ہو گئےاور پھر ساری رات ان کے لیے دعائیں کرتے رہے۔ اب حضور کی دعا کا اعجاز دیکھیں۔خطرہ تھا کہ سردی میں بارش سے بھیگنے والے اکثر احباب بیمار ہو جائیں گے مگربعد کی رپورٹوں سے پتا لگا کہ کسی کو چھینک تک نہیں آئی۔ ( خلافت صفحہ ۳۶۵الفضل ۲۴؍مئی ۲۰۱۹ءالفضل انٹر نیشنل ۲۴؍ اگست ۲۰۰۷ء )
یہی وہ لازوال محبت ہے جس سے اطاعت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ حضرت مولوی غلام نبی مصریؓ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے شاگرد اور مدرسہ احمدیہ قادیان کے استاد تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کتابوں کے عاشق تھے کسی کتاب کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ کتاب صرف مصر کے کسی کتب خانہ میں موجود ہے دنیا میں کہیں اور کسی جگہ دستیاب نہیں۔ حضرت مولوی صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا اے کاش یہ کتاب ہمیں دستیاب ہو جائے۔ شاگرد نے استاد کی بات سنی سفر کی اجازت چاہی اور مصر روانہ ہو گئے۔ کوئی زاد راہ پاس نہ تھا۔توکل کا دامن پکڑا اور چل پڑے۔ راہ میں کسی مریض کا علاج کرنے کا موقع میسر آیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو شفایاب کیا تو اس کے والی وارثوں نے ایک قیمتی کمبل ان کی نذر کیا۔ بمبئی پہنچے تو ایک جہاز عدن جا رہا تھا۔کمبل بیچا تو کرایہ کی رقم میسر آگئی۔ عدن پہنچ گئے وہاں سے ایک قافلہ کے ساتھ مصر چل پڑے۔ پیدل چلے جاتے تھے۔ مسافروں کا سامان اٹھانےاور اونٹوں پر اتارنے لادنے کا کام کرتے تھے۔کھانا میسر آ جا تا کبھی کبھار وہ انہیں اونٹ پر سوار ہو جانے کی اجازت بھی دے دیتاآخر مصر جا پہنچے۔کھجوروں کی گٹھلیاں چنتے بیچتے تو دو وقت کا کھانا میسر آ جاتا۔لائبریری میں کتاب موجود تھی مگر اس کو قلم سے نقل کرنے کی اجازت نہ تھی پنسل سے نقل تیار کرتے۔گھر پہنچ کر سیاہی سے اسے روشن کرتے اور اپنے مرشد کی خدمت میں بھیج دیتے۔ کئی سالوں میں کام مکمل ہوا۔ درمیان میں یہ آزمائش بھی آئی کہ کتب خانہ والوں نے کتاب کوپنسل سے نقل کرنے کی اجازت منسوخ کر دی مولوی صاحب نے کتاب حفظ کرنا شرو ع کر دی۔جتنا حصہ حفظ کرتے گھر پہنچ کر لکھ لیتے کئی برسوں میں یہ کام مکمل کیا۔و اپسی کا حکم ہوا تو اسی طریق سے واپس آ گئے۔ (الفضل ۴؍جولائی ۲۰۱۵ء)
سیدنا حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کو حقہ سے سخت نفرت تھی آپ نے ۱۹۱۲ء میں ایک خطاب میں تمباکو نوشی چھوڑ نے کی پُرزورتلقین فرمائی۔ (الحکم ۲۸؍فروری ۱۹۱۲ء صفحہ۶) حضور کی یہ نصیحت نہایت مؤثر اور کارگر ثابت ہوئی۔ اخبار الحکم لکھتا ہے۔بہت سے آدمیوں نے حقہ نوشی سے توبہ کرلی اور حقے ٹوٹ گئے۔ جو سگریٹ نوشی کے عادی تھے۔ وہ اپنی توبہ کی درخواستیں پے درپے بھیج رہے ہیں۔ بعض کو اس قبیح عادت کے ترک سے تکلیف بھی ہوئی ہے۔ حضور نے ان کے لیے یہ نسخہ تجویز کیا ہے کہ جب حقہ کی خواہش پیدا ہو تو چند کالی مرچیں منہ میں رکھ لو۔ بہرحال اب یہ بلا ہمارے مدرسہ سے رخصت ہونے کو ہے بلکہ ہوچکی ہے۔ (الحکم ۱۴؍فروری ۱۹۱۲ء صفحہ۸)
حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دفعہ مرزا غلام اللہ صاحب سے فرمایا کہ دوستوں کو حقہ چھوڑنے کی تلقین کیا کریں۔ وہ خود حقہ پیتے تھے۔ انہوں نے گھر آکر اپنا حقہ جو دیوار کے ساتھ کھڑا تھا اسے توڑ دیا۔ بیوی نے پوچھا تو کہا مجھے حضرت صاحب نے حقہ پینے سے لوگوں کو منع کرنے کی تلقین کرنے کے لیے ارشاد فرمایا ہے اس لیے پہلے اپنے حقے کو توڑا ہے۔اور پھر مرتے دم تک حقے کو ہاتھ نہ لگایا اور دوسروں کو بھی حقہ چھوڑنے کی تلقین کرتے رہے۔ (سوانح فضل عمر جلد۲ صفحہ۳۴)
تمباکو نوشی سے نجات ایک ایسا خوشکن اور قابل ذکر امر تھا کہ قادیان میں آنے والے غیروں نے بھی اس کا مشاہدہ کیا اور اس کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ ایک معزز سکھ سردار اننت سنگھ صاحب خالصہ پرچارک ودیالہ ترنتارن کے پرنسپل نے ۱۹۳۷ء اور ۱۹۳۸ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کی اور اپنے مضمون میں لکھا۔
وہاں میں نے خوبی ہی خوبی دیکھی ہے۔ میں نے کسی کو تمباکونوشی کرتے،فضول بکواس کرتے، لڑتے جھگڑتے، بھیک مانگتے،عورتوں پر آوازے کستے، دھوکا بازی کرتے، لوٹتے اور لغو طور پر ہنستے نہیں دیکھا، شرابی، جواری، جیب تراش، اس قسم کے بدمعاش لوگ قادیان کی احمدی آبادی میں قطعاً مفقود ہیں… میں بہت مقامات پر پھرا ہوں اور پورے زور کے ساتھ ہر جگہ یہ بات کہنے کو تیار ہوں کہ بجلی کے زبردست جنریٹرکی طرح قادیان کا مقدس وجود اپنے سچے متبعین کے قلوب کو پاکیزہ علوم سے منور کرتا ہے اور قادیان میں احمدیوں کی قابل تقلید زندگی اور کامیابی کا راز یہی ہے۔ (الحکم ۱۴؍فروری ۱۹۳۹ء صفحہ۱)
حضرت مصلح موعودؓ نے روسی علاقوں میں تبلیغ کا ارشاد فرمایا تو نوجوان نتائج کی پروا کیے بغیر پاسپورٹوں کے بغیر نکل کھڑے ہوئے۔وہاں جا کر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے مگر قید میں بھی تبلیغ نہیں چھوڑی۔ حضرت مولوی ظہور حسین صاحب اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ کئی دن تک وہ نہ رات کو سو سکے نہ دن کو اور مسلسل فاقے کرنے پڑے۔ ان کے سامنے قید میں سؤر کا گوشت بھی رکھا جاتا تھا جسے وہ کھا نہیں سکتے تھے۔ اور محض پانی میں روٹی بھگو کر کھاتے۔ ان کو بد ترین قید میں رکھا گیا اور طرح طرح کی اذیتیں قید میں ان کو دی گئیں۔ (آپ بیتی مجاہد بخارا)
جب حضرت مولوی ظہور حسین صاحب واپس ہندوستان تشریف لائے تو ایک اخبار نے لکھا کہ آپ پر مختلف مظالم توڑے گئے۔ قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ بے رحمی سے مارا گیا۔ کئی کئی دن سؤر کا گوشت ان کے سامنے رکھا گیا۔ لیکن وہ سرفروش عقیدت جادہ استقلال پر برابر قائم رہا۔ کوئی شخص جو قید خانے میں انہیں دیکھنے آیامولوی صاحب اس کو یہ پیغام دینے لگ گئے۔اس طرح تقریباً چالیس اشخاص احمدی ہو گئے۔ (الفضل۲۳؍جنوری۱۹۸۴ء )
حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۲۳ء میں تحریک شدھی کے خلاف مہم چلائی تو سینکڑوں رضاکار حاضر ہو گئے جنہوں نے جماعت سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا اور اپنا سامان سروں پر اٹھاکر میلوں پیدل چلتے رہے بھوکے سوتے رہے مگر اسلام اور اپنے امام کی محبت پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔اسی تحریک کے دوران ریاست بھرت پور کے گاؤں کی ایک بڑھیا مسلمان ہو گئی تو اس کی فصل کاٹنے سے اس کے بیٹوں نے انکار کر دیا تو حضرت مصلح موعودؓ کے حکم پر قادیان کے گریجوایٹ اور عربی فاضل اس بڑھیا کی فصل کاٹنے کے لیے پہنچے۔ وہ جو صرف قلم چلاتے تھے اور کبھی درانتی اور کسّی نہیں پکڑی تھی وہ زخمی ہاتھوں سے اسلام اور امام کی غیرت دکھا رہے تھے اس واقعہ پر تبصر ہ کرتے ہوئے اخبار ’’زمیندار‘‘نے لکھا: ’’احمدی بھائیوں نے جس خلوص، جس ایثار، جس جوش اور جس ہمدردی سے اس کام میں حصہ لیا ہے وہ اس قابل ہے کہ ہرمسلمان اس پر فخر کرے‘‘۔ (زمیندار ۸ا؍پریل ۱۹۲۳ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد۵صفحہ۳۴۷)
حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت حکیم فضل الرحمٰن صاحبؓ حضرت مصلح موعودؓ کے حکم پر ۱۹۲۳ء میں بطور مبلغ گھانا تشریف لے گئے اور چھ سال بعد ۱۹۲۹ء میں وطن واپس آئے قادیان میں آپ کی شادی ہوئی اور شادی کے تقریباً ڈیڑھ برس بعد ہی ۱۹۳۳ء میں آپ کو پھر مغربی افریقہ بھیج دیا گیا۔ جہاںآپ چودہ سال اپنے مقدس فریضہ کی ادائیگی میں مصروف رہے۔ ۱۹۴۷ءمیں آپ مرکز میں واپس تشریف لائے تو بڑھاپے میں قدم رکھ چکے تھے۔ اور آپ کی اہلیہ جنہوں نے شادی کے بعد صرف ڈیڑھ برس ہی اپنے خاوند کے ساتھ گزارے تھے وہ بھی اب ادھیڑ عمر کو پہنچ چکی تھیں۔ لیکن یہ سب کچھ محض اللہ کے دین کی خاطر اور اپنے امام کی محبت میں تھا۔(روح پرور یادیں صفحہ۳۱-۳۲۔از محمد صدیق امرتسری)
حضور نے حضرت مولانا رحمت علی صاحب کو انڈونیشیا بھجوایا مگر جماعت احمدیہ کی غربت کا ان دنوں یہ حال تھا کہ مبلغ بھجوانے کے لیے تو پیسے جمع کر لیے جاتے مگر واپس بلانے کا خرچ مہیا نہیں ہوتا تھا۔چنانچہ مولانا کوبھی جب بھجوایا گیا تو سال پر سال گزرتے گئے لیکن جماعت کو یہ توفیق نہ مل سکی کہ انہیں اپنے بیوی بچوں سے ملنے کے لیے واپس بلائے۔ایک دن ان کے سب سے چھوٹے بیٹے نے جو سکول میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ اپنی ماں سے پوچھا کہ اماں سکول میں سب بچے اپنے ابا کی باتیں کرتے ہیں میرے اباکہاں چلے گئے کہ واپس آنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ماں یہ سن کر آبدیدہ ہو گئی اور جس سمت میں اس نے سمجھا کہ انڈونیشیا واقع ہے اس سمت میں انگلی اٹھا کر یہ کہا کہ بیٹا تمہارے ابا اس طرف خدا کا پیغام پہنچانے گئے ہیں اور اسی وقت واپس آئیں گے جب خدا کومنظور ہوگا۔انڈونیشیا میں اپنے اہل وعیال سے الگ رہ کرتبلیغ و تربیت میں جو وقت انہوں نے صرف کیا اس کا عرصہ ۲۶سال بنتا ہے۔ بالآخر جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ اب ان کو مستقلاً واپس بلا لیا جائے۔ تب ان کی بیوی جو اب بوڑھی ہو چکی تھی حضرت مصلح موعود ؓکی خدمت میں حاضر ہوئی اور بڑے درد سے یہ عرض کیا کہ میں جوان تھی تو اللہ کی خاطر صبر کیا اور اپنے بچوں کو کس مپرسی کی حالت میں پالا پوسا اور جوان کیا۔ اب جبکہ میں بوڑھی اور بچے جوان ہو چکے ہیں اب تو میری تمنا پوری کر دیجے کہ میرا خاوند مجھ سے دور خدمت دین کی مہم ہی میں دیارغیر میں مر جائے اور میں فخر سے کہہ سکوں کہ میں نے اپنی تمام شادی شدہ زندگی دین کی خاطر قربان کر دی۔ (ماہنامہ خالد ربوہ۔ فروری۱۹۸۸ء )
۱۹۲۸ء کے جلسہ سالانہ کے پہلے روز سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے احباب جماعت کا غیرمعمولی ہجوم دیکھ کر حکم فرمایا کہ تمام جلسہ گاہ حسب ضرورت وسیع کردی جائے۔ چنانچہ افسر جلسہ سالانہ حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی زیر نگرانی طالب علموں نے ساری رات نہایت محنت اور جانفشانی سے کام کیا اور صبح ہونے تک جلسہ گاہ کو حسب ضرورت وسیع کر کے دوبارہ تعمیر کر دیا۔ حضرت مصلح موعود ؓنے اگلے روز خوشنودی کا اظہار فرمایا اور خاص دعا کی نیز تمام کارکنوں اور طالب علموں کو بطور انعام چاندی کے خاص تمغے عطا کیے گئے۔ (روح پرور یادیں صفحہ۱۴۴)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو یورپ کے بعض احمدی دکانداروں کے متعلق معلوم ہوا کہ ان کے ہوٹل کے کاروبار ہیں اور وہاں شراب بھی بکتی ہے۔ چنانچہ حضور نے اس کا سختی سے نوٹس لیا کہ آپ کو یہ کاروبار چھوڑ نا ہو گا تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑی بھاری تعداد ایسی تھی جنہوں نے اس کاروبار کو ترک کر دیا۔ بعضوں کو خداتعالیٰ نے فوراً بہتر کاروبار بھی عطا کیے بعضوں کو ابتلا میں بھی ڈالا۔ وہ لمبے عرصے تک دوسرے کاروبار سے محروم رہے لیکن وہ پختگی کے ساتھ اپنے اس فیصلے پر قائم رہے۔ (الفضل۱۷؍جنوری ۱۹۸۹ء)
(باقی آئندہ)