خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۱۳؍ جنوری ۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: جیساکہ میں نے گذشتہ ایک خطبہ میں بتایا تھا کہ بعض صحابہؓ کے ذکر کا کچھ حصہ رہ گیا ہے وہ بیان کروں گا ۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت عبداللہ بن جحشؓ کے امیر مقرر کیے جانے اور مسٹرمارگولیس کےاعتراض کی بابت حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ کاکیامؤقف بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سیرت خاتم النبیینؐ میں فرماتے ہیں کہ کُرز بن جابر یہ مکہ کا ایک رئیس تھا جس نے قریش کے ایک دستہ کے ساتھ کمال ہوشیاری سے مدینہ کی چراگاہ پر جو شہر سے صرف تین میل کے فاصلے پر تھی اچانک چھاپہ مارا۔ اور مسلمانوں کے اونٹ وغیرہ ہانک کر لے گیا۔ اس کے اچانک حملے نے طبعا ًمسلمانوں کو بہت متوحش کردیا اور چونکہ رؤسائے قریش کی یہ دھمکی پہلے سے موجود تھی کہ ہم مدینہ پر حملہ آور ہوکر مسلمانوں کو تباہ وبرباد کر دیں گے، مسلمان سخت فکرمند ہوئے اورانہی خطرات کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے یہ ارادہ فرمایا کہ قریش کی حرکات وسکنات کازیادہ قریب سے ہو کر علم حاصل کیا جاوے تاکہ اس کے متعلق ہرقسم کی ضروری اطلاع بروقت میسر ہو جاوے اور مدینہ ہر قسم کے اچانک حملوں سے محفوظ رہے۔ چنانچہ اس غرض سے آپﷺنے آٹھ مہاجرین کی ایک پارٹی تیار کی اورمصلحتاً اس پارٹی میں ایسے آدمیوں کو رکھا جوقریش کے مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے تاکہ قریش کے مخفی ارادوں کے متعلق خبر حاصل کرنے میں آسانی ہو اور اس پارٹی پرآپؐ نے اپنے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن جحشؓ کو مقرر فرمایا۔ اور اس خیال سے کہ اس پارٹی کی غرض وغایت عامۃ المسلمین سے بھی مخفی رہے آپؐ نے اس سریہ کو روانہ کرتے ہوئے اس سریہ کے امیر کوبھی یہ نہیں بتایا کہ تمہیں کہاں اورکس غرض سے بھیجا جارہا ہے بلکہ چلتے ہوئے اُس کے ہاتھ میں ایک سربمہر خط دے دیا اورفرمایا اس خط میں تمہارے لیے ہدایات درج ہیں۔ جب تم مدینہ سے دودن کا سفر طے کرلو تو پھر اس خط کوکھول کر اس کی ہدایات کے مطابق عمل درآمد کرنا۔ چنانچہ عبداللہ اوران کے ساتھی اپنے آقا کے حکم کے ماتحت روانہ ہو گئے اور جب دو دن کا سفرطے کرچکے تو عبداللہ نے آنحضرت ﷺ کے فرمان کو کھول کر دیکھا تو اس میں یہ الفاظ درج تھے کہ تم مکہ اور طائف کے درمیان وادیٔ نخلہ میں جاؤ اوروہاں جا کر قریش کے حالات کاعلم لو اور پھر ہمیں اطلاع لا کر دو اور چونکہ مکہ سے اس قدر قریب ہو کر خبر رسانی کرنے کا کام بڑا نازک تھا۔ آپؐ نے خط کے نیچے یہ ہدایت بھی لکھ دی کہ اِس مشن کے معلوم ہونے کے بعد اگر تمہارا کوئی ساتھی اس پارٹی میں شامل رہنے سے متأمل ہو اور واپس چلا آنا چاہے تو اسے واپس آنے کی اجازت دے دو۔ عبداللہ نے آپؐ کی یہ ہدایت اپنے ساتھیوں کوسنا دی اورسب نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہم بخوشی اس خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ اس کے بعد یہ جماعت نخلہ کی طرف روانہ ہوئی۔ راستہ میں جب مقام بُحْرَان میں پہنچے تو سعد بن ابی وقاص اورعُتبہ بن غَزْوَان کا اونٹ کھو گیا اور وہ اس کی تلاش کرتے کرتے اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گئے اور باوجود بہت تلاش کے انہیں نہ مل سکے اوراب یہ پارٹی صرف چھ کس کی رہ گئی۔ پھر لکھتے ہیں کہ مسٹر مارگولیس اس موقع پر لکھتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عتبہ نے جان بوجھ کر اپنا اونٹ چھوڑ دیا اوراس بہانہ سے پیچھے رہ گئے۔ آپ لکھتے ہیں کہ ان جاں نثارانِ اسلام پر جن کی زندگی کاایک ایک واقعہ ان کی شجاعت اور فدائیت پر شاہد ہے اورجن میں سے ایک غزوہ بئرِمعونہ میں کفار کے ہاتھوں شہید ہوا اور دوسرا کئی خطرناک معرکوں میں نمایاں حصہ لے کر بالآخر عراق کا فاتح بنا، اس قسم کا شبہ کرنا اور شبہ بھی محض اپنے من گھڑت خیالات کی بنا پر کرنا مسٹر مارگولیس ہی کا حصہ ہے۔
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسٹرمارگولیس کےاعتراض ’’مسلمانوں نےجان بوجھ کرحرمت والےمہینےمیں شہرحرام میں قافلہ پرحملہ کیا‘‘کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:مسٹر مارگولیس لکھتے ہیں کہ دراصل محمد (ﷺ) نے یہ دستہ دیدہ دانستہ اس نیت سے شہرحرام میں بھیجا تھا کہ چونکہ اس مہینہ میں قریش طبعا ًغافل ہوں گے۔ مسلمانوں کوان کے قافلوں کو لوٹنے کا آسان اور یقینی موقع مل جائے گا لیکن ہر عقل مند انسان سمجھ سکتا ہے کہ ایسی مختصر پارٹی کو اتنے دُور دراز علاقہ میں کسی قافلہ کی غارت گری کے لیے نہیں بھیجا جا سکتا خصوصاً جبکہ دشمن کا ہیڈ کوارٹر اتنا قریب ہو اور پھر یہ بات تاریخ سے قطعی طورپر ثابت ہے کہ یہ پارٹی محض خبر رسانی کی غرض سے بھیجی گئی تھی اور آنحضرت ﷺ کو جب یہ علم ہوا کہ صحابہؓ نے قافلہ پر حملہ کیا تھا توآپؐ سخت ناراض ہوئے۔ چنانچہ روایت ہے کہ جب یہ جماعت آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپؐ کو سارے ماجرا کی اطلاع ہوئی تو آپؐ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میں نے تمہیں شہرِ حرام میں لڑنے کی اجازت نہیں دی ہوئی۔ اورآپؐ نے مالِ غنیمت لینے سے انکار کر دیا۔ اس پر حضرت عبداللہؓ اوران کے ساتھی سخت نادم اور پشیمان ہوئے۔ اورانہوں نے خیال کیا کہ بس اب ہم خدا اور اس کے رسولؐ کی ناراضگی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔صحابہؓ نے بھی ان کو سخت ملامت کی اور کہا کہ تم نے وہ کام کیا جس کا تم کو حکم نہیں دیا گیا تھا اورتم نے شہرِ حرام میں لڑائی کی حالانکہ اس مہم میں تو تم کومطلقاً لڑائی کاحکم نہیں تھا۔ دوسری طرف قریش نے بھی شور مچایا کہ مسلمانوں نے شہرِ حرام کی حرمت کو توڑ دیا ہے اور چونکہ جو شخص ماراگیا تھا یعنی عمروبن حضرمی وہ ایک رئیس آدمی تھا اورپھروہ عتبہ بن ربیعہ رئیسِ مکہ کاحلیف بھی تھااس لیے بھی اس واقعہ نے قریش کی آتش غضب کوبہت بھڑکا دیا اور انہوں نے آگے سے بھی زیادہ جوش وخروش کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری شروع کر دی۔ چنانچہ جنگ بدر زیادہ ترقریش کی اسی تیاری اورجوشِ عداوت کانتیجہ تھا۔ الغرض اس واقعہ پر مسلمانوں اور کفار ہر دو میں بہت چہ میگوئیاں ہوئیں اور بالآخر ذیل کی قرآنی وحی نازل ہوکر مسلمانوں کی تشفی کاموجب ہوئی۔ اور وہ یہ ہے کہ یسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْهِ قُلْ قِتَالٌ فِیهِ كَبِیْرٌ وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ كُفْرٌۢ بِهٖ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ الْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى یَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِیْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا (البقرہ:۲۱۸) يعني لوگ تجھ سے پوچھتے ہيں کہ شہرِحرام ميں لڑنا کيسا ہے؟ تُو ان کو جواب دے کہ بے شک شہرِحرام ميں لڑنا بہت بري بات ہے ليکن شہرِحرام ميں خدا کے دين سے لوگوں کو جبراً روکنا بلکہ شہرِحرام اور مسجد حرام دونوں کا کفر کرنا يعني ان کي حرمت کو توڑنا اور پھر حرم کے علاقہ سے اس کے رہنے والوں کو بزور نکالنا جيساکہ اے مشرکو! تم لوگ کررہے ہو يہ سب باتيں خدا کے نزديک شہرِحرام ميں لڑنے کي نسبت بھي زيادہ بري ہيں اوريقينا ًشہرِ حرام ميں ملک کے اندر فتنہ پيدا کرنا اس قتل سے بدتر ہے جو فتنہ کوروکنے کےليے کيا جاوے۔ اور اے مسلمانو !کفار کا تو يہ حال ہے کہ وہ تمہاري عداوت ميں اتنے اندھے ہورہے ہيں کہ کسي وقت اورکسي جگہ بھي وہ تمہارے ساتھ لڑنے سے باز نہيں آئيں گے اور وہ اپني يہ لڑائي جاري رکھيں گے حتيٰ کہ تمہيں تمہارے دين سے پھير ديں بشرطيکہ وہ اس کي طاقت پائيں۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بنواسدمیں پائی جانے والی خوبیوں کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:امام شعبیؒ سے روایت ہے کہ میرے پاس بنی عامر اور بنی اسد کے دو آدمی آپس میں فخر و مباہات کا اظہار کرتے ہوئے آئے۔ بنی عامر کے شخص نے بنی اسد کے شخص کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ اسدی کہہ رہا تھا کہ میرا ہاتھ چھوڑ دو جبکہ عامری کہہ رہا تھا کہ خداکی قسم! میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا تو امام شعبی کہتے ہیں کہ مَیں نے اسے کہا کہ اے بنی عامر کے بھائی! اس کو چھوڑ دو اور اسدی سے کہا کہ تمہاری چھ خوبیاں ایسی ہیں جو پورے عرب میں کسی میں نہیں ہیں۔ وہ یہ ہیں۔ نمبر ایک: کہ تم میں سے ایک خاتون سے رسول اللہ ﷺ نے نکاح کرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے کروا دیا اور ان دونوں کے درمیان سفیر حضرت جبرئیل تھے اور وہ خاتون حضرت زینب بنت جحشؓ تھیں اور یہ تمہاری قوم کے لیے فخر کی بات ہے۔ نمبر دو: تم میں سے ایک شخص تھا جو کہ جنتی تھا مگر پھر بھی زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتا تھا اور وہ حضرت عکاشہ بن محصنؓ تھے اور یہ تمہاری قوم کے لیے فخر کی بات ہے۔ نمبر تین: اور اسلام میں سب سے پہلا عَلم یعنی جھنڈا جو دیا گیا وہ بھی تم میں سے ایک شخص حضرت عبداللہ بن جحش ؓکو دیا گیا اور یہ تمہاری قوم کے لیے فخر کی بات ہے۔ نمبر چار:سب سے پہلا مالِ غنیمت جو اسلام میں تقسیم ہوا وہ عبداللہ بن جحش کا مالِ غنیمت ہے۔ نمبر پانچ: اور بیعتِ رضوان میں جس شخص نے سب سے پہلے بیعت کی وہ تمہاری قوم کا تھا وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! اپنا ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپؐ کی بیعت کروں۔آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ کس بات پرمیری بیعت کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ جو آپؐ کے دل میں ہے۔ آنحضور ﷺ نے پوچھا میرے دل میں کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا فتح یا شہادت۔چنانچہ آنحضرت ﷺ کی حضرت اَبُوسِنَانؓ نے بیعت کی۔ اس کے بعد لوگ آتے اور کہتے کہ حضرت اَبُوسِنَانؓ والی بیعت پر ہم بھی بیعت کرتے ہیں اور یہ تمہاری قوم کے لیے فخر کی بات ہے۔ نمبر چھ: اور جنگِ بدر کے دن سات مہاجرین تمہاری قوم کے تھے اور یہ تمہاری قوم کے لیے فخر کی بات ہے۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت صالح شقرانؓ کوملنےوالی سعادت کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:مسند امام احمد بن حنبل کی روایت ہے کہ حضرت صالح کو ایک سعادت اَور حاصل ہے کہ آنحضرت ﷺ کو جب غسل دیا جا رہا تھا تو اس وقت جو اصحاب پانی انڈیل رہے تھے ان میں حضرت صالح شقرانؓ اور حضرت اسامہ بن زیدؓ تھے۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ جب لوگ نبی کریم ﷺ کو غسل دینے کے لیے اکٹھے ہوئے تو گھر میں صرف آپﷺکےاہلِ خانہ ہی تھے۔ آپؐ کے چچا حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ، حضرت فضل بن عباسؓ ، حضرت قُثَم بن عباسؓ، حضرت اسامہ بن زیدؓ اور حضرت صالح شقرانؓ، آپؐ کے آزاد کردہ غلام۔ اسی دوران گھر کے دروازے پر کھڑے بنو عوف بن خزرج کے حضرت اوس بن خَوْلِی انصاریؓ جو بدر میں شامل تھے انہوں نے حضرت علی ؓکو پکار کر کہا اے علی! میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کے متعلق ہمارا حصہ بھی رکھنا۔ حضرت علیؓ نے ان سے فرمایا: اندر آجاؤ۔ چنانچہ وہ بھی داخل ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ کو غسل دینے کے موقع پر موجود تھے مگر انہوں نے غسل دینے میں شرکت نہیں کی۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے نبی کریم ﷺ کو اپنے سینے سے سہارا دیا اور آپ ﷺ کی قمیض آپ پر ہی تھی اور حضرت عباسؓ، فضل اور قُثَمحضرت علیؓ کے ساتھ پہلو مبارک بدل رہے تھے اور حضرت اسامہؓ اور صالح شقرانؓ پانی ڈال رہے تھے اور حضرت علیؓ آپؐ کو غسل دینے لگے۔
سوال نمبر۶:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے برکینافاسومیں احمدیوں کی شہادت کےحوالہ سےکیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:ایک افسوس ناک خبر بھی ہے۔ برکینافاسو میں ہمارے نو(۹) احمدی پرسوں شہید کر دیے گئے۔ بڑا افسوس ناک واقعہ ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔اور بڑے ظالمانہ طریقے سے ان کو شہید کیا گیا لیکن ان کے ایمان کا امتحان بھی تھا اور جس پر وہ ثابت قدم رہے۔ یہ نہیں کہ اندھا دھند فائرنگ کر کے بلکہ ہر ایک کو بلا بلا کر شہید کیا ہےلیکن بہرحال اس کی تفصیلات کچھ آئی ہیں، کچھ آ رہی ہیں۔ اس لیے مَیں ان شاء اللہ ان کا تفصیلی ذکر اگلے جمعہ میں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ ان سے رحم کا سلوک فرمائے۔ ان سب کے درجات بلندکرے۔ دعا بھی کرتے رہیں۔ وہاں کے حالات ابھی بھی ٹھیک نہیں۔ جو دہشت گرد آئے تھے وہ دھمکی دے کے گئے ہیں کہ اگر دوبارہ مسجد کھولی تو ہم دوبارہ آئیں گے اور حملہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ وہاں کے احمدیوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔